محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
29۔ایک نئی پیروڈی حاضر ہے
غزل
محمد خلیل الرحمٰن
حالِ دِل اُن کو کبھی اپنا سنا بھی نہ سکوں
ایسی اُفتاد پڑی ہے کہ بتا بھی نہ سکوں
ٹوٹنے کی جو مرے ہاتھ تمنا کی تھی
بدد ُعا کے لیے اُن کو میں اُٹھا بھی نہ سکوں
نقشِ پا شوخ ہیں اِتنے کہ الٰہی توبا!
اپنی پلکوں سے میں چاہوں تو اُٹھا بھی نہ سکوں
’’اُس کا پیغام ملا ، وجہِ تسلی نہ ہوا‘‘
کیسی مشکل ہے کسی کو یہ بتا بھی نہ سکوں
غیر کے سامنے آؤ تو یہ مشکِل ہوگی
مارے غیر ت کے میں آنکھوں کو اُٹھا بھی نہ سکوں
اُن کا دیدار سرِ عام ہو محفِل میں خلیلؔ
وائے حسرت کہ پئے دید میں جا بھی نہ سکوں