فارسی ابیات کی لفظی تحلیل و تجزیہ

محمد وارث

لائبریرین
کاش مے دیدی بہ چشمِ عاشقان رخسارِ خویش
تا دریغ از چشمِ خود مے داشتی دیدارِ خویش

میرے خیال میں اس شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے جو ہر وقت آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتا رہتا ہے کہ کاش تُو اپنے رخساروں کو کبھی اپنے عاشقوں کی نظر سے دیکھتا (تُو تجھے علم ہوتا کہ اُن کے دل پر کیا گزرتی ہے اور جب یہ جان جاتا تو پھر اس کے بعد) تُو اپنی نظروں کو اپنے دیدار سے رُوکے رکھتا یعنی عاشقوں کی نظر سے خود کو دیکھتے تو اس طرح بے دھڑک نہ دیکھتے۔ واللہ اعلم بالصواب :)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد وارث نے احسن انداز میں اِس شعر کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔ اب اِس کا لفظی تجزیہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کاش می‌دیدی به چشمِ عاشقان رخسارِ خویش

تا دریغ از چشمِ خود می‌داشتی دیدارِ خویش
(صائب تبریزی)
ترجمہ: کاش تم عاشقوں کی آنکھ سے اپنا رخسار دیکھتے تاکہ تم اپنی آنکھ سے اپنا دیدار دور رکھتے۔

دیدن = دیکھنا
دیدی = تم نے دیکھا
می‌دیدی = تم دیکھتے تھے، تم دیکھتے
کاش می‌دیدی = کاش تم دیکھتے
به = یہ کثیرالمعانی حرفِ جر یہاں 'با' کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی کے ساتھ، کے ذریعے سے، کے توسط سے، کی استعانت سے
چشمِ عاشقان = عاشقوں کی آنکھ
به چشمِ عاشقان = عاشقوں کی آنکھ سے، عاشقوں کی آنکھ کے ساتھ
خویش = خود
رخسارِ خویش = رخسارِ خود، اپنا رخسار
تا = تاکہ
دریغ داشتن = روکے رکھنا، منع کرنا، امتناع کرنا، کوئی چیز دینے یا صرف کرنے سے پرہیز کرنا وغیرہ
دریغ داشتی = تم نے روکے رکھا، تم نے امتناع کیا
دریغ می‌داشتی = تم روکے رکھتے تھے، تم روکے رکھتے
تا دریغ می‌داشتی = تاکہ تم روکے رکھتے
از چشمِ خود = اپنی آنکھ سے
تا دریغ از چشمِ خود می‌داشتی = تاکہ تم اپنی آنکھ سے روکے رکھتے
دیدارِ خویش = دیدارِ خود، اپنا دیدار

× 'خویش' کا ایرانی تلفظ 'xîş'، جبکہ افغان/تاجک تلفظ 'xêş' ہے۔ اِس لفظ میں 'واوِ معدولہ' ہے، یعنی اِس لفظ کی املاء میں موجود 'واؤ' بے صدا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قصهٔ لیلی مخوان و غصهٔ مجنون
عهدِ تو منسوخ کرد ذکرِ اوایل

(سعدی شیرازی)
لفظی ترجمہ: لیلیٰ کا قصہ مت پڑھو اور مجنوں کا غم؛ تمہارے عہد نے منسوخ کر دیا اوّلوں کا ذکر۔
بامحاورہ ترجمہ: (اے یار،) لیلیٰ کا قصہ اور مجنوں کا غم مت پڑھو۔۔۔ تمہارے زمانے نے قُدَماء کا ذکر منسوخ کر دیا ہے۔

خواندن = پڑھنا
خوان = خوان کا مضارع اور فعلِ امر؛ تم پڑھو
مخوان (میمِ نفی + خوان) = تم مت پڑھو
غُصّه = غم
غصهٔ مجنون = مجنوں کا غم
عهد = زمانہ
عهدِ تو = تمہارا زمانہ
کردن = کرنا
کرد = اُس نے کیا، اُس نے کر دیا
منسوخ کردن = منسوخ کرنا
منسوخ کرد = اُس نے منسوخ کیا/کر دیا
عهدِ تو منسوخ کرد = تمہارے زمانے نے منسوخ کر دیا
اوایل (اوائل) = اوّل کی جمع؛ قُدَماء، متقدّمین


× خواندن، خوان اور مخوان کے درست تلفظ بالترتیب خاندن، خان، اور مخان ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعدیا مردِ نکونام نمیرد هرگز
مرده آن است که نامش به نکویی نبرند
(سعدی شیرازی)
اے سعدی! نیک نام شخص ہرگز نہیں مرتا؛ مردہ تو وہ ہے جس کا نام نیکی کے ساتھ نہ لیا جائے۔

سعدیا = اے سعدی؛ نام کے آخر میں الف، 'الفِ ندائی' ہے۔ اردو میں بھی 'خدایا' جیسے الفاظ میں اِس کا استعمال ہوتا ہے۔
نکونام = نیک نام
مُردن = مرنا
مِیر = مردن کا مضارع
مِیرد = وہ مرے
نمِیرد = وہ نہ مرے
مردِ نکونام نمیرد هرگز = نیک نام مرد نہ مرے ہرگز
آن = وہ
است = ہے
مردہ آن است که = مردہ وہ ہے کہ
نامش = اُس کا نام
نکویی = نیکی
به نکویی = نیکی کے ساتھ
نام بُردن = نام لینا، کسی چیز یا شخص کا نام ذکر کرنا
بَر = بُردن کا مضارع
نام بَرند = وہ نام لیں
نام نبَرند = وہ نام نہ لیں
نامش به نکویی نبَرند = اُس کا نام (لوگ) نیکی کے ساتھ نہ لیں


× ایران میں 'نکو' اور 'نکویی' کا تلفظ نون پر زیر کے ساتھ کیا جاتا ہے، جبکہ مردمِ تاجکستان اِن الفاظ کا تلفظ نون پر زبر کے ساتھ کرتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچه عاشقی و عشق بهترین کار است
بدانْک بی رخِ معشوقِ ما حرام بُوَد
(مولانا جلال‌الدین رومی)
اگرچہ عشق و عاشقی بہترین کام ہے (لیکن) جان لو کہ ہمارے معشوق کے چہرے کے بغیر حرام ہے۔

کار = کام
است = ہے
دانِستن = جاننا، سمجھنا، آگاہ ہونا، آگاہی رکھنا، دانائی رکھنا، باخبر ہونا، مطلع ہونا وغیرہ
دان = 'دانستن' کا بُنِ مضارع جو امر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے؛ جانو، جان لو
بِدان (ب + دان) = 'دان' سے قبل بائے تزئینی ہے جو اکثر امر کے ساتھ متصل کیا جاتا ہے اور معنائی لحاظ سے زائد ہوتا ہے۔ بعض اوقات اِس سے امر میں تاکید کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ شاعری میں یہ 'با' وزن قائم رکھنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
بِدانْکْ (بِدان + که) = جان لو کہ
بی = بے، بغیر (ایرانی اِس کا تلفظ 'bî'، جبکہ افغان/تاجک 'bê' کرتے ہیں)
رُخ = چہرہ
ما = ہم
معشوقِ ما = ہمارا معشوق
رُخِ معشوقِ ما = ہمارے معشوق کا چہرہ
بی رخِ معشوقِ ما = ہمارے معشوق کے چہرے کے بغیر
بُودن = ہونا
بُو = بُودن کا بُنِ مضارع (یہ مضارع متروک ہے، اور اِس کی بجائے 'باش' استعمال ہوتا ہے۔)
بُوَد = وہ ہو، وہ ہے، وہ ہوتا ہے؛ یہ صیغہ عموماً صرف شاعری میں نظر آتا ہے۔ نثر میں اِس کی بجائے 'باشد' یا 'است/ہست' استعمال ہوتے ہیں۔


کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھیے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غیرِ رُویت هر چه بینم نورِ چشمم کم شود
هر کسی را ره مدِه ای پردهٔ مژگانِ من
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تیرے چہرے کے سوا جو بھی دیکھوں میری آنکھوں کا نور کم ہو جائے۔
(سو) اے میرے مژگاں کے پردے! ہر کسی کو راستہ نہ دے دیا کر۔
(مترجم: سید عاطف علی)

رُو = چہرہ
رُویت = تمہارا چہرہ
غیرِ رُویت = تمہارے چہرے کے سوا/بجز
هر چه = جو کچھ بھی، جو چیز بھی
دیدن = دیکھنا
بین = 'دیدن' کا بُنِ مضارع
بینم = میں دیکھوں
نورِ چشم = چشم کا نور
نورِ چشمم = میری چشم کا نور
شدن = ہو جانا
شَو = 'شدن کا مضارع'
شَوَد = وہ ہو جائے
کم شدن = کم ہو جانا
کم شَوَد = وہ کم ہو جائے
نورِ چشمم کم شَوَد = میری چشم کا نور کم ہو جائے
کَس = شخص
کَسی = کوئی شخص، ایک شخص
هر کسی = ہر کوئی، ہر شخص، جو شخص بھی، جو کوئی بھی
را = کو
ھر کَسی را = ہر کسی کو، ہر شخص کو
دادن = دینا
دِه = دادن کا بُن مضارع؛ بُنِ مضارع ہی امر کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اِس کا معنی 'دو' بھی ہے۔
مدِه (میمِ نفی + دِه) = مت دو
ره = 'راہ' کا مخفف
ره دادن = راہ دینا، راستہ دینا
رہ مدِه = راہ مت دو

ای (تلفظ: ey) = اے
مِژہ = پلک کا بال
مِژگان = مِژہ کی جمع
پردۂ مژگانِ من = میری مِژگاں کا پردہ، میرا پردۂ مِژگاں


کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھیے گا۔
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین
بہت شکریہ حسان بھائی
یہ لڑی مجھے اب تک کی دیکھی گئی اردو محفل کی تمام لڑیوں سے زیادہ پسند آئی ہے ۔ مجھے فارسی سیکھنے کا ہمیشہ شوق رہا ہے ۔ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے میں ایک ساتھی سے اس بابت بات ہوئی تو انھوں نے مجھے ایک کتاب دی 'کتابِ فارسی' جس کے مصنف مفتی محمد اشرف القادری صاحب ہیں اور یہ 'طلبائے تنظیم المدارس (اہلِ سنت) پاکستان ' کے لیے لکھی گئی ہے ۔ اس میں بڑے آسان طریقے سے فارسی سکھائی گئی ہے سب سےاچھی بات اس کتاب میں یہ ہے اس میں ہر لفظ پر اعراب لگائے گئے ہیں جس سے ہر لفظ کا صحیح تلفظ بھی معلوم ہو جاتا ہے میں نے اس کے کوئی بیس اسباق تیار کیے تھے پھر توجہ کہیں اور ہو گئی اب پھر مزید آگے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ہے
آپ بھی جہاں بھی ضروری ہو اعراب ضرور لگائیے گا
 

حسان خان

لائبریرین
بن مضارع کی وضاحت کر دیجئے ۔ شکریہ
بُن = جڑ
فارسی زبان میں کسی بھی مصدر سے مُشتَق ہونے والی دو بنیادی شکلیں ہوتی ہیں جنہیں بُنِ ماضی اور بُنِ مُضارِع کہا جاتا ہے۔ اُن ہی دو شکلوں کی مدد سے تمام فعلی زمانے اور فعلی حالتیں بنائی جاتی ہیں۔ بُنِ ماضی زمانۂ ماضی کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ بُنِ مضارع حال اور مستقبل کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
کسی بھی مصدر سے بُنِ ماضی حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ بس مصدر کے آخر کا 'نون' حذف کر دیجیے، آپ کو بُنِ ماضی مل جائے گا۔ مثلاً:
دیدن = دید
کردن = کرد
خواندن = خواند
لیکن بُنِ مضارع معلوم کرنے کے کوئی پوری طرح معیّن و ثابت قاعدے نہیں ہیں، اِس لیے عموماً ہر مصدر کا بُنِ مضارع یاد کرنا پڑتا ہے۔ فارسی میں زیادہ تر مرکّب افعال استعمال ہوتے ہیں، اِس لیے بہت کم مصادر ہی کو ازبر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مندرجۂ بالا تین مصدروں کے بُن ہائے مضارع یہ ہیں:
دیدن = بِین
کردن = کُن
خواندن = خوان
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بہت شکریہ حسان بھائی
یہ لڑی مجھے اب تک کی دیکھی گئی اردو محفل کی تمام لڑیوں سے زیادہ پسند آئی ہے ۔ مجھے فارسی سیکھنے کا ہمیشہ شوق رہا ہے ۔ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے میں ایک ساتھی سے اس بابت بات ہوئی تو انھوں نے مجھے ایک کتاب دی 'کتابِ فارسی' جس کے مصنف مفتی محمد اشرف القادری صاحب ہیں اور یہ 'طلبائے تنظیم المدارس (اہلِ سنت) پاکستان ' کے لیے لکھی گئی ہے ۔ اس میں بڑے آسان طریقے سے فارسی سکھائی گئی ہے سب سےاچھی بات اس کتاب میں یہ ہے اس میں ہر لفظ پر اعراب لگائے گئے ہیں جس سے ہر لفظ کا صحیح تلفظ بھی معلوم ہو جاتا ہے میں نے اس کے کوئی بیس اسباق تیار کیے تھے پھر توجہ کہیں اور ہو گئی اب پھر مزید آگے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ہے
آپ بھی جہاں بھی ضروری ہو اعراب ضرور لگائیے گا
خیلی متشکّرم!
اللہ آپ کی فارسی دانی میں اضافہ فرمائے!
جہاں ضرورت محسوس ہو گی، وہاں ضرور اعراب لگاؤں گا۔

شکریہ!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کیفیتِ عُرفی طلب از طینتِ غالب
جامِ دگران بادهٔ شیراز ندارد
(غالب دهلوی)

لفظی ترجمہ:
عُرفی کی کیفیت طلب کرو غالب کی فطرت سے؛ دیگروں کا جام بادۂ شیراز نہ رکھے۔
بامحاورہ ترجمہ و تشریح:
عُرفی، شیرازی تھا اور غالب اس کا بہت مداح تھا۔ چنانچہ کہتا ہے:
کہ اگر تجھے عُرفی کے نشے کی کیفیت درکار ہے تو وہ غالب کے مزاج سے طلب کر۔ تجھے دوسروں کے جام میں بادۂ شیراز نہیں ملے گی۔
یعنی عُرفی کے کلام کا رنگ غالب کے رنگِ کلام میں موجود ہے۔

(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

کیفیّت = صفت، حالت، وضع، وضعیت؛ لذت
عُرفی = عُرفی شیرازی؛ ایک معروف فارسی شاعر
طَلَبیدن = طلب کرنا، چاہنا، ڈھونڈنا، جستجو کرنا
طَلَب = مصدرِ 'طلبیدن' کا بُن مضارع؛ فارسی میں بُنِ مضارع امر کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لہٰذا یہ لفظ یہاں 'طلب کرو، چاہو، ڈھونڈو' وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
از = سے
طِینت = سرشت، فطرت، خُو، طبیعت
غالب = میرزا اسداللہ خان غالب دہلوی
دِگر = 'دیگر' کا مخفف
دِگران = 'دگر' کی جمع
جامِ دگران = دیگروں کا جام
بادہ = شراب
شیراز = ایران کا شہر جہاں سے عُرفی شیرازی کا تعلق تھا۔
داشْتن = رکھنا، مالک ہونا، حامل ہونا
دار = مصدرِ 'داشتن' کا بُنِ مضارع
دارَد = 'داشتن' کا صیغۂ مضارعِ شخصِ سومِ مفرد؛ وہ رکھتا ہے، وہ مالک ہے، وہ حامل ہے، اُس کے پاس ہے
ندارَد = وہ نہیں رکھتا، اُس کے پاس نہیں ہے
بادۂ شیراز ندارد = وہ بادۂ شیراز نہیں رکھتا، اُس کے پاس بادۂ شیراز نہیں ہے
جامِ دگران بادهٔ شیراز ندارد = دیگروں کا جام بادۂ شیراز نہ رکھے/نہیں رکھتا۔


کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھیے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غالب از من شیوهٔ نُطقِ ظهوری زنده گشت
از نوا جان در تنِ سازِ بیانش کرده‌ام
(غالب دهلوی)


لفظی ترجمہ:
غالب مجھ سے ظہوری کی سخن گوئی کا اسلوب زندہ گھوما (ہوا)؛ میں نے نوا سے جان اُس کے سازِ بیان کے تن میں کر دی ہے۔

بامحاورہ ترجمہ و تشریح:
مرزا غالب نظیری، طالب، عُرفی کے ساتھ ساتھ ظہوری کے اسلوبِ بیان سے بہت متاثر تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی غزلوں پر غزلیں کہی ہیں۔ حسبِ معمول اس مقطع میں ظہوری کے اسلوبِ بیان اور ساتھ ہی اپنے کلام کی تحسین کی ہے۔
غالب میری شاعری سے ظہوری کا اندازِ بیان زندہ ہوا۔
میں نے اپنے شاعرانہ نغموں (نوا) سے گویا اس کے سازِ سخن میں جان ڈال دی ہے۔

(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

از = سے
من = میں
از من = مجھ سے
شیوہ = طرز، راہ و روش، طریقہ، اسلوب، سَبک وغیرہ
نُطْق = سخن، گفتار، کلام، سخن گوئی، سخن رانی، تکلم، تقریر وغیرہ
ظُہُوری = نورالدین محمد ظُہُوری تُرشیزی، ایک ایرانی فارسی گو شاعر جو ہند مہاجرت کر کے عادل شاہیوں کے دربار سے وابستہ ہو گئے تھے۔
شیوهٔ نُطقِ ظهوری = ظہوری کی سخن گوئی کا اسلوب
گَشْتَن = اِس مصدر کا بنیادی لفظی معنی تو گھومنا اور گردش کرنا ہے، لیکن یہ عموماً 'شُدن' یعنی ہو جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
زندہ گشتن = زندہ ہو جانا
زندہ گشت = وہ زندہ ہو گیا
شیوهٔ نُطقِ ظهوری زنده گشت = ظہوری کی سخن گوئی کا اسلوب زندہ ہو گیا
نوا = نغمہ، سُرُود، آہنگ، پردۂ موسیقی (سُر)
از نوا = نوا سے، نوا کے ذریعے
در = میں
در تن = تن میں
سازِ بیان = یہاں اضافتِ تشبیہی ہے، یعنی 'بیان' کو 'ساز' سے تشبیہ دی گئی ہے۔
سازِ بیانش = اُس کا سازِ بیان، یعنی ظہوری کا سازِ بیان
در تنِ سازِ بیانش = اُس کے سازِ بیان کے تن میں
کردن = کرنا
کرده‌ام = (ماضیِ قریب، صیغۂ واحد متکلم) میں نے کر دیا ہے، میں کر چکا ہوں
جان در تنِ سازِ بیانش کرده‌ام = میں نے اُس سازِ بیان کے تن میں جان کر دی ہے، یعنی جان ڈال دی ہے


کوئی سوال ہو تو ضرور پوچھیے گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شدی مشهورِ شهر آن سان که همچون سورهٔ یوسف
همی‌خوانند طفلان قصهٔ حُسنت به مکتب‌ها
(عبدالرحمٰن جامی)

تم شہر میں اس طرح مشہور ہو گئے ہو کہ مکاتب میں بچے تمہارے حُسن کے قصے کو سورهٔ یوسف کی طرح پڑھتے ہیں۔

شُدن = ہو جانا
شُدی = تم ہو گئے
مشهورِ شهر = شہر کا مشہور، یعنی شہر میں مشہور
شُدی مشهورِ شهر = تم شہر کے مشہور شخص ہو گئے؛ تم شہر میں مشہور ہو گئے
سان = طرح، مانند
آن سان = اُس طرح
همچون (تلفظ: همچُن) = طرح، مانند
همچون سورهٔ یوسف = سورۂ یوسف کی مانند
خوانْدن (تلفظ: خاندن) = پڑھنا، خوانْنا
خوانند (تلفظ: خانند) = وہ پڑھیں
همی‌خوانند = وہ پڑھتے ہیں، وہ پڑھتے رہتے ہیں، وہ پڑھ رہے ہیں
طِفْل = بچہ
طِفلان = طفل کی جمع، بچے
همی‌خوانند طفلان = بچے پڑھتے ہیں، بچے پڑھتے رہتے ہیں، بچے پڑھ رہے ہیں
حُسنَت = تمہارا حُسن
قصهٔ حُسنت = تمہارے حُسن کا قصہ
به = یہ کثیرالمعانی لفظ یہاں 'در' اور 'میں' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
مکتب‌ها = مکتب کی جمع، مکاتِب، مکتبوں

به مکتب‌ها = مکاتب میں، مکتبوں میں
 

حسان خان

لائبریرین
کشم بر صفحهٔ دل صورتِ جانانهٔ خود را
بدین صورت دهم تسکین دلِ دیوانهٔ خود را
(شیخ احمد خلخالی)
تحت اللفظی ترجمہ: کھینچوں صفحۂ دل پر اپنے محبوب کی صورت کو؛ اِس صورت سے دوں تسکین اپنے دیوانے دل کو۔
بامحاورہ ترجمہ: میں صفحۂ دل پر اپنے محبوب کی صورت کھینچتا ہوں، [اور] اِس طرح اپنے دیوانے دل کو تسکین دیتا ہوں۔

کشیدن = کھینچنا
کَش = کشیدن کا بُنِ مضارع
کَشَم = میں کھینچوں، میں کھینچتا ہوں؎
صورت کشیدن = صورت کھینچنا
بر = پر
بر صفحهٔ دل = صفحۂ دل پر
جانانه = معشوق، محبوب
صورتِ جانانهٔ خود = اپنے محبوب کی صورت
را = کو
صورتِ جانانهٔ خود را = اپنے محبوب کی صورت کو
بدین (تلفظ: بَدِن) = به این
بدین صورت (به این صورت) = اِس صورت سے، اِس طرح، یوں
دادن = دینا
دِه = دادن کا بُنِ مضارع
دِهَم = میں دوں، میں دیتا ہوں
تسکین دادن = تسکین دینا
دلِ دیوانهٔ خود را = اپنے دیوانے دل کو
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از آن علمی که دانش‌مند دارد
چه حاصل چون در او علمِ نظر نیست
(غزالی مشهدی)
اُس سارے علم سے کہ جو کسی دانشمند کے پاس ہے، کیا فائدہ کہ جب اُس کے پاس علمِ نظر ہی نہیں ہے۔
(مترجم: محمد وارث)

از = سے
آن = وہ (اسمِ اشارہ)
آن علم = وہ علم
آن علمی که = وہ علم جو۔۔۔ ('علم' کے بعد 'ی' تخصیص کے لیے ہے۔)
از آن علمی که = اُس علم سے کہ جو۔۔۔
داشْتن = رکھنا، کسی چیز کا مالک ہونا، کسی چیز کا حامل ہونا
دار = 'داشتن' کا بُنِ مضارع
دارَد = وہ رکھتا ہے، اُس کے پاس ہے
از آن علمی که دانش‌مند دارد = اُس علم سے کہ جو دانشمند کے پاس ہے
چه (تلفظ: çe) = کیا
چه حاصل = کیا حاصل، کیا فائدہ
چون (تلفظ: چُن) = یہ کثیرالمعانی لفظ یہاں 'جب' یا 'جس وقت' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
او = وہ (اسمِ ضمیر)
در اُو = اُس میں، اُس کے پاس
علمِ نظر = یہاں شاید یہ ترکیب 'علمِ فِراست' اور 'بصیرت' کے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔
نیست = نہیں ہے
 
Top