بڑے استاد جی
الف عین کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جناب
عظیم شہزاد صاحب گو کہ میری طرح بہت زبردست موزوں طبع انسان ہیں۔ مگر الفاظ و تراکیب، نشست و برخواست، فصاحت اور بلاغت میں قواعد کو کافی اوپر نیچے یا آگے پیچھے کر گئے ہیں۔ چلیں پوری غزل پر اپنی رائے لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے کہ اساتذہ اور خود شاعر ہماری جسارت کو ناگوار نہیں محسوس فرمائیں گے۔
جب تک کہ اُس کے نام کا غلبہ زمانے پر نہ ہو
تب تک خدا سے عہد کر کافر کا اُونچا سر نہ ہو
//کس کے نام کا غلبہ ؟ اور خدا سے عہد ”کرنا“ سے مراد؟ یہاں عہد لینا تو کسی حد تک درست ہوتا لیکن اس صورت میں تو بالکل درست نہیں ہے۔ ترتیب بھی مجروح ہے۔ ”کافر کا انچا سر ہونا“ یا ”کافر کا سر اونچا ہونا“؟ پھر شعر مبہم ہے، کچھ وضاحت ہو تو مزید کہوں۔
ممکن ہے میری زندگی میں آ ہی جائے وہ گھڑی
جس پل کو میرے واسطے اُس کا بھی کھلتا در نہ ہو
//اتنے آسان الفاظ بھی ابلاغ سے خالی ہیں۔ غالباً یہ مالک الملک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میری زندگی میں وہ گھڑی آنا بھی ممکن ہے جس گھڑی میرے مالک کا در بھی میرے لئے بند ہوجائے۔ یا اگر غیر حقیقی شعر ہے تو اس شعر کے وجود سے عدم ہی بہتر تھا۔ عموماً مجازی اشعار کے لئے یہ مضمون باندھا نہیں جاتا۔ وضاحت مطلوب ہے۔
اب سوچتا ہوں کیا مرے لفظوں میں کوئی ہے کمی
محبوب تک لے جائے خط راضی ہی نامہ بر نہ ہو
// پہلی ہی قرات میں لفظ ”ناما بر“ بہت چبھا ہے۔ بہر حال۔ کچھ بہتر صوت یہ تھی:
شاید مرے الفاظ میں کچھ عیب ہے جو خط مرا
محبوب تک لے جانے کو راضی ہی نامہ بر نہ ہو۔
جب کہ اور بہتری بھی ممکن ہے۔ البتہ مضمون کوئی خاص نہیں۔
خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو
//شعر کوئی ایسا نہیں کہ جس کی درستی کے لئے محنت کی جائے۔ لیکن مشق کے لئے الفاظ اور گرائمر کو درست کرنا اور توجہ کرنا بہر حال ضروری ہے۔ بڑے استاد جی کی بات پر ایک مزید اضافے کی جرات کر رہا ہوں: پہلے مصرعے کے آخر میں لفظ ”مگرۙ“ موجود ہے، پھر بھی دوسرا مصرع ”لیکن“ سے شروع ہورہا ہے، ایسا کیوں؟
منظر نگاری آہ کیوں جاتی ہے میری رائیگاں
جس کو بناوں لفظ میں ناقص وہی منظر نہ ہو
//دونوں مصرعوں میں آپس میں ہی اختلاف ہے۔ جب آپ کو شکایت یہ ہے کہ میری منظر نگاری ضائع جاتی ہے پھر اگلے مصرعے میں اس دعوے کی نفی ”ناقص
وہی منظر نہ ہو“ یہ وہی تاکید کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس منظر کو آپ لفظ بناتے ہیں وہ ناقص نہیں ہوتا، پھر پہلے مصرعے کے مطابق آپ کی منظر نگاری کیوں رائیگاں جاتی ہے؟ دوسرے مصرعے کو مزید وضاحت کے ساتھ کہیں۔
کہنا عظیم اُس معتبر سے تُم نے سوچاہے کبھی
عزت یہی ذلت تمہاری واں سرِ محشر نہ ہو
//اس معتبر۔۔۔۔؟ معتبر خالص اسمِ صفت ہے جو اپنے ساتھ ایک اسم چاہتا ہے۔ پھر یہاں اس لفظ کا محل بھی میرے کوڑھ مغز میں نہیں سما رہا۔ شاید اس معتبر سے آپ کی مراد اطمینان یا مطمئن شخص سے ہے، جس کو سرِ محشر پیش ہونے کا خوف نہیں۔
دوسرا مصرع پھر تعقیدِ لفظی کا شکار ہے۔
شاعر کو کوشش کی ضرورت ہے، مشورہ یہ ہے کہ مایوس نہ ہوں، آپ نے بہت اچھی غزل کہی ہے۔ لکھتے رہیں، اور اصلاح کرواتے رہیں۔ اغلاط سے پاک کوئی نہیں ہے، اس لئے تنقید اور دوسروں کی آراء کو اپنے لئے سیڑھی بنائیں، دیوار مت بنائیں۔