اس کے لیے خصوصی مبارکباد قبول کریں، کیونکہ داد کے ڈونگرے کے بعد کم ہی کسی کو یہ توفیق ملتی ہے۔ ہماری نظروں سے آئے روز یہ گزرتے رہتے ہیں، اور ستم یہ کہ کئی ایک تو بالکل تگڑی جان پہچان والے ہیں چنانچہ ان سے کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا۔
بہرحال، اب تو چچا جان (الف عین) کی ہدایت کے مطابق ان لوگوں پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے، پھر بھی دل کی کڑھن تو سدا بہار شے ہے۔
ویسے کچھ مضامین اسی سلسلے میں اپنے بلاگ پر ہم نے لکھ رکھے ہیں، شاید آپ کے کام آ سکیں۔ "شاعر نہیں اچھے شاعر بنیے"
محترم شکیب صاحب
آداب
سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح آپ کا شکریہ کروں ۔ آپکا لکھا مضمون محض دو بار ہی پڑھا تھا کہ اندر یہت بڑی تبدیلی آ گئ۔ یہ مضمون تو بلاشبہ کئ کتابوں پر بھاری ہے۔ ابھی جو غزل لکھی تو خودبخود صحیح چیزیں دماغ میں آنے لگیں۔ سوچتی ہوں کہ اب ہر نماز کے بعد وظیفوں کے ساتھ ملا کر پڑھنے لگوں۔ (یہ دماغ کہہ رہا ہے کہ طاق راتوں میں بھی پڑھ لو بہن اچھا رہے گا۔ جلنے والے جلتے رہیں ھمیں کیا پرواہ۔ ایسوں کی کون سنتا ہے۔)
ان اشعار کو نہ تو تقطیع کے اژدہے نے نگلا اور نہ ہی الفاظ اصلاح کی مشین سے شرم سے سرخ ہوئے۔ آپ بتائیے کیا میں بلا وجہ ہی تو خوش فہمی کا شکار تو نہیں ھو رہی۔ اگر یہ خوش فہمی ہو تو بلا تامل خاک میں ملا دیجیے گا ۔ "کہ دانا خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے۔"
تمھارے آنے کا موسم بھی آن ہی پہنچا
اسی خیال کو لے کر یہ دل لہکتا ہے
گھڑی ہی گذری ہےجو وہ یھاں سے گذرا ھے
کہ اسکی خوشبو سےآنگن مرا مہکتا ہے
وہ اجنبی ہے تو پھر کیوں مجھے شناسا لگے
عجیب دل ہے اسے دیکھ کے بہکتا ہے
ارے نہ دیکھو مجھے ایسی گہری نظروں سے
تمہاری چشم سے عارض مرا دہکتا ہے
مجھے رقیب سے شکوہ ہے تو غلط کیا ہے
تمھارے آتے ہی آخر کو کیوں چہکتا ہے