جو لوگ پاکستان کے حالات اور اس کے عوام کی پریشانیوں کا سبب صرف حکمرانوں کو ہی سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے علاقوں کے کریانہ سٹورز کا سروے کریں اور ان کے کھاتہ رجسٹروں کی بھولی بسری یادوں اور نادہندگان کی لمبی فہرستوں کو دیکھیں۔
کس کا نہیں ہو گا۔اس سلسلہ میں میرا مشاہدہ تو نہایت تلخ ہے۔
اگر خرابی آپ کو ہر فرد میں محسوس ہو تو اس کا مطلب ہے کہ خرابی صرف افراد میں نہیں بلکہ خرابی معاشرتی اور ریاستی نظام میں ہے۔ یہ نظام ہی شرافت سے جینے کے خواہش مند افراد کو بھی بددیانتی کی طرف دھکیل رہا ہے۔جو لوگ پاکستان کے حالات اور اس کے عوام کی پریشانیوں کا سبب صرف حکمرانوں کو ہی سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے علاقوں کے کریانہ سٹورز کا سروے کریں اور ان کے کھاتہ رجسٹروں کی بھولی بسری یادوں اور نادہندگان کی لمبی فہرستوں کو دیکھیں۔
معلوم پڑجائے گا کہ کرپشن صرف پاکستان کے حکمران ہی نہیں کر رہے بلکہ ہر آدمی اپنی اپنی ہمت کے مطابق کر رہا ہے۔
اس سلسلہ میں میرا مشاہدہ تو نہایت تلخ ہے۔
نواز شریف صاحب صرف تب بیعت کرتے ہیں یا کریں گے جب خاکیان بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں یا کرنے پر آمادگی ظاہر کریں۔ شہباز شریف صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کا ہنر جانتے ہیں، اور معلوم پڑتا ہے کہ انہوں نے تو بیعت بھی دل و جان سے کر رکھی ہے البتہ بڑے بھیا کبھی کبھار ان کا ہاتھ زبردستی جھٹک کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ایک سوال: کیا نواز شریف نے خاکیان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے یا یہ بیعت صرف شہباز شریف نے کی ہے؟
ن لیگ کا ماضی قریب کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پہلے تو وہ خاکیان کے آگے اکڑ جاتے ہیں مگر جب خاکیان بھی آگے سے اکڑ دکھادیں تو یہ خاکیان کے پاؤں پڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔نواز شریف صاحب صرف تب بیعت کرتے ہیں یا کریں گے جب خاکیان بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کر لیں یا کرنے پر آمادگی ظاہر کریں۔
نواز شریف کسی حد تک مزاحمت دکھاتے ہیں یا کم از کم ایسا تاثر ضرور دیتے ہیں تاہم شہباز شریف صاحب کے ہاتھ پاؤں اک ذرا جلدی پھول جاتے ہیں۔ اور، یہ بھی ہے کہ خاکیان بھی ہر کسی کے سامنے اکڑ نہیں سکتے۔ ان کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں، بدقسمتی کی بات ہے تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ن لیگ کا ماضی قریب کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پہلے تو وہ خاکیان کے آگے اکڑ جاتے ہیں مگر جب خاکیان بھی آگے سے اکڑ دکھادیں تو یہ خاکیان کے پاؤں پڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔
شہاز شریف کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ وہ ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ اکڑ دکھانے کی نوبت ہی نہ آئے یعنی سب سے بنا کر رکھو۔تاہم شہباز شریف صاحب کے ہاتھ پاؤں اک ذرا جلدی پھول جاتے ہیں
جس طرف آپ کا اشارہ ہے (جو میں سمجھا ہوں) کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اس کو بھی اکڑ دکھائی تھی اور دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ہمارے افسر کے پاس ابھی ملاقات کا وقت نہیں ہے۔اور، یہ بھی ہے کہ خاکیان بھی ہر کسی کے سامنے اکڑ نہیں سکتے۔ ان کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں، بدقسمتی کی بات ہے تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔
ایسے مراحل آتے رہتے ہیں؛ یہ کام تو اپنے پہلے دورِحکومت میں نواز شریف صاحب نے بھی کیا تھا۔ خیر، بات یہ ہے کہ زیادہ اکڑبازی کچھ ایسی اچھی بات بھی نہیں ہے۔ اصول تو یہی ہے کہ ایک فرد کو اتنی ہی اکڑ دکھانی چاہیے جس قدر اکڑپن اس کی شخصیت کے ساتھ جچ جائے؛ یا اس سے بھی کسی قدر کم۔جس طرف آپ کا اشارہ ہے (جو میں سمجھا ہوں) کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اس کو بھی اکڑ دکھائی تھی اور دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ہمارے افسر کے پاس ابھی ملاقات کا وقت نہیں ہے۔
نواز شریف تو پیداوار ہی خاکیان کی ہے۔ اسپر یہ سوال کرنا معنی خیز نہیں۔ایک سوال: کیا نواز شریف نے خاکیان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے یا یہ بیعت صرف شہباز شریف نے کی ہے؟
یہ صرف آپکی رائے ہو سکتی ہے۔ حقائق اسکے برعکس ہیں۔ عمران خان، جہانگیر ترین اور نواز شریف کا کیس ایک سال سے زائد عرصہ عدالتوں میں چلا ہے۔ دونوں اطراف کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا۔ بلکہ نواز شریف پر یہ احسان تک کر دیا گیا کہ جو منی ٹریل وہ پہلے نہیں دکھا سکے تھے، جے آئی ٹی میں دکھا دیں۔ یہ رعایت عمران خان اور جہانگیر ترین کونہیں ملی۔ اسکے باوجود عمران خان اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان کی مدد سے تمام سابقہ ریکارڈ، منی ٹریل وغیرہ عدالت میں جمع کروا کر سر خرو ہوگئے۔ جبکہ جہاز ترین، اور مجھے کیوں نکالا اپنے قطری خطوط اور دیگر معاشی جرائم کی وجہ سے صادق اور امین نہیں رہے۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ نواز کی نااہلی کا فیصلہ ہو یا عمران یا جہانگیر ترین کا، سپریم کورٹ نے میرٹ کی بجائے عوامی تاثر کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
عوام لیڈران کے نقشے قدم پر چلتے ہیں۔ جب آپکا لیڈر ہی اول درجے کا کرپٹ چور ہو تو عوام کیوں پیچھے رہے۔ یوں عوام کو مورد الزام ٹھہرانا بھی غلط ہے کیونکہ یہی عوام تھی جو کسی زمانہ میں قومی ائیر لائنز، اسٹیل ملز، ریلویز وغیرہ بہت کامیاب انداز میں چلا رہی تھی۔ پھر لوٹ کھسوٹ حکمران ہم پر وارد ہو گئے اور عوام بھی انکے پیچھے چل پڑی۔جو لوگ پاکستان کے حالات اور اس کے عوام کی پریشانیوں کا سبب صرف حکمرانوں کو ہی سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے علاقوں کے کریانہ سٹورز کا سروے کریں اور ان کے کھاتہ رجسٹروں کی بھولی بسری یادوں اور نادہندگان کی لمبی فہرستوں کو دیکھیں۔
معلوم پڑجائے گا کہ کرپشن صرف پاکستان کے حکمران ہی نہیں کر رہے بلکہ ہر آدمی اپنی اپنی ہمت کے مطابق کر رہا ہے۔
اس سلسلہ میں میرا مشاہدہ تو نہایت تلخ ہے۔
بقول حسن نثار یہ حکمران حمام کے باہر بھی ننگے ہیںتمام باتھ روم میں یہ سیاست دان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
فرض کریں آپ ایک اچھا اور دیانت دار لیڈر لانا چاہتے ہیں تو کہاں سے لائیں گے؟ ظاہر ہے کہ عوام میں سے ہی۔ پھر اگر عوام کی اکثریت دیانت دار نہ رہے گی تو ان کی کثرت رائے سے بر سر اقتدار آنے والے کا دیانت دار ہونا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟عوام لیڈران کے نقشے قدم پر چلتے ہیں۔ جب آپکا لیڈر ہی اول درجے کا کرپٹ چور ہو تو عوام کیوں پیچھے رہے۔ یوں عوام کو مورد الزام ٹھہرانا بھی غلط ہے کیونکہ یہی عوام تھی جو کسی زمانہ میں قومی ائیر لائنز، اسٹیل ملز، ریلویز وغیرہ بہت کامیاب انداز میں چلا رہی تھی۔ پھر لوٹ کھسوٹ حکمران ہم پر وارد ہو گئے اور عوام بھی انکے پیچھے چل پڑی۔
صرف یہ فرما دیجیے کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے یہ سیاست دان کس فیکٹری میں پیدا ہوئے؟ کرپشن کا بازار گرم کرنے والوں کو مارکیٹ میں کس نے لانچ کیا تھا؟عوام لیڈران کے نقشے قدم پر چلتے ہیں۔ جب آپکا لیڈر ہی اول درجے کا کرپٹ چور ہو تو عوام کیوں پیچھے رہے۔ یوں عوام کو مورد الزام ٹھہرانا بھی غلط ہے کیونکہ یہی عوام تھی جو کسی زمانہ میں قومی ائیر لائنز، اسٹیل ملز، ریلویز وغیرہ بہت کامیاب انداز میں چلا رہی تھی۔ پھر لوٹ کھسوٹ حکمران ہم پر وارد ہو گئے اور عوام بھی انکے پیچھے چل پڑی۔
کچھ تو اتفاق فاؤنڈری اور بمبینوسنیما کی پیدوار ہیں۔ دیگر کو ضیاء الحق نے لانچ کیا تھا۔صرف یہ فرما دیجیے کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے یہ سیاست دان کس فیکٹری میں پیدا ہوئے؟ کرپشن کا بازار گرم کرنے والوں کو مارکیٹ میں کس نے لانچ کیا تھا؟
سیاست دانوں کو حکمرانی سے قبل صادق و امین کا سرٹیفکیٹ سپریم کورٹ سے واجب کر دیں تو یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ ابھی تک صرف تین کا احتساب ہوا ہے اور دو فیل نکلے ہیں۔فرض کریں آپ ایک اچھا اور دیانت دار لیڈر لانا چاہتے ہیں تو کہاں سے لائیں گے؟ ظاہر ہے کہ عوام میں سے ہی۔ پھر اگر عوام کی اکثریت دیانت دار نہ رہے گی تو ان کی کثرت رائے سے بر سر اقتدار آنے والے کا دیانت دار ہونا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟
ویسے بھی میں صرف عوام کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہتا، دونوں کو ٹھہرانا چاہتا ہوں