فرقان احمد
محفلین
فیصلہ، اب سے کچھ دیر بعد۔
اگر گھڑی ڈیجیٹل ہوئی تو ایک مرتبہ بھی صحیح وقت نہیں بتائے گی ۔۔۔پھر کیا کریں؟دن میں دو دفعہ خراب گھڑی بھی صحیح وقت بتادیتی ہے۔
سپریم کورٹ کا اسی دوران ایک فیصلہ اور آ گیا۔ حدیبیہ کیس نہیں کھلے گا اور اس ذیل میں نیب کی اپیل مسترد کر دی گئی ہے۔
متوقع خبرفیصلہ 'لٹکاؤ' کا شکار ہو گیا ہے!
فیصلہ آ گیا ہے۔متوقع خبر
- اگر عمران خان نااہل ہوئے تو یہ بڑی خبر ہو گی۔
- اگر عمران خان نااہل نہ ہوئے تو یہ بڑی خبر نہ ہو گی۔
- اگر جہانگیر ترین نااہل ہوئے تو یہ بڑی خبر نہ ہو گی۔
- اگر جہانگیر ترین نااہل نہ ہوئے تو یہ بڑی خبر ہو گی۔
ویسے، معلوم پڑتا ہے کہ ابھی خان صاحب کے لیے امتحان ختم نہیں ہوا ہے۔ ان پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں بھی مقدمات قائم ہیں۔ جہاں تک ترین صاحب کا معاملہ ہے تو خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ان کی حمایت میں کوئی بیان جاری نہ فرمائیں وگرنہ انہیں سیاسی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔عمران خان کو اہل ہونا مبارک ہو۔
مگر ایک سنجیدہ سوال بہرحال اٹھتا ہے کہ آپ ملک سے کرپشن کے خاتمے کا علم اٹھائے ہیں، جبکہ آپ کا دستِ راست خود کرپشن میں ملوث رہا؟
یہ اقتباس لے کر جواب لکھنے کا سوچا ہی تھا کہ آپ کی سرگوشی پڑھ لی۔جہاں تک ترین صاحب کا معاملہ ہے تو خان صاحب کو چاہیے کہ وہ ان کی حمایت میں کوئی بیان جاری نہ فرمائیں وگرنہ انہیں سیاسی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔
اگر عدالت 'متوقع' فیصلے سنا رہی ہے تو خاطر جمع رکھیے؛ عمران خان کبھی وزیراعظم نہ بن پائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف کی تو کسی حد تک بن سکتی ہے، خان صاحب کو اقتدار میں لانا وہ کبھی پسند نہ کریں گے۔ پچھلے دو تین برس سے اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کو آگے لانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اگلے عام انتخابات میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات ہیں الا یہ کہ نواز شریف صاحب ایک بار پھر میدانِ سیاست میں والہانہ انداز میں کود پڑیں اور معاملات کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیں۔آخر کار عدالت نے وہی کیا جوexpected تھا۔ اب عمران کو وزیر اعظم بنانا آسان ہوجائے گا۔ دوسری طرف right wing کو تیار کیا جارہا ہے اور نواز کے اراکین سے استعفے دلائے جارہے ہیں۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ جمہوریت ہے۔
یہ اسٹیبلشمنٹ۔۔۔ یارو یہ ہے کون؟ اس کی تو۔۔۔۔۔اگر عدالت 'متوقع' فیصلے سنا رہی ہے تو خاطر جمع رکھیے؛ عمران خان کبھی وزیراعظم نہ بن پائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نواز شریف کی تو کسی حد تک بن سکتی ہے، خان صاحب کو اقتدار میں لانا وہ کبھی پسند نہ کریں گے۔ پچھلے دو تین برس سے اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کو آگے لانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اگلے عام انتخابات میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے قوی امکانات ہیں الا یہ کہ نواز شریف صاحب ایک بار پھر میدانِ سیاست میں والہانہ انداز میں کود پڑیں اور معاملات کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیں۔