عید میلاد النبی کا دن کیسے منایا جائے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

damsel

معطل
جشن عید میلاد النبی بہت مبارک۔ یہ اعتراض‌نہیں کہ یہ پہلے ہی طے پایا ہوا ہے کہ عید میلاد النبی منانا خوشی کا باعث ہے۔ نبی کی پیدائش کی سالگرہ کی عید ، تو پھر یہ ایک ہی نبی تک کیوں محدود رکھا جائے؟ باقی انبیاء بھی تو اسلام کے ہی نبی ہیں :) اگر مولانا حضرات کرسمس بھی اسی ذوق و شوق سے منائیں تو کیا بات ہو۔ باقی نبیوں‌کے یوم پیدائش بھی تحقیق کئے جاسکتے ہیں :) ا حق ادا ہوجائے گا کہ مسلمان نبیوں میں فرق نہیں کرتے منائیں تو سب انبیاء کا یوم پیدایش منائیں یا پھر (شاید) کسی کا بھی نہیں :)

[AYAH]2:136[/AYAH]
(مسلمانو) تم کہدو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ہماری طرف اور جو نازل کیا گیا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور جو دیا گیا موسٰی کو اور عیسٰی کو اور جو دیا گیا نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے، نہیں تفریق کرتے ہم ان کے درمیان اور ہم اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں۔


کرسمس منائیں ہم م م۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن نصرانیوں کے دین سے متعلق کیا بات صحیح ہے اور کیا غلط اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ ۔ ۔ کیا حضرت ّعیسٰی علیہ اسلام کی تاریخِ پیدائش 25 دسمبر ہی ہے؟؟ کیونکہ قرآن میں جہاں ان کی ولادت کا ذکر ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت مریم نے ان کی ولادت کے فورا بعد پکی ہوئی کھجوریں کھائیں لیکن کھجوریں کبھی دسمبر میں نہین پکتیں بلکہ سخت گرمی میں پکتی ہیں تو پھر جب ان کے دین میں اتنی باتیں اور احکامات بدلے گئے ہیں تو ان کی کسی چیز کو اپنانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں صحیح ہے یا غلط ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ضمن میں حدیث بھی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اگر آج موسٰی علیہ اسلام بھی ہوتے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی شریعت کی پیروی کرتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ دین ِاسلام ہی اب وہ دین ہے جس کی پیروی تمام عالم کو کرنی ہے
 

رضا

معطل
وارث: اصل سوال خوشی منانے کے طریقہ کار پر ہے، مثلاً پچھلے دو دنوں میں خصوصاً اور پچھلے بارہ دنوں میں عموماً پاکستان میں کروڑوں روپے کے جھنڈے اور جھنڈیاں ہوا میں لہرا دی گئیں، کروڑوں روپے کی بجلی استعمال کی گئی، پلاؤ اور متنجن کی دیگیں پکار انہی لوگوں کو کھلا دی گئیں جو پہلے ہی سے ماشاءاللہ "کھاتے پیتے" گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یوں گویا کروڑ ہا اور ارب ہا روپوں کے وسائل ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ سارا روپیہ، حضور پاک (ص) کے نام پر، خوشی خوشی، غرباء میں بانٹ دیا جاتا،
مجھے آپ کے جذبات سے ہمدردی ہے۔لیکن یہ خیال عیدمیلاد پہ خرچ کردہ رقم کے بارے میں‌ہی کیوں آتا ہے؟
فلموں ڈراموں پہ ناجانے کتنی رقم و وسائل ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہوں گے۔کرکٹ میچوں کے اخراجات۔جس کو ہم کھیل بولتے ہيں۔کیا یہ درست ہے کہ صرف کھیل پہ اتنی رقم خرچ کردی جائے۔اور ایک کھلاڑی کروڑوں روپے کا خریدا جائے۔
میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں۔
آپ اپنے ہاں بچوں کی سالگرہ پہ خرچ نہیں کرتے؟
منگنی اور شادیوں پر خرچ؟
کیا آپ کے گھر میں‌ ٹی وی نہیں ہے؟
وی سی آر؟
کیبل؟
سیگریٹ اگر پیتے ہیں تو؟ (کیا ان کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی۔ ان تمام اشیاء کو فروخت کرکے کسی کی مدد بھی تو کی جاسکتی ہے۔)
جشن ولادت کی خوشی میں جو لنگر کیا جاتا ہے۔وہ لنگر غرباء ہی کھاتے ہیں۔امیر آدمی تو کجا ہم جیسے غریب آدمی بھی لائن میں لگ کر لنگر حاصل نہیں کرپاتے۔امیر آدمی کھا بھی لے تو کیا حرج ہے؟ آپ اپنے دوستوں کی دعوت نہیں کرتے؟
اور آپ نے کبھی ان غریبوں کے چہروں پہ خوشی دیکھی ہے۔جب وہ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی خوشی ميں جھنڈیاں لہرا رہے ہوتے ہیں۔بازار کو سجاتے وقت کتنے خوش ہوتے ہیں وہ۔جب ان غرباء کے چھوٹے بچے اور بچیاں اپنے گھر کی چھتوں پر موم بتیوں سے چراغاں کرتے ہیں تو کتنے خوش ہوتے ہیں۔
بات تو بہت طویل ہوسکتی ہے۔مگر میرا خیال ہے اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں۔
 

رضا

معطل
عاشورے کے دن یہودی عید مناتے تھے۔اس لئے کہ موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات عطا فرمائی۔تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوم موسی منانے کے زیادہ حقدار ہم ہيں۔
عاشورہ کے دن کو منانے کا طریقہ بھی سرکار نے روزہ رکھ کر منانے کا حکم فرمایا۔ایک دن آگے پیچھے روزہ رکھو تاکہ یہودیوں کی مشابہت نہ ہو۔9یا 11 محرم کو ساتھ ملا لیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے آپ کے جذبات سے ہمدردی ہے۔لیکن یہ خیال عیدمیلاد پہ خرچ کردہ رقم کے بارے میں‌ہی کیوں آتا ہے؟
فلموں ڈراموں پہ ناجانے کتنی رقم و وسائل ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہوں گے۔کرکٹ میچوں کے اخراجات۔جس کو ہم کھیل بولتے ہيں۔کیا یہ درست ہے کہ صرف کھیل پہ اتنی رقم خرچ کردی جائے۔اور ایک کھلاڑی کروڑوں روپے کا خریدا جائے۔
میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں۔
آپ اپنے ہاں بچوں کی سالگرہ پہ خرچ نہیں کرتے؟
منگنی اور شادیوں پر خرچ؟
کیا آپ کے گھر میں‌ ٹی وی نہیں ہے؟
وی سی آر؟
کیبل؟
سیگریٹ اگر پیتے ہیں تو؟ (کیا ان کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی۔ ان تمام اشیاء کو فروخت کرکے کسی کی مدد بھی تو کی جاسکتی ہے۔)
جشن ولادت کی خوشی میں جو لنگر کیا جاتا ہے۔وہ لنگر غرباء ہی کھاتے ہیں۔امیر آدمی تو کجا ہم جیسے غریب آدمی بھی لائن میں لگ کر لنگر حاصل نہیں کرپاتے۔امیر آدمی کھا بھی لے تو کیا حرج ہے؟ آپ اپنے دوستوں کی دعوت نہیں کرتے؟
اور آپ نے کبھی ان غریبوں کے چہروں پہ خوشی دیکھی ہے۔جب وہ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی خوشی ميں جھنڈیاں لہرا رہے ہوتے ہیں۔بازار کو سجاتے وقت کتنے خوش ہوتے ہیں وہ۔جب ان غرباء کے چھوٹے بچے اور بچیاں اپنے گھر کی چھتوں پر موم بتیوں سے چراغاں کرتے ہیں تو کتنے خوش ہوتے ہیں۔
بات تو بہت طویل ہوسکتی ہے۔مگر میرا خیال ہے اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں۔


قبلہ محترم، میں سمجھتا تھا کہ میری پچھلی پوسٹ اس تھریڈ میں آخری پوسٹ تھی لیکن آپ نے چند ذاتی سوال کر کے مجبور کر دیا کہ یہ پوسٹ بھی کروں۔

محترم، آپ نے قیاس کر کے بہت سی باتیں فرض کر لی ہیں، جب کہ آپ کو میری ذاتی زندگی کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں، اور جب نہیں ہیں تو میں سرِ بازار آپ کو بتانا بھی نہیں چاہتا کہ ایسی باتیں تو دل میں بیٹھ کر کی جاتی ہیں، کبھی لایئے تشریف وہاں۔

باقی آپ حضور کی اور کوئی بات تو اس کم فہم کے ذہن میں آئی نہیں کہ کچھ کہنے کی جسارت کروں۔ والسلام
 

زونی

محفلین


مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم مسلمان ہر غلط چیز میں قبیحات کو ڈھونڈنے اور ان کی نشاندہی کرنے کی بجائے ہر اچھی چیز اور اچھے موقعے پر قبیحات کا پہاڑ کیوں کھڑا کر دیتے ہیں ، اب باقی سب کچھ تو دور کی بات ھے اپنے پیارے نبی محمد صل اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن منانے میں بھی ہمیں اعتراز ھے جس کا کوئی سر پیر سرے سے ھے ہی نہیں ،جب اللہ تعالی اپنے محبوب پہ درود بھیجتا ھے ، جس کے لئے اس نے دو جہاں بنائے اور جس کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ، اس عظیم ہستی کا یوم پیدائش اگر ہم نہیں منا سکتے تو کس کا منا سکتے ہیں، کونسا ایسا کام ھے جو ہمیں ایک دوسرے کی نظروں میں سرخرو کر سکے گا ، کن چیزوں پہ ہم اکٹھے ہو سکیں گے ، ہم کیوں نوجوان نسل کو اس گھٹن میں مبتلا کر رہے ہیں جس کا دوسرا دروازہ بے لگام آزادی کی طرف کھلتا ھے ، اگر ہم جائزات کو ممنوعات میں شامل کر دینگے اور دین کا دائرہ کار تنگ سے تنگ کرتے چلے جائنگے تو غیر مسلموں کا اسلام کی طرف تو آنا دور کی بات ھے ہمارے بچے بھی اس دین سے بھاگ جائینگے ، کیا اسلام خوشی منانے منع کرتا ھے ، میرا نہیں خیال کہ ہاں ،اسلام تنگ نظری اور بے لگام آزادی دونوں کی نفی کرتا ھے یعنی اعتدال پسندی ہی بہتر راستہ ھے ہمیں چاھہیئے کہ دین کی صحیح تعلیم بچوں تک پہنچایئں اور صرف ممنوعات کو رد کریں اور خوشی اور غم کو اصل پیرائے میں منانے کا وہ طریقہ متعین کر لیں جو آپکے معاشی اور معاشرتی حالات پہ بھی صحیح بیٹھتا ہو۔
 

ظفری

لائبریرین
ربیع الاوّل میں اس "عید میلاد النبی" کا تصور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں تھا۔ یہ رسم مسلمانوں میں بعد کے زمانوں میں رائج ہوئی۔ لہذا اس عید کی نہ کوئی دینی بنیاد ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کی کبھی ترغیب ہی دلائی ہے۔ اس دن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ان کی تعلیمات کا ذکر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن برصغیر میں جس طرح قوالیوں، میلوں، ناچ گانوں اور دولت کے زیاں سے اس کو منایا جاتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تعلیمات کی روح کے بالکل منافی ہے۔
بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے اسے سب سے بڑا تو مانا، مگر انہی شخصیتوں کے زمرے سے مانا جن سے ہم مانوس تھے اور وہ اس زمرے کا شخص ہی نہ تھا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس زمین پر سارے دن اس کے تھے، مگر ہمارے لیے وہ ایک خاص دن میں پیدا ہوا ۔ وہ ہر مہینے کا ماہ تاباں تھا ۔ مگر ہم نے اسے جب دیکھا ، ربیع الاول ہی کے مطلع پر دیکھا ، تقویم خداوندی میں ہر سال اسی کے نام سے معنون تھا، مگر ہماری تقویم میں اس کا یوم ولادت 570 بعد مسیح ہوا۔

ہم نے چاہا کہ ہم سمندر کو کنوئیں میں بند کریں، صحرا کو صحن میں اتاریں اور آسمان کو ردا بنائیں، لیکن وہ جو اس کے ساتھی تھے - صدیق و فاروق، عثمان و حیدر، بلال و بوذر - انھوں نے سمندر کو سمندر، صحرا کو صحرا اور آسمان کو آسمان دیکھا، تب ان پر واضح ہوا کہ وہ جس کی یاد کی شمعیں ہر دل میں فروزاں رہنی چاہیں اور جس کا نام جب دن پہلو بدلے، ہر مسجد کے مناروں سے بلند ہونا چاہیے، یہ اس کی شان سے فروتر ہے کہ اسے ایک یوم میلاد اور ایک ماہ ربیع الاوّل کی شخصیت بنایا جائے۔ وہ عزیز از جاں اور عزیز جہاں ایک دن اور ایک مہینے کی شخصیت نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہر دن، ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے، اس لیے نہ "عید میلاد النبی" نہ "جشن ربیع الاوّل"، بلکہ صبح دم، دن ڈھلے، ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ: اشھد ان لا الہ الّا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ۔

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے تعیّن میں مؤرخین کا دو باتوں پر اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاوّل کے مہینے میں پیدا ہوئے اور دوسرا یہ کہ وہ پیر کا دن تھا۔ لیکن تاریخ کے تعیّن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثریت کے نزدیک صحیح تاریخ 12 ربیع الاوّل ہے۔ لیکن مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 9 ربیع الاوّل، بروز پیر، 20 اپریل 571ء میں ہوئی۔ محمود پاشا نے اس کے جو دلائل دیے ہیں ان کی بنیاد پر یہ تحقیق زیادہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے سارہ خان کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کا جواب اگر کوئی محترم دوست ایک یا دو سطروں میں دے سکے؟

کیا ہمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین ، تابعین یا تبا تابعین کے ادوار میں اس طرح عید میلادالنبی منانے کی کوئی روایت ملتی ہے ؟
 
کیا ہمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین ، تابعین یا تبع تابعین کے ادوار میں اس طرح عید میلادالنبی منانے کی کوئی روایت ملتی ہے ؟

میلاد النبی ہی کیا مجھے تو اسلاف کے دور میں کسی کے بھی میلاد (birth day) منانے کا ثبوت نہیں ملا۔ اور یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں birth day celebration قبیح عمل اور مغربی تہذیب سے در آمدہ تصور کیا جاتا ہے۔

میں عموماً ایسی متنازعہ موضوعات پر کچھ کہنے سے احتراز کرتا ہوں پر جانے کیوں آج اتنی بات لکھ بیٹھا۔

بہر کیف اگر میری اس بات سے کسی کا دل دکھے تو میں شرمسار ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ارے ارے ایسے مواقع پر لڑائیاں نہیں کرتے۔ بس فاروق بھائی کو ذرا چڑ ہے مولویوں سے۔ ۔ ۔ امریکی مولوی ;)

جہانتک مجھے علم ہے نبیوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ اگر سب کی یوم ولادت منائی جائے تو ہمیں سال کے کتنے دن ، بلکہ دن میں کتنوں کی ”وقت پیدائش“ منانی ہوگی؟ :grin:

جہاں تک مجھے علم ہے قرآن اور حدیث سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں کہ نبیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ یا جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ قرآن میں 25 انبیاء کرام کا ذکر ہے یا پھر " بہت سے نبی بھیجے‌" کا ذکر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرے خیال میں بات خوشی منانے یا نہ منانے کی سرے سے ہی غلط ہے، خوشی کیوں نہیں منانی چاہیئے، آخر وہ لوگ جو میلاد النبی کی خوشی منانے کو غلط جانتے ہیں وہ بھی تو اپنے بچوں کی سالگرہ کی خوشی مناتے ہونگے یا اپنے والدین کی سالگرہ منا کر ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہونگے، یہ تو ایک انتہائی فطری چیز ہے اور جذبات انسان کے خمیر میں شامل ہیں، ان سے کون اور کیسے کوئی انکار کر سکتا ہے۔

اصل سوال خوشی منانے کے طریقہ کار پر ہے، مثلاً پچھلے دو دنوں میں خصوصاً اور پچھلے بارہ دنوں میں عموماً پاکستان میں کروڑوں روپے کے جھنڈے اور جھنڈیاں ہوا میں لہرا دی گئیں، کروڑوں روپے کی بجلی استعمال کی گئی، پلاؤ اور متنجن کی دیگیں پکار انہی لوگوں کو کھلا دی گئیں جو پہلے ہی سے ماشاءاللہ "کھاتے پیتے" گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یوں گویا کروڑ ہا اور ارب ہا روپوں کے وسائل ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ سارا روپیہ، حضور پاک (ص) کے نام پر، خوشی خوشی، غرباء میں بانٹ دیا جاتا، کسی اسکول، ہسپتال یا رفاحی ادارے کی نذر کر دیا جاتا۔ کسی کی جان بچ جاتی، کوئی بچہ تعلیم پا جاتا، کوئی 'کفر کی حدوں تک پہنچا ہوا' غریب، اپنا پیٹ بھر لیتا اور خدا کا شکر کرتا، اور آپ کی اس دریا دلی پر اتنے آنسو بہاتا کہ اسکے شکرانے کے آنسو دیکھ کر ہمارے پتھر دل اور پتھر آنکھیں بھی پانی پانی ہو جاتیں۔ میں ان بھک منگوں، پیشہ ور، بے شرم اور رذیل افراد اور اداروں کی بات نہیں کر رہا جن کو میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی بلکہ ان سفید پوش لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنی مجبوریوں کا ذکر اپنے گھر کی دیواروں سے کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، اور طویل اور پچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو کر چپکے سے دنیا سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے کوئی انسان نہیں مرا کوئی مکھی مچھر مر گیا ہو۔

خدا کی قسم، رسول (ص) کی قسم، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی قسم اور ان بچوں اور والدین کی قسم جن کی سالگرہیں منائی جاتی ہیں، اس دنیا میں بہت غربت ہے، بھوک ہے، قحط ہے، بیماری ہے، افلاس ہے ناداری ہے، بیکاری ہے، خواری ہے اور اس کو ختم کرنے کی کیا کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے یا فقط خواہ مخواہ کی منہ ماری ہے۔

وارث بھائی آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ مجھے آپ سے پورا پورا اتفاق ہے۔ یہ جو شو بازی کر کے مال خرچ کرتے ہیں تو اس لیے کہ اخباروں میں ان کی تصویریں چھپیں اور دنیا میں ان کی واہ واہ ہو۔ تو کیا اللہ ان کی نیتیں نہیں جانتا۔ وہ بہتر جانتا ہے۔

دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ قسم صرف اور صرف اللہ کی کھائی جاتی، اس کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں۔ سوائے اللہ کے جس نے اپنی تخلیق کی ہوئی چیزوں کی قسم کھائی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔1950ء کی دہائی میں جماعت اسلامی پاکستان نے تزک و احتشام کے ساتھ غلاف کعبہ تیار کراکے جلوس کی شکل میں شہر شہر گھمایا اور مکہ مکرمہ بھیجا۔ اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔۔۔۔۔۔۔

غلاف کعبہ پاکستان میں تیار ضرور ہوا تھا اور جلوس کی شکل میں شہر شہر گھمایا بھی گیا تھا لیکن یہ سعودی عرب نہیں پہنچا تھا کہ سعودی عرب نے اسے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وجہ یہ ہوئی تھی کہ جب وہ غلاف شہر شہر گھمایا گیا تو لاکھوں لوگوں نے اس کو ہاتھ لگا لگا کر چوما تھا تو سعودی حکومت نے اسی لیے اس کو نہیں لیا تھا۔ اخبارات میں اس بات کا ذکر تک نہیں ہوا تھا کہ غلاف کعبہ مکہ نہیں پہنچا۔

یہاں بھی زائرین، خاص کر پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی، مختلف قسم کے سستے قسم کے عطر بازار سے خرید کر غلاف کعبہ کو ملتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بڑا ثواب کما رہے ہیں۔ جو وہاں منتظم ہوتے ہیں وہ بہت منع کرتے ہیں لیکن کوئی کہاں تک ایسے لوگوں پر نظر رکھ سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتنہ ڈالنے کے لئئے ہر اک بات کو آگئے نہ بڑھایا کریں اب اک دن بعد 23 مارچ ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور 23 مارچ کو پاکستان کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں مناتا ۔
رہی بات دیگر انبیائے کرام کی یوم ولادت منانے کی تو اگر وہ منانی شروع کر دیں تو ابھی تو ان دن منایا جاتا ہے اسی پر مخالفین پورا سال آرام سے نہیں رہ سکتے اور جب سب کے دن منائے جانا شروع ہو گے تو پھر کیا ہو گااور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یوم ولادت پر آپ کا اعتراض یہ یوم عیسی اور یوم موسی کیوں نہیں منایا جاتا تو جناب برحق دین اسلام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عطا کردہ ہے نہ کہ عیسائی مذہب عطا کردہ ہے اور آپ کو اپنےعلم پر دعوی تو بہت بڑا ہے کیا بتا سکتے ہیں کہ مشہور انبیائے کرام علیہ السلام کی یوم ولادت کس کس تاریخ کو ہے ؟؟؟؟

23 مارچ کا تعلق صرف اور صرف پاکستان کے قیام سے ہے اور پاکستانیوں سے ہے چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا کسی اور مذہب کے پیروکار ہوں۔

اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے سب نبیوں نے توحید کی تبلیغ کی ہے۔ یہ عیسائی مذہب حضرت عیسٰی علیہ السلام کا عطا کردہ نہیں ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بھی توحید کی ہی تبلیغ کی تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ ان تمام انبیاء کرام کو ماننا اور ان پر ایمان لانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ کوئی بھی شخص ان پر ایمان نہ لانے کی صورت میں دائرہ اسلام سے خارج ہو گا۔
 

زونی

محفلین
ربیع الاوّل میں اس "عید میلاد النبی" کا تصور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں تھا۔ یہ رسم مسلمانوں میں بعد کے زمانوں میں رائج ہوئی۔ لہذا اس عید کی نہ کوئی دینی بنیاد ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اس کی کبھی ترغیب ہی دلائی ہے۔ اس دن اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ان کی تعلیمات کا ذکر کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن برصغیر میں جس طرح قوالیوں، میلوں، ناچ گانوں اور دولت کے زیاں سے اس کو منایا جاتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تعلیمات کی روح کے بالکل منافی ہے۔
بات دراصل یہ ہوئی کہ ہم نے اسے سب سے بڑا تو مانا، مگر انہی شخصیتوں کے زمرے سے مانا جن سے ہم مانوس تھے اور وہ اس زمرے کا شخص ہی نہ تھا۔ چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس زمین پر سارے دن اس کے تھے، مگر ہمارے لیے وہ ایک خاص دن میں پیدا ہوا ۔ وہ ہر مہینے کا ماہ تاباں تھا ۔ مگر ہم نے اسے جب دیکھا ، ربیع الاول ہی کے مطلع پر دیکھا ، تقویم خداوندی میں ہر سال اسی کے نام سے معنون تھا، مگر ہماری تقویم میں اس کا یوم ولادت 570 بعد مسیح ہوا۔

ہم نے چاہا کہ ہم سمندر کو کنوئیں میں بند کریں، صحرا کو صحن میں اتاریں اور آسمان کو ردا بنائیں، لیکن وہ جو اس کے ساتھی تھے - صدیق و فاروق، عثمان و حیدر، بلال و بوذر - انھوں نے سمندر کو سمندر، صحرا کو صحرا اور آسمان کو آسمان دیکھا، تب ان پر واضح ہوا کہ وہ جس کی یاد کی شمعیں ہر دل میں فروزاں رہنی چاہیں اور جس کا نام جب دن پہلو بدلے، ہر مسجد کے مناروں سے بلند ہونا چاہیے، یہ اس کی شان سے فروتر ہے کہ اسے ایک یوم میلاد اور ایک ماہ ربیع الاوّل کی شخصیت بنایا جائے۔ وہ عزیز از جاں اور عزیز جہاں ایک دن اور ایک مہینے کی شخصیت نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ہر دن، ہر مہینے اور ہر سال کی شخصیت ہے، اس لیے نہ "عید میلاد النبی" نہ "جشن ربیع الاوّل"، بلکہ صبح دم، دن ڈھلے، ایک ہی صدا اور ایک ہی نغمہ: اشھد ان لا الہ الّا اللہ، اشھد ان محمدا رسول اللہ۔

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے تعیّن میں مؤرخین کا دو باتوں پر اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاوّل کے مہینے میں پیدا ہوئے اور دوسرا یہ کہ وہ پیر کا دن تھا۔ لیکن تاریخ کے تعیّن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثریت کے نزدیک صحیح تاریخ 12 ربیع الاوّل ہے۔ لیکن مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 9 ربیع الاوّل، بروز پیر، 20 اپریل 571ء میں ہوئی۔ محمود پاشا نے اس کے جو دلائل دیے ہیں ان کی بنیاد پر یہ تحقیق زیادہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے ۔







ظفری آپ کی تمام باتوں سے مجھے اتفاق ھے بلکہ میں خود بھی اکثر یہی کہتی ہوں کہ اللہ تعالی کی رحمت دنوں کے لحاظ سے محدود نہیں ہو سکتی ، اور یہ بات بھی صحیح ھے کہ نبی پاک کی ولادت کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ھے بلکہ اکثر جید علماء نے 9 ربیع الاول ہی کو صحیح مانا ھے لیکن ایک بات ھے کہ اس دن کو خوشی منانے کی ممانعت بھی تو نہیں کی گئی اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی تو خوشی منائی گئی تھی اور کیا جس ہستی کو دنیا کی اصلاح کیلئے معمور کیا گیا ھے اگر اس کی خوشی منائی جائے تو اس میں کیا غلط بات ہو سکتی ھے لیکن بات طریقہء کار پہ آ جاتی ھے یہ ذمہ داری تو ہمارے علماء کرام اور ریاست کی بنتی ھے کہ وہ ہمیں کس طرح گائیڈ کرتے ہیں اور روپے پیسے کے ضیاع کی بجائے ہمیں دین کی صحیح اساس سے کیسے روشناس کرواتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔حجاز مقدس، یمن، عراق، شام، مصر، لیبیا، ترکی، افغانستان، سمر قند و بخار اور دیگر بلاد اسلامیہ میں قدیم روایات کے طرز پر آج بھی محافل ذکر ولادت کا انعقاد ہوتا ہے۔ جن میں ولادت رسول، فضائل رسول، سیرت رسول، دعوت رسول، کا بیان ہوتا ہے۔ اور مسلمان ذوق و شوق کے ساتھ انھیں سنتے سناتے ہیں۔ اظہار مسرت اور اداء شکر نعمت کے لئے صدقات و خیرات کرتے ہیں۔ اور یہ ساری چیزیں کتاب و سنت کی روشنی میں نہ صرف جائز بلہ محمود و مستحسن ہیں۔ دین میں ان کی اصل اور حکم ہے۔ اور ہر دور کے لحاظ سے اہل اسلام یہ امور خیر انجام دیتے رہتے ہیں۔ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے شکل وہئیت کی تبدیلی سے اصل حکم پر کوئی اثر اور فرق واقع نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔

باقی جگہوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن یہاں سعودی عرب میں عید میلاد النبی کی نسبت سے نہ تو محفلیں ہوتی ہیں نہ جلسے جلوس۔ اگر آپ نے کہیں دیکھے یا سنیں ہیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔

اور یہ بھی بتا دوں کہ یہاں سعودی عرب میں پورے سال میں صرف دو مواقع پر سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں، ایک عید الفطر اور ایک عید الاضحی۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔

موجودہ سربراہ مملکت عبد اللہ بن عبد العزیز کے دور میں 23 ستمبر جو کہ سعودی عرب کا قومی دن ہے اس دن سرکاری طور پر ایک چھٹی دینا شروع ہوئی ہے۔

غیرسرکاری محکموں میں قومی دن کی چھٹی الگ سے نہیں دی جاتی تھی بلکہ اس کو عید کی چھٹیوں میں ایک دن کی اضافی چھٹی سے منسلک کر دیتے تھے۔ اب چونکہ یہ الگ سے چھٹی ہوتی ہے تو عید کی چھٹیوں میں سے ایک دن کی چھٹی منہا کر دی گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری آپ کی تمام باتوں سے مجھے اتفاق ھے بلکہ میں خود بھی اکثر یہی کہتی ہوں کہ اللہ تعالی کی رحمت دنوں کے لحاظ سے محدود نہیں ہو سکتی ، اور یہ بات بھی صحیح ھے کہ نبی پاک کی ولادت کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ھے بلکہ اکثر جید علماء نے 9 ربیع الاول ہی کو صحیح مانا ھے لیکن ایک بات ھے کہ اس دن کو خوشی منانے کی ممانعت بھی تو نہیں کی گئی اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر بھی تو خوشی منائی گئی تھی اور کیا جس ہستی کو دنیا کی اصلاح کیلئے معمور کیا گیا ھے اگر اس کی خوشی منائی جائے تو اس میں کیا غلط بات ہو سکتی ھے لیکن بات طریقہء کار پہ آ جاتی ھے یہ ذمہ داری تو ہمارے علماء کرام اور ریاست کی بنتی ھے کہ وہ ہمیں کس طرح گائیڈ کرتے ہیں اور روپے پیسے کے ضیاع کی بجائے ہمیں دین کی صحیح اساس سے کیسے روشناس کرواتے ہیں۔

سب سے اچھا طریقہ تو یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر بہتر طریقے پر عمل کیا جائے۔ ہر مسلمان یہ جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ نماز باجماعت سے اللہ زیادہ خوش ہوتا ہے یا نماز کے وقت جلوس میں شامل ہو کر خوش ہو گا۔ پھر بھی لوگ جماعت کے ساتھ تو کیا نماز ہی نہیں پڑھتے۔ سب جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں، سب جانتے ہیں دھوکہ دینے سے اللہ ناراض ہو گا پھر بھی لوگ کھلے عام دھوکے دیئے جا رہے ہیں۔

اور یقین مانیں یہ جو لوگ جلوس میں شامل گا گا کر نعتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں، ان میں سے کتنے با وضو ہوتے ہیں، کتنے ایسے ہوتے ہیں جو نماز کے وقت جلوس روک کر نماز باجماعت ادا کرنے قریبی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ میں نے تو بھی دیکھا ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی بعض علاقوں میں سڑکوں پر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہر گزرنے والی سواری سے زبردستی چندہ وصول کرتے ہیں۔ کیا یہ بھی جائز ہے۔

ہمیں اگر اپنے اللہ کو خوش کرنا ہے، اپنی نجات چاہتے ہیں تو صرف اور صرف اللہ کے احکام کی پابندی کر کے ہی کر سکتے ہیں۔ وہ احکام جو ہم تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہنچائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں بہت سارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح ایک اچھا لکھنے والا نہیں ہوں۔ اور جہاں تک علم و عمل کا تعلق ہے تو علم نہ ہونے کے برابر اور عمل اس سے بھی کمتر، اسی لیے میں اس قسم کے مباحثوں میں نہیں پڑتا۔ پھر بھی ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا۔

اگر آپ بازار سے کوئی چیز گھر کے استعمال کی خریدیں، مثلاً آپ نے گھر کے لیے کپڑے دھونے کی ایک مشین خریدی تو اس کے ساتھ ایک پرچہ ترکیب استعمال بھی ملے گا۔ اب اگر آپ اس مشین کا صحیح فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس کو اس پرچہ ترکیب استعمال کے مطابق استعمال کرنا پڑے گا۔ اگر اس کے مطابق استعمال نہیں کریں گے تو نتیجہ آپ کے مرضی کے خلاف ہو گا۔ آپ اگر کپڑے دھونے والے ٹب میں گیلے کپڑے ڈال کر سوکھانے کے لیے استعمال کریں گے یا جہاں کپڑے سوکھانے کے لیے ڈالنے ہیں وہاں دھونے کے لیے ڈال دیں تو کیا ہو گا؟ ظاہر ہے آپ کو فائدہ کی بجائے نقصان ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالٰی نے ہمارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرمایا، ہمیں دینِ اسلام دیا اور ساتھ ہی پرچہ ترکیبِ استعمال قرآن کریم بھی دیا۔ اب اگر ہم اپنی فلاح چاہتے ہیں، اپنی عاقبت سنوارنا چاہتے ہیں، اپنا فائدہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنا ہو گا وگرنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

damsel

معطل
میں بہت سارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح ایک اچھا لکھنے والا نہیں ہوں۔ اور جہاں تک علم و عمل کا تعلق ہے تو علم نہ ہونے کے برابر اور عمل اس سے بھی کمتر، اسی لیے میں اس قسم کے مباحثوں میں نہیں پڑتا۔ پھر بھی ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا۔

اگر آپ بازار سے کوئی چیز گھر کے استعمال کی خریدیں، مثلاً آپ نے گھر کے لیے کپڑے دھونے کی ایک مشین خریدی تو اس کے ساتھ ایک پرچہ ترکیب استعمال بھی ملے گا۔ اب اگر آپ اس مشین کا صحیح فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس کو اس پرچہ ترکیب استعمال کے مطابق استعمال کرنا پڑے گا۔ اگر اس کے مطابق استعمال نہیں کریں گے تو نتیجہ آپ کے مرضی کے خلاف ہو گا۔ آپ اگر کپڑے دھونے والے ٹب میں گیلے کپڑے ڈال کر سوکھانے کے لیے استعمال کریں گے یا جہاں کپڑے سوکھانے کے لیے ڈالنے ہیں وہاں دھونے کے لیے ڈال دیں تو کیا ہو گا؟ ظاہر ہے آپ کو فائدہ کی بجائے نقصان ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالٰی نے ہمارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرمایا، ہمیں دینِ اسلام دیا اور ساتھ ہی پرچہ ترکیبِ استعمال قرآن کریم بھی دیا۔ اب اگر ہم اپنی فلاح چاہتے ہیں، اپنی عاقبت سنوارنا چاہتے ہیں، اپنا فائدہ چاہتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنا ہو گا وگرنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ تو جھوٹ بھی کہتے ہیں کتنی بری بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ کہتے ہیں کہ لکھنا نہیں آتا لیکن آپ نے جو لکھا خوب لکھا اگر کوئی سمجھنا چاہے تو بہت بڑی بات لکھ دی ہے آپ نے۔
ایک بار شکریہ ادا کیا وہ کافی نہ جانتے ہوئے ایک بار پھر شکریہ اتنی اچھی پوسٹ کے لیے :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top