کہتے ہیں کہ تنقید کے لیئے بہت ضروری ہے کہ پہلے آدمی سامنے والے کی بات واضع طور پر سمجھ لے ۔ ورنہ وہ کھیت اور کھلیان کے فرق سے ہمیشہ ناواقف رہتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ اس دفعہ بھی آپ کی بات سمجھ میں آئے گی کہ نہیں ، بہرحال انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہیئے ۔
میں نے آپ کا اقتباس لیکر اس میں آپ کی اس بات کی تائید کی تھی کہ جادو سے زیادہ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل ہیں ۔ مگر کم علمی کی وجہ سے ہم اُسے جادو وغیرہ ہی گردانتے ہیں ۔ ماہر نفسیات جدید طبعیات سے مدد لیکر نفیساتی امراض کا بہت کامیاب علاج کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک عام ڈاکٹر سے زیادہ ماہرِنفسیات کی فیس ہوتی ہے ۔ وہ علوم جنہیں ہم مادی شمار نہیں کرتے انہیں نفسی علم ہی گردانا جاتا ہے ۔ میں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہم سے متعلق بھی رہیں گے ۔رہی سائنس کی بات تو کچھ عرصے قبل ماں کے رحم میں جنس کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی تھی ۔ اور ایک قرآنی آیات کا غلط اطلاق اس حوالے سے کیا جاتا بھی رہا ہے ۔ مگر سائنس نے جب اپنے پر پھیلائے تو ماں کے رحم میں جنس کی شناخت کوئی معمہ ( غیب ) نہیں رہا ۔ کہنے کا مقصد ہے کہ میری تحریر کی کسی سطر میں سائنس کو میں نے اس حد تک نہیں گردانا کہ اس نے سارے عقدے حل کرلیئے ہیں ۔ بلکہ مادی اور غیر مادی ( نفسی ) علم کے درمیان ایک تقابلہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی اپنی افادیت ہے ۔ مگر اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے میرا جھکاؤ نفسی علم سے زیادہ مادی علم کی طرف ضرورہے ۔ کیونکہ اسے غیب کا نام دیکر معمہ بنایا نہیں جاسکتا ۔ سائنس صرف تحقیق کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ اپنی تحقیق کو اس شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے کہ لوگ اس پر یقین کرسکیں ۔ پھر میں نے یہ بھی عرض کیا کہ جادو کا مذہب سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس علم پر اگر آپ یقین نہیں رکھتے تو آپ کا ایمان بلکل محفوظ ہے کہ کوئی آپ پر فتوؤں کی ٹوکری نہیں انڈیلے گا ۔
آپ اپنا مشاہدہ کا دائرہ کچھ وسیع کریں ۔ اوتارمیں تصویر سے واضع ہے کہ آپ حضرت سے مکالمہ کرنے جا رہے ہیں ۔ مذید تحقیق کرتے تو نک پر کلک کرکے ذاتی تفصیلات میں جاکر آپ محترمہ اور حضرت کے خفلشار سے اپنے ذہن کو پاک بھی کرسکتے تھے ۔
مگر لگتا ہے کہ آپ کو سرسری طور سے چیزوں کا جائزہ لینے کی عادت ہے ۔ اس لیئے اس پوسٹ میں آپ کے کئی
اخلاقی غلطیاں ہوئیں ۔