محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
حسن میرے دوست احمد کا بیٹا ہے اب تو خیر سے انیس، بیس سال کا نوجوان ہے جب وہ چار سال کا ہوا کرتا تھا تو اس کے چھوٹے سے دماغ میں جتنی معلومات ہوتی تھیں وہ اسے بروئے کار لانے پر یقین رکھتا۔ اگر اس سے پوچھا جاتا کہ چھ اور چھ کتنا ہوتا ہے تو فوری طور پر متوقع جواب ہوتا کہ "تین، چار یا آٹھ" کیونکہ اسے آٹھ سے آگے گنتی نہیں آتی تھی۔ ایک مرتبہ میں، احمد اور حسن شام کی سیر کے لیے نکلے تو راستے میں حسن کی باتوں سے محظوظ ہونے کی غرض سے، میں نے ایک نیم کے درخت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون سا درخت ہے تو حسن نے فوراً بغیر ہچکچائے جواب دیا "پتوں کا".
سن دو ہزار چھ کی بات ہے جب وطنِ عزیز دہشت گردی کی بھٹی میں جل رہا تھا ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تباہیوں سے دل گھبرایا رہتا کوئی ایک اچھی خبر حبس زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی تھی۔ ان دنوں کسی قسم کی تقریب ہوتی تو اس کے بخیریت انجام پا جانے تک ایک انجانا سا خوف لاحق رہا کرتا تھا۔ میرے دوست احمد کے چھوٹے بھائی کی شادی کی تقریبات جاری تھیں۔ سہرا بندی کا وقت اگرچہ رات آٹھ بجے مقرر تھا لیکن تیاریاں صبح ہی صبح شروع ہو گئیں تھیں۔ سب سے پہلے تو مردوں کی تمام ضروریات پوری کی گئیں تاکہ انہیں میرج ہال کے مقررہ وقت پر بھیجا جا سکے، خواتین تو پھر اپنی سہولت سے پہنچتی رہیں گیں،
شادی ہال کی بکنگ شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک کی کرائی گئی تھی تقریباً چار بجے کا وقت ہوا ہو گا احمد کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا، ہم کچھ مرد باہر میرج ہال جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن ابھی بھی کچھ مرد حضرات کا آنا باقی تھا کہ ہم نے دیکھا کہ حسن منہ بسورتا ہوا آ گیا میں نے پوچھا کہ حسن کیا ہوا پہلے تو اس نے جواب نہ دیا جب میں نے دوبارہ پوچھا تو اس نے ایک دہلا دینے والا انکشاف کیا کہ "عورتیں دہشت گرد ہوتی ہیں" میں نے ہنسی ضبط کر کے حسن سے کہا "دہشت گرد؟" (ان دنوں ہمارے ٹیلیویژن چینلوں پر سب سے زیادہ لیا جانے والا لفظ دہشت گرد ہی تھا حسن نے شاید احمد سے کبھی سوال کیا تھا کہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں اب اگر احمد یکسر ٹال جاتا تو حسن کی طبیعت ایسی تھی کہ اس نے کسی اور سے تو لازماً سوال کرنا تھا اور اصل جواب دینا معصوم بچوں کے ذہنوں کے لیے بھی اچھا نہ تھا تو احمد نے کہا کہ "بیٹا! دہشت گرد وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی بات نہ مانے اور اپنی من مانی کرئے یا لوگوں کو تنگ کرئے یا اُن سے پیسے چھین لے") تو حسن نے اپنی معلومات کے مطابق جو اسے اس کے والد سے ملی تھی مجھے بتانے لگا پھر اس نے کہا کہ انکل دیکھیں نا میں نے بابا سے گاڑی لینے کے لیے پیسے مانگے تو اماں نے بابا کو مجھے پیسے دینے سے منع کر دیا خود اماں، آپا، پھوپھو اور کتنی عورتیں کچھ گھنٹوں کے میک اپ کا پارلر والی آنٹی کو کتنا پیسہ دے رہے ہیں اور آپا بابا سے جتنا پیسہ مانگتی ہیں بابا دے دیتے ہیں، میرے حصے کے پیسے بھی وہ لے جاتی ہیں۔ پھر وہ انتہائی معصومانہ سے لہجے میں کہنے لگا "کیا یہ دہشتگردی نہیں"
میری بے اختیار ہنسی نکلی تو حسن خفگی سے کہنے لگا کہ آپ کو بھی میرا یقین نہیں ہے، شاید یہی بات اس نے کسی اور سے بھی کی تھی میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا کہ نہیں بیٹا مجھے کسی اور بات پر ہنسی آ گئی تھی اور ویسے مجھے تو آپ کی بات پر پورا یقین ہے کیونکہ آپ کی آنٹی(میری بیگم) بھی تو دہشت گرد ہیں۔
سن دو ہزار چھ کی بات ہے جب وطنِ عزیز دہشت گردی کی بھٹی میں جل رہا تھا ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تباہیوں سے دل گھبرایا رہتا کوئی ایک اچھی خبر حبس زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی تھی۔ ان دنوں کسی قسم کی تقریب ہوتی تو اس کے بخیریت انجام پا جانے تک ایک انجانا سا خوف لاحق رہا کرتا تھا۔ میرے دوست احمد کے چھوٹے بھائی کی شادی کی تقریبات جاری تھیں۔ سہرا بندی کا وقت اگرچہ رات آٹھ بجے مقرر تھا لیکن تیاریاں صبح ہی صبح شروع ہو گئیں تھیں۔ سب سے پہلے تو مردوں کی تمام ضروریات پوری کی گئیں تاکہ انہیں میرج ہال کے مقررہ وقت پر بھیجا جا سکے، خواتین تو پھر اپنی سہولت سے پہنچتی رہیں گیں،
شادی ہال کی بکنگ شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک کی کرائی گئی تھی تقریباً چار بجے کا وقت ہوا ہو گا احمد کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا، ہم کچھ مرد باہر میرج ہال جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن ابھی بھی کچھ مرد حضرات کا آنا باقی تھا کہ ہم نے دیکھا کہ حسن منہ بسورتا ہوا آ گیا میں نے پوچھا کہ حسن کیا ہوا پہلے تو اس نے جواب نہ دیا جب میں نے دوبارہ پوچھا تو اس نے ایک دہلا دینے والا انکشاف کیا کہ "عورتیں دہشت گرد ہوتی ہیں" میں نے ہنسی ضبط کر کے حسن سے کہا "دہشت گرد؟" (ان دنوں ہمارے ٹیلیویژن چینلوں پر سب سے زیادہ لیا جانے والا لفظ دہشت گرد ہی تھا حسن نے شاید احمد سے کبھی سوال کیا تھا کہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں اب اگر احمد یکسر ٹال جاتا تو حسن کی طبیعت ایسی تھی کہ اس نے کسی اور سے تو لازماً سوال کرنا تھا اور اصل جواب دینا معصوم بچوں کے ذہنوں کے لیے بھی اچھا نہ تھا تو احمد نے کہا کہ "بیٹا! دہشت گرد وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی بات نہ مانے اور اپنی من مانی کرئے یا لوگوں کو تنگ کرئے یا اُن سے پیسے چھین لے") تو حسن نے اپنی معلومات کے مطابق جو اسے اس کے والد سے ملی تھی مجھے بتانے لگا پھر اس نے کہا کہ انکل دیکھیں نا میں نے بابا سے گاڑی لینے کے لیے پیسے مانگے تو اماں نے بابا کو مجھے پیسے دینے سے منع کر دیا خود اماں، آپا، پھوپھو اور کتنی عورتیں کچھ گھنٹوں کے میک اپ کا پارلر والی آنٹی کو کتنا پیسہ دے رہے ہیں اور آپا بابا سے جتنا پیسہ مانگتی ہیں بابا دے دیتے ہیں، میرے حصے کے پیسے بھی وہ لے جاتی ہیں۔ پھر وہ انتہائی معصومانہ سے لہجے میں کہنے لگا "کیا یہ دہشتگردی نہیں"
میری بے اختیار ہنسی نکلی تو حسن خفگی سے کہنے لگا کہ آپ کو بھی میرا یقین نہیں ہے، شاید یہی بات اس نے کسی اور سے بھی کی تھی میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا کہ نہیں بیٹا مجھے کسی اور بات پر ہنسی آ گئی تھی اور ویسے مجھے تو آپ کی بات پر پورا یقین ہے کیونکہ آپ کی آنٹی(میری بیگم) بھی تو دہشت گرد ہیں۔
آخری تدوین: