فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
روزی زیب‌النساء در حضورِ پدرش نشسته بود. در آن حجره یک آیینهٔ قدنَما و گران‌بها در طاقچه گذاشته بودند. ناگاه آیینه به علتِ نامعلومی افتاد و شکست. در این هنگام این مصرع بی‌اختیار از زبانِ عالمگیر (اورنگزیب - پادشاهِ هندوستان - پدرِ زیب‌النساء) جاری شد:
از قضا آیینهٔ چینی شکست،
زیب‌النساء فی‌البدیهه مصرعِ دومِ آن را چنین ساخت:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست.

ماخذ: تاجکستان کا سرکاری نشریہ 'جمہوریت'


ایک روز زیب النساء اپنے والد کے حضور میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس حجرے میں ایک قدنما و گراں بہا آئینہ طاقچے میں رکھا ہوا تھا۔ دفعتاً آئینہ کسی نامعلوم سبب سے گر کر ٹوٹ گیا۔ اس موقع پر عالمگیر (اورنگزیب - بادشاہِ ہند - پدرِ زیب النساء) کی زبان سے بے اختیار یہ مصرع جاری ہوا:
از قضا آیینهٔ چینی شکست،
(قضا کے ہاتھوں چینی آئینہ ٹوٹ گیا)
زیب النساء نے فی البدیہہ اُس کا مصرعِ ثانی یوں باندھا:
خوب شد اسبابِ خودبینی شکست۔
(اچھا ہوا، اسبابِ خودبینی ٹوٹ گئے)

× قدنما آئینہ = پورا قد دکھانے والا آئینہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"هر بار که سخن از روابطِ زبانِ عربی و فارسی به میان می‌آید، نخستین چیزی که به ذهن می‌رسد، موضوعِ وجودِ کلماتِ عربی در زبانِ فارسی و لزومِ آموختنِ این زبان برایِ درکِ صحیحِ زبان و ادبیاتِ فارسی می‌باشد."
(آقای دکتر محمدی، استادِ ادبیاتِ دانشگاهِ تهران و رئیسِ کرسی زبان و ادبیاتِ دانشگاهِ لُبنان)
کتاب: سبک‌ها و مکتب‌های ادبیِ دُرِّ دَری
مؤلفین: دکتر ضیاءالدین سجادی، دکتر طلعت بصاری

"جب بھی عربی اور فارسی کے روابط کی بات درمیان میں آتی ہے تو اولین چیز جو ذہن میں خطور کرتی ہے وہ فارسی زبان میں عربی کلمات کی موجودگی کا موضوع اور فارسی زبان و ادبیات کے صحیح فہم کے لیے عربی زبان سیکھنے کا لزوم ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جب فارسی گو، تُرکی گو اور عربی گو اپنی زبانوں میں 'انجینئر' کی بجائے 'مہندس' استعمال کر سکتے ہیں تو ہم بھی اردو میں بآسانی اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا بھی چاہیے۔
انجینئر = مہندس (مُ هَ نْ دِ سْ)
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب فارسی گو، تُرکی گو اور عربی گو اپنی زبانوں میں 'انجینئر' کی بجائے 'مہندس' استعمال کر سکتے ہیں تو ہم بھی اردو میں بآسانی اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا بھی چاہیے۔
انجینئر = مہندس (مُ هَ نْ دِ سْ)

بالکل کیا جا سکتا ہے، مہندس بھی ٹھیک ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
"محمد مصدق چهرهٔ آزادی‌خواه پرشور و استعمارستیزی بود که بر کشورهای خاورمیانه همچون مصر و لیبی تأثیر گذاشت. او نخستین دولت‌مرد خاورمیانه بود که با اجرایی کردن اندیشهٔ ملی شدن صنعت نفت پرچم مبارزهٔ اقتصادی با قدرت‌های استعماری را برافراشت. از این رو در کشورهای خاورمیانه از او به عنوان 'زعیم الشرق' یاد می‌شد و حتی جمال عبدالناصر خیابانی را در قاهره به نام محمد مصدق نهاد که اکنون نیز به این نام خوانده می‌شود. به هر حال او به طرق مختلف سرمشقی برای ملی‌گرایان خاورمیانه همچون جمال عبدالناصر بود."
منبع: ویکی‌پدیا

"محمد مصدق ایک پُرجوش آزادی خواہ اور استعمار ستیز شخصیت تھے جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک جیسے مصر اور لیبیا پر اثر ڈالا۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کے اولین زمام دار تھے کہ جنہوں نے تیل کی صنعت کو قومیانے کی فکر کا اجرا کر کے استعماری طاقتوں کے ساتھ اقتصادی مبارزے کا پرچم برافراشتہ کیا تھا۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں انہیں 'زعیم الشرق' کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا اور حتیٰ کہ جمال عبدالناصر نے قاہرہ کی ایک شارع کو بھی محمد مصدق کے نام سے موسوم کیا تھا جو اب بھی اسی نام سے پکاری جاتی ہے۔ بہر حال، وہ مختلف طریقوں سے مشرقِ وسطیٰ کے قوم پرستوں مثلاً جمال عبدالناصر کے لیے ایک نمونہ تھے۔"
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بیشتر افغانوں کا باور ہے کہ افغانستان میں موجود مشکلات سابق شوروی اتحاد کے اِس ملک پر تجاوز کے سبب سے ہیں۔
حسان ! اردو میں باور کا اس طرح استعمال پہلے کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ عام طور پر باور کرنا مستعمل ہے ( یعنی بیشتر افغان باور کرتے ہیں)
اگر باور کے اس طرح استعمال کےبارے میں کوئی نظیرمل سکے تو بہت ممنون رہوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان ! اردو میں باور کا اس طرح استعمال پہلے کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ عام طور پر باور کرنا مستعمل ہے ( یعنی بیشتر افغان باور کرتے ہیں)
اگر باور کے اس طرح استعمال کےبارے میں کوئی نظیرمل سکے تو بہت ممنون رہوں گا۔
ظہیر بھائی، میرے پاس اس کی کوئی سند یا نظیر نہیں ہے۔ میں نے فارسی زبان کے اثر کے تحت اور قیاسی طور پر اس محاورے کا استعمال کیا تھا۔ چونکہ یہ استعمال مستند نہیں ہے، اس لیے آپ اسے ایک غلطی سمجھ کر معاف فرمائیے۔ :)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
حسان ! اردو میں باور کا اس طرح استعمال پہلے کبھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ عام طور پر باور کرنا مستعمل ہے ( یعنی بیشتر افغان باور کرتے ہیں)
اگر باور کے اس طرح استعمال کےبارے میں کوئی نظیرمل سکے تو بہت ممنون رہوں گا۔
مجھے گمان گزرا کہ باور کے کا ایک اور مخصوص تر پہلو اس کا متعدی استعمال ہے یعنی باور کرانا ۔ باور کرنا بھی محاورے میں ڈھلا محسوس نہیں ہوتا۔( ممکن ہے یہ میرا ذاتی احساس ہو )
 

سید عاطف علی

لائبریرین
حکایت الاغ :
الاغی دعا کرد ؛
صاحبش بمیرد تا از زندگی خرآنہ خود خلاصی یابد.... صاحب ، فکر الاغ را خواند و گفت :
ای خر !! با مرگ من ، شخص دیگری تو را میخرد و صاحب می شود ،
برای رہایی خویش ، دعا کن کہ از خریت خود ، بیرون شوی .....
گدھے کی کہانی:
ایک گدھا دعا مانگ رہا تھا کہ اس کا مالک مر جائے،اور وہ ا یسی زندگی سے نجات پائے۔گدھے کے مالک نے اس کے اس خیال کو بھانپ لیا اور اس سے کہا :
ارے او گدھے ! میرے مرنے پر تجھے کوئی اور خرید لے گا اور تیرا مالک بن جائے گا۔
(اگر تو اپنی رہائی چاہے تو ) ،تُو اپنی رہائی (ہی)کے لیے دعا کر اوریہ دعا کر کہ تیرے گدھے پن کی بیوقوفی دور ہو جائے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، میرے پاس اس کی کوئی سند یا نظیر نہیں ہے۔ میں نے فارسی زبان کے لاشعوری اثر کے تحت اور قیاسی طور پر اس محاورے کا استعمال کیا تھا۔ چونکہ یہ استعمال مستند نہیں ہے، اس لیے آپ اسے ایک غلطی سمجھ کر معاف فرمائیے۔ :)

مجھے گمان گزرا کہ باور کے کا ایک اور مخصوص تر پہلو اس کا متعدی استعمال ہے یعنی باور کرانا ۔ باور کرنا بھی محاورے میں ڈھلا محسوس نہیں ہوتا۔( ممکن ہے یہ میرا ذاتی احساس ہو )
عاطف بھائی دراصل ہم سبہی ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ باور کے ساتھ باور کرنا اور باور کرانا دونوں تو بہت ہی عام ہیں اور اکثر نثر میں ملتے ہیں ۔ لیکن میں نے کبھی باور ہونا ابھی تک نہیں دیکھا اور اسی لئے حسان خان سے پوچھا تھا کہ شاید ان کے علم میں کوئی نظیر موجود ہو۔ نوراللغات کے مطابق باور ہونا ، کرنا اور کرانا تینوں مستعمل ہیں ۔ دیکھئے
http://archive.org/stream/nrullught01nayy#page/516/mode/1up
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی دراصل ہم سبہی ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ باور کے ساتھ باور کرنا اور باور کرانا دونوں تو بہت ہی عام ہیں اور اکثر نثر میں ملتے ہیں ۔ لیکن میں نے کبھی باور ہونا ابھی تک نہیں دیکھا اور اسی لئے حسان خان سے پوچھا تھا کہ شاید ان کے علم میں کوئی نظیر موجود ہو۔ نوراللغات کے مطابق باور ہونا ، کرنا اور کرانا تینوں مستعمل ہیں ۔ دیکھئے
http://archive.org/stream/nrullught01nayy#page/516/mode/1up
"باور آنا "بھی استعمال ہوا ہے ۔
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
غالب۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
"باور آنا "بھی استعمال ہوا ہے ۔
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
غالب۔
کیا بات ہے جناب اس حوالے کی ۔ دال ہے ۔ ہم نے بھی کبھی یقینا پڑھا ہوگا اس شعر کو لیکن زمانہ ہوا اسے ذہن سے نکلے ۔چلئے اس گفتگو کے بہانے ایک اور لفظ سیکھ لیا ہم نے ۔ بہت بہت شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
"امام‌علی رحمان، رئیسِ جمهورِ تاجیکستان، در جریانِ سفرِ سه‌روزه‌اش به عربستانِ سعودی همراهِ همسر و چندی از فرزندانش به زیارتِ خانهٔ خدا نیز رفته‌است. دفترِ مطبوعاتِ ریاستِ جمهورِ تاجیکستان می‌گوید، که آقای رحمان روزِ ۴ یَنْوَر مناسکِ حجِ عمره را به جا آورده، به قولِ منبع، به او میسّر شده‌است، که برای بارِ دوم واردِ کعبة‌الله بشود."
ماخذ
"تاجکستان کے صدر امام علی رحمان اپنے سعودی عربستان کے سہ روزہ سفر کے دوران اپنی زوجہ اور چند بچوں کے ہمراہ خانۂ خدا کی زیارت کو بھی گئے ہیں۔ صدارتِ تاجکستان کے دفترِ مطبوعات کا کہنا ہے کہ آقائے رحمان کو ۴ جنوری کے روز مناسکِ عمرہ بجا لانے کے بعد، منبع کے بقول، دوسری بار کعبۃ اللہ میں وارد ہو پانے کا امکان ملا ہے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"می‌گویند که ابوالاسود دوئلی نخستین بنیان‌گذار علم نحو می‌باشد و انگیزهٔ دست یازیدن او به این کار، آن بود که شنید شخصی کلمهٔ رسوله را در آیه: أَنَّ اللَّهَ بَري‏ءٌ مِنَ الْمُشْرِکينَ وَ رَسُولُهُ به کسر (لام): (رَسُولِهِ) می‌خواند. ابوالاسود از اشتباه این مرد به خشم آمد و تصمیم به وضع اصول نحو گرفت."
کتاب: مباحثی در فقه‌اللغه و زبان‌شناسی عربی
نویسنده: دکتر رمضان عبدالتواب
مترجم: حمیدرضا شیخی
سالِ اشاعت: ۱۳۶۷هش/۱۹۸۹ء

"کہتے ہیں کہ ابوالاسود دوئلی علمِ نحو کے اولین بانی ہیں اور اُن کا اِس کام کی جانب ہاتھ بڑھانے کا محرّک یہ تھا کہ اُنہوں نے سنا کہ ایک شخص آیت: أَنَّ اللَّهَ بَري‏ءٌ مِنَ الْمُشْرِکينَ وَ رَسُولُهُ میں کلمۂ رسوله کو کسرِ لام کے ساتھ رَسُولِهِ پڑھ رہا تھا۔ ابوالاسود اُس مرد کے اشتباہ سے خشمگین ہو گئے اور اُنہوں نے اصولِ نحو کو وضع کرنے کا فیصلہ کیا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مورچه و کبوتر
مورچه‌ای که از تشنگی به جان آمده بود نزدیکِ حوضی رفت تا آب بنوشد. تصادفاً پای مورچه لغزید و در آب افتاد. نزدیک بود مورچهٔ بیچاره غرق شود که کبوتری از بالای درختی که روی حوض سایه می‌انداخت متوجهٔ او شد. کبوتر برگی را از درخت به منقار کَند و نزدیکِ مورچه انداخت. مورچه به روی برگ بالا شد و به این ترتیب از مرگ نجات یافت.
هنوز لحظه نگذشته بود که یک شکاری، کبوتر را دید و خواست او را هدفِ تیرِ خود سازد. مورچه مطلبِ شکاری را دریافته به او نزدیک شد و پای او را چنان سخت گَزید که کمانِ او به خطا رفت و به این ترتیب کبوتر پرواز کرد و جان به سلامت بُرد.

کتاب: حکایات انتباهی لُقمان حکیم
مترجم: حفیظ الله 'سحر'
سالِ طباعت: ۱۳۷۸هش/۱۹۹۹ء


چیونٹی اور کبوتر

ایک چیونٹی جو پیاس کے مارے مرنے کے قریب ہو گئی تھی پانی پینے کے لیے کسی تالاب کے نزدیک گئی۔ ناگہاں چیونٹی کا پیر پھسل گیا اور وہ پانی میں گر گئی۔ قریب تھا کہ بیچاری چیونٹی غرق ہو جاتی کہ تالاب پر سایہ ڈالنے والے ایک درخت کے اوپر سے کسی کبوتر کی نظر اُس پر پڑ گئی۔ کبوتر نے چونچ کی مدد سے درخت سے ایک پتّا توڑا اور چیونٹی کے پاس پھینک دیا۔ چیونٹی پتّے پر چڑھ گئی اور اِس طرح موت سے نجات پا گئی۔
ابھی لمحہ بھی نہ گذرا تھا کہ ایک شکاری نے کبوتر کو دیکھ لیا اور اُسے اپنے تیر کا ہدف بنانا چاہا۔ چیونٹی شکاری کے مقصود کو بھانپ گئی، لہٰذا شکاری کے نزدیک آ کر چیونٹی نے اُس کے پاؤں کو ایسی شدت سے کاٹا کہ اُس کے تیر کا نشانہ خطا ہو گیا اور اِس طرح کبوتر جان بچا کر پرواز کر گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"مردی بمرد. شخصی همان روز پیشِ زنش به خواستگاری آمد. گفت: اگر پیش‌تر می‌گفتی که با دیگری قول دادم. گفت: مقصودم آن است که اگر این دوم بمیرد کسی بر من سبقت نگیرد."
کتاب: نوادر: ترجمهٔ کتابِ مُحاضَرات الأدباء و مُحاوَرات الشعراء والبُلَغاء
مؤلف: ابوالقاسم حسین بن محمد راغب اصفهانی
مترجم: محمد صالح بن محمد باقر قزوینی

"ایک آدمی مر گیا۔ ایک شخص اُسی روز اُس کی بیوی کے پاس خواستگاری کے لیے آیا۔ کہا: اِس سے قبل تر کہنا چاہیے تھا کیونکہ میں نے تو کسی دیگر کے ساتھ وعدہ کر لیا۔ کہا: میرا مقصود یہ ہے کہ اگر یہ دوسرا مر جائے تو کوئی مجھ پر سبقت نہ لے جائے۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مطابقت فعل و فاعل
هر گاه فاعل ذی‌روح بوده و به صورت جمع استعمال شده باشد فعل نیز به گونهٔ جمع به کار می‌رود. به حیث مثال:
شاگردان درس‌های خود را تکرار کردند. غزنویان در ارتقاء و گسترش علم و ادب نقش چشم‌گیری داشتند.
حریفان باده‌ها خوردند و رفتند
تهی خم‌خانه‌ها کردند و رفتند
(جامی)
و اگر فاعل غیر ذی‌روح بوده و به قسم جمع به کار رفته باشد در آن صورت نظر به زیبایی و حسن کلام فعل هم به صورت جمع و هم به گونهٔ مفرد می‌تواند استعمال شود. به حیث مثال:
درختان شگوفه کرده‌اند یا درختان شگوفه کرده‌است.

کتاب: دستور زبان دری
مؤلف: محمد اکبر سنا غزنوی
سالِ اشاعتِ دوم: ۱۳۸۲هش/۲۰۰۳ء

فعل اور فاعل کی مطابقت
جب بھی فاعل ذی روح ہو اور جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہو تو فعل بھی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
شاگردان درس‌های خود را تکرار کردند۔

(شاگردوں نے اپنے درسوں کو دہرایا۔)
غزنویان در ارتقاء و گسترش علم و ادب نقش چشم‌گیری داشتند.
(غزنویوں کا علم و ادب کی ارتقاء و ترویج میں ایک نمایاں کردار رہا تھا۔)
حریفان باده‌ها خوردند و رفتند
تهی خُم‌خانه‌ها کردند و رفتند
(جامی)
(ہم پیالگاں شرابیں پی گئے اور چلے گئے؛ اُنہوں نے خُم خانے خالی کر دیے اور چلے گئے۔)

اور اگر فاعل ذی روح نہ ہو اور جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہو تو ایسی صورت میں زیبائی و حُسنِ کلام کے مدِ نظر فعل جمع اور مفرد دونوں طریقوں سے استعمال ہو سکتا ہے۔ مثلاً:
درختان شگوفه کرده‌اند یا درختان شگوفه کرده‌است.

(درختوں پر پھول کِھل اٹھے ہیں۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«محمد بن سلمان» جانشین ولیعهد و وزیر دفاع عربستان با «نواز شریف» نخست وزیر پاکستان دیدار کرد و در این ملاقات، دو طرف برای پایان تنش ایران عربستان از طریق مذاکرات به توافق رسیدند.
به گزارش خبرگزاری مهر به نقل از «روزنامه پاکستان»، «محمد بن سلمان» جانشین ولیعهد و وزیر دفاع عربستان با «نواز شریف» نخست وزیر پاکستان دیدار کرد، در این دیدار دو طرف در مورد مسائل خاورمیانه و تنش اخیر ایران و عربستان به بحث و تبادل نظر پرداختند و برای پایان تنش ایران-عربستان از طریق مذاکرات به توافق رسیدند.
نواز شریف نخست وزیر پاکستان بیان داشت: ما خواهان پایان تنش دو کشور اسلامی ایران و عربستان هستیم و اسلام آباد برای تحقق این مهم تمام تلاش خود را خواهد کرد.
وی افزود: ما خواهان پایان تنش ایران-عربستان از طریق مذاکرات هستیم.

ماخذ
سعودی عربستان کے جانشینِ ولی عہد اور وزیرِ دفاع 'محمد بن سلمان' نے پاکستان کے وزیرِ اعظم 'نواز شریف' کے ساتھ ملاقات کی اور اس ملاقات میں دونوں فریقوں کا ایران-سعودیہ کشیدگی کے مذاکرات کے ذریعے خاتمے پر اتفاقِ رائے ہو گیا۔
'روزنامۂ پاکستان' سے نقل کرتے ہوئے خبرگزاریِ مہر نے اطلاع دی ہے کہ سعودی عربستان کے وزیرِ دفاع اور جانشینِ ولی عہد 'محمد بن سلمان' نے پاکستان کے وزیرِ اعظم 'نواز شریف' کے ساتھ ملاقات کی، اور اس ملاقات میں دونوں فریقوں نے مشرقِ وسطیٰ کے مسائل اور ایران اور سعودیہ کی حالیہ کشیدگی کے بارے میں گفتگو اور تبادلۂ نظر کیا اور ایران-سعودیہ کشیدگی کے مذاکرات کے ذریعے خاتمے پر اتفاقِ رائے کر لیا۔
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا: ہم دو مسلم ملکوں ایران اور سعودیہ کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور اسلام آباد اِس اہم امر کے تحقق کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے گا۔
انہوں نے اضافہ کیا: ہم ایران۔سعودیہ کشیدگی کے مذاکرات کے ذریعے خاتمے کے خواہاں ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(کلاه)
کَچَلی از حمّام بیرون آمد و دید که کلاهش را دزدیده‌اند. داد و فریادی راه انداخت و کلاهش را از حمّامی خواست. حمّامی گفت: "من کلاه تو را ندیده‌ام و تو چنین چیزی به من نسپرده‌ای. شاید اصلاً کلاهی بر سر نداشته‌ای."
کچل گفت: "انصاف بده ای مسلما‌ن! این سر من از آن سرهاست که بشود بدون کلاه بیرونش آورد؟!"
کتاب: لطیفه‌های شیرین عبید زاکانی

نویسنده: شهرام شفیعی
سالِ اشاعت: ۱۳۷۸هش/۱۹۹۹ء

(ٹوپی)
ایک گنجا حمام سے باہر آیا اور دیکھا کہ اُس کی ٹوپی چوری ہو گئی ہے۔ اُس نے شور و غل مچانا شروع کیا اور حمام دار سے اُپنی ٹوپی مانگی۔ حمام دار نے کہا: "میں نے تمہاری ٹوپی نہیں دیکھی ہے اور تم نے ایسی کوئی چیز میرے سپرد نہیں کی تھی۔ شاید تمہارے سر پر کوئی ٹوپی تھی ہی نہیں۔" گنجے نے کہا: "اے مسلمان، انصاف کرو! کیا یہ میرا سر اُن سروں میں شامل ہے جنہیں ٹوپی کے بغیر باہر لایا جا سکتا ہو؟!"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مقتدرۂ قومی زبان کے سابق رئیس اور معروف شاعر افتخار عارف کی فرہنگستانِ زبان و ادبِ فارسی کی شوریٰ میں کی گئی تقریر سے ایک اقتباس:
"یکی از بزرگ‌ترین ستم‌های استعمار این بود که استعمار انگلیس در سال ۱۸۳۵ میلادی زبان فارسی را به‌حیث زبان رسمی الغاء نمود و به‌جای آن زبان انگلیسی را اجرا کرد. یواش‌یواش رواج زبان فارسی نه تنها در امور دولتی کاهش یافت، بلکه در جامعه نیز فعالیت‌های آن بسیار کم شد. پس از استقلال، هنوز فعالیت‌های استعمار انگلیس ادامه دارند. حیثیت و مقام زبان انگلیسی مسلّم است اما تحمیل آن درعوض زبان ملّی خود شاید کار بسیار احمقانه است."
ماخذ

تاریخ: ۱۱ جنوری ۲۰۱۱ء

"استعمار کا ایک بزرگ ترین ستم یہ تھا کہ برطانوی استعمار نے سال ۱۸۳۵ء میں زبانِ فارسی کو رسمی زبان کی حیثیت سے منسوخ کر کے اُس کی جگہ پر انگریزی زبان کو نافذ کر دیا۔ آہستہ آہستہ فارسی زبان کا رواج نہ صرف سرکاری امور میں قلیل ہو گیا، بلکہ معاشرے میں بھی اُس کی فعّالیتیں بہت کم ہو گئی۔ استقلال کے بعد بھی ہنوز برطانوی استعماری سرگرمیاں جاری ہیں۔ انگریزی زبان کی حیثیت و مقام مسلّم ہے لیکن اپنی ملّی زبان کے عوض میں اُس کی تحمیل شاید بسیار احمقانہ کام ہے۔"
 
آخری تدوین:
Top