محمداحمد
لائبریرین
غزل
یہ جو شعروں میں جان پڑتی ہے
کوئی اُفتاد آن پڑتی ہے
ڈانٹ پڑتی ہے دل کو اکثر ہی
اور کبھی بے تکان پڑتی ہے
آنا چاہتا ہے مجھ سے ملنے وہ
راہ میں آن بان پڑتی ہے
خود سے کیوں کر کھنچا کھنچا ہوں میں
تھی کوئی بات، دھیان پڑتی ہے
شور ایسا کہ کچھ نہ سُن پاؤں
اک صدا یوں تو کان پڑتی ہے
بد گُمانی، وضاحتیں ، توبہ
ایک پر اک گٹھان پڑتی ہے
حوصلوں میں دراڑ ڈال کے دیکھ
پسِ ہر تہہ چٹان پڑتی ہے
اُس کی لاٹھی تو ہے ہی بے آواز
چوٹ بھی بے نشان پڑتی ہے
آ گیا ہوں فرازِ طور پہ میں
دونوں جانب ڈھلان پڑتی ہے
گورِ حسرت سے متّصل، دل میں
خواہشوں کی دُکان پڑتی ہے
کیا کہیں اُس گلی کا قصّہ ہم
واں تو اک داستان پڑتی ہے
محمد احمدؔ
یہ جو شعروں میں جان پڑتی ہے
کوئی اُفتاد آن پڑتی ہے
ڈانٹ پڑتی ہے دل کو اکثر ہی
اور کبھی بے تکان پڑتی ہے
آنا چاہتا ہے مجھ سے ملنے وہ
راہ میں آن بان پڑتی ہے
خود سے کیوں کر کھنچا کھنچا ہوں میں
تھی کوئی بات، دھیان پڑتی ہے
شور ایسا کہ کچھ نہ سُن پاؤں
اک صدا یوں تو کان پڑتی ہے
بد گُمانی، وضاحتیں ، توبہ
ایک پر اک گٹھان پڑتی ہے
حوصلوں میں دراڑ ڈال کے دیکھ
پسِ ہر تہہ چٹان پڑتی ہے
اُس کی لاٹھی تو ہے ہی بے آواز
چوٹ بھی بے نشان پڑتی ہے
آ گیا ہوں فرازِ طور پہ میں
دونوں جانب ڈھلان پڑتی ہے
گورِ حسرت سے متّصل، دل میں
خواہشوں کی دُکان پڑتی ہے
کیا کہیں اُس گلی کا قصّہ ہم
واں تو اک داستان پڑتی ہے
محمد احمدؔ
آخری تدوین: