غیر حاضر اور خاموش محفلین

نور وجدان

لائبریرین
عید کی آمد آمد ہے ،حج کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ یونہی چلتے پھرتے ہم نے ایک خبر ٹی وی پر دیکھی کہ محفلین میں گوشت خوری کا رُحجان زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ یہی وجہ کہ آن لائن بکرا شاپنگ تک شُروع کردی ہے ۔وہ جو رونق تھے محفل کی ، وہ چلے گئے جانے کہاں اور رہ گئے صرف گوشت کھانے والے کیا !

یونہی کچھ دن پہلے ہماری بات محفل کے خادم اعلیٰ ابن سعید سے ہوئی ! آج کل ان کا رُحجان سیاحت میں زیادہ ہے مجھے بتا رہے تھے اس وجہ سے وہ بکرا خریدنے سے قاصر ہیں ۔ یہ کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں نمی مجھے اپنی آنکھوں میں محسوس کی ۔کہنے لگے : '' آپ میرے دُکھ کا اندازہ نہیں کرسکتی، حیات کی سختیوں نے عُمر عزیز کا وہ حصہ جو ''لو لیٹرز'' لکھ کر گزارنا تھا چھین لیا ہے ۔ اس کی وجہ ان کا جلد شہادت کے رتبے پر فائز ہونا ہے۔ یہ عید میری قربانیوں کی تو نشانی ہے! میں بکرا لاؤں اب کیسے ؟ میں بکرا کھاؤں اب کیسے ؟ میرے دکھ کا اندازہ کرے گا کون ''ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے کہ محفل کے خادم آعلیٰ نے خادم ہونے کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے ۔یونہی ہم نے سرسری سا تذکرہ محترم قبلہ راحیل فاروق سے کردیا ۔ ہر بات ان کی '' بی بی اور صاحب'' سے شروع ہوتی ہے اور کیجیو اور دیجیو پر ختم ہوتی ہے ۔ اس کیجیو اور دیجیو کی گردان نے ہی ہمیں ان کا مداح کردیا ۔ ذات پات کی تفریق تو بالکل نہیں کرتے ! عالی مرتبت پروقار!!! مزاح نگارِ محفل!!!مزاح میں اس قدر بڑھ گئے کہ صنف نازک کو صاحب بنانے پر تُل گئے ۔ اللہ بچائے ان سے !!! ہم نے ان کو ابن سعید کی کہانی سُنا ڈالی ۔ بولے :

'' شیخ صاحبہ!!! (وہی عادت جن کا اوپر ذکر کیا ہے ) ہماری سنیے ! ہم آج کل ہم عارضہ قلب میں مبتلا ہیں(ان کے اسٹیٹس سے چوری کردہ خبر ) ہمارے لیے دُعا کیجیو !ہم یونہی تو غالب بننے کی کوشش کررہے !!! دیکھیو ! ہماری تصویر دیکھیو! روز بدلتے ہیں ! ہماری آہوں سے روز تصویر کے نقش دھندلا جاتے ہیں ! ہم روز ''سیلفی '' لینے پر مجبور ہیں ۔ اس غم میں ہم بکرا خریدنے بھول گئے ۔ ہائے !

ابن مریم ہوا کرئے کوئی !
مرضِ عشق کی دوا کر کوئی
بیگم سے مجھ کو جدا کرے کوئی
روز نئی نرس ملا کرے کوئی

ہم نے کل ان کے نئے جاری ہونے والے دھاگے میں نظم پڑی کہ ظلم سہ سہ کر اس قدر مجبور ہوجائیں گے اور اس طرح کی نظم رسید کریں گے :

عاشق کی دعائیں لیتی جا !
جا تجھ کو چنے کی دال ملے
چہرے پر نکل آئے تجھے چیچک
لگ جائے جوانی میں عینک

صد افسوس ! اب یہ اس طرح کا کلام وجود میں لائیں گے ۔ جس تن لاگے وہی جانے کے مصداق ان کے دُکھ نے ان کو بد دعائیں دینے پر مجبور کردیا ہے ۔ بے چارے ! !! شہید ہیں اس راہ کے !!!ہم وہاں سے اٹھے کہ ہمیں ان کے مومن ہونے پر پورا پورا یقین آگیا کہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ بکرا خریدنا مگر مرض دلرُبائی ہے !

ہماری نظر اچانک ''پیروڈی بادشاہ '' پر ہوئی ! نا جانے کیوں وہ کلام چوری کرکے پیروڈیز بنائے جارہے ہیں ۔مزے کی بات ہے کہ اصل سے زیادہ نافع ان کی پیروڈیز ہیں ۔ پہلے پہلے تو یہ غالب ،عدیم و قتیل کے کلام پر ہاتھ صاف کرتے تھے مگر آج کل محفلین کے کلام کے بخیے ادھیڑ کر ان کو سینے میں مصروف ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سر کٹا کے شہیدوں کی صف میں اول درجے پر ہیں ۔ بیگم کے ظُلم و ستم کا شکار ہیں (معذرت کے ساتھ) کبھی برتن توڑتے ہیں تو کبھی برتن دھونے میں مصروف دکھتے ہیں ۔ کبھی ان کو بھوک کی وجہ سے دوپہر کے کھانے میں صرف فرائی انڈے پر گزارا کرنا پڑتا ہے محترم محمد خلیل الرحمٰن جناب ، جن پر کسی محترم عین عین صاحب نے جوابی فتوی دائر کیا ہے ۔

عمر اتنی نہیں طویل میاں
باز آجاؤ اب خلیل میاں
بند کرو اپنے یہ ڈرامے تم
پیروڈی میں اے خودکفیل میاں
مختصر یہ کہ تم سدھر جاؤ
آؤ ڈالوں تمھیں نکیل میاں


محفلین کو 'ہزاروی سے دس ہزاروی '' تک فائز کرنے والے سپہ سالار جانے کیوں صنف نازک سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ہمیں اس قسم کا شرف دینے میں تامل سے کام لیتے رہیں ہیں اور جانے کب تک لیں گے ۔ ہم خود کو اس دھاگے میں ان کے نام کے ساتھ مبارک باد دیتے ہوئے ''دو ہزاروی '' کا درجہ لیے لیتے ہیں تاکہ ہمارا نام بھی کسی کھاتے میں شُمار کیا جاسکے ۔ اگر ان کی نثر دیکھیں تو جلن ہوتی ہے ، ملکی از خارج پالیسی کو بحال کرکے لکھنے میں ماہر ہیں ۔ اس کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کی بات کرکے بچوں کو سیاست سے محظوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ جانے بغیر ''بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں '' ان سے ہوتے محفل کے ایک اور رکن یاد آگئے ! موصوف کبھی کبھی تشریف لاتے ہیں . یہ بھی خود کو شہیدوں کی صف میں شُمار کرتے ہیں !!!باتیں کرنے پر آئیں تو بہت سنجیدگی سے کرتے ہیں مگر ان کی بات پڑھنے کے بعد ان کی حس مزاح کو داد دیے بنا رہا نہیں جاتا . موصوف کی شاعری پر کتاب نظر نہیں آتی مگر ہے یہ ادھر اُدھر .. کوئی نہ کوئی روئے زمین پر پڑھ ہی رہا ہوگا . اس لیے انہوں نے نثر لکھنا شُروع کردی . ان کی ایک تحریر بڑی مشہور ہے ! اس کا نام ''قیدی'' ہیں .. قیدی سے یاد آیا ہے کہیں غالب نے ان جیسے حضرات کے لیے یہ شعر تو نہیں کہا . ٖغالب کی پیشن گوئیوں پر قربان جایئے !!!

قیدِ حیات و شادی دراصل دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی ان سے نجات پائیں کیوں

آپ کو معلوم تو ہوگیا ہوگا کون ہیں وہ ؟؟ جی سلمان حمید آج کل محفل میں غیر حاضر رہنے والے ''' جوان بوڑھے'' ہیں۔مزاح نگاری ہٹ کر اگر لکھنا شروع کریں تو ان میں اشفاق احمد بننے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے . غالباً یہ اشفاق احمد کی تصویر سے متاثر ہوگئے ہیں . ان کی آخری تحریر بھی کسی'' بوڑھے اور جوان بابے'' پر تھی . اللہ تعالیٰ ان کے درجات تب تک بُلند رکھے جب تک یہ محفل میں رہ کر اپنے تجربات سے مستفید کرتے رہیں گے .ایک اندازے کے مطابق ان کی محفل سے تعطلی کی وجہ بسیار خوری ہے . حکماء کے مشورے پر علم کرتے ہوئے یہ محفل میں وقت دینے سے قاصر ہیں . ان کی طرح ایک اور غیر حاضر رکن جو ہر وقت دعا ئیں دینے میں مصروف نظر آتے ہیں.ان کا پختہ یقین ہے کہ دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اس لیے یہ '' بہت -----دُعائیں لکھتے '' اس خالی جگہ کو دُعا لینے والا خود پُر کرے کہ ان کی دُعا انکی طرح نایاب ہوتی ہے .جی !! محترم ! نایاب صاحب !! آج کل دُعاؤں کا شعبہ عارضی طور پر برخواست کرتے ہوئے اس محفل سے غیر حاضر ہیں ۔ ان کی یہی خوبی ہے کہ یہ عرصے بعد تشریف لاتے ہیں اور اکٹھے دُعائیں دے کر جان چھڑا لیتے ہیں ۔ ہم نے محفل کے باوثوق رُکن سے یہی سُنا ہے کہ یہ لاہور تشریف لا رہے ہیں . جانے اس بات کتنی صداقت ہے کہ یہ محفلین کافی وثوق سے بات کہتے ہیں اس لیے ان کا نا م ہی سب نے ''با وثوق'' رکھ دیا ہے . ان کا ماننا ہے کہ روح جسم کےپیرائے سے نکل کر دنیا کی سیر کرنے پر قادر ہے . بچپن میں ان کی روح یہ کام کیا کرتی تھی اب یہ بے چین ہیں کہ شہزادہِ وقت بھیگ مانگنے پر مجبور ہے ، ملتان کو مدینتہ اولالیاء ایسے تو نہیں کہا جاتا ہے . جناب! پیدائشی ولی ہیں ! ان کی ولایت بچپن میں ظاہر ہوگئی ! کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے سے! ولایت کی تمام نشانیاں جاننے کے باوجود کاسہ پھیلائے ہوئے کسر نفسی کی حد کردی ہے کہ اگر یہ کسی کھاتے میں نہیں ہیں تو ہم ان سے کیا فیض پائیں گے ؟؟جی ! آوازِ دوست !!!


آوازِ دوست سے یاد آیا کہ محفل میں ایک اور دوست بھی موجود ہے جو بڑا ادبی بندہ ہے۔ جی ! ادب دوست جھک جھک کر ملتا ہے ، خاموش رہتا ہے مگر بات کرتا ہے تو حققیت کھول دیتا ہے .رونے پر آئے تو دوسروں کے آنسو خارج کروانے کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہے . ہمیں تو ان کی تحریر '' جا یار دو سگریٹ تو لے آ'' نہیں بھولی جس پر ان کو منفی ریٹنگ نے اتنا مایوس کیا کہ اور کوئی تحریر لکھی ہی نہیں . منفی ریٹنگ سے یاد آیا کہ آج کل محفل میں منفی ریٹنگ کے بٹن کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے .صرف اس بات پر دو لوگوں نے ایک دوجے کو خارجی کہ دیا . اس منفی ریٹنگ کی تاثیر کو دیکھتے ہوئے مارک صاحب نے فیس بُک پر منفی ریٹنگ کا بٹن متعارف کروادیا . اس کا کریڈٹ یقینا محفلین کو جاتا ہے . ایک بی بی آئیں محفل میں ! اور آتے ہیں چھا گئیں ! وہ بھی آج کل تعطیل پر ہیں ۔ ان کی جاسوسی میرے مخبر نہ کرسکے کہ وہ محترمہ خود سب سے بڑھی جاسوس ہیں ۔ "خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے '' آج کل وہ بھی غیر حاضر ہیں ۔ شاید محترمہ اس خیال کی حامی ہیں کہ ''قدر کم کردیتا ہے روز روز کا آنا جانا'' یعنی کے ''انا پرور'' ہیں ۔ شزہ مغل آپ کو اس محفل میں یاد کیا جاتا ہے آپ کے جنات کے بارے میں تجربات سے ہمارا دل نہیں بھرا کہ مدت ہوئی کوئی قصہ اور کہانی نہیں سنی ! باقی کے محفلین کا ذکر جاسمن نے کیا ہے ۔ احباب ان کے دھاگے سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔ مجھے اجازت دیجئے ! باقی محفلین کا ذکر پھر کبھی سہی !
 
آخری تدوین:
عرض ہے کہ بچھڑا، بکرا، اور عیدِ قربان کے تعلق سے ہم بھی کافی حساس واقع ہوئے ہیں
آگئی ہے عیدِ قرباں، اب جگالی کیا کریں
ایک غزل قربانی کی عید پر

محمد خلیل الرحمٰن

بچھڑا نہیں ہوتا ہے ،یا بکرا نہیں ہوتا
قربان ترے نام پہ کیا کیا نہیں ہوتا

سالم کبھی بکرا، کبھی رانیں، کبھی دستی
اس ڈیپ فریزر میں رکھا کیا نہیں ہوتا

دو لاکھ کا بکرا ہے تو دس لاکھ کی گائے
کِس عید پہ اب ایسا تماشا نہیں ہوتا

اِس عید پہ کھال اپنی مدرسے کو ہی دیں گے
بے کھال مگر ہم سے گزارا نہیں ہوتا

مہنگائی کے ہاتھوں ہیں پریشان کچھ ایسے
قربانی کا اِس بار تو یارا نہیں ہوتا​

ہمارا بکرا خواب میں
محمد خلیل الرحمٰن
( علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

میں سویا جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جِس سے مِرا اضطراب

یہ دیکھا کہ میں جا رہا ہوں کہیں
چلا آتا ہے ایک ریوڑ وہیں

عجب تھا تقدس عجب نور تھا
ہر اِک جانور ایسے مخمور تھا

جو کچھ حوصلہ پاکے آگے بڑھا
تو دیکھا کہ ریوڑ یہ بکروں کا تھا

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
گلے میں تھے مالا سی ڈالے ہوئے

مجھے یاد اب پچھلی عید آگئی
جو مجھ سے بھی قربانی کرواگئی

یہ رب کی رضا کا تھے ساماں ہوئے
یہ بکرے وہی تھے جو قرباں ہوئے

اسی سوچ میں تھا کہ بکرا مِرا
اچانک مجھے یوں نظر آگیا


وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
وہ آدھا تھا بس، باقی آدھا نہ تھا

کہا میں نے پہچان کر میری جاں
مجھے چھوڑ کر آگئے تم کہاں


جدائی میں رہتا ہوں میں بے قرار
پروتا ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی


جو بکرے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب

رُلاتی ہے تُجھ کو جدائی مِری
نہیں اِس میں کچھ بھی بھلائی مِری

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا

دھڑ اپنا دِکھا کر یہ کہنے لگا

سمجھتا ہے تُو ہوگیا کیا اِسے
تِرےہی فریزر نے کھایا اِسے

اِسی دَم مجھے یاد بھی آگئیں
وہ بکرے کی رانیں جو فریزر میں تھیں

جنہیں میں نے رکھّا بچا کر وہاں
بچا کر کہوں یا چھپا کر وہاں​

یوں تو ہمیں صرف گوشت کھانا ہی آتا ہے لیکن کبھی کبھی ( ونس ان اے بلو مون) یعنی عید بقر عید پر اپنی نصف بہتر کا ہاتھ بٹانے کے لیے گوشت بنا بھی لیتے ہیں۔

20141007-0001_zps2aa9ac9e.jpeg

 
یونہی ہم نے سرسری سا تذکرہ محترم قبلہ راحیل فاروق سے کردیا ۔
بہتان طرازی کی حد ہو گئی یعنی۔ ہمیں تو آرزو ہی رہی کہ
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا​
ہم نے ان کو ابن سعید کی کہانی سُنا ڈالی ۔
یہ وقوعہ میری پیدائش سے پہلے کا ہو گا۔ اماں جان کو شاید یاد ہو۔
دیکھیو ! ہماری تصویر دیکھیو! روز بدلتے ہیں !
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے​
ہم روز ''سیلفی '' لینے پر مجبور ہیں ۔
یہ سیلفیاں نہیں ایلسیاں(else+ian) ہیں۔ ہمارے پاس جو فون ہے اسےٹیکنالوجی کی برکات میں سے فقط سانپ والی گیم نصیب ہوئی ہے۔ کیمرا تو کئی دہائیاں دور ہے ابھی!
عنوان آپ کی تحریر کا کچھ ایسا ہے کہ ہمارا ذکر موزوں نہ تھا اس میں۔ لیکن چونکہ آپ نے اشعار بھی تمام غیرموزوں نقل کیے ہیں اس لیے غم آدھا ہو گیا۔ باقی اللہ حساب کتاب کو کافی ہے!
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت خوبصورت لکھا ہے بٹیا!

ہم تو دم سادھے پڑھتے گئے کہ جانے اگلاجملہ کیا آئے۔ ولے بخیر گزشت۔

جیتی رہیے۔ سلامت رہیے

آداب!
امید ہے بُرا نہیں منایا ہوگا۔۔۔ کچھ حال یہ ہے کہ سوچ نہیں ۔۔۔بس لکھا ہے ! آپ مرے لیے بہت قابلَ احترام ہیں ۔

شکریہ دُعا کا !
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

نور وجدان

لائبریرین
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
عرض ہے کہ بچھڑا، بکرا، اور عیدِ قربان کے تعلق سے ہم بھی کافی حساس واقع ہوئے ہیں
آگئی ہے عیدِ قرباں، اب جگالی کیا کریں

ان کو دیکھ کر مجھے بھوک لگنے لگی ہے ! آج ہم روزے سے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے !

ایک سے بڑھ کر ایک 'ہزل ' ۔۔۔۔یونہی تو آپ کی مداح نہیں ہوں ۔ گوشت والی عید سے ایک بات یاد آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سبزی خورہ بنا کر بھیجا ! ہم بمشکل 7 یا 8 سال کے ہوں گے جب ایک عید کے دن میری امی حضور نے زبردستی گوشت یعنی کلیجی پکڑا دی ! عید کا موقع تھا ہم کو چھُپانے کو جگہ نہیں مل رہی تھی ! ہم نے اس کو شوکیش میں رکھ دیا ! چیونٹیوں نے گوشت سے پیٹ بھر کر مہمانوں کے جسم کو نوچنا شُروع کردیا ۔ مت پُوچھیے ! اس کے بعد ہمیں کتنی سننا پڑی !

یہاں بکرا ، بچھڑا اور گائے مگر اُونٹ اور بھینس نہیں ! یہ تو آدھی عید ہوئی نا
 

نور وجدان

لائبریرین
بہتان طرازی کی حد ہو گئی یعنی۔ ہمیں تو آرزو ہی رہی کہ
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا​

یہ وقوعہ میری پیدائش سے پہلے کا ہو گا۔ اماں جان کو شاید یاد ہو۔

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے​

یہ سیلفیاں نہیں ایلسیاں(else+ian) ہیں۔ ہمارے پاس جو فون ہے اسےٹیکنالوجی کی برکات میں سے فقط سانپ والی گیم نصیب ہوئی ہے۔ کیمرا تو کئی دہائیاں دور ہے ابھی!
عنوان آپ کی تحریر کا کچھ ایسا ہے کہ ہمارا ذکر موزوں نہ تھا اس میں۔ لیکن چونکہ آپ نے اشعار بھی تمام غیرموزوں نقل کیے ہیں اس لیے غم آدھا ہو گیا۔ باقی اللہ حساب کتاب کو کافی ہے!



جی ! آپ کی وقوع پیدائش پر میری دادو نے یہ واقعہ آپ کی اماں کو سُنایا تھا۔ تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو !

!
 
آخری تدوین:
Top