فارسی ابیات کی لفظی تحلیل و تجزیہ

حسان خان

لائبریرین
دلِ ما خوں شود از غم اگر خونِ کسے ریزی
کہ می دانیم اے بدخو ہمیں با ما کنی آخر


قتیل لاہوری

جب بھی تُو کسی کا خون بہاتا ہے تو ہمارا دل غم سے خون ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اے بدخو ہمارے ساتھ بھی آخر تُو یہی کچھ کرے گا۔
دلِ ما خون شود از غم اگر خونِ کسی ریزی
که می‌دانیم ای بدخو همین با ما کنی آخر

(قتیل لاهوری)
جب بھی تُو کسی کا خون بہاتا ہے تو ہمارا دل غم سے خون ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اے بدخو ہمارے ساتھ بھی آخر تُو یہی کچھ کرے گا۔
(مترجم: محمد وارث)

ما = ہم
دلِ ما = ہمارا دل
شُدن = ہو جانا
خون شُدن = خون ہو جانا
شَو = شُدن کا بُنِ مضارع
شَوَد = ہو جائے، ہو جاتا ہے
دلِ ما خون شَوَد = ہمارا دل خون ہو جائے / ہو جاتا ہے
از = سے، کے باعث
از = غم سے، غم کے باعث
کَس = شخص
کَسی = کوئی شخص، ایک شخص
خونِ کَسی = کسی شخص کا خون
ریختن = بہانا
خون ریختن = خون بہانا
خونِ کَسی ریختن = کسی شخص کا خون بہانا
ریز = 'ریختن' کا بُنِ مضارع
ریزی = تم بہاؤ
اگر خونِ کَسی ریزی = اگر تم کسی شخص کا خون بہاؤ
که = کیونکہ
دانِستن = جاننا
دان = دانِستن کا بُنِ مضارع
دانیم = ہم جانیں
می = علامتِ استمرار و امتداد و تکرار
می‌دانیم (می + دانیم) = ہم جانتے ہیں
که می‌دانیم = کہ ہم جانتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں
ای = اے
بدخُو = وہ شخص جس کی خُو (خِصلت و فِطرت) بد ہو
همین (تلفظ: هَمِن) = یہی
با = ساتھ
با ما = ہمارے ساتھ
کردن = کرنا
کُن = 'کردن' کا بُنِ مضارع
کُنی = تم کرو (یہاں پر مستقبل کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے یعنی 'تم کرو گے')
همین با ما کُنی = یہی تم ہمارے ساتھ کرو [گے]
آخر = آخرِ کار، عاقبت الامر، انجامِ کار، بالآخر وغیرہ
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہتے ہیں:
چنان گفت این غزل را در جوابِ مولوی صائب

که روحِ شمسِ تبریزی ز شادی در سجود آمد
(صائب تبریزی)
صائب نے اِس غزل کو مولویِ [رومی] کے جواب میں اِس [احسن] طرز سے کہا کہ شادمانی سے شمس تبریزی کی روح سُجود میں آ گئی۔
چُنان = اُس طرح، اُس طور، اُس طرز سے
گُفتن = کہنا
گُفت = اُس نے کہا
این = یہ
را = کو
این غزل را = اِس غزل کو
گُفت این غزل را = اُس نے کہا اِس غزل کو
چُنان گُفت این غزل را = اُس طرح کہا اِس غزل کو
مولوی = مولانا رومی
در جوابِ مولوی = مولانا رومی کے جواب میں
صائب = صائب نے
چُنان گفُت این غزل را در جوابِ مولوی صائب = اِس طرح کہا اِس غزل کو مولوی کے جواب میں صائب نے (یا پھر: صائب نے مولوی کے جواب میں اِس غزل کو اِس طرح/یوں کہا)
ز = 'از' کا مخفّف
از = سے، کے باعث
شادی = شادمانی، خوشی
ز شادی = شادمانی سے، شادمانی کے باعث
آمدن = آنا
آمد = وہ آیا، وہ آ گیا
سُجود = سجدہ کرنا
در سُجود آمد = وہ سجدے میں آ گیا، وہ سجدے کی حالت میں آ گیا، وہ سجدہ کرنے لگا
ز شادی در سُجود آمد = شادمانی سے سجدے کی حالت میں آ گیا
روحِ شمسِ تبریزی ز شادی در سُجود آمد = شمسِ تبریزی کی روح شادمانی سے سجدے میں آ گئی
 

حسان خان

لائبریرین
هر دُود که پیدا شود از سینهٔ چاکم
ابری شود و گریه کند بر سرِ خاکم

(سلطان بایزید خان ثانی)
میرے سینۂ چاک سے جو بھی دُود ظاہر ہوتا [اور بیرون آتا] ہے، وہ ایک ابر بن جاتا ہے اور میری تُربت پر گریہ کرتا ہے۔
× دُود = دھواں

هر = ہر، جو بھی
دُود = دہواں
که = جو
هر دُود که = ہر [وہ] دُود کہ جو؛ جو بھی دُود
پیدا = ظاہر، آشکار، نمایاں
شُدن = ہونا، ہو جانا
پیدا شدن = ظاہر ہونا، نمایاں ہونا
شَو = 'شُدن' کا بُنِ‌ مضارع
شَوَد = [وہ] ہوئے، ہوتا ہے، ہو جائے، ہو جاتا ہے
پیدا شَوَد = ظاہر ہو، ظاہر ہو جائے، ظاہر ہوتا ہے
از = سے
سینهٔ چاکم = میرے سینۂ چاک سے
ابر = بادل
ابری (ابر + یائے تنکیر) = کوئی ابر، ایک ابر
ابری شَوَد = ایک ابر ہو جائے/جاتا ہے، ایک ابر بن جائے/جاتا ہے
و = اور
کردن = کرنا
گریہ کردن = کریہ کرنا
کُن = 'کردن' کا بُنِ مضارع
گریہ کُند = [وہ] گریہ کرے، گریہ کرتا ہے
بر = پر
خاک = مجازاً قبر کے معنی میں استعمال ہوا ہے
بر سرِ خاکم = میری قبر کے اوپر، میری قبر کے سر پر، میری قبر کے سِرہانے پر
 

حسان خان

لائبریرین
فلک گر سِفله را عزّت دِهد خوارش کند آخر
هوا زد بر زمین برداشت بالا چون کفِ خاکی

(جُنیدالله حاذق)
فلک اگر شخصِ پست کو عزّت دیتا ہے تو آخرِ‌ کار اُسے ذلیل کر دیتا ہے۔۔۔۔ ہوا نے جب کسی کفِ خاک کو بالا اُٹھایا تو [بعد ازاں] زمین پر دے مارا۔
سِفله = پست، فُرومایہ، ناکس
را = کو
دادن = دینا
دِه = 'دادن' کا بُنِ مضارع
دِهد = وہ دے، وہ دیتا ہے
عزّت دادن = عزّت دینا
عزّت دِهد = وہ عزّت دے، وہ عزّت دیتا ہے
خوار (تلفظ: خار) = ذلیل، زبُوں، حقیر
کردن = کرنا
کُن = 'کردن' کا بُنِ مضارع
کُند = وہ کرے، وہ کرتا ہے
خوار کردن = ذلیل کرنا
خوار کُند = وہ ذلیل کر دے/دیتا ہے
خوارَش کُند = وہ اُس کو ذلیل کر دے/دیتا ہے ('خوار' کے بعد متّصل ہونے والی ضمیرِ مفعولی 'ش' شخصِ سوم کی جانب راجع ہے)
آخر = آخرِ کار، انجامِ کار، عاقبت الامر
زدن = مارنا
زد = اُس نے مارا
بر زمین زدن = زمین پر مارنا
بر زمین زد = اُس نے زمین پر مارا
هوا زد بر زمین = ہوا نے زمین پر مارا
برداشتن = اُٹھانا، بلند کرنا
برداشت = اُس نے اُٹھایا، اُس نے بلند کیا
برداشت بالا = اُس نے بالا اُٹھایا
چون = جب، جس وقت
کفِ خاکی (کفِ خاک + یائے تنکیر) = کوئی کفِ خاک، اِک کفِ خاک
 

حسان خان

لائبریرین
ما دهانِ یار را از غنچه بهتر گفته‌ایم
غنچه هم این حرف خواهد گفت گر گویا شود

(محمد فضولی بغدادی)
ہم نے دہانِ یار کو غُنچے سے بہتر کہا ہے۔۔۔ غُنچہ اگر بولنے لگ جائے تو وہ بھی یہی سُخن کہے گا۔
ما = ہم
را = کو
دهانِ یار را = دہانِ یار کو
ما دهانِ یار را = ہم نے دہانِ یار کو
از = سے
از غُنچه = غُنچے سے
از غُنچه بهتر = غُنچے سے بہتر
گُفتن = کہنا
گُفته‌ایم = ہم نے کہا ہے
از غُنچه بهتر گُفته‌ایم = ہم نے غُنچے سے بہتر کہا ہے
هم = بھی
غنچه هم = غُنچہ بھی
این = یہ
حَرف = سُخن، بات
خواهد گُفت = وہ کہے گا
این حَرف خواهد گُفت = وہ یہ سُخن کہے گا
غنچه هم این حَرف خواهد گُفت = غُنچہ بھی یہ سُخن کہے گا
گر = اگر
گویا = کہنے/بولنے والا، جو شخص کہتا/بولتا ہو
شُدن = ہو جانا
شَو = 'شُدن' کا بُنِ مضارع
شَوَد = وہ ہو جائے
اگر گویا شود = اگر وہ گویا ہو جائے، اگر وہ بولنے والا ہو جائے، اگر وہ بولنے لگ جائے
 

حسان خان

لائبریرین
شنیدم مردمِ افسانہ گو را دوست می داری
اگر رخصت دہی من ہم عجب افسانہ ای دارم


قتیل لاہوری

میں نے سُنا کہ تُو افسانہ گو لوگوں کو عزیز رکھتا ہے، اگر تُو اجازت دے تو میں بھی عجب ہی افسانہ رکھتا ہوں۔
شُنیدن = سُننا
شُنیدم = میں نے سنا
مردُم = خَلق، لوگ
افسانه‌گو = افسانہ کہنے والا، جو شخص افسانہ کہتا ہو
را = کو
داشتن = رکھنا
دار = 'داشتن' کا بُنِ مضارع
داری = تم رکھو، تم رکھتے ہو
می‌داری = تم رکهتے ہو
دوست داشتن = دوست رکھنا، محبوب رکھنا، محبّت کرنا, پسند کرنا
دوست می‌داری = تم دوست رکھتے ہو، تم محبوب رکھتے ہو
مردُمِ افسانه‌گو را دوست می‌داری = تم افسانہ گو مردُم کو دوست/محبوب رکھتے ہو، تم افسانہ گو مردُم کو محبّت/پسند کرتے ہو
رُخصت = اجازت، اِذن
دادن = دینا
دِه = 'دادن' کا بُنِ مضارع
دہی = تم دو/دیتے ہو
اگر رُخصت دهی = اگر تم اجازت دو
من = مَیں
هم = بھی
عجب = عجب، عجیب، حیرت انگیز
افسانه‌ای (افسانه + یائے تنکیر) = ایک افسانہ، کوئی افسانہ
دارم = میں رکھتا ہوں، میرے پاس ہے
افسانه‌ای دارم = میرے پاس ایک/کوئی افسانہ ہے، میں ایک/کوئی افسانہ رکھتا ہوں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بر جمالت همچنان من عاشقِ زارم هنوز
ناله‌ای کز سوزِ عشقت داشتم دارم هنوز

(امیر خسرو دهلوی)
میں تمہارے جمال پر ہنوز اُسی طرح عاشقِ زار ہوں۔۔۔۔ جو نالہ میں تمہارے سوزِ عشق کے باعث رکھتا تھا، ہنوز رکھتا ہوں۔
بر جمالت همچنان من عاشقِ زارم هنوز
ناله‌ای کز سوزِ عشقت داشتم دارم هنوز

(امیر خسرو دهلوی)
میں تمہارے جمال پر ہنوز اُسی طرح عاشقِ زار ہوں۔۔۔۔ جو نالہ میں تمہارے سوزِ عشق کے باعث رکھتا تھا، ہنوز رکھتا ہوں۔

بر = پر
جمالت = تمہارا جمال
بر جمالت = تمہارے جمال پر
همچُنان = اُسی طرح
من = مَیں
عاشقِ زارم = عاشقِ زار ہُوں
هنوز = تا حال، ابھی تک
کز = 'که از' کا مُخفّف
ناله‌ای که = (ناله + یائے تخصیص + که) = جو نالہ کہ، وہ نالہ کہ جو
عشقت = تمہارا عشق
سوزِ عشقت = تمہارے عشق کا سوز
از سوزِ عشقت = تمہارے سوزِ عشق سے، تمہارے سوزِ عشق کے سبب
ناله‌ای کز سوزِ عشقت = وہ نالہ کہ جو تمہارے سوزِ عشق کے سب۔۔۔
داشْتن = رکھنا، حامل ہونا، کوئی چیز پاس ہونا
داشْتم = میں رکھتا تھا، میرے پاس تھا
ناله‌ای کز سوزِ عشقت داشتم = وہ نالہ کہ جو مَیں تمہارے سوزِ عشق کے سبب رکھتا تھا
دار = 'داشتن' کا بُنِ مضارع
دارم = میں رکھوں/رکھتا ہوں، میرے پاس ہے
 

اسيدرضا

محفلین
شکریہ اوشو بھائی۔ :)
اگر آپ کے یا کسی بھی دوست کے ذہن میں کوئی سوال آئے تو بلاتأمّل پوچھ لیجیے گا۔ مجھے اپنی زبان 'فارسی' کی ترویج سے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے، اور اِس سلسلے میں مَیں ہر ممکنہ مدد کے لیے تیار رہتا ہوں۔ :)
فارسی میں اسم مفعول بنانے ہوئے آخر میں ہ سے پہلے زبر پڑھیں گے یازیر؟آزمودَہ یا آزمودِہ،پروردَہ یا پروردِہ،آفریدَہ یا آفریدِہ
 
فارسی میں اسم مفعول بنانے ہوئے آخر میں ہ سے پہلے زبر پڑھیں گے یازیر؟آزمودَہ یا آزمودِہ،پروردَہ یا پروردِہ،آفریدَہ یا آفریدِہ
بڑھاتے غالباً زبر ہی ہیں مگر ایرانی انھیں شاید کچھ ایسے پڑھتے ہیں: آزمودے، پروردے وغیرہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں اسم مفعول بنانے ہوئے آخر میں ہ سے پہلے زبر پڑھیں گے یازیر؟آزمودَہ یا آزمودِہ،پروردَہ یا پروردِہ،آفریدَہ یا آفریدِہ
تاجکستان اور افغانستان میں زبر اور ایران میں زیر۔
بڑھاتے غالباً زبر ہی ہیں مگر ایرانی انھیں شاید کچھ ایسے پڑھتے ہیں: آزمودے، پروردے وغیرہ۔
'ے' کی آواز دِکھانے کے لیے ایرانی کسرہ ہی کا استعمال کرتے ہیں: پروردِه
مُعاصر ایران میں کسرہ کا تلفظ 'i' نہیں، بلکہ 'e' ہے، اِسی لیے 'کِتاب' کا ایرانی تلفظ 'ketâb' ہے۔

جنابِ اسيدرضا، آیندہ کوئی اِس طرح کے مُتفرّق سوالات ہوں تو اُنہیں اِس دھاگے میں پوچھیے گا:
زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات
 
آخری تدوین:

اسيدرضا

محفلین
تاجکستان اور افغانستان میں زبر اور ایران میں زیر۔

'ے' کی آواز دِکھانے کے لیے ایرانی کسرہ ہی کا استعمال کرتے ہیں: پروردِه
مُعاصر ایران میں کسرہ کا تلفظ 'i' نہیں، بلکہ 'e' ہے، اِسی لیے 'کِتاب' کا ایرانی تلفظ 'ketâb' ہے۔

جنابِ اسيدرضا، آیندہ کوئی اِس طرح کے مُتفرّق سوالات ہوں تو اُنہیں اِس دھاگے میں پوچھیے گا:
زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات
آپ کا شکرگزار
 

حسان خان

لائبریرین
آب می‌بندد به رویِ تشنگانِ کربلا
هر که دارد جامِ مَی را در خُمار از من دریغ

(صائب تبریزی)
جو بھی شخص خُمار [کی حالت] میں مجھ سے جامِ شراب روکے رکھتا ہے، وہ [گویا] تشنگانِ کربلا پر آب بند کرتا ہے۔

× خُمار = نشہ و مستی زائل ہونے کے بعد لاحق ہونے والی کیفیتِ سر درد و کسالت، جس میں شراب کی دوبارہ طلب محسوس ہوتی ہے؛ ہینگ اوور
بسْتن = بند کرنا، باندھنا
بنْد = 'بستن' کا بُنِ مضارع
بنْدد = (وہ) بند کرے، (وہ) باندھے
می‌بنْدد = (وہ) بند کرتا ہے، (وہ) باندھتا ہے
آب می‌بندد = آب بند کرتا ہے
رُو/رُوی = چہرہ، رُخ
به رویِ = کے چہرے کی جانب، کے چہرے پر
به رویِ تشنگانِ کربلا = تشنگانِ کربلا کے رُخ پر، تشنگانِ کربلا کے چہرے کی جانب
هر که = جو بھی شخص، جو کوئی بھی
داشتن = رکھنا
دریغ داشتن = دریغ رکھنا؛ مضائقہ کرنا، امتناع کرنا، روکے رکھنا
دار = 'داشتن' کا بُنِ مضارع
دارد = (وہ) رکھے
دریغ دارد = دریغ رکھے
هر که دریغ دارد = جو بھی شخص دریغ رکھے، جو بھی شخص روکے رہے، جو بھی شخص امتناع کرے
جامِ مَی را = جامِ شراب کو
خُمار = نشہ و مستی زائل ہونے کے بعد لاحق ہونے والی کیفیتِ سر درد و کسالت، جس میں شراب کی دوبارہ طلب محسوس ہوتی ہے؛ ہینگ اوور
در خُمار = خُمار میں
از من = مجھ سے
از من دریغ دارد = مجھ سے دریغ رکھے
 

حسان خان

لائبریرین
نخواهی که باشد دلت دردمند
دلِ دردمندان برآور ز بند

(سعدی شیرازی)
[اگر] تم نہیں چاہتے کہ تمہارا دل دردمند ہو تو دردمندوں کے دل کو بندِ [درد] سے خَلاصی دلاؤ۔
خواستن = چاہنا
خواهی = تم چاہو
نخواهی = تم نہ چاہو
باشد = ہو
دِلت = تمہارا دل
دلِ دردمندان = دردمندوں کا دل
آورْدن = لانا
برآورْدن = اوپر لانا، بالا لانا، بر لانا؛ بُلند کرنا (اِس بیت میں 'رَہا کرنا، نجات دلانا، خَلاص کرنا' کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے)
آور (فعلِ امر) = لے آؤ
برآور = بالا لے آؤ، بلند کر لو (یعنی 'نجات دلا دو، خَلاص کر دو' وغیرہ)
ز = «از» کا مُخفّف
بنْد = قید، اسیری؛ زنجیر؛ رسَن، ریسمان، رسّی
برآور ز بند = زنجیر و قید سے بالا لے آؤ (خَلاصی دلاؤ)

× بیت کے مصرعِ اوّل میں «اگر» محذوف ہے۔
 
آخری تدوین:
Top