فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
"در وقت‌هایی، که من به سنِّ مکتبی رسیدم، دستِ پدرم نمی‌رسید، که مرا شخصا‌ً خواناند. بنابر این مرا در مکتبِ پیشِ مسجدِ قِشلاقِ خودمان - قشلاقِ ساکترَی گذاشت. چون من در آن مکتب چیزی را نیاموختم، مرا از آن جا گرفته به پیشِ زنِ امامِ قشلاق، که مکتبِ دخترکانه داشت و نسبت به مکتب‌دارِ مرد بهتر بود، گذاشت و در این میان ابجد و حسابِ ابجد را به من یاد داده به کشاده شدنِ ذهنم سبب شد (من دورهٔ حیاتِ مکتبیِ خودم را در 'مکتبِ کهنه' نام آچیرکِ خودم به تفصیل نوشته‌ام)."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم

مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"جب مَیں مکتب جانے کی عمر میں پہنچا، تب میرے والد مجھے شخصاً پڑھانے پر قادر نہ تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے مجھے ہمارے اپنے گاؤں 'ساکترے' کی مسجد کے سامنے کے مکتب میں داخل کرا دیا۔ چونکہ میں نے اُس مکتب میں کوئی چیز نہ سیکھی، [اس لیے] اُنہوں نے مجھے وہاں سے ہٹا کر گاؤں کے امام کی بیوی، جن کا بچیوں کا مکتب تھا اور جو مرد مکتب دار کی نسبت بہتر تھیں، کے پاس بٹھا دیا اور اسی دوران وہ مجھے ابجد اور حسابِ ابجد سکھا کر میرے ذہن کی کشادگی کا سبب بنے (میں نے اپنی مکتبی حیات کے دور کو اپنے 'مکتبِ کہنہ' نامی مضمون میں تفصیل سے بیان کیا ہے)۔"
گذشتہ سے پیوستہ:
"من در پیشِ بی‌بی‌خلیفه (مکتبِ زنانه) حافظ، چند جزء از بیدل و چند جزء از غزلیاتِ صائب (در مکتب‌های آن زمان صائب‌خوانی رسم نباشد هم، پدرم، که صائب را دوست می‌داشت و چند غزلِ او را از کجا نوشته گرفته بوده‌است، با من به بی‌بی‌خلیفه فرستاد، که همان غزل‌ها را هم به من خواناند) خوانده، در ده‌سالگی مکتب را تمام کرده برآمدم. لیکن هنوز سواد نداشتم، چیز‌های در مکتب خواندگی‌ام را خوانده توانم هم، چیزهای دیگر و از آن پیش نخوانده‌ام را خوانده نمی‌توانستم."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم

مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"میں نے بی بی خلیفہ (مکتبِ زنانہ) کے پاس حافظ، بیدل کے چند جزء اور صائب کی غزلوں کے چند جزء (اُس زمانے کے مکاتب میں صائب خوانی کی رسم نہیں تھی، پھر بھی میرے میرے والد، جو صائب کو پسند کرتے تھے اور اُس کی چند غزلوں کو کہیں سے لکھ لائے تھے، نے میرے ہاتھ وہ غزلیں بی بی خلیفہ کو بھجوائیں کہ وہ اُن غزلوں کو بھی مجھے پڑھائیں) پڑھے اور دس سال کی عمر میں مکتب تمام کر کے خارج ہو گیا۔ لیکن میں ہنوز خواندگی سے فاقد تھا، جو چیزیں میں نے مکتب میں پڑھی تھیں اُنہیں پڑھ سکنے کے باوجود میں دیگر اور پہلے سے نہ پڑھی ہوئی چیزیں پڑھ نہیں سکتا تھا۔"

× بی‌خلیفه یا (شکلِ پُرّه‌اش) بی‌بی‌خلیفه - معلمهٔ مکتبِ کهنهٔ دختران را می‌گفتند. بی‌بی‌خلیفه‌ها عادتاً در حولیِ خود مکتب کشاده دختران را می‌خواناندند.
× بی خلیفہ یا (اس کی کامل شکل) بی بی خلیفہ قدیم دخترانہ مکتب کی معلمہ کو کہا جاتا تھا۔ بی بی خلیفائیں معمولاً اپنے صحن میں مکتب کھول کر لڑکیوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"در وقت‌هایی، که من به سنِّ مکتبی رسیدم، دستِ پدرم نمی‌رسید، که مرا شخصا‌ً خواناند. بنابر این مرا در مکتبِ پیشِ مسجدِ قِشلاقِ خودمان - قشلاقِ ساکترَی گذاشت. چون من در آن مکتب چیزی را نیاموختم، مرا از آن جا گرفته به پیشِ زنِ امامِ قشلاق، که مکتبِ دخترکانه داشت و نسبت به مکتب‌دارِ مرد بهتر بود، گذاشت و در این میان ابجد و حسابِ ابجد را به من یاد داده به کشاده شدنِ ذهنم سبب شد (من دورهٔ حیاتِ مکتبیِ خودم را در 'مکتبِ کهنه' نام آچیرکِ خودم به تفصیل نوشته‌ام)."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم

مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"جب مَیں مکتب جانے کی عمر میں پہنچا، تب میرے والد مجھے شخصاً پڑھانے پر قادر نہ تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے مجھے ہمارے اپنے گاؤں 'ساکترے' کی مسجد کے سامنے کے مکتب میں داخل کرا دیا۔ چونکہ میں نے اُس مکتب میں کوئی چیز نہ سیکھی، [اس لیے] اُنہوں نے مجھے وہاں سے ہٹا کر گاؤں کے امام کی بیوی، جن کا بچیوں کا مکتب تھا اور جو مرد مکتب دار کی نسبت بہتر تھیں، کے پاس بٹھا دیا اور اسی دوران وہ مجھے ابجد اور حسابِ ابجد سکھا کر میرے ذہن کی کشادگی کا سبب بنے (میں نے اپنی مکتبی حیات کے دور کو اپنے 'مکتبِ کہنہ' نامی مضمون میں تفصیل سے بیان کیا ہے)۔"
گذشتہ سے پیوستہ:
"من در پیشِ بی‌بی‌خلیفه (مکتبِ زنانه) حافظ، چند جزء از بیدل و چند جزء از غزلیاتِ صائب (در مکتب‌های آن زمان صائب‌خوانی رسم نباشد هم، پدرم، که صائب را دوست می‌داشت و چند غزلِ او را از کجا نوشته گرفته بوده‌است، با من به بی‌بی‌خلیفه فرستاد، که همان غزل‌ها را هم به من خواناند) خوانده، در ده‌سالگی مکتب را تمام کرده برآمدم. لیکن هنوز سواد نداشتم، چیز‌های در مکتب خواندگی‌ام را خوانده توانم هم، چیزهای دیگر و از آن پیش نخوانده‌ام را خوانده نمی‌توانستم."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم

مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"میں نے بی بی خلیفہ (مکتبِ زنانہ) کے پاس حافظ، بیدل کے چند جزء اور صائب کی غزلوں کے چند جزء (اُس زمانے کے مکاتب میں صائب خوانی کی رسم نہیں تھی، پھر بھی میرے میرے والد، جو صائب کو پسند کرتے تھے اور اُس کی چند غزلوں کو کہیں سے لکھ لائے تھے، نے میرے ہاتھ وہ غزلیں بی بی خلیفہ کو بھجوائیں کہ وہ اُن غزلوں کو بھی مجھے پڑھائیں) پڑھے اور دس سال کی عمر میں مکتب تمام کر کے خارج ہو گیا۔ لیکن میں ہنوز خواندگی سے فاقد تھا، جو چیزیں میں نے مکتب میں پڑھی تھیں اُنہیں پڑھ سکنے کے باوجود میں دیگر اور پہلے سے نہ پڑھی ہوئی چیزیں پڑھ نہیں سکتا تھا۔"

× بی‌خلیفه یا (شکلِ پُرّه‌اش) بی‌بی‌خلیفه - معلمهٔ مکتبِ کهنهٔ دختران را می‌گفتند. بی‌بی‌خلیفه‌ها عادتاً در حولیِ خود مکتب کشاده دختران را می‌خواناندند.
× بی خلیفہ یا (اس کی کامل شکل) بی بی خلیفہ قدیم دخترانہ مکتب کی معلمہ کو کہا جاتا تھا۔ بی بی خلیفائیں معمولاً اپنے صحن میں مکتب کھول کر لڑکیوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔
گذشتہ سے پیوستہ:
"امّا شعرها را دوست می‌داشتم، هرچند معنی‌های آنها را درست نفهمم هم، آهنگِ آنها به من گُوارا می‌نمود و به یاد کرده خوانده گشتنِ بعضی شعرها کوشش می‌کردم، سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوایی و فضولی برین شاعر‌های گذشته را 'ولی' می‌دانستم. و شعرگوییِ آنها را از جملهٔ کراماتِ آنها می‌شمردم."
کتاب: مختصرِ ترجمهٔ حالِ خودم
مصنف: صدرالدین عینی بخارایی
سالِ تحریر: ۱۹۴۰ء
سالِ اشاعتِ اول: ۱۹۵۵ء

"لیکن مجھے اشعار اچھے لگتے تھے، ہرچند میں اُن کے مفاہیم کو درست سمجھ نہ پاتا تھا، پھر بھی اُن کا آہنگ مجھے خوش گوار لگتا تھا اور میں بعض اشعار کو یاد کر کے پڑھتے رہنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ سعدی، حافظ، بیدل، صائب، نوائی اور فضولی جیسے شاعرانِ گذشتہ کو میں 'ولی' سمجھتا تھا اور اُن کی شعرگوئی کو اُن کی کرامات میں سے ایک شمار کرتا تھا۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیدہ شگفتہ باجی، صدرالدین عینی کے یہ مندرجۂ بالا اقتباسات سمرقند و بخارا کے علاقے کی گذشتہ صدی کی سادہ ادبی فارسی کا نمونہ ہیں۔

بہت شکریہ شیئر کرنے کے لیے، مجھے اچھا لگ رہا ہے پڑھنا۔ ہمارے آباء کا تعلق یہیں سے تھا، اور میرا بہت دل ہے کہ کم از کم ایک بار وہاں جاؤں ان جگہوں کو دیکھوں جہاں ہمارے آباء اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے رہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت شکریہ شیئر کرنے کے لیے، مجھے اچھا لگ رہا ہے پڑھنا۔ ہمارے آباء کا تعلق یہیں سے تھا، اور میرا بہت دل ہے کہ کم از کم ایک بار وہاں جاؤں ان جگہوں کو دیکھوں جہاں ہمارے آباء اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے رہے۔
بہت خوب! مجھے بھی سمرقند و بخارا کی زیارت کرنے اور وہاں کی ادب و ثقافت پرور خاکِ پاک کو بوسۂ تکریم دینے کی آرزو ہے۔
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت خوب! مجھے بھی سمرقند و بخارا کی زیارت کرنے اور وہاں کی ادب و ثقافت پرور خاکِ پاک کو بوسۂ تکریم دینے کی آرزو ہے۔

واقعی! بس تو پھر مصروفیات سے وقت نکالیں تاکہ جہاں گردی پر روانہ ہوا جائے۔
ویسے کیا صرف خواہش ہے یا واقعی جانے کا ارادہ ہے؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت خوب! مجھے بھی سمرقند و بخارا کی زیارت کرنے اور وہاں کی ادب و ثقافت پرور خاکِ پاک کو بوسۂ تکریم دینے کی آرزو ہے۔

کیا خوبصورت ماحول رہا ہوگا اور کیسی کیسی علم دوست ہستیاں جمع رہی ہوں گی، مجھے تو تصور کر کے ہی اتنی خوشی ملتی ہے!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مجھے بھی ہمیشہ تشکیک رہی ہے اس معاملے میں ۔ کئی حروف اہلِ زبان سے دونوں طرح سے سنے ہیں ۔ جب میں لڑکپن میں خطاطی کی تعلیم لیا کرتا تھا تو ایک صاحب کہتے کہ دال ذرا سی اورگول بنایا کرو ۔ لیکن دوسرے صاحب کہتے دال ذرا سا کھڑا بنایا کرو ۔ بس اسی چکر میں ہماری دال کچی رہ گئی ۔ :):):)
نسیم اللغات میرے پاس نہیں ہے اگر کوئی ربط مل سکے تو مین بصد شوق اس میں بھی دیکھ لوں گا۔

کچی دال :)
نسیم اللغات میرے پاس بھی نہیں ہے، اگر دستیاب ہوئی تو شیئر کروں گی۔
آپ نے خطاطی کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ کتنا عرصہ اور کیا کچھ سیکھا اگر شیئر کرنا چاہیں؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچی دال :)
نسیم اللغات میرے پاس بھی نہیں ہے، اگر دستیاب ہوئی تو شیئر کروں گی۔
آپ نے خطاطی کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ کتنا عرصہ اور کیا کچھ سیکھا اگر شیئر کرنا چاہیں؟
سیدہ شگفتہ صاحبہ! خطاطی اور مصوری کا شوق ہائی اسکول کے زمانے ہی سے لاحق ہوگیا تھا ۔ خاکہ کشی اور مصوری میں تو کوئی استاد نہ مل سکا اور سب کچھ خود ہی سیکھنا پڑا لیکن خطاطی میں کچھ صاحبان سے وقتًا فوقتًا اکتساب کا موقع ضرور ملا۔ ان میں ایک ہمارے پرائمری اسکول کے ماسٹر صاحب تھے ۔ انہوں نے نستعلیق کی مبادیات سکھائیں۔ ایک صاحب ایک ہفتہ وار اخبار کے دفتر میں کاتب تھے۔ میں شام میں کبھی کبھی ان کے پاس جاکر گھنٹوں انہیں سرخیاں لکھتے دیکھا کرتا تھا اور سیکھا کرتا تھا ۔ الحمد اللہ نستعلیق میں کافی ہاتھ صاف ہے میرا اور اِسی کا مجھے شوق بھی ہے۔ نسخ اور رقاع بھی لکھ سکتا ہوں ۔ ثلث میں البتہ اتنی مشق نہیں ۔ پچھلے چند سالوں سے اس پر توجہ دینا شروع کی ہے ۔ یہاں امریکا میں چند سالوں پہلے میں جس شہر میں رہتا تھا وہاں ایک نئی بہت خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی تو اس کی محراب پر سورہ فاتحہ خطِ ثلث جلی میں لکھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔ تب سے شوق اور بڑھ گیا ہے ۔ بس عدیم الفرصتی کا مسئلہ رہتا ہے ۔ لیکن یہ مسئلہ کس کے ساتھ نہیں؟! :)
 

حسان خان

لائبریرین
"شعر فارسی، مهم‌ترین منبع، برای شناسایی قوم ایرانی و سیر فکر و ادراک او، در دوران بعد از اسلام است. خلاصه و چکیدهٔ آنچه او در طی هزار و اندی سال، اندیشیده و کرده، در کلام موزون جای گرفته. کتاب‌های بی‌شماری، به نثر، در زمینهٔ علم و تاریخ و اخلاق و فلسفه و تفسیر و فقه وغیره، از گذشتهٔ خود در دست داریم. از معماری و نقاشی و موسیقی و سایر مظاهر تمدن و فرهنگ نیز آثار برجسته‌ای بر جای مانده؛ لیکن هیچ یک به اندازهٔ شعر، مبین روح ایرانی نیست. همهٔ استعداد و هنر و جوهر و نُبُوغ این قوم در شعر به کار افتاده. حتی کسانی که در دانش‌های ریاضی و نجوم و طب، کار می‌کرده، یا به فلسفه و فقه می‌پرداخته‌اند، از جاذبهٔ شعر بر کنار نمانده‌اند. برای نمونه می‌توان از ابوعلی سینا و خیام و بابا افضل و شیخ بهایی، نام برد. کمتر زبانی است که در آن شعر تا این حد در جمیع شئون زندگی و تلاش‌های فکری مردم مداخله کرده باشد. حتی چنانکه می‌دانیم، در مواردی، دستور زبان و طب و تاریخ و تفسیر نیز به نظم کشیده شده."
کتاب: جامِ جهان‌بین
مصنف: محمد علی اسلامی ندوشن
سالِ اشاعت: ۱۳۴۶ هجریِ شمسی/۱۹۶۷ عیسوی

"فارسی شاعری اسلام کے بعد کے دور میں ایرانی قوم اور اُس کے فکر و ادراک کے مسیر کی شناسائی کا اہم ترین منبع ہے۔ اس قوم نے ہزار و چند سال کی مدت میں جو کچھ سوچا اور انجام دیا ہے اُس کا خلاصہ و چکیدہ کلامِ موزوں میں محفوظ ہو گیا ہے۔ علم، تاریخ، اخلاق، فلسفہ، تفسیر اور فقہ وغیرہ کے شعبوں میں ہمارے پاس گذشتہ ادوار کی بے شمار نثری کتابیں موجود ہیں۔ معماری، نقاشی، موسیقی اور دیگر مظاہرِ تمدن و ثقافت کے بھی کئی برجستہ آثار باقی رہے ہیں؛ لیکن کوئی چیز بھی شعر کی حد تک ایرانی روح کی بیان گر نہیں ہے۔ اس قوم کی تمام استعداد، ہنر، جوہر اور نبوغ شعر میں استعمال ہوئی ہے۔ حتیٰ وہ اشخاص جنہوں نے ریاضی، نجوم اور طب کے علوم میں کام کیا ہے یا فلسفہ و فقہ میں طبع آزمائی کی ہے، وہ بھی شعر کی کشش سے بر کنار نہیں رہے ہیں۔ نمونے کے طور پر ابوعلی سینا، خیام، بابا افضل اور شیخ بہائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ کم ہی کوئی ایسی زبان ہے جس میں شعر اس حد تک لوگوں کی زندگی کے تمام امور اور اُن کی تمام فکری کوششوں میں دخالت کر چکا ہو۔ حتیٰ، جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، چند موارد میں، دستورِ زبان، طب، تاریخ اور تفسیر کو بھی رشتۂ نظم میں پرویا گیا ہے۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فی الحال تو صرف شدید خواہش موج زن ہے، لیکن کیا معلوم کہ مستقبل میں کبھی ایسے اسباب پیدا ہو جائیں کہ یہ خواہش محکم ارادے میں تبدیل ہو جائے۔

اللہ کرے کہ ایسا ہو، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ کی یہ خواہش ضرور پوری ہو گی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سیدہ شگفتہ صاحبہ! خطاطی اور مصوری کا شوق ہائی اسکول کے زمانے ہی سے لاحق ہوگیا تھا ۔ خاکہ کشی اور مصوری میں تو کوئی استاد نہ مل سکا اور سب کچھ خود ہی سیکھنا پڑا لیکن خطاطی میں کچھ صاحبان سے وقتًا فوقتًا اکتساب کا موقع ضرور ملا۔ ان میں ایک ہمارے پرائمری اسکول کے ماسٹر صاحب تھے ۔ انہوں نے نستعلیق کی مبادیات سکھائیں۔ ایک صاحب ایک ہفتہ وار اخبار کے دفتر میں کاتب تھے۔ میں شام میں کبھی کبھی ان کے پاس جاکر گھنٹوں انہیں سرخیاں لکھتے دیکھا کرتا تھا اور سیکھا کرتا تھا ۔ الحمد اللہ نستعلیق میں کافی ہاتھ صاف ہے میرا اور اِسی کا مجھے شوق بھی ہے۔ نسخ اور رقاع بھی لکھ سکتا ہوں ۔ ثلث میں البتہ اتنی مشق نہیں ۔ پچھلے چند سالوں سے اس پر توجہ دینا شروع کی ہے ۔ یہاں امریکا میں چند سالوں پہلے میں جس شہر میں رہتا تھا وہاں ایک نئی بہت خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی تو اس کی محراب پر سورہ فاتحہ خطِ ثلث جلی میں لکھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔ تب سے شوق اور بڑھ گیا ہے ۔ بس عدیم الفرصتی کا مسئلہ رہتا ہے ۔ لیکن یہ مسئلہ کس کے ساتھ نہیں؟! :)

زبردست! پھر تو ہمارا حق ہے کہ آپ کی خطاطی دیکھ سکیں، کیا آپ تصاویر شیئر کر سکتے ہیں؟
مجھے کچھ سوالات بھی ہیں ذہن میں، کسی دوسری لڑی میں لکھنا بہتر ہو گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
احمد، درد دل رحمان کہ تمام شد، گفت: "با ھمہ اینہا کہ گفتی می دانی آرزوی من چیہ؟"
"چیہ؟"
"آرزویم این است کہ غمم مثل غم تو باشد، دھکدہ ام مثل دھکدہ تو۔"
رحمان جوابی نداد۔
احمد پرسید: "اسم دھکدہ تان چیہ؟"
"نور آباد"
"من می توانم اینجا بمانم – تو دھکدہ تان؟"
"چرا نتوانی؟"
"اھالی دھکدہ اجازہ می دھند؟"
"چرا ندھند؟"
"من آخر غریبہ ام۔"
"غریبہ باشی۔ چند روز کہ بگذرد آشنا می شوی۔"
احمد دست رحمان را گرفت و پرسید: "تو کمکم می کنی؟"
رحمان دست او را فشار داد و گفت: "آرہ، کمکت می کنم۔ ھر کمکی کہ از دستم بر بیاید۔ اولین کمکی ھم کہ بہت می کنم این است کہ می برمت پیش پدرم ازش تقاضا می کنم مردم دھکدہ را راضی کند کاری بہت بدھند تا بتوانی اینجا بمانی۔"
احمد ھیجان زدہ گفت: این لطف خیلی بزرگ است در حق من، رحمان۔ نمی دانم با چہ زبانی ازت تشکر کنم۔"
"تشکر لازم نیست۔ من و تو رفیقیم ۔ از یک ساعت پیش تا حالا۔ پس ھر کاری کہ از دستمان بر بیاید باید برای ھمدیگر بکنیم۔"

کتاب: نور آباد، دھکدہ من
نویسندہ: ناصر ایرانی


رحمان اپنا درد دل سنا کر خاموش ہوا تو احمد بولا: یہ سب کچھ جو تم نے کہا جانتے ہو میری آرزو کیا ہے؟"
"کیا ہے؟"
"میری آرزو ہے کہ میرا غم تمہارے غم کی مانند ہو اور میرا دھکدہ تمہارے دھکدہ کی طرح۔"
رحمان نے جواب نہ دیا۔
احمد نے پوچھا: "تمہارے گاؤں کا نام کیا ہے؟"
"نور آباد"
"کیا میں یہاں رہ سکتا ہوں، تمہارے گاؤں میں؟"
"کیوں نہیں رہ سکتے؟"
"اہلیان دھکدہ اجازت دیں گے؟"
"کیوں نہیں دیں گے؟"
"میں اجنبی جو ہوں۔"
اجنبی ہو تو کیا، چند روز گزریں گے تو آشنا ہو جاؤ گے۔"
احمد نے رحمان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: "تم میری مدد کرو گے؟"
رحمان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے دبایا اور بولا: "بالکل، میں تمہاری مدد کروں گا۔ جو کچھ بھی میں تمہارے لیے کر سکوں ہر طرح سے کروں گا۔ سب سے پہلے تو مجھے تمہارے لیے یہ کرنا ہے کہ تمہیں اپنے بابا کے پاس لے جاتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ دھکدہ کے لوگوں کو تمہیں کوئی کام دینے کے لیے آمادہ کریں تا کہ تم یہاں رہ سکو۔"
احمد جذباتی ہو کر بولا: یہ میرے حق میں بہت بڑی مہربانی ہو گی رحمان۔ نہیں جانتا کس زباں سے تمہارا شکریہ ادا کروں۔"
"شکریہ کی ضرورت نہیں۔ میں اور تم اب آپس میں رفیق ہیں ایک گھنٹہ ہوا، پس ہر چیز جو ہم کر سکیں حتما ایک دوسرے کے لیے کریں گے۔"
 

زیک

مسافر
بہت شکریہ شیئر کرنے کے لیے، مجھے اچھا لگ رہا ہے پڑھنا۔ ہمارے آباء کا تعلق یہیں سے تھا، اور میرا بہت دل ہے کہ کم از کم ایک بار وہاں جاؤں ان جگہوں کو دیکھوں جہاں ہمارے آباء اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے رہے۔

بہت خوب! مجھے بھی سمرقند و بخارا کی زیارت کرنے اور وہاں کی ادب و ثقافت پرور خاکِ پاک کو بوسۂ تکریم دینے کی آرزو ہے۔

میرا بھی موڈ ہے کہ کسی دن وسطی ایشیا کے تاریخی علاقوں کا روڈ ٹرپ کیا جائے۔ یا شاید تاریخ کی نقل کرتے ہوئے گھوڑے پر سفر ہو۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میرا بھی موڈ ہے کہ کسی دن وسطی ایشیا کے تاریخی علاقوں کا روڈ ٹرپ کیا جائے۔ یا شاید تاریخ کی نقل کرتے ہوئے گھوڑے پر سفر ہو۔

زیک بھائی، گھوڑے نے کیا قصور کیا ہے!!

ویسے اگر آپ کو عام گلیوں اور پرانے علاقے اور پرانے محلے دیکھنے میں دلچسپی ہو تو بتائیے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست! پھر تو ہمارا حق ہے کہ آپ کی خطاطی دیکھ سکیں، کیا آپ تصاویر شیئر کر سکتے ہیں؟
مجھے کچھ سوالات بھی ہیں ذہن میں، کسی دوسری لڑی میں لکھنا بہتر ہو گا۔
ادی سیدہ شگفتہ ضرور ، کیوں نہیں ۔ بس ذرا شاعری والے کام سے فارغ ہوجاؤں تو اگلا مرحلہ خطاطی اور مصوری شیئر کرنے کا ہے ۔ سوالات ضرور کیجئے ۔ مجھے علم ہوگا تو جواب ضرور دوں گا ۔
 

حسان خان

لائبریرین
"گاهی شنیده می‌شود که اهلِ ذوق اعجاب می‌کنند که سعدی هفت صد سال پیش به زبانِ امروزیِ ما سخن گفته‌است ولی حق این است که سعدی هفت صد سال پیش به زبانِ امروزیِ ما سخن نگفته‌است بلکه ما پس از هفت صد سال به زبانی که از سعدی آموخته‌ایم سخن می‌گوییم یعنی سعدی شیوهٔ نثرِ فارسی را چنان دل‌نشین ساخته که زبانِ او زبانِ رایجِ فارسی شده‌است و ای کاش ایرانیان قدرِ این نعمت بدانند و در شیوهٔ بیان دست از دامانِ شیخ برندارند که به فرمودهٔ خودِ او 'حدّ همین است سخن‌گویی و زیبایی را' و من نویسندگانِ بزرگ سراغ دارم (از جمله میرزا ابوالقاسم قایم مقام) که اعتراف می‌کردند که در نویسندگی هر چه دارند از شیخ سعدی دارند."
مصنف: محمد علی فروغی
کتاب: گلستان: برای دبیرستان‌ها
سالِ اشاعت: ۱۹۴۰ء

"کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کہ اہلِ ذوق تعجب کرتے ہیں کہ سعدی نے سات سو سال قبل ہماری آج کی زبان میں سخن گوئی کی تھی لیکن حق یہ ہے کہ سعدی نے سات سو سال قبل ہماری آج کی زبان میں سخن گوئی نہیں کی تھی بلکہ ہم سات سو سال بعد اُس زبان میں تکلم کرتے ہیں جو ہم نے سعدی سے سیکھی ہے یعنی سعدی نے نثرِ فارسی کے اسلوب کو ایسا دل نشیں بنا دیا تھا کہ اُن کی زبان رائج فارسی زبان بن گئی ہے اور اے کاش کہ ایرانی اس نعمت کی قدر جانیں اور شیوۂ بیان میں شیخ کے دامن سے ہاتھ نہ اٹھائیں کہ خود اُن کے اپنے بقول 'سخن گوئی اور زیبائی کی حد یہی ہے' اور میں کئی بزرگ مصنفوں کے بارے میں آگاہی رکھتا ہوں (از جملہ میرزا ابوالقاسم قائم مقام) جو اعتراف کیا کرتے تھے کہ تحریر و تصنیف میں وہ جو کچھ رکھتے ہیں شیخ سعدی کے سبب سے رکھتے ہیں۔"
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
علی علیہ السلام فرمود: "نادانترین مردم کسی است کہ نوشتہ اش را از سخنانِ یاوہ پر کند۔"

علی علیہ السلام نے فرمایا: "لوگوں میں احمق ترین شخص وہ ہے جو اپنی تحریر کو بیہودہ باتوں سے بھر دے۔"
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
علی علیہ السلام فرمود: "نادانترین مردم کسی است کہ نوشتہ اش را از سخنانِ یاوہ پر کند۔"

علی علیہ السلام نے فرمایا: "لوگوں میں احمق ترین شخص وہ ہے جو اپنی تحریر کو بیہودہ باتوں سے بھر دے۔"

کاش یہ بات ہر شخص تک پہنچ جائے اور ہماری سمجھ میں آجائے!!!
 
Top