کراچی والوں نے اپنی محنت آپ کے تحت بےشمار یونیورسٹیاں بنائی ہیں۔ ہسپتال بنائے ہیں۔ اسکول کالجز بنائیں ہیں۔ جس سے دیگر جگہوں کے لوگ بھی فیض حاصل کررہے ہیں۔ کراچی والوں اور کراچی کی آمدنی سے پورا ملک پل اور چل رہا ہے۔
پورے ملک میں بجلی کی قیمت کوئی اور ہمارے یہاں کوئی اور۔
پورے ملک کی آبادی کا 20 فیصد کراچی کی آبادی۔ لیکن نشستیں اسمبلیوں میں کم۔
ہماری یونیورسٹیوں میں دیگر جگہوں کے لوگ کوٹے کے ذریعے آجاتے ہیں۔ دیگر جگہوں کے لیڈروں کا چاہیئے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کریں ناکہ کراچی والوں کی سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔
تعصب چھوڑو اور انصاف کرو۔
آپکی ان تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ مہاجر، پشتون، سندھی، قبائل کے حقوق نہیں بلکہ انصاف ہے۔ جب انصاف کا کوئی نظام موجود ہی نہیں ہوگا تو ہر اک قوم یا اقلیت جو پاکستان میں سالہا سال سے آباد ہے کو یہی لگے گا کہ صرف اسکے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے حالانکہ خود معتبر ممبران پارلیمنٹ کو اس فرسودہ نظام سے آج تک انصاف نہیں ملا۔ پیپلز پارٹی کے فیصل رضا عابدی اور تحریک انصاف کے عمران خان ابھی تک اسپریم کورٹ و پارلیمان سے انصاف کے حصول کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
ناظمین کے الیکشنز سے پہلے، راولپنڈی صدر کے مضافات میں واقع ہمارے سلسلہء اسٹیبلیشیہ کی ایک خانقاہ اور وہاں کے خلیفہء اول و دوم روزانہ رات گئے تک ایک ایک یونین کونسل کی ہر ہر نشست کے لیے مختلف مریدین سے نشستِ ذکر و فکر منعقد فرمایا کرتے تھے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے خلیفاؤں کو ہدایات براہ راست بڑی گدی سے ملا کرتی تھیں اور وہ بے چارے نا چاہتے ہوئے بھی اپنا ذاتی وقت سب سے بڑے پیر صاحب کی گدی کو مضبوط اور مستقل کرنے کے لیے صرف کرنے پر مجبور تھے۔
اتفاقاً کچھ نشستوں میں مجھ گناہگار کو بھی اس بابرکت گفتگو سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہا، اور پاکستانی سیاست، صحافت اور اسٹیبلیشمنٹ کو پڑھنے، سننے کا موقع ملا۔
مجھ جیسے ساتویں پاس کیلئے ان پہیلیوں میں باتیں نہ کیا کریں۔ ہمیں کیا پتا کہ اوپر خلیفاؤں، مریدین، پیر و گدی سے آپکی کیا مراد ہے ؟
اگر ممکن ہو تو اس خانقاہ میں ہونے والی کھسر پھسر کی تفاصیل ہمارے ساتھ شیئر کریں۔ ہم جیسے کئی اور عمران فین بوائز کا بھلا ہو جائے گا
وطن عزیز میں سیاست کا کھیل ایسا ہے کہ اس کی ہار جیت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور بعد ازاں ان کو بظاہر قانونی طریقے سے مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اس حقیقت سے آشناء ہے لیکن آزادی اظہار کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اب جو کہنے جا رہا ہوں اس بات سے آپ کو بھی شدید اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے بغیر دھرنا کامیاب ہوگا۔ میری نیک تمنائیں ہر اُس محب وطن کے ساتھ ہیں جو وطن عزیز کی بہتری کے لئے بر سر پیکار ہے چاہے وہ کسی بھی جماعت سے وابستہ سیاسی رہنماء ہے یا سیاسی کارکن۔
آپکی اس دردمندانہ رائے کا احترام کرتا ہوں۔ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر چڑھ کر آج تک جو حکمران بھی آیا ہے اسنے اس قوم کی بینڈ ہی بجائے ہے۔ اب دیکھتے ہیں کب تک یہ غدار قوم حقیقی جمہوریت یعنی عوامی رائے سے بننے والی حکومت کو روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر آپکا ماننا یہی ہے کہ ہماری بیروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ حقیقی جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو یہی رکاوٹ بھارت جیسے جمہوری ملک میں کیوں فیل ہو گئی؟ بٹوارے سے قبل دونوں ممالک ایک جیسے ہی تو تھے۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ آئندہ مستقبل میں ان خفیہ ہاتھوں کو عوام کیسے توڑ سکتی ہے؟ دھرنے تو بظاہر کچھ کر نہیں پارہے جب تک ان خفیہ ہاتھوں کا سایہ دھرنیوں پر نہ ہو۔
کچھ سازشیوں کا تو یہاں تک کہنا کہ یہ دھرنے خود اسی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں جو قومی سیاست میں گاہے بگاہے اپنا لچ تلتی رہتی ہے۔ اسبارہ میں بھی اپنی معقول رائے سے نوازیں۔ شکریہ
چوہدری صاحب پنجابی میں کہتے ہیں "راہ پیا جانے تے واہ پیا جانے"۔ گراس روٹ لیول پر موجود کارکن فقط جذباتی وابستگی کی بنا پر کچھ بھی سُننا نہیں چاہتے وہ بھی حق بجانب ہیں کہ ان کی معلومات کی حد وہیں تک ہی ہوتی ہے۔ جب کہ اصل سیاسی صورتحال کا اندازہ سیاسی رہنماؤں کی باہمی گفتگو سے ہوتا ہے جو وہ اکثر آف دی ریکارڈ کرتے ہیں یا پھر اُن لوگوں سے جن کے سامنے یہ سیاسی گفتگو کی جاتی ہے۔
متفق ! اصل سیاست تو وہی ہوتی ہے جو عوام سے چھپ کر کی جائے۔ جیسے جاوید ہاشمی اور سعد رفیق کے مابین ہونے والے خفیہ ٹیلی فونک روابط جو انکے عمران خان کے بارہ میں ’’انکشافات‘‘ سے قبل وقوع پزیر ہوئے۔
اکیلے خان کا جیتنا کیا معنی رکھتا ہے؟ پارٹی کو تو کامیاب نہیں ہو سکی تب۔ ان انتخابات میں خان کی حیثیت اس 11ویں کھلاڑی کی سی تھی جو آوٹ نہ ہو کر بھی آوٹ ہو جاتا ہے۔
آخر اسٹیبلشمنٹ اور بیروکریسی کو عمران خان سے ایسا کیا اختلاف ہے جو وہ اسکی سیاسی جماعت کو آگے آنے سے مسلسل روکے جا رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ اگر عمران صاف و شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہو گیا تو انکی سازشیں دھری کی دھری رہ جائیں گی؟ یاد رہے کہ عمران خان پہلے تن تنہا تھا۔ آج اسکے ساتھ کروڑوں ٹائیگرز ہیں جوانوں کی صورت میں۔ اوپر سے آزاد میڈیا کی صبح شام کوریج ۔ ایسے میں روایتی پاور بروکرز کیلئے اقتدار پر کنٹرول خاصا مشکل ہو گیا ہوگا اب جبکہ عمران کے مشکوک حلقے کھلوانے کا مطالبہ بھی منظور ہو چکا ہے۔
سو فیصد متفق۔
جو تھوڑا بہت میرے ذاتی علم میں رہا ہے، وہ وقتاً فوقتاً اسی محفل پر موضوع کے مطابقت سے پوسٹ بھی کرتا رہتا ہوں۔ ابھی کل پرسوں ہی کسی دھاگے میں، میں نے ہی لکھا تھا کہ یہ سیاسی پارٹیاں دراصل پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیاں ہیں جن کے شئیرز مارکیٹ میں بکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے شیئرز کتنے میں بکے؟ ان میں سے عمران اور اسکے پیدائشی ارب پتی بچوں کو کتنا حصہ ملا؟
کیا آپکو لگتا ہے کہ تحریک انصاف بھی ملکی سیاست میں پیسا بنانے آئی ہے؟ پھر پتا نہیں کیوں میں عمران کو روزانہ کنٹینر پر بوسیدہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں دیکھتا ہوں۔
اپنے مقصد کا حصول نہیں کرنے دیا۔
خان تب بھی ملک کے لیئے اتنا ہی جذباتی تھا ۔ صاحب اقتدار ہستی اور اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی اس جذباتیت سے واقف تھے تب ہی انہوں نے خان کو درست انداز میں آگے آنے کا موقع نہیں دیا۔ اب بھی جو موقع ملا وہ بھی اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی کسی مفاد پرستانہ پالیسی کی وجہ سے ہی ملا ورنہ کیا تھا کہ جہاں دیگر صوبوں میں دیگر پارٹیوں کو حصہ ملا وہاں خے پی کے میں بھی پی ٹی آئی کو نہ آنے دیتے
آپکے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا ایسا کیا مفاد ہو سکتا ہے جو انہوں نے اس بار تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کی اجازت دے دی؟
امریکہ کا جو یار ہے وہی یہاں سردار ہے ۔۔۔
امریکہ کو دھمکائیں گے تو اقتدار کہاں سے پائیں گے ۔۔؟۔۔۔
عمران نے امریکہ کو نہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو دھمکایا تھا کہ اگر انہوں نے موجودہ نااہل حکومت کو مزید قرضے دئے تو وہ مستقبل میں اقتدار میں آکر انہیں واپس نہیں کریں گے۔
ویسے چوہدری صاحب کیا ہی مزا ہوتا کہ ہم اس آگہی کے عذاب سے محفوظ رہتے اور حقیقی چہروں کے عینی شاہد ہونے کی جگہ سوشل میڈیا پر دی گئی تصاویر اور تفصیلات بے دریغ اور فی سبیل اللہ شیئر کرتے اپنے من پسند سیاسی رہنماء کے حق میں نعرے پوسٹ کرتے۔ مخالفین کو روزانہ نت نئی گالیوں کا تازہ ترین پیکیج دیتے اور پھر حقیقی دنیا میں سوشل میڈیا پر اپنی مجاہدانہ کارروائیوں کا تذکرہ کر کے روحانی سکون محسوس کرتے۔
لیکن چلیں کوئی بات نہیں یہ عذاب ہمیں اور آپ کو اور ہم جیسے دیگر افراد کو ہی سہنا ہے۔ باقی احباب کو روحانی سکون مبارک
اگر ان حقیقی چہروں کے نام ہمیں ذاتی پیغام میں بھیج دیں تو ممنون ہوں گا اور پاکستانی سیاست سے ہمیشہ کیلئے توبہ کر لوں گا
بھٹو نے اس کے خلاف " امت مسلمہ " کو جگانے کی کوشش کی تھی ۔ اور اس " جرم " میں عبرت کا نشان بن " سچی نیند " سو گیا ۔
بھٹو کے دکھائے غریب عوام کو خواب اس کے جان نشینوں نے غریبوں کا خون چوس چوس کر ایسی تعبیر دکھائی کہ " خان صاحب " سے بھی ڈر لاگے ۔
میری پیدائش بھٹو کی پھانسی کے بہت سال بعد ہوئی یوں میں پاکستانی سیاست کے اس ’’سنہرے‘‘ دور سے نابلد ہوں جب بھٹو دا گریٹ کسی کھمبے کو بھی کھڑا کر دیتے تو ووٹ اسے ہی پڑتا۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جب 1970 کا صاف اور شفاف پہلا اور واحد الیکشن اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی میں ہوا تو تب مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو اکثریتی ووٹ کیسے پڑ گئے؟ تب کیا اسٹیبلشمنٹ اور بیروکریسی سوئی ہوئی تھی؟ جمہوریت کے اصولوں کے تحت حکومت عوامی لیگ کو ملنی چاہئے تھی جبکہ اسٹیبلشمنٹ بھٹو کیساتھ تھی یوں فوجی کاروائی کر کے ملک توڑنے کی سازش خود ہماری عظیم اسٹیبلشمنٹ کے انگنت کالے کرتوتوں میں سے ایک ہے۔ اوپر سے ستم یہ کہ ہمارے محبوب پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں جن فوجی جرنیلوں کا ہاتھ تھا انہیں کسی قومی عدالت نے آج تک کوئی سزا نہیں دی۔ جن میں سر فہرست جنرل یحییٰ خان شامل ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش میں آج 43 سال بعد بھی جماعت اسلامی کے ان لیڈران دہشت گردوں کو موت کی سزائیں دی جارہی ہیں جنہوں نے 1971 کی بنگلہ دیش آزادی کی جنگ میں نہتے بنگالیوں کا پاک فوج کیساتھ ملکر قتل عام کیا!
تھوڑی بہت آگہی کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اندھی تقلید نہیں رہی اور متاثرینِ موادِ پروپیگنڈا میں نہیں رہے۔
باقی میں اسے عذاب نہیں ، اس رحمٰن و رحیم رب کا انعام کہوں گا، کہ اپنی کروڑ ہا مخلوق میں سے چن کر جلد شعور عطا فرما دیا ہے۔
یہ اسٹیبلشمنٹ کی خانقاہ آجکل کہاں موجود ہیں؟