فارسی ابیات کی لفظی تحلیل و تجزیہ

نیرنگ بھائی، ایک اردو دان کے لیے فارسی بہت آسان زبان ہے۔ آپ بس مصمم ارادہ کر کے بسم اللہ کیجیے، میری ضمانت ہے کہ آپ صرف تین مہینوں میں اس قابل ہو جائیں گے کہ خود ہی حافظ اور سعدی کو سمجھنے لگیں گے۔ ہمارے محمد ریحان قریشی بھائی نے فروری میں فارسی سیکھنے کا آغاز کیا تھا، اور اب ماشاءاللہ وہ فارسی اشعار کا اردو ترجمہ کر رہے ہیں۔آپ چونکہ قدیم اردو ادب سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں، اِس لیے آپ کو بیشتر فارسی اسماء، صفات، حتیٰ کہ افعال بھی یاد نہیں کرنے پڑیں گے، بس صرف چند آسان اور منظم دستوری قواعد ذہن نشیں کرنے پڑیں گے۔ کوئی مشکل پیش آئی بھی تو مدد کے لیے یہاں بہت سے دوست ہمہ وقت حاضر ہیں۔
بڑی حوصلہ افزا بات ہے یہ تو
امید ہے ہم بھی سیکھ ہی جائیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مبتدی کے حوالے سے کوئی آسان سی کتاب تجویز کریں وارث بھائی۔
میرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائے :)
آج کل تو اردو بازار لاہور بھی دسترس سے دور نہیں۔۔۔ میں پتا کرتا ہوں۔ اور یہ اسباق والا کام بھی شروع کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ
 
میرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر مجھے ابھی تک نہیں آئی لیکن میرے سب سے زیادہ مدد اس ویب سائٹ نے کی ہے۔ یہ ایک ایرانی کا شاہکار ہے اور گوروں کے لیے ہے اس لیے حروف تہجی سے شروع کی ہے اور بہت تفصیل سے چیزیں بیان کی ہیں، اردو دان حضرات کے لیے خاص طور پر سود مند ہے بالخصوص اگر سبقا سبقا پڑھا اور سیکھا جائے :)
اس ویب سائٹ لئی فیر پہلوں انگریزی سکھنی پینی اے، اودی وی لڑی نال ای شروع ہو جاوے فیر
 

حسان خان

لائبریرین
دم سے لمحہ اور دمی سے ایک لمحہ یہ بھی کوئی قاعدہ ہے ؟
فارسی زبان میں کسی اسم کے آگے 'ی' لگایا جائے تو اُس میں نکرہ یا وحدت کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔
نکرہ غیر متعارف یا ناشناس چیز کو کہتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اردو میں کہتے ہیں 'کوئی شخص' تو ہم ایسے کسی شخص کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جو ناشناس ہوتا ہے۔ انگریزی میں اِس کے لیے اسماء سے قبل 'a' یا 'an' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی چیز اگر ہمیں فارسی میں کہنی ہو تو 'شخصی' کہیں گے۔
وحدت یعنی یگانگی۔ ہم اردو میں اِس کے لیے 'ایک' کا استعمال کرتے ہیں مثلاً 'وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا'۔ فارسی میں اِسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے کہیں گے: 'آنجا شخصی نِشَسته بود۔'
فارسی میں وحدت کے معنی کے لیے 'شخصی' کی بجائے 'یک شخص' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جب یہ یا نکرہ کے معنوں میں استعمال ہو تو اِسے یائے نکرہ یا یائے تنکیر کہتے ہیں اور جب وحدت کے معنوں میں استعمال ہو تو یائے وحدت کہتے ہیں۔

اِس 'ی' کے چند استعمال اور بھی ہیں، لیکن اُن کا ذکر اپنے وقت پر کروں گا۔

ایرانی اِس 'ی' کا تلفظ غیر کشیدہ 'i' کرتے ہیں جبکہ افغانوں اور تاجکوں میں 'e' رائج ہے۔ آپ مختار ہیں کہ آپ کون سا تلفظ استعمال کریں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
می سے تو میرا تھا ادھر وہ کیسا بن گیا اب
دیکھیے و ہ کا ترجمہ می میں نہیں بلکہ خرد میں چھپا ہوا ہے۔ میں کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سب سے پہلے علم ہونا چاہیے کہ مصدر کیا ہے۔ مصدر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام تو ہو لیکن یہ نہ علم ہو کہ وہ کام کب ہوا یا کس نے کیا۔ یہ کلید ہے، اردو میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس لفظ کے آخر میں نا آتا ہے جیسے، کھانا پینا خریدنا پڑھنا لکھنا وغیرہ۔

فارسی میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں دن یا تن آتا ہے جیسے،

نوشتن ۔ لکھنا
خوردن ۔ کھانا
نوشیدن ۔ پینا
خریدن ۔ خریدنا

جب مصدر کی پہچان ہو جائے تو فارسی کا اصول یہ ہے کہ مصدر کے آخر سے اگر نون ختم کر دیں تو نہ صرف وہ زمانہ بتا دیتا ہے یعنی زمانہ ماضی بلکہ یہ بھی بتادیتا ہے کہ وہ کام کس نے کیا یعنی واحد غائب شخص جسے اردو میں اُس کہتے ہیں۔ خریدن ہی کو لیتے ہیں نون گرایا تو خرید رہ گیا۔ یعنی

خرید۔ اُس نے خریدا، یعنی ماضی اور واحد شخص غایب۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کچھ فارسی کے مصدر لے کر ان کا نون ختم کر کے ترجمہ کرنے کی کوشش کریں، مثلا، نوشتن سے نوشت یعنی اُس نے لکھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب آپ جانتے ہیں کہ شخص چھ ہوتے ہیں۔

ایک بولنے والا۔ صیغہ واحد متکلم ۔ مصدر سے نون گرا کر جو لفظ بچا تھا اس کے آخر میں میم لگا دیں، یعنی خریدم مطلب ہوگا میں نے خریدا۔ زمانہ ماضی ہی ہے، میم سے شخص بدل گیا۔
زیادہ بولنے والے۔ صیغہ جمع متکلم۔ خرید کے آگے یم لگا دیں، خریدیم، ہم نے خریدا۔
ایک مخاطب یا حاضر ۔ خرید کے آگے ی لگا دیں، خریدی، تُو نے خریدا۔
زیادہ مخاطب ۔ خرید کے آگے ید لگا دیں، خریدید، تم سب نے خریدا۔
ایک غایب۔ یہ اوپر بیان ہوا صرف مصدر سے نون ہٹا دیں، یعنی خالی خرید، مطلب، اُس نے خریدا۔
زیادہ غائب۔ خرید کے ساتھ ند لگا دیں، خریدند، انہوں نے خریدا۔

یہ ایک زمانہ یا ٹینس کی مکمل گردان ہے اس کو ماضی مطلق یا ماضی سادہ بھی کہتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں

خریدن ۔ خریدنا

ماضی مطلق کی گردان
خریدم ۔ میں نے خریدا
خریدیم ۔ ہم نے خریدا
خریدی ۔ تُو نے خریدا
خریدید ۔ تم سب نے خریدا
خرید ۔ اُس نے خریدا
خریدند۔ انہوں نے خریدا

مصدر نوشتن سے ماضی مطلق کی گردان

نوشتن ۔ لکھنا
نوشتم ۔ میں نے لکھا
نوشتیم ۔ ہم نے لکھا
نوشتی ۔ تُو نے لکھا
نوشتید ۔ تم سب نے لکھا
نوشت ۔ اُس نے لکھا
نوشتند ۔ انہوں نے لکھا۔

میری استدعا ہے کہ آپ دوست مختلف مصادر جیسے رفتن جانا، زدن مارنا، کشتن جان سے مارنا، وٖغیرہ سے یہ گردان خود سے لکھیں۔ اس سے کم از کم ایک زمانے پر آپ کو عبور حاصل ہو جائے گا۔

اب اصل سوال می والا، اصل میں می استمرار کی علامت ہے یعنی جو کام بار بار ہوتا ہو، اردو میں اس کا ترجمہ تا ہوتا ہے ، یہ تھوڑا زیادہ کام ہو جائے گا لیکن میں کچھ لکھ دیتا ہوں۔

خریدن ۔ خریدنا
سے ماضی استمراری کی گردان
طریقہ اوپر والا ہی ہے، بس شروع میں می لگا دیں۔
می خریدم ۔ میں خریدتا تھا
می خریدیم ۔ ہم خریدتے تھے
می خریدی ۔ تُو خریدتا تھا
می خریدید ۔ تم سب خریدتے تھے
می خرید ۔وہ خریدتا تھا
می خریدند ۔ وہ خریدتے تھے۔

اب آپ کا اصل سوال می خرد۔
می جیسا کہ لکھا استمرار کی علامت ہے، بار بار ہونے کی علامت ہے۔ اور خرد، خریدن مصدرسے زمانہ حال صیغہ واحد غائب ہے سو اس کا مطلب ہوگا وہ خریدتا ہے۔ زمانہ حال ذرا مشکل ہے سو اس کو ابھی چھوڑتے ہیں۔

واضح رہے کہ فارسی میں سب سے زیادہ آسان ماضی ہے پھر مستقبل اور سب سے مشکل حال ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے صیغے مصدر سے آسانی سے ایک باقاعدہ اصول کے تحت بن جاتے ہیں یعنی مصدر سے نون ہٹا دیں لیکن حال یا مضارع کو یاد کرنا پڑتا ہے۔ سو فی الحال ماضی مطلق اور ماضی استمراری ہی کافی ہیں۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
یائے وحدت کے استعمال کی ایک اور مثال:
ای که قصدِ هلاکِ من داری
صبر کن تا ببینمت نظری
(سعدی شیرازی)

اے تم کہ میری ہلاکت کا قصد رکھتے ہو۔۔۔ (ذرا) صبر کرو تا میں تمہیں ایک نظر دیکھ لوں۔
 
یہ ارشاد فرمائیں کہ فارسی میں امر حاضر کے صیغے میں کبھی کبھی "ب" داخل ہوتا ہے اس "ب" کو مفتوح پڑھا جائے یا مضموم؟ میں نے اکثر لوگوں کو اس میں مضطرب پایا۔ میرے فارسی کے استاذ نے یہ بتایا تھا کہ "ب" کو مضموم پڑھنا چاہیے۔.... ضابطے کے مطابق صحیح کیا ہے رہنمائی فرمادیں
 

محمد وارث

لائبریرین
جن دوستوں کو اوپر زمانہ ماضی کی بحث میں کچھ دلچسپی ہے ان کے لیے ایک مصرعہ
ع۔ دیدی کہ خونِ ناحقِ پروانہ شمع را
اس مصرعے میں ایک مصدر کا استعمال ہوا ہے ، اس مصدر کی پہچان کیجیے ، پھر دیکھیے کہ اُس مصدر سے فعل کا جو صیغہ آیا ہے وہ کس زمانے کا ہے اور اُس میں کس شخص کی بات ہو رہی ہے اور کیا ترجمہ ہے، واللہ :)
 

حسان خان

لائبریرین
یہ ارشاد فرمائیں کہ فارسی میں امر حاضر کے صیغے میں کبھی کبھی "ب" داخل ہوتا ہے اس "ب" کو مفتوح پڑھا جائے یا مضموم؟ میں نے اکثر لوگوں کو اس میں مضطرب پایا۔ میرے فارسی کے استاذ نے یہ بتایا تھا کہ "ب" کو مضموم پڑھنا چاہیے۔.... ضابطے کے مطابق صحیح کیا ہے رہنمائی فرمادیں
قادری صاحب، فعلِ امر سے ملحق ہونے والے اِس 'ب' کو مفتوح نہیں، بلکہ بیشتر موقعوں پر مکسور پڑھا جاتا ہے۔ اور اِس کا معیاری اور کتابی تلفظ کسرہ ہی کے ساتھ ہے۔ البتہ جب 'ب' کے بعد والا ہجا مضموم ہو تو گفتاری زبان میں اِس 'ب' کو مضموم کر دیتے ہیں۔ مثلاً:
بُکن، بُرو، بُگو وعلیٰ ہذا القیاس۔۔۔
 
دیکھیے و ہ کا ترجمہ می میں نہیں بلکہ خرد میں چھپا ہوا ہے۔ میں کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سب سے پہلے علم ہونا چاہیے کہ مصدر کیا ہے۔ مصدر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام تو ہو لیکن یہ نہ علم ہو کہ وہ کام کب ہوا یا کس نے کیا۔ یہ کلید ہے، اردو میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس لفظ کے آخر میں نا آتا ہے جیسے، کھانا پینا خریدنا پڑھنا لکھنا وغیرہ۔

فارسی میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں دن یا تن آتا ہے جیسے،

نوشتن ۔ لکھنا
خوردن ۔ کھانا
نوشیدن ۔ پینا
خریدن ۔ خریدنا

جب مصدر کی پہچان ہو جائے تو فارسی کا اصول یہ ہے کہ مصدر کے آخر سے اگر نون ختم کر دیں تو نہ صرف وہ زمانہ بتا دیتا ہے یعنی زمانہ ماضی بلکہ یہ بھی بتادیتا ہے کہ وہ کام کس نے کیا یعنی واحد غائب شخص جسے اردو میں اُس کہتے ہیں۔ خریدن ہی کو لیتے ہیں نون گرایا تو خرید رہ گیا۔ یعنی

خرید۔ اُس نے خریدا، یعنی ماضی اور واحد شخص غایب۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو کچھ فارسی کے مصدر لے کر ان کا نون ختم کر کے ترجمہ کرنے کی کوشش کریں، مثلا، نوشتن سے نوشت یعنی اُس نے لکھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب آپ جانتے ہیں کہ شخص چھ ہوتے ہیں۔

ایک بولنے والا۔ صیغہ واحد متکلم ۔ مصدر سے نون گرا کر جو لفظ بچا تھا اس کے آخر میں میم لگا دیں، یعنی خریدم مطلب ہوگا میں نے خریدا۔ زمانہ ماضی ہی ہے، میم سے شخص بدل گیا۔
زیادہ بولنے والے۔ صیغہ جمع متکلم۔ خرید کے آگے یم لگا دیں، خریدیم، ہم نے خریدا۔
ایک مخاطب یا حاضر ۔ خرید کے آگے ی لگا دیں، خریدی، تُو نے خریدا۔
زیادہ مخاطب ۔ خرید کے آگے ید لگا دیں، خریدید، تم سب نے خریدا۔
ایک غایب۔ یہ اوپر بیان ہوا صرف مصدر سے نون ہٹا دیں، یعنی خالی خرید، مطلب، اُس نے خریدا۔
زیادہ غائب۔ خرید کے ساتھ ند لگا دیں، خریدند، انہوں نے خریدا۔

یہ ایک زمانہ یا ٹینس کی مکمل گردان ہے اس کو ماضی مطلق یا ماضی سادہ بھی کہتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں

خریدن ۔ خریدنا

ماضی مطلق کی گردان
خریدم ۔ میں نے خریدا
خریدیم ۔ ہم نے خریدا
خریدی ۔ تُو نے خریدا
خریدید ۔ تم سب نے خریدا
خرید ۔ اُس نے خریدا
خریدند۔ انہوں نے خریدا

مصدر نوشتن سے ماضی مطلق کی گردان

نوشتن ۔ لکھنا
نوشتم ۔ میں نے لکھا
نوشتیم ۔ ہم نے لکھا
نوشتی ۔ تُو نے لکھا
نوشتید ۔ تم سب نے لکھا
نوشت ۔ اُس نے لکھا
نوشتند ۔ انہوں نے لکھا۔

میری استدعا ہے کہ آپ دوست مختلف مصادر جیسے رفتن جانا، زدن مارنا، کشتن جان سے مارنا، وٖغیرہ سے یہ گردان خود سے لکھیں۔ اس سے کم از کم ایک زمانے پر آپ کو عبور حاصل ہو جائے گا۔

اب اصل سوال می والا، اصل میں می استمرار کی علامت ہے یعنی جو کام بار بار ہوتا ہو، اردو میں اس کا ترجمہ تا ہوتا ہے ، یہ تھوڑا زیادہ کام ہو جائے گا لیکن میں کچھ لکھ دیتا ہوں۔

خریدن ۔ خریدنا
سے ماضی استمراری کی گردان
طریقہ اوپر والا ہی ہے، بس شروع میں می لگا دیں۔
می خریدم ۔ میں خریدتا تھا
می خریدیم ۔ ہم خریدتے تھے
می خریدی ۔ تُو خریدتا تھا
می خریدید ۔ تم سب خریدتے تھے
می خرید ۔وہ خریدتا تھا
می خریدند ۔ وہ خریدتے تھے۔

اب آپ کا اصل سوال می خرد۔
می جیسا کہ لکھا استمرار کی علامت ہے، بار بار ہونے کی علامت ہے۔ اور خرد، خریدن مصدرسے زمانہ حال صیغہ واحد غائب ہے سو اس کا مطلب ہوگا وہ خریدتا ہے۔ زمانہ حال ذرا مشکل ہے سو اس کو ابھی چھوڑتے ہیں۔

واضح رہے کہ فارسی میں سب سے زیادہ آسان ماضی ہے پھر مستقبل اور سب سے مشکل حال ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کے صیغے مصدر سے آسانی سے ایک باقاعدہ اصول کے تحت بن جاتے ہیں یعنی مصدر سے نون ہٹا دیں لیکن حال یا مضارع کو یاد کرنا پڑتا ہے۔ سو فی الحال ماضی مطلق اور ماضی استمراری ہی کافی ہیں۔ :)
بہت شکریہ جناب کا
 
فارسی زبان میں کسی اسم کے آگے 'ی' لگایا جائے تو اُس میں نکرہ یا وحدت کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔
نکرہ غیر متعارف یا ناشناس چیز کو کہتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اردو میں کہتے ہیں 'کوئی شخص' تو ہم ایسے کسی شخص کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جو ناشناس ہوتا ہے۔ انگریزی میں اِس کے لیے اسماء سے قبل 'a' یا 'an' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی چیز اگر ہمیں فارسی میں کہنی ہو تو 'شخصی' کہیں گے۔
وحدت یعنی یگانگی۔ ہم اردو میں اِس کے لیے 'ایک' کا استعمال کرتے ہیں مثلاً 'وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا'۔ فارسی میں اِسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے کہیں گے: 'آنجا شخصی نِشَسته بود۔'
فارسی میں وحدت کے معنی کے لیے 'شخصی' کی بجائے 'یک شخص' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جب یہ یا نکرہ کے معنوں میں استعمال ہو تو اِسے یائے نکرہ یا یائے تنکیر کہتے ہیں اور جب وحدت کے معنوں میں استعمال ہو تو یائے وحدت کہتے ہیں۔

اِس 'ی' کے چند استعمال اور بھی ہیں، لیکن اُن کا ذکر اپنے وقت پر کروں گا۔

ایرانی اِس 'ی' کا تلفظ غیر کشیدہ 'i' کرتے ہیں جبکہ افغانوں اور تاجکوں میں 'e' رائج ہے۔ آپ مختار ہیں کہ آپ کون سا تلفظ استعمال کریں۔
شکریہ
 

سید عمران

محفلین
محمد وارث صاحب اور حسان خان صاحب۔۔۔
دونوں مل کر بہت اچھا کام کررہے ہیں۔۔۔
جی خوش ہوا۔۔۔۔
اب اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے۔۔۔
(y)(y)(y)
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث صاحب اور حسان خان صاحب۔۔۔
دونوں مل کر بہت اچھا کام کررہے ہیں۔۔۔
جی خوش ہوا۔۔۔۔
اب اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے۔۔۔
(y)(y)(y)
فارسی زبان و ادب کا اصل کام تو حسان خان صاحب کر رہے ہیں محترم، میری بساط تو فقط روزانہ ایک شعر ترجمہ کی ہے اور وہ بھی تگ و دو کے بعد:) خان صاحب کا جذبہ قابلِ صد ستائش ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حُسنِ تو دیر نپایَد چو ز خُسرو رفتی
گُل بسی دیر نمانَد چو شُد از خار جُدا
(امیر خسرو دهلوی)
لفظی ترجمہ: تمہارا حُسن دیر [تک] برقرار نہ رہے جب خسرو سے تم چلے گئے؛ گُل بہت دیر [تک] باقی نہ رہے جب وہ ہو گیا خار سے جدا۔
بامحاورہ ترجمہ: تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
(مترجم: محمد وارث)

تو = تم
حُسنِ تو = تمہارا حُسن
دیر = مدتِ دراز تک، دیر تک، بہ مدتِ طولانی۔۔۔ یہاں یہ لفظ 'قید' یعنی 'ایڈوَرب' کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
پاییدن (پائیدن) = دوام کرنا، پایندہ ہونا، پایندہ رہنا، برقرار رہنا، پائیدار ہونا/رہنا، استوار رہنا، بر جا رہنا، قائم رہنا
پای = 'پاییدن' کا مضارع
پایَد = وہ برقرار رہے
نپایَد = وہ برقرار نہ رہے
حُسنِ تو دیر نپایَد = تمہارا حُسن دیر تک برقرار نہ رہے
چو = جب
از = سے
ز = از کا مخفف
رفتن = جانا، چلے جانا
رفتی = تم گئے، تم چلے گئے
چو ز خسرو رفتی = جب تم خسرو [کے پاس] سے چلے گئے
بسی = بہت، بسیار، زیاد
بسی دیر = بہت دیر
مانْدن = باقی رہنا
مان = 'ماندن' کا مضارع
مانَد = وہ باقی رہے
نمانَد = وہ باقی نہ رہے
گُل بسی دیر نمانَد = گُل بہت دیر تک باقی نہ رہے
شُدن = ہونا، ہو جانا
شد = وہ ہوا، وہ ہو گیا
جُدا شدن = جدا ہونا
جدا شد = وہ جدا ہو گیا
چو شد از خار جدا = جب وہ خار سے جدا ہوا/ہو گیا


× اِس شعر میں 'نپایَد' مستقبل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
× اِس شعر میں 'پاییدن' اور 'ماندن' ہم معنی ہیں۔
× ایرانی 'بسی' کا تلفظ 'basi'، جبکہ افغان اور تاجک 'base' کرتے ہیں۔ ویسے اِس لفظ میں 'بس' (یعنی بسیار) کے ساتھ یائے نکرہ متصل ہے۔
× ایرانی 'دیر' کا تلفظ 'dir' کرتے ہیں، جبکہ افغانوں اور تاجکوں میں اردو والا تلفظ 'der' رائج ہے۔
 
آخری تدوین:
Top