مرکزی خیال
ڈائری کا ایک ورق
27 جولائی 2049
آج ذہن پرانی یادوں کی جگالی کرتے ہوئے ماضی میں کہیں دور بھٹک گیا ۔ سبیل اس کی یوں بنی کہ سر شام ہی ٹی وی پر ایک مشاعرہ آرہا تھا جس میں ملک کے نامور شاعر
فاتح الدین بشیر صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے اور خوب داد سمیٹ رہے تھے۔ ہمیں وہ دن یاد آگئے جب فاتح صاحب نے ابھی نئی نئی شاعری شروع کی تھی اور ہم سے داد لیا کرتے تھے۔ بڑی محنت کی تھی ہم نے فاتح میاں کو اس مقام تک پہنچانے میں۔ اب یاد آتا ہے تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ انہیں شاعری کا شوق کیا ہوا ہماری شامت آگئی۔ ہر وقت اصلاح لینے کے لئے آگے پیچھے پھرا کرتے تھے۔ لیکن ہم نے بھی کبھی انکار نہیں کیا کہ نگاہ دوربین سے بھانپ گئے تھے کہ ان میں شاعری کے اچھے خاصے جراثیم ہیں کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔ لیکن ان کی شاعری کو نکھارنے کے سفر میں بڑے بڑے کٹھن مرحلے بھی آئے۔ بس اوپر والے نے توفیق دی جو ہم نے اس جوہر کی تراش کرکے ایک اچھے شاعر کی صورت دی۔ کئی مرتبہ تو انکی حماقتوں سے انکا کیرئیر تباہ ہوتے ہوتے بچا اگر ہم بروقت معاملات سنبھال نہ لیتے تو آج کہیں نام بھی نہ ہوتا۔
ایک بار تو حد ہی کردی فاتح میاں نے۔ ایک مصرعہ ان کو بہت آیا ہوا تھا لیکن دوسرا سوجھتا نہ تھا۔ حسب روایت ہم سے مدد مانگی۔ ہم اس وقت ڈسکوری پر قطب جنوبی کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے بے دھیانی میں قطب جنوبی کا لفظ ہی منہ سے نکل گیا۔ بس پھر کیا تھا اندھا کیا چاہے دو آنکھیں فاتح میاں نے جھٹ دوسرے مصرعہ میں قطب شمالی کے ساتھ جڑ دیا ۔ اور پھر صبر بھی نہ کیا
رات ہی رات میں دوستوں کی محفل میں شئیر بھی کردی۔ اب جو صبح اٹھ کر ہم نے دیکھا تو پریشان ہوئے کہ اب تو تدوین کا بھی وقت نہیں رہا۔ اب کیا ہوگا کہیں آغاز شباب میں ہی شاعرانہ کیرئیر ختم نہ ہوجائے ۔ ہم نے سوچا تیل دیکھیئے تیل کی دھار دیکھئے شائد کوئی راہ نکل آئے۔ اتنے میں دو تین دوستوں نے تعریف کردی بس جناب ہم نے بھی ڈونگرے برسا دیئے ہماری دیکھا دیکھی محفل کے منجھے ہوئے شاعر استادوں نے بھی داد دے ڈالی کہ بڑے استاد جی نے اگر داد دی ہے تو کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی۔ اصل میں قصور اس میں ان کا بھی اتنا نہیں بات ساری فرمابرداری کی ہے کہ ہمارے منہ سے اگر لگڑ بھگا بھی نکل جاتا تو بڑی عقیدت کا اظہار کرتے کہ استاد نے جو کچھ فرمایا ہے تو حکمت سے خالی تو نہ ہوگا کیا ہوا اگر ہماری سمجھ میں نہ آیا۔
ایسی لا ابالی کوئی ایک بار تو نہ کی ہوگی۔ کوئی دن نہ جاتا تھا جب ہمیں ان کی کسی بے تکی کاروائی کو سنبھالا نہ دینا پڑتا ہو۔ لیکن دوستی اور مروت ہم میں ایسی تھی کہ ماتھے پر شکن تک نہ لاتے تھے۔ ایسے ہی ایک بار کہیں سے ایک لفظ سن کر آگئے اور سر ہوگئے کہ ہمیں مطلب بتائیے فاحشہ کا۔ ہم نے سوچا ابھی کچی عمر ہے ۔ صحیح بتادیا تو کہیں خراب نہ ہوجائے اس لئے اصل مطلب تو نہ بتایا لیکن لوازمات کچھ اس طرح بے ترتیبی سے بتائے کہ کل کلاں کو اصل مطلب پتہ لگے تو ہمیں غلط بھی سمجھے اور اصل بھی نہ سمجھے۔ لیکن برا ہو اسکی شاعرانہ طبعیت کا کہ کوئی اور عنوان نہ ملا تو
اسی پر غزل لکھ ماری۔ ہم نے دیکھا تو سمجھایا کہ میاں یہ کیا کردیا لوگ کیا کہیں گے۔ خدا لگتی کہتے ہیں اس پر تو کوئی داد کا مرض بھی نہ دے گا۔ کاہے کو خانہ اپنا خراب کرتے ہو۔ اب جو ہم نے تفصیل سے سمجھایا تو چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں منتیں کرنے لگے کہ کوئی ترکیب نکالئے حضور ورنہ کہیں کا نہ رہوں گا۔ اس دل کی نرمی کا کیا کیجئے کہ پگھل گیا۔ پوری غزل غور سے پڑھی کہ شائد کسی سبیل رہائی ہو۔ تو نظر اپنے ہی ایک شعر پر جا ٹھہری جو فاتح میاں نے بغیر اجازت شامل کردیا تھا۔ بس پوری غزل میں وہی ایک شعر تھا جس کی تعریف کی جاسکتی تھی سو ہم نے سب سے پہلے جا کر اس شعر پر داد دے ڈالی۔ بس پھر کیا تھا داد کے انبار لگ گئے۔ فاتح میاں کوبھی اندازہ تھا کہ اس شعر کے علاوہ کوئی شعر داد کے قابل نہیں لیکن بہت ہی بھولے تھے فاتح میاں کہ محفل پر بھی اظہار کردیا کہ ہمیں پتہ تھا آپ کو یہی شعر پسند آئے گا۔
بس فاتح میاں سے کچھ ایسا تعلق ہوگیا تھا کہ صرف شاعری میں ہی نہیں عام اخلاقی تربیت میں بھی ہمارا بہت ہاتھ تھا ورنہ تو آج پتہ نہیں کہاں ہوتے۔ ہمارے محلہ سے دو تین کوس کے فاصلے پر ایک محلہ بنام
کوچہ ملنگاں تھا۔ جہاں بھانت بھانت کے چرسی موالی جمع ہوکر ڈیرا جمائے رکھتے تھے۔ ہم اکثر فاتح میاں کو اس طرف سے گزرنے سے منع کرتے تھے کہ بری صحبت کا اثر ہوتےدیر نہیں لگتی۔ لیکن پتہ نہیں کس کے کہنے میں آکر وہاں اُٹھنا بیٹھنا شروع کردیا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ میاں یہ شرفا کا طریق نہیں لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن ہر بار ایک ہی جواب ہوتا کہ ہم کوئی ساتھ شامل تھوڑا ہی ہوتے ہیں بس گپ شپ تک رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں پتہ تھا کہ صحبت کا اثر ہوکر ہی رہے گا۔ آخر وہی ہوا کہ ایک دن وائن ہاوس جا پہنچے اور بوتل کا مطالبہ کردیا۔ وہاں تو بکتی ہی بوتلیں تھیں کاونٹر بوائے نے ایک نکال کر رکھ دی لیکن کوچہ ملنگاں میں شرط لگا کر آئے تھے کہ ہم بڑی پیتے ہیں اس لئے اڑ گئے کہ
ہمیں تو وہ چاہئے جو دروازے پر رکھی ہے۔ بار والوں نے بہترا سمجھایا کہ بھائی وہ بیچنے کی نہیں صرف شوپیس کے طور پر ہے لیکن کہاں مانتے تھے۔ تنگ آکر بار کے مالک نے کہ ہماری بڑی عزت کرتا تھا ہمیں فون گھمادیا کہ بھائی آپ ہی آئیے گا تو کچھ ہوگا۔ ہم بھاگم بھاگ پہنچے بڑا سمجھایا کہ میاں یہ بڑی بوتل بکنے کی نہیں۔ آخر چار بندوں سے وہ بوتل اُٹھوا کر الٹی کرکے دکھائی کہ دیکھو اس کے اندر کچھ بھی نہیں تو پھر کہیں جوش ٹھنڈا ہوا۔ ہم نے بارمین کے کان میں کہا کہ ایک صاف بوتل میں اورنج جوس بھر کر سیل کرکے دے دو۔ وہ ہم نے فاتح میاں کو پکڑائی اور گھسیٹتے باہر لے چلے۔ بار بار مڑ کر بڑی بوتل کو دیکھتے کہ شائد ہم نے انہیں الو بنادیا ہے لیکن کیا کرتے اپنے سامنے کیسے عزیز کو خراب ہوتے دیکھ سکتے تھے۔
بس کیا کیا بتائیں۔ کیا کیا دکھ نہیں جھیلے فاتح میاں کو اس مقام تک پہنچانے میں۔ آخر ہماری محنت رنگ لائی اور آج وہ کافی سمجھدار ہوگیا ہے اور شاعری میں بھی اصلاح کی ضرورت کچھ ایسی خاص محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ ہماری عزت بہت کرتا ہے جانتا ہے کہ جو کچھ ہے ہماری ہی وجہ سے ہے۔ آج کے مشاعرے میں بھی فون کرکے بہت اصرار سے بلایا تھا مگر اب طبعیت گھبراتی ہے۔ بس فاتح میاں جہاں رہو خوش رہو۔