فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں ۔ فاتح الدین بشیرؔ

فاتح

لائبریرین

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جلدی لگاؤ شکایت۔۔۔ ابھی تک تو مجھے معلوم نہیں ہوا کہ عاطف بٹ نے ایسا کچھ کہا ہے لیکن تمھاری جانب سے شکایت پر کسی تحقیق کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔۔۔ ۔ بس پھر۔۔۔ ہم تم ہوں گے عاطف ہو گا
کیوں عاطف بٹ لالہ ؟؟؟ کیا خیال ہے ہو جائے پھر فاتح لالہ کے ہاتھوں آپ کی پٹائی ؟؟؟؟:smug:
 

باباجی

محفلین
بہت ہی خوب فاتح بھائی
بہت ہی خوب

سانسیں لے کر جانے والا جاتے جاتے چھوڑ گیا
چند اک بال مرے کالر پر اور اک بالی جھولی میں
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
 

فاتح

لائبریرین
بہت ہی خوب فاتح بھائی
بہت ہی خوب

سانسیں لے کر جانے والا جاتے جاتے چھوڑ گیا
چند اک بال مرے کالر پر اور اک بالی جھولی میں
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
بہت شکریہ محبت ہے آپ کی۔
 

فاتح

لائبریرین
42 ہزار ٹھیک ہے لالہ ۔ لیکن میرے مرنے سے پہلے ہی دے دیجیے گا ۔ ابھی میں 600 کی منگوا لیتی ہوں ۔
چلو اب تم نے بتا دیا کہ بیالیس ہزار لینے ہیں۔۔۔ بس ٹھیک ہے۔۔۔ ویسے بیالیس ہزار تو 600 کا ستر گنا تھے جو قیامت کے روز ملنے تھے بیٹا جی۔
 

طارق شاہ

محفلین
آخری "فع" کو "فاع" کر کے دیکھیں۔۔۔
اور آخری "کیسے" کی ے حذف کر کے "کیس" پڑھیں۔۔۔
اب بھی مسئلہ ہے؟
فاتح صاحب! یہ شعر :

یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے​
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں​
کا پہلا مصرع مِرے خیال میں یوں کرنے سے رواں اور صحیح رہتا ہے کہ :​
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو کیسے کیسے دوست دیے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں

اگرشعرکو اور مربوط کرنا چاہیں تو یوں کہ:
(اس طرح کرنے سے ایک مصرع سے "تجھ" بھی نکل جائے گا)

یہ تو دیکھ عوض میں رب نے کیسے کیسے دوست دیے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
ویسے ہی اپنا خیال لکھ دیا، متفق ہونا ضروری نہیں​
میری بہت سی داد آپ کے لئے​
بہت خوش رہیں​
 

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب! یہ شعر :

یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے​
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں​
کا پہلا مصرع مِرے خیال میں یوں کرنے سے رواں اور صحیح رہتا ہے کہ :​
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو کیسے کیسے دوست دیے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں

اگرشعرکو اور مربوط کرنا چاہیں تو یوں کہ:
(اس طرح کرنے سے ایک مصرع سے "تجھ" بھی نکل جائے گا)

یہ تو دیکھ عوض میں رب نے کیسے کیسے دوست دیے
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں
ویسے ہی اپنا خیال لکھ دیا، متفق ہونا ضروری نہیں​
میری بہت سی داد آپ کے لئے​
بہت خوش رہیں​
طارق شاہ صاحب۔۔۔ آپ کی محبت پر ممنونِ احسان ہوں۔ اس صورت میں واقعی خوبصورت لگ رہا ہے مصرع:
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو کیسے کیسے دوست دیے​
بے حد شکریہ
 
کیا عمدہ پیشکش بھی کر دی لکھنے کے بعد۔

جلوت میں آخری شعر پر داد اور باقی شعروں پر اظہار خیال تو خلوت میں ہی بنتا ہے اور کیا خوب بنتا ہے ;)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک دفعہ پھر داد دینے اور ایک درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا کہ میں کل سے سوچ رہا ہوں مگر مجھے نیلے اشعار کی سمجھ نہیں آ رہی۔

آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی رات کی کالی جھولی میں
فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں
ڈال دیا تھا میں نے بھی اک خواب سوالی جھولی میں
اپنے ہاتھوں میں پھیلی رہ جانے والی جھولی میں
کس کی دعاؤں کا تھا ثمر وہ شعلہ جوالہ شہوت کا
ہائے کہاں سے آئی اتنی سندر گالی جھولی میں
دونوں جہاں کی مالک و ملکہ! بس میں اتنا جانتا ہوں​
تیرا خالی پن ہی بھرا ہے میری خالی جھولی میں​
سینے کے تکیے پر سر تھا قدموں میں تہوار بِچھے
ہولی کے سب رنگ تھے من میں اور دیوالی جھولی میں
سانسیں لے کر جانے والا جاتے جاتے چھوڑ گیا​
چند اک بال مرے کالر پر اور اک بالی جھولی میں​
ہفت افلاک نگوں تھے اس شب، دو اجسام زمیں پر خلط
قطب جنوبی جیب میں تھا اور قطب شمالی جھولی میں
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے​
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں​
 

فاتح

لائبریرین
ایک دفعہ پھر داد دینے اور ایک درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا کہ میں کل سے سوچ رہا ہوں مگر مجھے نیلے اشعار کی سمجھ نہیں آ رہی۔

آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی رات کی کالی جھولی میں
فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں
ڈال دیا تھا میں نے بھی اک خواب سوالی جھولی میں
اپنے ہاتھوں میں پھیلی رہ جانے والی جھولی میں
کس کی دعاؤں کا تھا ثمر وہ شعلہ جوالہ شہوت کا
ہائے کہاں سے آئی اتنی سندر گالی جھولی میں
دونوں جہاں کی مالک و ملکہ! بس میں اتنا جانتا ہوں​
تیرا خالی پن ہی بھرا ہے میری خالی جھولی میں​
سینے کے تکیے پر سر تھا قدموں میں تہوار بِچھے
ہولی کے سب رنگ تھے من میں اور دیوالی جھولی میں
سانسیں لے کر جانے والا جاتے جاتے چھوڑ گیا​
چند اک بال مرے کالر پر اور اک بالی جھولی میں​
ہفت افلاک نگوں تھے اس شب، دو اجسام زمیں پر خلط
قطب جنوبی جیب میں تھا اور قطب شمالی جھولی میں
یہ تو دیکھ خدا نے تجھ کو دوست دیے ہیں کیسے کیسے​
ایک محبت چھینی تجھ سے کتنی ڈالی جھولی میں​
محب علوی سے پوچھ لو بیٹا لیکن خیال رہے کہ خلوت میں پوچھنا۔ :laughing:
 
Top