اب ذرا منطقی طور پر ان اشعار کو دیکھتے ہیں۔۔۔
ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو
دِل سَنگ و خِشت ہے جو تِری آرزُو نہ ہو
اس شعر میں نہ صرف تمام الفاظ چن کر دیوانِ غالب کے ہی استعمال کیے گئے ہیں بلکہ دل کو سنگ و خشت سے تشبیہ دینے کا محاورہ تک غالب کے شعر میں سے چرایا گیا ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
لیکن غالب نے اسم واحد دل کو براہ راست اسم جمع قرار نہیں دیا تھا کہ دل سنگ اور خشت ہے۔
وہ آہ رائیگاں ہے نہ لگ جائے جس سے آگ
اُن آنسووَں پہ خاک کہ جن میں لہُو نہ ہو
اس شعر میں صرف ایک لفظ "رائگاں" ایسا ہے جو غالب کے اشعار سے نہیں لیا گیا باقی نہ صرف تمام الفاظ بلکہ کسی شے پر خاک کا محاورہ اور لہو رونے کا محاورہ بھی غالب کے اشعار سے نکال کر شامل کیا گیا ہے:
خاک ایسی زندگی پہ
ایسا آساں نہیں لہو رونا
بے کیف بَادہ ہیچ ہے، بے رَنگ گُل فضُول
وہ حُسن کیا کہ جس میں مُحبّت کی خُو نہ ہو
اس شعر میں بھی اوپر کے دو شعروں کی طرح تمام کے تمام الفاظ دیوانِ غالب سے چربہ ہیں لیکن غالب نے "فضول" کے لفظ کو بمعنی بکواس، فالتو یا ناکارہ کبھی نہیں برتا بلکہ محض زیادہ یا وافر کے معنوں میں استعمال کیا ہے:
شوقِ فضول و جراتِ رندانہ چاہیے
غالِبؔ نَمازِ عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خُونِ جِگر سے وضُو نہ ہو
یوں تو اس شعر میں بھی تمام الفاظ غالب کے دیوان سے چرائے گئے ہیں لیکن۔۔۔ اس شعر میں کافی شواہد ایسے موجود ہیں جن سے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ لغو بکواس غالب کی نہیں ہو سکتی۔
اول۔ نمازِ عشق کی اصطلاح غالب کے ہاں نہیں پائی جاتی بلکہ شاید اس دور کے کسی بھی شاعر کے ہاں نہیں ہے یہ اصطلاح کیونکہ اس اصطلاح کا پہلا ماخذ شاید بلھے شاہ کے ہاں ملتا ہے اور یوں یہ بلھے شاہ ہی کی ایجاد ہے۔
دوم۔ مقبولیّت کی ی کو بلا تشدید باندھنے کا مکروہ کام غالب سے متوقع نہیں۔
سوم۔ مقبولیت کو قبولیت کے معنوں میں غالب نے استعمال نہیں کیا۔ بجائے اس کے ہاں قبول ہونے کا محاورہ رائج ہے۔
چہارم۔ مصرع ثانی میں "اپنے" خونِ جگر جیسی کمزور ترکیب جو محض وزن پورا کرنے کی کوشش محسوس ہوتی ہو، غالب نہیں برتتا۔
مجموعی طور پر بات کی جائے تو چاروں اشعار میں محض علت ہی علت ہے یعنی یوں نہ ہو تو یوں اور یوں نہ ہو تو یوں۔۔۔ کم از غالب سے ایسے گھٹیا پن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ چار اشعار لکھے اور چاروں صرف یوں نہیں تو تُوں نہیں کا مضمون ہی بیان کر رہے ہوں۔ نیز، چاروں اشعار میں صرف 2 الفاظ (رائیگاں اور مقبولیت) ایسے ہیں جو غالب کے دیوان سے نہیں چرائے گئے اور ان دو الفاظ میں سے بھی ایک (مقبولیت) کو ہر دو تلفظ اور معنی کے اعتبار سے غلط یا کم از کم غالب کے انداز سے ہٹ کر باندھا گیا ہے۔