غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
آتا ہے کون شمع امامت لئے ہوئے
اپنے جلوے میں فوج ہدایت لئے ہوئے
ہاتھوں جام سرخ شہادت لئے ہوئے
لب دعائے بخش امت لئے ہو ئے
پھیلی بو فضا میں شہہ مشرقین کی
آتی ہے کربلا میں سواری حسین کی
زہرا بھی ساتھ ہیں حسن مجتبیٰ بھی ساتھ
جعفر بھی ساتھ ہیں مشکل کشا بھی ساتھ
حمزہ بھی ساتھ ہیں جناب رسول خدا بھی ساتھ
تنہا نہیں حسین کہ ہیں انبیاءبھی ساتھ
شور درود اٹھتا ہے سارے جہان سے
برسا رہا ہے پھو ل ملک آسمان سے
گھوڑے پہ آگے آگے ہیں خود شیر کربلا
ہیں گرد سب عزیز و رفیقان با وفا
ابرار و پاک ہیں و حق آگاہ و پارسا
پھیلی ہوئی ہے چہروں کے چاروں طرف ضیاء
پورے بہار پر ہے گلستاں بتول کا
چھوٹا سا قافلہ ہے یہ آل رسول کا
بر میں قبائیں سر پہ عمامے بندھے ہوئے
تیغیں کمر میں پہلو میں خنجر لگے ہوئے
دانتوں میں ہونٹ رانوں گھوڑے جمے ہوئے
بازو بھرے بھرے ہوئے سینے تنے ہوئے
کمسن ہیں کچھ ضعیف ہیں کچھ نوجوان ہیں
پیشانیوں پہ سجدہء حق کے نشان ہیں
ہمت پہ و لو لوں پہ شجاعت کو ناز ہے
طاعت گذایوں پہ عبادت کو ناز ہے
صورت پہ د ست ضانع قدرت کو ناز ہے
بازو میں زور وہ ہے کہ قوت کو ناز ہے
نقشے ہیں اک مصور زریں نگا ر کے
بکھرے ورق ہیں مصحف پروردگار کے
علی سردار جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
حسین تیری قناعت کو سلام
حسین تری عبادت کو سلام
حسین ترے عشق کو سلام
حسین تری شہادت کو سلام
 

سیما علی

لائبریرین
لہو لہو ہے زبان قلم بیاں کے لئے
یہ گل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لئے

ہمیں تو منزل آخر ہے آستان حسینؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور آستاں کے لئے

سخن کی تاب کہاں اب ، کہ دل ہے خوں ناصر
زبان تیرچلی اک بے زباں کے لئے
ناصر کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
یہی کہتے ہوئے شہہ نے چراغوں کو بجھایا ہے
یہ ہیرے ہیں اجالوں میں انہیں پرکھا نہیں جاتا
 

سیما علی

لائبریرین
جاگے ہیں رات کے تو نقاہت ہے آشکار
‏ڈورے جو ُسرخ ہیں تو یہ ہے نیند کا خُمار

‏مستانہ ہے یہ طور کہ جھکتی ہیں بار بار
‏آنسو ہیں یہ صدف میں یا دُرِ شاہوار

‏روئے ہیں فُرقتِ شہِؐ عالی جناب میں
‏نرگس کے پھول تیر رہے ہیں گلاب میں
‏⁧‫میرانیس‬⁩
 

سیما علی

لائبریرین
ہر سمت سے جوں جوں یہ بیاں کرتی تھی خلقت
‏گھوڑے پہ چلے جاتے تھے روئے ہوئے حضرت
‏ہر ایک سے فرماتے تھے یہ تھام کے رقّت
‏تم سب سے بھی شبیرؐ کی ہے آخری رخصت
‏اپنوں سے چھٹا حال نہ کیوں غیر ہو میرا
‏مانگو یہ دعا خاتمہ بالخیر ہو میرا
‏⁧‫روانگی_قافلہ_حسینیؑ‬⁩
‏⁧‫میرانیس‬⁩
 

سیما علی

لائبریرین
شہؑ کے سینے پہ سکینہؑ کو جو نیند آتی تھی
‏بو اسے باپ کی سینے کی بہت بھاتی تھی
‏مرزا دبیرؔ
 

سیما علی

لائبریرین
پیاسا جو رہا نہر پہ پیاسا وہ یہی ہے
‏ٹکڑے ہوا ساحل پہ جو سقا وہ یہی ہے
‏دریائے کرم نام ہے جس کا وہ یہی ہے
‏شرمندہ ہے جس پیاس سے دریا وہ یہی ہے
‏اپنے لیے تو نہر پہ رکھتے نہ قدم بھی
‏پر تشنہ تھا بھائی بھی سکینہؑ بھی حرم بھی
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
ناگاہ صبحِ منزلِ آخر عیاں ہوئی
‏لیکن یہ صبح سبطِ نبیﷺ کو کہاں ہوئی
‏جس جا سواری رک کے نہ آگے رواں ہوئی
‏حیراں سپاہ ِ خسروِ کون و مکاں ہوئی
‏بدلے چھ گھوڑے دوشِ نبیﷺ کے سوار نے
‏لیکن قدم اٹھایا نہ اک راہوار نے
‏مرزا دبیر ✍️
 

سیما علی

لائبریرین
امامؑ عالی مقام کا جناب حر کے لشکر کو پانی پلانا اور ابن محاربی کا بیان

‏رہوار اور سوار تھے گنتی میں اک ہزار
‏حاصل ہوا ہر ایک کو آرام اور قرار
‏پانی جو ڈگڈگا کے پیا تین تین بار
‏جان آ گئی تنوں میں گیا حال احتضار
‏دشمن ترحم شہ والا سے بچ گئے
‏جتنے تھےسیر چشمی ِمولا سے بچ گئے
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
آہوئے کعبہ قربانئ داور ہے حُسینؑ
‏فدیہء اُمتِ مرحومِ پیمبرﷺ ہے حُسینؑ
‏بیکس و بے وطن و بیدل و بے پر ہے حُسینؑ
‏صبرِ ایوبؑ کی شمشیر کا جوہر ہے حُسینؑ
‏گو کہ تلوار پھری حلق پہ کئ باری
‏شکر پر خالق باری کا کیا ہر باری
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیک یا ہانیؓ بن عروہ
‏بے شرم ! مسافر پہ ترس کھانا ہے لازم
‏مرجانہ کے بیٹے تجھے مرجانا ہے لازم
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
مولا کا مرے نام غریب الغُربا ہے
‏حقا کہ رضاؑ مالکِ تسلیم و رضا ہے
‏اور ضامن ِ ثامن بھی لقب ہے تو بجا ہے
‏ضامن وہ مُحبوں کی شفاعت کا ہوا ہے
‏جرات میں ید الله کی شمشیر کا وارث
‏غربت میں ہے مظلومی ِ شبیرؑ کا وارث
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
آواز دی خضرؑ نے کہ لبیک یا امام
‏لے آؤں بهرکے مشکوں میں آب ِ رواں تمام
‏کوثر پکارا زیر ِ قدم میں کروں مقام
‏باراں نے دی ندا کہ برسنے لگے غلام
‏شہؑ بولے اپنے خوں میں وضو اب کریں گے ہم
‏پانی کا ذکر جانے دو پیاسے مریں گے ہم
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
ایمان جس کا پھل ہے وہ طوبا حسینؑ ہے
‏کوثر ہے جس کا قطرہ وہ دریا حسینؑ ہے
‏بیمار سب جہاں میں ہیں مسیحا حسینؑ ہے
‏خالق کے بعد بندوں میں یکتا حسینؑ ہے
‏یکتا یہ بندہ صبر و شکیبائ میں ہوا
‏جس کا کوئ شریک نہ تنہائ میں ہوا
‏مرزا دبیرؔ
 

سیما علی

لائبریرین
‏اذان دے گئی حضرت بلال ؓ کی ہستی
نماز پڑھ گئے ___ دُنیا میں کربلا والے

سلام یا حسین علیہ سلام♥️
 

سیما علی

لائبریرین
جو کربلا میں شاہِ شہیداں سے پھِر گئے
کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھِر گئے
(امیر مینائی)
 

سیما علی

لائبریرین
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران باصفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے

اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابن بوترابؑ
واللہ فرط شرم سے ہوجائیں آب آب

قرباں نہ ہو جو آپ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تف اس حیات پر

کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشت و غا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
جوش ملیح آبادی
 
Top