ارے قبلہ یہ رنگ و نور اور پھر خط کشیدہ الفاظ، میں سمجھا آپ نے کوئی صنعت لگانے کا ربط دیا ہوگا لیکن یہ تو وہی ہوا کہ کوہ کندن و کاہ بر آوردن۔ لگتا ہے اس صنعت میں بھی آپ یدِ طولٰی رکھتے ہیں۔ میرا اشارہ صریحاً ضرب المثل کی طرف ہے۔
fatehh,
جی صرف نظر سے کام ضرور لیا تھا پر معذرت پر قطعا یہ نہیں کہا جائے گا کہ ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔
کیونکہ بہرحال یہ نام بہت اہم ہے-
اور ہر کوئی امیدوار محبت ہو یہ بھی ضروری نہیں ۔ ۔بہت سے لوگ محبت بانٹنے کے فلسفے پر بھی یقیں رکھتے ہیں
السلام علیکم!
حضرت آپ نے ہفتہ بھر میں جتنی فارسی سکھا دی ہے اُتنی تو حافظ کا دیوان بھی شیلف میں لگے لگے نہ سکھا سکا۔ زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم۔
بات اگر صرف کوہ کندن تک ہوتی تو میں پیام شاہجہانپوری کے الفاظ میں کہتا کہ
وہ تو فرہاد تھا جو تابِ ستم لا نہ سکالیکن کاہ بر آوردن کہہ دینے کے بعد یہ شعر پڑھنے کے قابل بھی نہ چھوڑا کہ فرہاد کو تو پہاڑ کھود کر گو محبوب نہ سہی مگر شہیدِ محبت کا درجہ تو مل گیا تھا۔
آؤ اِس شہرِ ستم میں ہمیںزندہ دیکھو
لیکن یہ بھی آپ کا احسان ہے کہ اس فارسی ضرب المثل کی اردو ہم منصب ضرب المثل استعمال کر کے اُس صنعت میں یدِ طولٰی نہ دلایا ورنہ۔۔۔
والسلام
السلام علیکم!
سب سے پہلے تو شکریہ امید اور محبت آپ کی محبت نواز طبع کا۔
آپ نے فلسفہ کا ذکر کیا تو اس فن کے تو محب صاحب ہی بے تاج بادشاہ ہیں۔ رہی بات محبتیں بانٹنے کی تو یہ تو آپ کو ماننا ہی پڑے گا کہ محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے اور کیا کوئی یہ امید کر سکتا ہے کہ بانٹنے سے یہ دولت گھٹے گی؟ نہیں نا! تو جب یہ جانتے بوجھتے کہ محبت بڑھے گی، مزید شدّت کے ساتھ واپس آئے گی کوئی محبت بانٹے تو صاف ظاہر ہے کہ اُسے خواہ اپنی ہی سہی مگر محبت بڑھنے کی امید تو ہے۔ یعنی محبتیں بانٹنے والے بھی امیدوارِ محبت کہلائے جا سکتے ہیں۔ اور فی الحقیقت وہی اس لقب کے حقدار ہیں کہ عملی طور پر سامان کر نے کے بعد امید رکھتے ہیں۔ جبکہ اگر موازنہ کیا جائے محض زبانی امیدواران کا تو اُن میں اور سیاسی امیدواران میں کوئی فرق نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سل۔م اپنے کبھی اپنے اصحاب کو بانداز ظریفانہ "یا عبداللہ" کہہ کر مخاطب فرماتے اور صحابہ کے استفسار پر کہ یا رسول اللہ (ص) میرا نام تو فلاں یا فلاں ہے آپ فرماتے کہ بجا۔۔۔ مگر ہو تو اللہ کے بندے یعنی عبداللہ۔
امید ہے اب میرا موقف قدرے واضح ہو گیا ہو گا اور آپ کی محبت سے ہمیں امید ہے کہ اب ضرور یہ سننے کو مل جائے گا اس معذرت کی "قطعاً" ضرورت نہیں۔
والسلام
سچ کہا ہے فاتح ، وارث نے جس عمدگی سے فارسی کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے اس سے امید ہے کہ اہل فارس بھی دھوکہ کھا کر اردو ویب پر جلد ہی آنا شروع ہو جائیں گے اور پھر جب انہیں حقیقت حال معلوم پڑے گی تو وارث کا کچھ بندوبست لازم کریں گے ، عین ممکن ہے کہ وہ اصرار کریں کہ یہ بندہ ہمارے کام کا زیادہ ہے اس کے حقوق اردو سے ہمارے نام منتقل کر دیے جائیں۔
السلام علیکم!ماشاءاللہ کیا نستعلیقیات کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔۔
فاتح، میں کبھی کبھار اردو ویب کے ان کمنگ لنکس کو چیک کرتا ہوں تو کئی فارسی سائٹس کے روابط نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ alexa کے ویب سائٹ ٹریفک سٹیٹس میں بھی اردو ویب پر ایران سے خاطر خواہ ٹریفک نظر ہے۔ اس کی وجہ یہی لگتی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔
سچ کہا ہے فاتح ، وارث نے جس عمدگی سے فارسی کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے اس سے امید ہے کہ اہل فارس بھی دھوکہ کھا کر اردو ویب پر جلد ہی آنا شروع ہو جائیں گے۔
”السلام علیکم!
سب سے پہلے تو شکریہ امید اور محبت آپ کی محبت نواز طبع کا۔
آپ نے فلسفہ کا ذکر کیا تو اس فن کے تو محب صاحب ہی بے تاج بادشاہ ہیں۔ رہی بات محبتیں بانٹنے کی تو یہ تو آپ کو ماننا ہی پڑے گا کہ محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے اور کیا کوئی یہ امید کر سکتا ہے کہ بانٹنے سے یہ دولت گھٹے گی؟ نہیں نا! تو جب یہ جانتے بوجھتے کہ محبت بڑھے گی، مزید شدّت کے ساتھ واپس آئے گی کوئی محبت بانٹے تو صاف ظاہر ہے کہ اُسے خواہ اپنی ہی سہی مگر محبت بڑھنے کی امید تو ہے۔ یعنی محبتیں بانٹنے والے بھی امیدوارِ محبت کہلائے جا سکتے ہیں۔ اور فی الحقیقت وہی اس لقب کے حقدار ہیں کہ عملی طور پر سامان کر نے کے بعد امید رکھتے ہیں۔ جبکہ اگر موازنہ کیا جائے محض زبانی امیدواران کا تو اُن میں اور سیاسی امیدواران میں کوئی فرق نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سل۔م اپنے کبھی اپنے اصحاب کو بانداز ظریفانہ "یا عبداللہ" کہہ کر مخاطب فرماتے اور صحابہ کے استفسار پر کہ یا رسول اللہ (ص) میرا نام تو فلاں یا فلاں ہے آپ فرماتے کہ بجا۔۔۔ مگر ہو تو اللہ کے بندے یعنی عبداللہ۔
امید ہے اب میرا موقف قدرے واضح ہو گیا ہو گا اور آپ کی محبت سے ہمیں امید ہے کہ اب ضرور یہ سننے کو مل جائے گا اس معذرت کی "قطعاً" ضرورت نہیں۔
والسلام
”
fatehh,
محبت اور کاروبار میں شاید یہی فرق ہوا کرتا ہے کہ محبت میں محبتیں بانٹ کر یہ امید نہیں لگائی جاتی کہ یہ محبتیں ا ضافے کیساتھ واپس آئے گی-
یا ہم نے جو لگایا ہے وہ دگنا ہو کر ہم تک پہنچے گا ۔ ۔ ۔پھر جو آس ہی نہ رکھتے ہوں وہ امیدوار محبت کیسے کہلا سکتے ہیں ؟؟؟؟؟
ویسے جس طواطر سے تشریحات کا سلسلہ جاری ہے اس پر یہ سننے کی امید رکھنا کہ معذرت کی ضرورت نہیں ۔۔ کم از کم آپ کو خوش گمان تو ثابت کرتا ہے-
آپ نے فلسفہ کا ذکر کیا تو اس فن کے تو محب صاحب ہی بے تاج بادشاہ ہیں۔
فاتح جو فلسفہ آپ نے محبت اور امید کا پیش کیا ہے اس کے بعد اگر آپ نے مجھے تاج والا بادشاہ بنایا ہوتا تو میں فلسفہ کا تاج آپ کے سر پر سجا دیتا مگر وائے افسوس کہ نہ تاج ہے نہ تخت پیش کروں تو کیا کرون۔
من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ۔
"بروٹس تم بھی؟"کوئی بھی مشکل ہو تو فاتح خود ہی سنبھال لیجیے گا اور حالات بہتر ہوتے ہی مجھے بتا دیجیے گا
"تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں اور۔۔۔"
حضرت یہاں حالات کشیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور آپ ہیں کہ ہنوز۔۔۔
آپ نے ملاحظہ نہیں کیا شاید مگر وہ تو میں نے کافی پہلے ہی مانگ لی تھی اور دو مرتبہ۔قبلہ بہتر ہے سیدھے سادھے امید اور محبت سے معافی مانگ لیں۔
آپ نے ملاحظہ نہیں کیا شاید مگر وہ تو میں نے کافی پہلے ہی مانگ لی تھی اور دو مرتبہ۔
السلام علیکم!
معافی کی ضرورت نہیں-
السلام علیکم!
محب صاحب آپ کا دائرہ تو میرے قدم کی طرح سبز ہی ہے یعنی اس وقت بھی جاگ رہے ہیں۔ یہی صوفیانہ (اور عاشقانہ) طرز تو آپ کو فلاسفر بنا گئی ہے۔
اور میں یہ سمجھا کہ آپ سو چکے ہوں گے اسی لئے آپ کو ذپ ارسال کر کے اب خود کی نیند کی وادیوں میں بھٹکنے ہی والا تھا۔ جواب تو لکھنے کو دل کر رہا ہے لیکن اُس کے لئے ایک مقدّر سے سیاہ تر کافی بنانا پڑے گی جس کی ہمّت نہیں۔
اب صبح ہی جائزہ لیتا ہوں کہ پہلے ہی وارث صاحب اور آپ کی لگائی بجھائی کی وجہ سے امید اور محبت نے بھی بے لاگ برہمی کا اظہار کیا ہے۔
فلسفیانہ ترتیب تو نہیں جانتا میں مگر اتنا کہوں گا کہ محبت کا آغاز تو پیدائش بلکہ قبل از پیدائش ہی ہو جاتا ہے۔ جب کہ امید تو ضروریات کے ساتھ مربوط ہے۔
صوفی محب علوی صاحب!ویسے مجھ معصوم کو آپ نے ایسے ہی گھسیٹ لیا میں تو مسلسل بات کو صوفیانہ رنگ دینے کی کوشش میں ہوں یہ اور بات کہ بات بار بار پھسل کر عاشقانہ رنگ اختیار کر لیتی ہے شاید عشق اور تصوف میں ربط ہی اتنا گہرا ہے۔
اب یہ تو امید اور محبت ہی بتائیں گی جنہیں آپ نے انتہائی سفاکی میرا مطلب تھا کہ صفائی سے صفِ آدم سے ہی باہر نکالنا چاہا ہے۔امید کو ضروریات سے مربوط کرکے آپ نے بہت ظلم کیا ہے اور کا حساب تو وہ خود ہی آپ سے لیں گی کہ کیسے آپ نے یہ جراتِ رندانی کی کہ ان کے نام کے ایک حصہ کو یوں مادیت سے جوڑ دیا، توبہ توبہ
ان کے نام کے ایک حصہ کو یوں مادیت سے جوڑ دیا