فاتح صاحب سے میں نے کچھ دن قبل طبیعت کا پوچھا تو کہنے لگے طبیعت خراب ہے - تو میں نے ازراہِ مذاق کہا "طبیعت خراب ہے یا نیّت خراب ہے" تو کہنے لگے یہ تو اچھی خاصی شعری ترکیب ہے تو میں نے کہا تو پھر اسے مکمّل کیجیے - تو کافی دیر چپ رہے میں نے پھر پوچھا حضرت کہاں غائب ہیں تو کہنے لگے مجھے اچھی خاصی مشقت میں ڈال دیا - مگر حضرت مشقت کرکے ہی ٹلے اور یوں یہ شعر ظہور پذیر ہوا
تیماردار سے یہ قرابت خدایا خیر
نیّت خراب ہے یا طبیعت خراب ہے
اوہ نو فاتح بھائی طبیعت کیوں خراب کر لی آپ نے وہ بھی ماہم کے ہوتے ہوئے ، آپ بس زیادہ سے زیادہ وقت ماہم سے باتیں کیا کیجیے بالکل ٹھیک ہو جائیں گے !
واہ واہ کیا خوب شعر فرمایا فاتح صاحب۔
فاتح صاحب کی حالت کو اپنی حالت پر قیاس کر کے عرض کیا ہے۔
لگتا ہے شاخسانہ یہ سگرٹ کا ہی اسد
جو سانس لینا بھی بنا مجھ پر عذاب ہے
ظفری بھائی سیٹ بھی کہاں ہے جہاں بیٹھنے والے حالات ہی نہیں۔۔۔