غالِبؔ کی اِیک غزل جو کہ دیوانِ غالِبؔ میں نہیں ہے - "ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو"

عؔلی خان

محفلین
ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو
دِل سَنگ و خِشت ہے جو تِری آرزُو نہ ہو

وہ آہ رائیگاں ہے نہ لگ جائے جس سے آگ
اُن آنسووَں پہ خاک کہ جن میں لہُو نہ ہو

بے کیف بَادہ ہیچ ہے، بے رَنگ گُل فضُول
وہ حُسن کیا کہ جس میں مُحبّت کی خُو نہ ہو

غالِبؔ نَمازِ عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خُونِ جِگر سے وضُو نہ ہو

(شاعر: مرزا غالِبؔ)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ جناب۔

اب یہ تو اساتذہ کرام ہی اس پر کچھ کہہ سکیں گے کہ چچا کی یہ غزل آج تک دیوان سے باہر کیوں ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو​
دِل سَنگ و خِشت ہے جو تِری آرزُو نہ ہو​

بھیا ، غزل جس کی بھی ہے ، بہت خوب ہے۔۔۔:)
 

فاتح

لائبریرین
دیوانِ غالب کے کسی نسخے میں یہ اشعار نہیں ہیں۔ یوں بھی غالب کم از کم اتنا گھامڑ تو نہیں لگتا کہ اسے "مقبولیّت" کا تلفظ ہی نہ معلوم ہوتا اور مقبولیّت کی ی کو بلا تشدید باندھنے کا کارِ حرام کرتا۔۔۔ یہ یقیناً کسی موجودہ دور کے نام نہاد غالب کے اشعار ہیں۔
علی خان بابا جانی کے سوال کا جواب تو دیں۔ آپ ماخذ بتا دیں تاکہ ہم دیوان غالب نسخہ اردو ویب کو اپڈیٹ کر سکیں
بہن جی! ایسی اور بھی چار چھے گھڑ کے ڈال دیتے ہیں اگر غالب کے نام پر دھبے لگانا ہی مقصود ہے تو جی کھول کے لگائے جانے چاہییں۔
 

جیہ

لائبریرین
آپ بے فکر رہیں۔ ماخذ کی پوری تحقیق کی جائے گی تب شامل ہوگی یہ غالب کی یہ مبینہ غزل :)
 

سید ذیشان

محفلین
کالی داس گپتا رضا کا مکمل نسخہ جس میں غیر مطبوعہ کلام بھی جمع ہے یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں بھی مجھے یہ غزل نظر نہیں آئی۔
صفحہ 218 پر اسی زمین میں ایک غزل ہے
بے درد، سر بہ سجدہ الفت فرو نہ ہو
جوں شمع، غوطہ داغ میں کھا، گر وضو نہ ہو
 

فاتح

لائبریرین
اب ذرا منطقی طور پر ان اشعار کو دیکھتے ہیں۔۔۔
ہر جُستجُو عَبث جو تِری جُستجُو نہ ہو
دِل سَنگ و خِشت ہے جو تِری آرزُو نہ ہو
اس شعر میں نہ صرف تمام الفاظ چن کر دیوانِ غالب کے ہی استعمال کیے گئے ہیں بلکہ دل کو سنگ و خشت سے تشبیہ دینے کا محاورہ تک غالب کے شعر میں سے چرایا گیا ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
لیکن غالب نے اسم واحد دل کو براہ راست اسم جمع قرار نہیں دیا تھا کہ دل سنگ اور خشت ہے۔
وہ آہ رائیگاں ہے نہ لگ جائے جس سے آگ
اُن آنسووَں پہ خاک کہ جن میں لہُو نہ ہو
اس شعر میں صرف ایک لفظ "رائگاں" ایسا ہے جو غالب کے اشعار سے نہیں لیا گیا باقی نہ صرف تمام الفاظ بلکہ کسی شے پر خاک کا محاورہ اور لہو رونے کا محاورہ بھی غالب کے اشعار سے نکال کر شامل کیا گیا ہے:
خاک ایسی زندگی پہ
ایسا آساں نہیں لہو رونا
بے کیف بَادہ ہیچ ہے، بے رَنگ گُل فضُول
وہ حُسن کیا کہ جس میں مُحبّت کی خُو نہ ہو
اس شعر میں بھی اوپر کے دو شعروں کی طرح تمام کے تمام الفاظ دیوانِ غالب سے چربہ ہیں لیکن غالب نے "فضول" کے لفظ کو بمعنی بکواس، فالتو یا ناکارہ کبھی نہیں برتا بلکہ محض زیادہ یا وافر کے معنوں میں استعمال کیا ہے:
شوقِ فضول و جراتِ رندانہ چاہیے
غالِبؔ نَمازِ عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خُونِ جِگر سے وضُو نہ ہو
یوں تو اس شعر میں بھی تمام الفاظ غالب کے دیوان سے چرائے گئے ہیں لیکن۔۔۔ اس شعر میں کافی شواہد ایسے موجود ہیں جن سے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ لغو بکواس غالب کی نہیں ہو سکتی۔
اول۔ نمازِ عشق کی اصطلاح غالب کے ہاں نہیں پائی جاتی بلکہ شاید اس دور کے کسی بھی شاعر کے ہاں نہیں ہے یہ اصطلاح کیونکہ اس اصطلاح کا پہلا ماخذ شاید بلھے شاہ کے ہاں ملتا ہے اور یوں یہ بلھے شاہ ہی کی ایجاد ہے۔
دوم۔ مقبولیّت کی ی کو بلا تشدید باندھنے کا مکروہ کام غالب سے متوقع نہیں۔
سوم۔ مقبولیت کو قبولیت کے معنوں میں غالب نے استعمال نہیں کیا۔ بجائے اس کے ہاں قبول ہونے کا محاورہ رائج ہے۔
چہارم۔ مصرع ثانی میں "اپنے" خونِ جگر جیسی کمزور ترکیب جو محض وزن پورا کرنے کی کوشش محسوس ہوتی ہو، غالب نہیں برتتا۔

مجموعی طور پر بات کی جائے تو چاروں اشعار میں محض علت ہی علت ہے یعنی یوں نہ ہو تو یوں اور یوں نہ ہو تو یوں۔۔۔ کم از غالب سے ایسے گھٹیا پن کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ چار اشعار لکھے اور چاروں صرف یوں نہیں تو تُوں نہیں کا مضمون ہی بیان کر رہے ہوں۔ نیز، چاروں اشعار میں صرف 2 الفاظ (رائیگاں اور مقبولیت) ایسے ہیں جو غالب کے دیوان سے نہیں چرائے گئے اور ان دو الفاظ میں سے بھی ایک (مقبولیت) کو ہر دو تلفظ اور معنی کے اعتبار سے غلط یا کم از کم غالب کے انداز سے ہٹ کر باندھا گیا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
فاتح بھائی غالب کی مبینہ غزل کے آخری شعر اور جس غزل کی نشاندہی میں نے کی اس کے مطلع پر غور فرمائیں۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی غالب کی مبینہ غزل کے آخری شعر اور جس غزل کی نشاندہی میں نے کی اس کے مطلع پر غور فرمائیں۔ :)
ان دو اشعار پر؟
بے درد، سر بہ سجدہ الفت فرو نہ ہو
جوں شمع، غوطہ داغ میں کھا، گر وضو نہ ہو

غالِبؔ نَمازِ عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خُونِ جِگر سے وضُو نہ ہو
ارے بھائی، کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی! اس گنگو تیلی کے شعر میں کوئی اایک بھی صنعت نہیں ملتی سوائے علاقے کے دو الفاظ نماز اور وضو کو اکٹھا باندھنا
 

سید ذیشان

محفلین
ان دو اشعار پر؟
بے درد، سر بہ سجدہ الفت فرو نہ ہو
جوں شمع، غوطہ داغ میں کھا، گر وضو نہ ہو

غالِبؔ نَمازِ عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خُونِ جِگر سے وضُو نہ ہو
ارے بھائی، کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی! اس گنگو تیلی کے شعر میں کوئی اایک بھی صنعت نہیں ملتی سوائے علاقے کے دو الفاظ نماز اور وضو کو اکٹھا باندھنا

میرا مقصد بھی یہی تھا کہ الفاظ بھی وہی استعمال کئے گئے ہیں- یعنی پہلے مصرعے میں سجدے کا ذکر ہے اور دوسرے میں بے وضو ہونے کا۔
 

عؔلی خان

محفلین
واہ جی واہ! یہاں پر تو جوابات کا ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ :applause: جناب فاتح صا حب غالباً غالب کے حقیقی بھتیجے لگتے ہیں اسی لیے غالباً ان کے جوابات کچھ زیادہ ہی جارحانہ ہیں۔ :blushing: جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ (مبینہ غزل) غالب نے کسی خط میں اپنے کسی دوست کو لکھی تھی۔ اس لیے دیوانِ غالب میں نہیں ہے۔ مہدی حسن صاحب کو کسی نے یہ کہہ کر دی اور انھوں نے گا دی۔ باقی نہ تو میری غالب سے کسی قسم کی کوئی یاد اللہ تھی، ہے اور نہ ہی ہونے کی کچھ امید ہے۔ اس لیے میں غالب صاحب کے جناب فاتح جیسے بھتیجے اور بھتیجیوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس مبینہ غزل کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جزاک اللہ اور شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
واہ جی واہ! یہاں پر تو جوابات کا ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ :applause: جناب فاتح صا حب غالباً غالب کے حقیقی بھتیجے لگتے ہیں اسی لیے غالباً ان کے جوابات کچھ زیادہ ہی جارحانہ ہیں۔ :blushing: جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ (مبینہ غزل) غالب نے کسی خط میں اپنے کسی دوست کو لکھی تھی۔ اس لیے دیوانِ غالب میں نہیں ہے۔ مہدی حسن صاھب کو کسی نے یہ کہہ کر دی اور انھوں نے گا دی۔ باقی نہ تو میری غالب سے کسی قسم کی کوئی یاد اللہ تھی، ہے اور نہ ہی ہونے کی کچھ امید ہے۔ اس لیے میں غالب صاحب کے جناب فاتح جیسے بھتیجے اور بھتیجیوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس مبینہ غزل کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جزاک اللہ اور شکریہ۔ :)

بھائی میرے اس جرح پر خفا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ جب کوئی دعویٰ کرتے ہو تو اس کا ثبوت لانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے جب کہا کہ یہ غزل دیوان میں نہیں ہے تو پھر اس کا ماخذ بتانا بھی ضروری تھا- :)
 

فاتح

لائبریرین
واہ جی واہ! یہاں پر تو جوابات کا ایک میلہ لگا ہوا ہے۔ :applause: جناب فاتح صا حب غالباً غالب کے حقیقی بھتیجے لگتے ہیں اسی لیے غالباً ان کے جوابات کچھ زیادہ ہی جارحانہ ہیں۔ :blushing: جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ (مبینہ غزل) غالب نے کسی خط میں اپنے کسی دوست کو لکھی تھی۔ اس لیے دیوانِ غالب میں نہیں ہے۔ مہدی حسن صاھب کو کسی نے یہ کہہ کر دی اور انھوں نے گا دی۔ باقی نہ تو میری غالب سے کسی قسم کی کوئی یاد اللہ تھی، ہے اور نہ ہی ہونے کی کچھ امید ہے۔ اس لیے میں غالب صاحب کے جناب فاتح جیسے بھتیجے اور بھتیجیوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس مبینہ غزل کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جزاک اللہ اور شکریہ۔ :)
آپ کی جانب سے میری ذات کے متعلق کیے گئے تبصرے کو نظر انداز کرتے ہوئے موضوع پر فوکس کرتے ہیں۔۔۔
اگر غالب کے کسی خط میں تھی تب تو معاملہ ہی نمٹ جاتا ہے کہ خطوطِ غالب بھی شائع شدہ شکل میں موجود ہیں۔۔۔ آپ مذکورہ مکتوب کا حوالہ دے دیجیے۔
اور آپ سے اس لیے کہا جا رہا ہے کہ یہ اشعار آپ نے لگائے ہیں غالب کے نام سے جن کا کسی کو علم نہیں تو ان کا حوالہ بھی آپ سے ہی طلب کیا جائے گا جیسا کہ سید ذیشان صاحب نے لکھا کہ
بھائی میرے اس جرح پر خفا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ جب کوئی دعویٰ کرتے ہو تو اس کا ثبوت لانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ نے جب کہا کہ یہ غزل دیوان میں نہیں ہے تو پھر اس کا ماخذ بتانا بھی ضروری تھا- :)
 

عؔلی خان

محفلین
جناب فاتح صاحب! میں نے جو کچھ کہنا تھا (عؔلی خان نے کہا: "جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ (مبینہ غزل) غالب نے کسی خط میں اپنے کسی دوست کو لکھی تھی۔ اس لیے دیوانِ غالب میں نہیں ہے۔ مہدی حسن صاحب کو کسی نے یہ کہہ کر دی اور انھوں نے گا دی۔") وہ میں نے کہہ دیا۔ میرے پاس مزید کوئی "ثبوت" نہیں ہے اور نہ ہی میں نے غالب شناسی کا کوئی "دعویٰ" کیا ہے۔ اب اگر آپ غزل کا تیا پانچا کرنے کی مشق جاری رکھنا چاہیں اور ثابت کرنا چاہیں عروض یا تلفظ کی رو سے (کیونکہ مجال ہے غالب نے یا مہدی حسن نےکبھی کوئی گستاخی کی ہو۔)کہ یہ غزل غالب کی نہیں ہے تو چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ جزاک اللہ۔ :)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
جناب فاتح صاحب! میں نے جو کچھ کہنا تھا (عؔلی خان نے کہا: "جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ (مبینہ غزل) غالب نے کسی خط میں اپنے کسی دوست کو لکھی تھی۔ اس لیے دیوانِ غالب میں نہیں ہے۔ مہدی حسن صاحب کو کسی نے یہ کہہ کر دی اور انھوں نے گا دی۔") وہ میں نے کہہ دیا۔ میرے پاس مزید کوئی "ثبوت" نہیں ہے اور نہ ہی میں نے غالب شناسی کا کوئی "دعویٰ" کیا ہے۔
یعنی مختصراً آپ نے فیس بک یا کہیں اور سے من و عن کاپی کی اور یہاں پیسٹ کر دی لیکن حوالہ آپ کے پاس کوئی نہیں ہے۔
اب اگر آپ غزل کا تیا پانچا کرنے کی مشق جاری رکھنا چاہیں اور ثابت کرنا چاہیں عروض یا تلفظ کی رو سےکہ یہ غزل غالب کی نہیں ہے تو چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ کیونکہ مجال ہے غالب نے کبھی کوئی گستاخی کی ہو۔ جزاک اللہ۔ :)
یہاں آپ محض اٹکل پچو کر رہے ہیں۔ اسے تیا پانچا کرنا نہیں بلہکہ تنقیدی جائزہ لینا کہتے ہیں میرے عزیز بھائی۔
اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ غالب نے کبھی کوئی گستاخی یا غلطی کی ہے یا نہیں تو جواباً عرض ہے کہ اول تو ہم کسی بھی ادیب یا تخلیق کار کے کلام کا جائزہ اس کی مجموعی تخلیقی صلاحیت و مہارت کو سامنے رکھ کر ہی لیتے ہیں کہ آیا مبینہ شے اس کی صلاحیت سے لگا کھاتی ہے یا نہیں اور دوم یہ کہ اگر آپ خاکسار کے تجزیے کو مکمل پڑھنے کی زحمت گوارا فرما لیتے تو جان لیتے کہ میں نے صرف تلفظ کی غلطی کی جانب اشارا نہیں بلکہ دیگر کئی عوامل کو زیرِ بحث لایا ہوں کہ جن کی روشنی میں کسی طور بھی یہ نہیں لگتا کہ یہ غالب کا لکھا ہوا کلام ہو۔
 

عؔلی خان

محفلین
یعنی مختصراً آپ نے فیس بک یا کہیں اور سے من و عن کاپی کی اور یہاں پیسٹ کر دی لیکن حوالہ آپ کے پاس کوئی نہیں ہے۔

یہاں آپ محض اٹکل پچو کر رہے ہیں۔ اسے تیا پانچا کرنا نہیں بلہکہ تنقیدی جائزہ لینا کہتے ہیں میرے عزیز بھائی۔
اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ غالب نے کبھی کوئی گستاخی یا غلطی کی ہے یا نہیں تو جواباً عرض ہے کہ اول تو ہم کسی بھی ادیب یا تخلیق کار کے کلام کا جائزہ اس کی مجموعی تخلیقی صلاحیت و مہارت کو سامنے رکھ کر ہی لیتے ہیں کہ آیا مبینہ شے اس کی صلاحیت سے لگا کھاتی ہے یا نہیں اور دوم یہ کہ اگر آپ خاکسار کے تجزیے کو مکمل پڑھنے کی زحمت گوارا فرما لیتے تو جان لیتے کہ میں نے صرف تلفظ کی غلطی کی جانب اشارا نہیں بلکہ دیگر کئی عوامل کو زیرِ بحث لایا ہوں کہ جن کی روشنی میں کسی طور بھی یہ نہیں لگتا کہ یہ غالب کا لکھا ہوا کلام ہو۔

حضور! مان لیتے ہیں جی کہ آپ نے غالب شناسی میں، عروض میں اور تنقیدی جائزہ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے- یہ غزل میں نے مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل سے "کاپی" کی ہے۔ اگر آپ اس بات کا بھی"تنقیدی جائزہ" لینا چاہتے ہیں تو ازراہِ مہربانی جناب مہدی حسن کے ساتھ رابطہ کیجیے۔ شکریہ۔ :)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
حضور! مان لیتے ہیں جی کہ آپ نے غالب شناسی میں، عروض میں اور تنقیدی جائزہ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے-
میری پی ایچ ڈی غالبیات یا عروض میں نہیں ہے۔ :)
یہ غزل میں نے مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل سے "کاپی" کی ہے۔ اگر آپ اس بات کا بھی"تنقیدی جائزہ" لینا چاہتے ہیں تو ازراہِ مہربانی جناب مہدی حسن کے ساتھ رابطہ کیجیے۔ شکریہ۔ :)
گویا آپ کی نظر میں غالب کے کلام کی جانچ کے لیے میراثیوں بھانڈوں کے اقوال سند قرار پاتے ہیں۔ واہ چہ خوب۔
خیر آپ اگر کوئی علمی گفتگو کرنا چاہیں تو بندہ حاضر ہے لیکن یوں بلا حوالہ طعن و تشنیع یقیناً آپ کے (اور میرے) قیمتی وقت کا زیاں ہے۔ بہت شکریہ
مع السلامہ
 
Top