عمران خان کی ٹیم

سید رافع

محفلین
ایک اور بات جو کراچی کے لوگوں کو حب الوطن بناتی ہے وہ یہ کہی کہ:

دخل در معقولات کی معذرت۔ دنیا سیکیولرازم کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں لسانی تنظیموں کی اہمیت کم سے کم ہو جائے گی۔ مذہبی سیاسی تنظیموں پر بھی یہی اصول لاگو ہو گا۔

اس سے قبل یہی لوگ صفورا پر چیپل سٹی میں حملہ کر چکے ہیں۔ یہ سندھ کے پسماندہ لوگ ہیں۔ نہ صحیح رہائش ہے اور نہ روزگار۔ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ عام طور سے سندھ کے لوگ اس کے ساتھ نہیں بلکہ ملک کے اگلے "دو متوقع لبرل سیکیولر" وزیراعظم کے ساتھ ہیں۔

باقی میرٹ کے لیے اٹھے تھے اگر حاصل نہیں کر پائے تو تحلیل ہو جائیں۔ اردو دان طبقہ نفیس خیالات اور پڑھائی لکھائی پر متوجہ تھا۔ انکو اسی جانب جانے دیں۔ سب صحیح ہو جائے گا۔ تیس سال میں قوم کو اسکللڈ لیبر نہیں بنا سکے تو اب ہنگامی بنیادوں پر تیکنیکی میدان میں آگے لائیں۔ دوسری قوموں جیسا بننے کی ضرورت نہیں۔ زمین پر صدیوں سے جس کا قبضہ ہے رہے گا۔ انکے ساتھ پیار محبت سے مل جل کر رہیں۔ سندھ کی غالب اکثریت سیکیولر اور اہل محبت کی ہے۔

اصل مسئلہ تیس سال میں پیدا ہونے والے سیکٹر، یونٹ اور سرکل انچارج کے خرچے پانی کا ہے۔ انکو بندوق کے بجائے فنی مہارت دیں۔ کوٹے کے بجائے تعلیم اور حصول علم پر توجہ دیں۔ سندھ کے لوگوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کو ترقی دیں۔

باقی رہ گیا ویڈیرہ شاہی ختم کرنی ہے۔ تو اسکے لیے فوج کے ساتھ ملنا ہو گا۔ اس جاگیردارنہ نظام کی جڑیں پاکستان کے قیام سے قبل ہی عالمی سیاست سے جڑی ہوئی ہیں۔ آپ فوج یا جاگیردار کو قابو اس لیے نہیں کر پائے کیونکہ آپ نے احمقانہ بدمعاشی سے اس عالمگیر گانٹھ کو کھولنے کی کوشش کی۔

آپ کو محض رقم یا عہدہ چاہیے تو پنجاب فوج کے ساتھ مل جائیں۔ فوج جس کے بوٹ پالش کر رہی آپ بھی کریں۔ اگر عزت چاہیے تو کارکنوں کو فنی تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دینے کو کہیں اور ہماری طرح کمپنی مالکان کے بوٹ پالش کریں۔ اوپر چڑھنے کے لیے علاقائی سیکیولر طاقتوں سے ملیں تاکہ عالمی سیکیولر طاقتوں میں آپکی نمبر اور رینکنگ بنے۔
 

وسیم

محفلین
ہمارے اجداد سکھ تھے سب کچھ انڈین پنجاب میں چھوڑ کر خاندان کے خاندان کٹوا کر پاکستان (نوابشاہ باندھی)آئے تھے پاکستان آکر کچھ کلیم بھی نہیں کیا ہمارے دادا کہا کرتے تھے ہم نے ہجرت کرکے پاکستان پر احسان نہیں کیا۔ وہ کبھی بھی پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنتے تھے۔میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ دادا جان کہا کرتے تھے اگر ہم سب کی جان بھی چلی جائے پاکستان کیلئے وہ بھی کم ہے۔وہ کہتے تھے شہادت کا مرتبہ ملا ہے انہیں جنہوں نے ہجرت کے دوران جانیں دیں۔ ایک بات جو ہمارے اندر بس گئی ہے"ہمارا کوئی حق نہیں ہوتا ہمارا صرف فرض ہوتا ہے۔حقوق صرف دوسروں کے کے ہوتے ہم پر۔اللہ تعالٰی سےدعا کرتے رہا کرو وہ تمہیں فراض بجا لانے کی توفیق اور ہمت دے"

ہمیں صرف تباہ ہی ان نام نہاد رہنماؤں نے کیا ہے جنہوں نے ہمارے حقوق تو ہمیں یاد دلائے مگر فرائض کا احساس نہیں دلایا۔

کسی کو بھی ، کسی بھی قیمت پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے بارے میں غلط سوجے بھی۔ چہ جائے کہ پاکستان پر کسی بھی طرح سے احسان جتائے۔

جو کسانوں کی زمینوں پہ قبضہ کرتے ہیں۔ جو پراپرٹی سے لیکر سیمنٹ ، کھاد بیچتے ہیں اور بینک تک چلاتے ہیں، وہ بالکل بھی قوم کے نام نہاد محافظ نہیں، بلکہ سچے پکے محب الوطن محافظ ہیں۔ وہ بالکل بھی نام نہاد رہنمائی انڈے بچے نہیں دیتے۔ وہ لوٹنے والوں کے ساتھ ملکر بالکل نہیں لوٹتے بلکہ ان کو این آر او دیکر منع کرتے ہیں کہ باقی پھر آ کر لوٹ لینا، ابھی لندن جا کر آرام کرو۔

ہیں نا جی!!!
 

وسیم

محفلین
بالکل۔۔۔ یہ100 فیصد بغض عمران بلکہ بغض پاکستان کہلائے گا۔

مندوخیل نے محترمہ آپا صاحبہ سے ایسی بات کی ہی کیوں کہ محترمہ آپا صاحبہ کو انتہائی مجبوری کی حالت میں (بالکل اس طرح جیسے کچھ حالات میں حرام حلال ہو جاتا ہے) اپنے پوتر ہاتھ کو استعمال کرنا پڑ گیا۔ مندوخیل پر تو سیکشن 6 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہییے۔

شکر ہے اسے آپ نے بغض اُمہ و دشمنانِ ملت اسلامیہ کا رُتبہ نہیں دیا!!! صرف بغض پاکستان تک ہی محدود رکھا۔۔
 

وسیم

محفلین
جاسم کے پاس لے دے کر ایک کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا گراف ہے، کوئی بحث ہو، بیچ میں گھسیڑ دیتے ہیں!
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ سرغنۂ یوتھ کو کچھ کہہ دو تو فورا حب الوطنی پر حرف آجاتا ہے اور اچانک سب کو اخلاقیات یاد آجاتی ہیں.
فاشزم کی انتہا ہے.
 
جاسم کے پاس لے دے کر ایک کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا گراف ہے، کوئی بحث ہو، بیچ میں گھسیڑ دیتے ہیں!
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ سرغنۂ یوتھ کو کچھ کہہ دو تو فورا حب الوطنی پر حرف آجاتا ہے اور اچانک سب کو اخلاقیات یاد آجاتی ہیں.
فاشزم کی انتہا ہے.
قسمے۔۔۔ گوئبلز اور ہٹلر یاد آجاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جاسم کے پاس لے دے کر ایک کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا گراف ہے، کوئی بحث ہو، بیچ میں گھسیڑ دیتے ہیں!
دراصل با تجربہ ٹیم والے کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ دی جسے عمران خان نے آکر تباہ کر دیا ہے۔ یہ آدھا سچ بولتے ہیں۔ پورا سچ عوام کو بتائیں کہ وہ جو ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ حاصل کی تھی اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منفی ۶،۱ فیصد تھا۔ یعنی معاشی گروتھ ملکی خزانہ کو دیوالیہ کر کے حاصل کی گئی تھی۔


اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ منافع میں ہے اور معاشی گروتھ بھی ۴ فیصد ہے۔ یہ فرق سمجھانے کیلئے ایسا بار بار کرنا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قسمے۔۔۔ گوئبلز اور ہٹلر یاد آجاتے ہیں۔
جس قسم کے گوئبلز آپ کی جماعت کے پاس ہیں ہم انصافی تو ان کو ترس گئے ہیں۔ پوری قوم کو ازبر ہو چکا ہے کہ ن لیگ نے ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ پر پاکستان کو چھوڑا تھا جسے عمران خان نے آکر تباہ کر دیا۔ یہ شاید کسی کو معلوم نہیں کہ وہ معاشی گروتھ ریکارڈ ۶،۱ فیصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کر کے حاصل کی گئی تھی

 
دراصل تجرباتی ٹیم والے کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ دی جسے عمران خان نے آکر تباہ کر دیا ہے۔ یہ آدھا سچ بولتے ہیں۔ پورا سچ عوام کو بتائیں کہ وہ جو ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ منفی ۶،۱ فیصد تھا۔ یعنی معاشی گروتھ ملکی خزانہ کو دیوالیہ کر کے حاصل کی گئی تھی۔


اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ منافع میں ہے اور معاشی گروتھ بھی ۴ فیصد ہے۔ یہ فرق سمجھانے کیلئے ایسا بار بار کرنا پڑتا ہے۔

ابھی تو اس 4 فیصد گروتھ کے دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے۔
باقی رہا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس ۔۔۔ تو محض اجمالی نمبر بار بار دہرانے کے بجائے ذرا اس کے پسِ پردہ عوامل پر بھی غور کر لیجیے ۔۔۔ پاکستان ایک امپورٹ بیسڈ اکانومی ہے ۔۔۔ ٹیکسٹائل، جو ہماری سب سے بڑی برآمدی صنعت ہے، وہ تک امپورٹ ڈپینڈنٹ ہے ۔۔۔ ایسے میں محض کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کا دکھاوا کرنے کے لیے امپورٹس پر گلا گھونٹنے کی حد تک پابندی لگانے کا نتیجہ گروتھ کے کولیپس میں کی صورت میں ہی نکلنا تھا جو نکلا اور ہر لحاظ سے منطقی بھی تھا۔
یہ بھی دیکھنے اور سمجھنے کی زحمت کیجیے کہ اس نام نہاد سرپلس کے کلیدی ڈرائیورز کیا ہیں؟؟؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رواں سال ہمارا مجموعی تجارتی خسارہ کہاں کھڑا ہے؟ اسٹیٹ بینک ہر سہ ماہی میں مانیٹری پالیسی کے ساتھ ایک انفارمیشن کمپنڈیم شائع کرتا ہے ۔۔۔ آپ کچھ نہ کریں، ایسا کریں کہ مئی 2021 کی دستاویز کا مئی 2018 کی دستاویز کے ساتھ تقابل کرکے دیکھ لیں۔ یہاں سکرین شاٹ لگانے کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ ہے، ورنہ میں تصویریں لگا دیتا۔ بہرحال کچھ کلیدی اشاریوں کی صورت حال اس طرح ہے ۔۔۔ آپ چاہیں تو اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر جا کر ان اعداد و شمار کی تصدیق فرما سکتے ہیں۔

(نوٹ: تمام اعداد و شمار جولائی تا مارچ کے دورانیے کے ہیں)

1۔ تجارتی خسارہ
2018: 25 ارب ڈالر
2021: 21 ارب ڈالر
(واضح رہے کہ یہ اس معمولی کمی کی بنیادی وجہ پٹرولیم کے درآمدی بل میں بیش بہا کمی ہے، نہ کہ برآمدات میں کوئی غیر معمولی اضافہ، مئی 2018 میں خام تیل کی قیمت 73 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ مئی 2021 میں 64 ڈالر!)

2۔ ٹیکس ریوینیو
2018: 3076 ارب روپے
2021: 3765 ارب روپے
(گویا ۳ سال بعد بمشکل 2018 کی سطح تک پہنچ پائے ہیں ۔۔۔ وہ بھی ظاہراً کیونکہ اگر ۳ سال کے عرصے پر اوسطاً 8 فیصد کی شرح سے انفلیشن ایڈجسٹمنٹ کی جائے تو 2018 کے 3076 ارب، آج کے تقریباً 3874 ارب روپے بنتے ہیں ۔۔۔ جو ویلیو میں آپ کے ممدوح کی حکومت کے تیسرے سال کی کارکردگی سے بہتر ہے!
علاوہ ازیں 2018 میں نان ٹیکس ریوینیو کل حکومتی ریوینیو کا 15 فیصد تھا جبکہ 2021 میں یہ شرح بڑھ کر 24 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔
واضح رہے نان ٹیکس ریوینیو یا تو حکومتیں بانڈز بیچ کر کماتی ہیں یا پھر یہ حکومتی ملکیت صنعتی یا کمرشل اداروں کے خالص منافع سے آتا ہے ۔۔۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہوائی دعووں کے برعکس، اس وقت کوئی قابل ذکر حکومتی کمرشل یا صنعتی ادارہ منافع بخش نہیں کہ جس کے خالص منافع سے نان ٹیکس ریوینیو بڑھا ہو ۔۔۔ سو یہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں بھی حکومت بانڈز، سکوک اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس وغیرہ کے ذریعے، جو قرض کی ہی اقسام ہیں، ریوینیو کے اعداد و شمار میں ہوا بھر رہی ہے)

3۔ بیرونی قرضے
2018: 9ء62 ارب ڈالر
2021: 9ء73 ارب ڈالر

4۔ مجموعی حکومتی قرضہ
2018: 24 ٹرلین روپے
2021 : 38 ٹرلین روپے

5۔ قرض بطور شرحِ جی ڈی پی
2018: 82 فیصد
2021: 107 فیصد

6۔ مجموعی بیرونی سرمایہ کاری
2018: 91ء4 ارب ڈالر
2021 : منفی 65ء3 ارب ڈالر

باقی افراطِ زر، جی ڈی پی اور دیگر معروف اشاریوں پر اس قدر بات ہوچکی ہے کہ مزید کچھ لکھنا اضاعت وقت ہوگا۔

اس حکومت کا سب سے بڑا جھوٹ، کہ اس نےمحض پرانے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لیے، اوپر دیے گئے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان بے تحاشہ قرضوں کے حصول کے باوجود کوئی قابل ذکر ڈیولپمنٹ پراجیکٹ اس حکومت نے شروع نہیں کیا ۔۔۔ محض پرانے پراجیکٹس پر سے دوسروں کے نام کی تختیاں اتار کر اپنی چڑھائی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ نااہلوں پر مبنی یہ نام نہاد ہائبرڈ سیٹ اپ کبھی معاشی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی بنا ہی ایک فاسد مفروضے پر رکھی گئی تھی۔ ٹرمپ کے حکومت میں آنے کے بعد بڑے صاحب کی نیت خراب اس مفروضے پر ہوئی تھی کہ امریکا کو افغانستان سے انخلا کے لیے ایک بار پھر ہماری ضرورت پڑے گی اور نتیجتاً ایک بار پھر ڈالروں کی ریل پیل ہوجائے گی ۔۔۔ مگر ان افلاطونوں کو ٹرمپ سے کچھ ہاتھ لگا اور نہ ہی بائیڈن سے کچھ مل پانے کی امید ہے۔ بڑے صاحب کے پیشرو اس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ ان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد حالات اس طرح کے ہوگئے کہ امریکا سے بے تحاشہ امداد ملنا شروع ہوگئی اور جیسے ہی یہ امداد رکنا شروع ہوتی، ان آمروں کا بنایا ہوا نظام خود اپنے وزن سے زمیں بوس ہوجاتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے! مشرف کا دور ہی دیکھ لیں ۔۔۔ اگر نائن الیون کا واقعہ نہ ہوتا موصوف کی حکومت ایک سال بھی اور نہیں چل سکتی تھی کیونکہ بین الاقوامی برادری نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ سے ان کا معاشی ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔
ہمارے بڑے صاحب کی بدقسمتی کہ اس بار ہاتھ کچھ نہ آیا اس لیے خوشحالی کے وہ 7-6 سال بھی دیکھنے کو نہیں ملے جو ان کے پیشرو آمروں کے ادوار میں ان کی خوبیٔ قسمت سے دیکھنے کو مل جاتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ابھی تو اس 4 فیصد گروتھ کے دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے۔
جے پی مورگن جیسے عالمی مالیاتی ادارے اس کی تصدیق کر چکے ہیں مگر مسئلہ وہی ہے کہ پاکستان سے متعلق بری خبروں پر اندھا یقین اور اچھی خبر پر میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا :)
7-A028-B81-2572-43-C4-AE96-98-A9292256-DF.png
 

زیک

مسافر
ٹرمپ کے حکومت میں آنے کے بعد بڑے صاحب کی نیت خراب اس مفروضے پر ہوئی تھی کہ امریکا کو افغانستان سے انخلا کے لیے ایک بار پھر ہماری ضرورت پڑے گی اور نتیجتاً ایک بار پھر ڈالروں کی ریل پیل ہوجائے گی ۔۔۔ مگر ان افلاطونوں کو ٹرمپ سے کچھ ہاتھ لگا اور نہ ہی بائیڈن سے کچھ مل پانے کی امید ہے۔ بڑے صاحب کے پیشرو اس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ ان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد حالات اس طرح کے ہوگئے کہ امریکا سے بے تحاشہ امداد ملنا شروع ہوگئی اور جیسے ہی یہ امداد رکنا شروع ہوتی، ان آمروں کا بنایا ہوا نظام خود اپنے وزن سے زمیں بوس ہوجاتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے! مشرف کا دور ہی دیکھ لیں ۔۔۔ اگر نائن الیون کا واقعہ نہ ہوتا موصوف کی حکومت ایک سال بھی اور نہیں چل سکتی تھی کیونکہ بین الاقوامی برادری نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ سے ان کا معاشی ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔
ہمارے بڑے صاحب کی بدقسمتی کہ اس بار ہاتھ کچھ نہ آیا اس لیے خوشحالی کے وہ 7-6 سال بھی دیکھنے کو نہیں ملے جو ان کے پیشرو آمروں کے ادوار میں ان کی خوبیٔ قسمت سے دیکھنے کو مل جاتے تھے۔
یہ انتہائی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کی ساری “معاشی ترقی” امریکا کے فوجی ڈکٹیٹروں کو geopolitical وجوہات کی بنا پر ڈالر دینے کی مرہون منت رہی ہے۔ جرنیلوں کا خیال ہے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا لیکن دنیا بدل چکی ہے اور ان معاملات میں پاکستان کی اہمیت کافی کم ہو چکی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس حکومت کا سب سے بڑا جھوٹ، کہ اس نےمحض پرانے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لیے، اوپر دیے گئے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان بے تحاشہ قرضوں کے حصول کے باوجود کوئی قابل ذکر ڈیولپمنٹ پراجیکٹ اس حکومت نے شروع نہیں کیا
پچھلے سال حکومت نے جتنا بیرونی قرضہ لیا اتنا ہی پچھلی حکومتوں کیلئے گئے قرضوں کی مد میں واپس ادا کر دیا۔ اس انتہائی مشکل صورتحال میں ڈویلپمینٹ کیلئے قرضہ بچتا ہی کہاں ہے؟



 
Top