محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
بے شک، بے شکوہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران باصفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے
اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابن بوترابؑ
واللہ فرط شرم سے ہوجائیں آب آب
قرباں نہ ہو جو آپ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تف اس حیات پر
کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشت و غا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
جوش ملیح آبادی
کربلا اسباب کی جنگ نہ تھی بلکہ ایمان اور حوصلے کی جنگ تھی۔ جس میں بلا شبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ساتھ دینے والوں کے ساتھ مل کر اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کے پرچم کو سربلند کیا۔