محمدابوعبداللہ
محفلین
دم سے لمحہ اور دمی سے ایک لمحہ یہ بھی کوئی قاعدہ ہے ؟
دم سے لمحہ اور دمی سے ایک لمحہ یہ بھی کوئی قاعدہ ہے ؟
بڑی حوصلہ افزا بات ہے یہ تونیرنگ بھائی، ایک اردو دان کے لیے فارسی بہت آسان زبان ہے۔ آپ بس مصمم ارادہ کر کے بسم اللہ کیجیے، میری ضمانت ہے کہ آپ صرف تین مہینوں میں اس قابل ہو جائیں گے کہ خود ہی حافظ اور سعدی کو سمجھنے لگیں گے۔ ہمارے محمد ریحان قریشی بھائی نے فروری میں فارسی سیکھنے کا آغاز کیا تھا، اور اب ماشاءاللہ وہ فارسی اشعار کا اردو ترجمہ کر رہے ہیں۔آپ چونکہ قدیم اردو ادب سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں، اِس لیے آپ کو بیشتر فارسی اسماء، صفات، حتیٰ کہ افعال بھی یاد نہیں کرنے پڑیں گے، بس صرف چند آسان اور منظم دستوری قواعد ذہن نشیں کرنے پڑیں گے۔ کوئی مشکل پیش آئی بھی تو مدد کے لیے یہاں بہت سے دوست ہمہ وقت حاضر ہیں۔
می سے تو میرا تھا ادھر وہ کیسا بن گیا ابمیخَرَد = وہ خریدتا ہے
میرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائےمبتدی کے حوالے سے کوئی آسان سی کتاب تجویز کریں وارث بھائی۔
آج کل تو اردو بازار لاہور بھی دسترس سے دور نہیں۔۔۔ میں پتا کرتا ہوں۔ اور یہ اسباق والا کام بھی شروع کرتا ہوں۔ ان شاء اللہمیرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائے
اس ویب سائٹ لئی فیر پہلوں انگریزی سکھنی پینی اے، اودی وی لڑی نال ای شروع ہو جاوے فیرمیرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائے
آسان انگریزی ہے بھائیاس ویب سائٹ لئی فیر پہلوں انگریزی سکھنی پینی اے، اودی وی لڑی نال ای شروع ہو جاوے فیر
فارسی زبان میں کسی اسم کے آگے 'ی' لگایا جائے تو اُس میں نکرہ یا وحدت کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔دم سے لمحہ اور دمی سے ایک لمحہ یہ بھی کوئی قاعدہ ہے ؟
دیکھیے و ہ کا ترجمہ می میں نہیں بلکہ خرد میں چھپا ہوا ہے۔ میں کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔می سے تو میرا تھا ادھر وہ کیسا بن گیا اب
قادری صاحب، فعلِ امر سے ملحق ہونے والے اِس 'ب' کو مفتوح نہیں، بلکہ بیشتر موقعوں پر مکسور پڑھا جاتا ہے۔ اور اِس کا معیاری اور کتابی تلفظ کسرہ ہی کے ساتھ ہے۔ البتہ جب 'ب' کے بعد والا ہجا مضموم ہو تو گفتاری زبان میں اِس 'ب' کو مضموم کر دیتے ہیں۔ مثلاً:یہ ارشاد فرمائیں کہ فارسی میں امر حاضر کے صیغے میں کبھی کبھی "ب" داخل ہوتا ہے اس "ب" کو مفتوح پڑھا جائے یا مضموم؟ میں نے اکثر لوگوں کو اس میں مضطرب پایا۔ میرے فارسی کے استاذ نے یہ بتایا تھا کہ "ب" کو مضموم پڑھنا چاہیے۔.... ضابطے کے مطابق صحیح کیا ہے رہنمائی فرمادیں
بہت شکریہ جناب کادیکھیے و ہ کا ترجمہ می میں نہیں بلکہ خرد میں چھپا ہوا ہے۔ میں کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب سے پہلے علم ہونا چاہیے کہ مصدر کیا ہے۔ مصدر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام تو ہو لیکن یہ نہ علم ہو کہ وہ کام کب ہوا یا کس نے کیا۔ یہ کلید ہے، اردو میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس لفظ کے آخر میں نا آتا ہے جیسے، کھانا پینا خریدنا پڑھنا لکھنا وغیرہ۔
فارسی میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں دن یا تن آتا ہے جیسے،
نوشتن ۔ لکھنا
خوردن ۔ کھانا
نوشیدن ۔ پینا
خریدن ۔ خریدنا
جب مصدر کی پہچان ہو جائے تو فارسی کا اصول یہ ہے کہ مصدر کے آخر سے اگر نون ختم کر دیں تو نہ صرف وہ زمانہ بتا دیتا ہے یعنی زمانہ ماضی بلکہ یہ بھی بتادیتا ہے کہ وہ کام کس نے کیا یعنی واحد غائب شخص جسے اردو میں اُس کہتے ہیں۔ خریدن ہی کو لیتے ہیں نون گرایا تو خرید رہ گیا۔ یعنی
خرید۔ اُس نے خریدا، یعنی ماضی اور واحد شخص غایب۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کچھ فارسی کے مصدر لے کر ان کا نون ختم کر کے ترجمہ کرنے کی کوشش کریں، مثلا، نوشتن سے نوشت یعنی اُس نے لکھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
اب آپ جانتے ہیں کہ شخص چھ ہوتے ہیں۔
ایک بولنے والا۔ صیغہ واحد متکلم ۔ مصدر سے نون گرا کر جو لفظ بچا تھا اس کے آخر میں میم لگا دیں، یعنی خریدم مطلب ہوگا میں نے خریدا۔ زمانہ ماضی ہی ہے، میم سے شخص بدل گیا۔
زیادہ بولنے والے۔ صیغہ جمع متکلم۔ خرید کے آگے یم لگا دیں، خریدیم، ہم نے خریدا۔
ایک مخاطب یا حاضر ۔ خرید کے آگے ی لگا دیں، خریدی، تُو نے خریدا۔
زیادہ مخاطب ۔ خرید کے آگے ید لگا دیں، خریدید، تم سب نے خریدا۔
ایک غایب۔ یہ اوپر بیان ہوا صرف مصدر سے نون ہٹا دیں، یعنی خالی خرید، مطلب، اُس نے خریدا۔
زیادہ غائب۔ خرید کے ساتھ ند لگا دیں، خریدند، انہوں نے خریدا۔
یہ ایک زمانہ یا ٹینس کی مکمل گردان ہے اس کو ماضی مطلق یا ماضی سادہ بھی کہتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں
خریدن ۔ خریدنا
ماضی مطلق کی گردان
خریدم ۔ میں نے خریدا
خریدیم ۔ ہم نے خریدا
خریدی ۔ تُو نے خریدا
خریدید ۔ تم سب نے خریدا
خرید ۔ اُس نے خریدا
خریدند۔ انہوں نے خریدا
مصدر نوشتن سے ماضی مطلق کی گردان
نوشتن ۔ لکھنا
نوشتم ۔ میں نے لکھا
نوشتیم ۔ ہم نے لکھا
نوشتی ۔ تُو نے لکھا
نوشتید ۔ تم سب نے لکھا
نوشت ۔ اُس نے لکھا
نوشتند ۔ انہوں نے لکھا۔
میری استدعا ہے کہ آپ دوست مختلف مصادر جیسے رفتن جانا، زدن مارنا، کشتن جان سے مارنا، وٖغیرہ سے یہ گردان خود سے لکھیں۔ اس سے کم از کم ایک زمانے پر آپ کو عبور حاصل ہو جائے گا۔
اب اصل سوال می والا، اصل میں می استمرار کی علامت ہے یعنی جو کام بار بار ہوتا ہو، اردو میں اس کا ترجمہ تا ہوتا ہے ، یہ تھوڑا زیادہ کام ہو جائے گا لیکن میں کچھ لکھ دیتا ہوں۔
خریدن ۔ خریدنا
سے ماضی استمراری کی گردان
طریقہ اوپر والا ہی ہے، بس شروع میں می لگا دیں۔
می خریدم ۔ میں خریدتا تھا
می خریدیم ۔ ہم خریدتے تھے
می خریدی ۔ تُو خریدتا تھا
می خریدید ۔ تم سب خریدتے تھے
می خرید ۔وہ خریدتا تھا
می خریدند ۔ وہ خریدتے تھے۔
اب آپ کا اصل سوال می خرد۔
می جیسا کہ لکھا استمرار کی علامت ہے، بار بار ہونے کی علامت ہے۔ اور خرد، خریدن مصدرسے زمانہ حال صیغہ واحد غائب ہے سو اس کا مطلب ہوگا وہ خریدتا ہے۔ زمانہ حال ذرا مشکل ہے سو اس کو ابھی چھوڑتے ہیں۔
واضح رہے کہ فارسی میں سب سے زیادہ آسان ماضی ہے پھر مستقبل اور سب سے مشکل حال ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے صیغے مصدر سے آسانی سے ایک باقاعدہ اصول کے تحت بن جاتے ہیں یعنی مصدر سے نون ہٹا دیں لیکن حال یا مضارع کو یاد کرنا پڑتا ہے۔ سو فی الحال ماضی مطلق اور ماضی استمراری ہی کافی ہیں۔
شکریہفارسی زبان میں کسی اسم کے آگے 'ی' لگایا جائے تو اُس میں نکرہ یا وحدت کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔
نکرہ غیر متعارف یا ناشناس چیز کو کہتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اردو میں کہتے ہیں 'کوئی شخص' تو ہم ایسے کسی شخص کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جو ناشناس ہوتا ہے۔ انگریزی میں اِس کے لیے اسماء سے قبل 'a' یا 'an' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی چیز اگر ہمیں فارسی میں کہنی ہو تو 'شخصی' کہیں گے۔
وحدت یعنی یگانگی۔ ہم اردو میں اِس کے لیے 'ایک' کا استعمال کرتے ہیں مثلاً 'وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا'۔ فارسی میں اِسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے کہیں گے: 'آنجا شخصی نِشَسته بود۔'
فارسی میں وحدت کے معنی کے لیے 'شخصی' کی بجائے 'یک شخص' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جب یہ یا نکرہ کے معنوں میں استعمال ہو تو اِسے یائے نکرہ یا یائے تنکیر کہتے ہیں اور جب وحدت کے معنوں میں استعمال ہو تو یائے وحدت کہتے ہیں۔
اِس 'ی' کے چند استعمال اور بھی ہیں، لیکن اُن کا ذکر اپنے وقت پر کروں گا۔
ایرانی اِس 'ی' کا تلفظ غیر کشیدہ 'i' کرتے ہیں جبکہ افغانوں اور تاجکوں میں 'e' رائج ہے۔ آپ مختار ہیں کہ آپ کون سا تلفظ استعمال کریں۔
فارسی زبان و ادب کا اصل کام تو حسان خان صاحب کر رہے ہیں محترم، میری بساط تو فقط روزانہ ایک شعر ترجمہ کی ہے اور وہ بھی تگ و دو کے بعد خان صاحب کا جذبہ قابلِ صد ستائش ہے۔محمد وارث صاحب اور حسان خان صاحب۔۔۔
دونوں مل کر بہت اچھا کام کررہے ہیں۔۔۔
جی خوش ہوا۔۔۔۔
اب اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے۔۔۔
کاش مے دیدی بہ چشمِ عاشقان رخسارِ خویش
تا دریغ از چشمِ خود مے داشتی دیدارِ خویش