یہ لو بھئی بلال ، تمہاری فرمائش پر
آگ اچانک بھڑک اٹھی تھی رات کی کالی جھولی میں
فاتحِ عالم! پڑی ہوئی تھی ہوس بھی سالی جھولی میں
بلال ، شاعری کی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ اس کے شعروں میں ایک سے زیادہ معنی چھپے ہوتے ہیں یا اس کا مفہوم ایک سے زائد ہو سکتا ہے۔ اس لیے ان اشعار کے کئی مطالب ہو سکتے ہیں ، جو ہو سکتا ہے فاتح نے کچھ اور سوچ کر لکھے ہوں اور میں ان کی کچھ اور تشریح کروں البتہ شعر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کوئی بھی معنی جو غیر منطقی نہ ہو اور بہت زیادہ دور کی کوڑی نہ لائے ہو سکتا ہے۔ ایک مطلب اس شعر کا یہ ہو سکتا ہے میرے مطابق
شاعر رات کی تنہائی میں اپنے محبوب کے ساتھ تھا (یقینا راز و نیاز کی گفتگو چل رہی ہوگی)۔ ان دونوں کے درمیان محبت تھی اس وجہ سے ہی وہ دونوں وصل کی رات میں اکٹھے تھے اور صرف گفتگو تک ہی محدود تھے کہ ایسے میں جذبات بہکنا شروع ہو گئے رات کے اندھیرے میں (رات کی کالی جھولی یہاں ایک استعارہ ہے کہ آسمان رات میں ایسے محسوس ہو رہا تھ جیسے کوئی کالی جھولی پھیلی ہو)۔ فاتح عالم ایک مشہور ترکیب ہے محبت کے لیے (محبت فاتح عالم) ، یہاں شاعر نے اپنا تخلص اور محبت دونوں کا عمدہ استعمال کیا ہے ۔ محبت کو عموما مشرقی اور خصوصا ہندوپاک کی شاعری میں پاکیزہ اور ہوس سے بالاتر سمجھا جاتا ہے ۔ ایسے میں دوسرا مصرع اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ تھی تو محبت مگر رات کی سیاہی میں اچانک جذبات کی آگ بھڑک اٹھی اور محبت کے ساتھ ساتھ ہوس کے جذبات بھی بیدار ہو گئے ۔ یہ جذبہ ہر انسان کے اندر مقید ہوتا ہے اور حالات سازگار ہونے پر باہر آ جاتا ہے اسی چیز کو دوسرے مصرع میں ایک نیچ جذبے کے طور پر " سالی " کہہ کر بیان کیا گیا ہے اور جھولی کی خوبصورت اصطلاح سے واضح کیا ہے کہ یہ چیز بھی میرے پاس موجود ہے (جھولی میں چیزیں اکٹھی کی جاتی ہیں اس طرف لطیف اشارہ ہے )۔
اب یہ میٹرک اور ایف اے میں اردو شاعری کی تشریح والی تشریح تھی یہ جو کہ قطعا غلط بھی ہو سکتی ہے جیسے لوگ ہر شعر کے حقیقی ، مجازی ، فقیری اور دیگر معنی اخذ کر لیتے ہیں جن میں سے اکثر شاعر کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
ایک تم نے بڑا جرم کروایا ہے کہ شاعر کے ہوتے ہوئے اس کے شعر کے بخیے میرے ہاتھوں ادھڑوائے ہیں ، اس کے لیے خدا سے پہلے تم سے فاتح خود نمٹ لے گا۔