فارسی نثری اقتباسات مع اردو ترجمہ

اس عبارت کا ترجمہ کردیں:
نظام بردگی- که به قول «شوارتز» باعث شد تا هیچ وقت، حتی اهرم و چرخ ایجاد نشود، چون وجود بردگان ارزان از تکنیک بی‌نیازیشان می‌بخشید و برده برایشان ارزانتر از حیوان تمام می‌شد- بی‌اندکی ترحم اجساد لهیده بردگان را به گودالها می‌ریخت و بردگانی دیگر به سنگ کشی می‌گماشت.
(آری اینچنین بود برادر از دکتر علی شریعتی)
 

حسان خان

لائبریرین
اس عبارت کا ترجمہ کردیں:
نظام بردگی- که به قول «شوارتز» باعث شد تا هیچ وقت، حتی اهرم و چرخ ایجاد نشود، چون وجود بردگان ارزان از تکنیک بی‌نیازیشان می‌بخشید و برده برایشان ارزانتر از حیوان تمام می‌شد- بی‌اندکی ترحم اجساد لهیده بردگان را به گودالها می‌ریخت و بردگانی دیگر به سنگ کشی می‌گماشت.
(آری اینچنین بود برادر از دکتر علی شریعتی)
غلامی کا نظام - جو 'شوارتز' کے بقول باعث بنا کہ حتیٰ اہرم (= لِیور) اور پہیا بھی کبھی تک ایجاد نہ ہو پائیں، کیونکہ سستے غلاموں کا وجود اُنہیں تکنیک سے بے نیاز کر دیتا تھا اور غلام اُن کے لیے حیوان سے بھی سستا ثابت ہوتا تھا - ذرا بھی رحم کے بغیر غلاموں کے کچلے ہوئے اجسام کو گڑھوں میں پھینک کر چند دیگر غلاموں کو سنگ کَشی پر مامور کر دیتا تھا۔
× فارسی زبان میں 'تکنیک' کی جگہ پر ایک نولفظ 'شِگِرد' بھی رائج ہو چکا ہے۔
 
آخری تدوین:
اس عبارت کا ترجمہ چاہیے:

هر روز، خبر مرگ صدها نفر را به فرعون گزارش می‌کردند؛ وقتی دسته‌های تازه‌ای از افریقای سیاه می‌آوردند که هنوز با آب و هوای مصر و شرایط کاری چنین وحشیانه عادت نکرده بودند آمار روزانه مرگشان بالاتر می‌رفت، در فصلهای مختلف سال، این منحنی فرق می‌کرد و بیماری‌های مسری چون وبا و طاعون و... آمار مرگ این انسانها را به صورت یک قتل عام وسیع نشان می‌داد. پیداست که عواملی از قبیل تغییر وضع مزاجی فرعون‌ها- که غالباً بیماری مرموزی هم داشته و حالاتی غیرعادی- و نیز تغییر شخص آنها و حتی نوع رفتاری که کارفرمایان و مأموران و سرکارگردانی که شیوه‌های مختلف را برای کار بیشتر کشیدن از برده تجربه می‌کردند و حتی تفنن به خرج می‌دادند و در انتخاب و ابتکار هر شیوه‌ای آزاد بودند، در شمار مرگ اینان اثر مستقیم داشت.
(آرے اینچنین بود برادر، از دکتر علی شریعتی)
 

حسان خان

لائبریرین
نویسنده و شاعرِ متفکرِ عصرِ نوزدهمِ بخارا - احمد دانش (وفاتش ۱۸۹۷) بیدل را بسیار دوست می‌داشت و بعضی چیزهای دشوارفهمِ او را شرح می‌کرد. اما خود نه در نظم و نه در نثر اسلوبِ او را تقلید نمی‌کرد و هم‌صحبتانِ خود را از تقلید کردنِ او منع می‌نمود و به طرزِ هزل می‌گفت: "بیدل پیغمبر است، معجزه را در اختیارِ پیغمبر گذاشتن درکار است. شما ولی شده کرامات نشان دهید هم می‌شود".

کتاب: میرزا عبدالقادرِ بیدل
نویسندہ: صدرالدین عینی
سالِ اشاعت: ۱۹۵۴ء


بخارا کے قرنِ نوزدہم کے مصنف اور مفکر شاعر احمد دانش (م ۱۸۹۷) بیدل کو بسیار محبوب رکھتے تھے اور اُس کی بعض دشوار فہم چیزوں کی شرح کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ خود نظم اور نثر دونوں میں اُس کے اسلوب کی تقلید نہیں کرتے تھے اور اپنے ہم صحبتوں کو اُس کی تقلید کرنے سے منع کرتے تھے اور شوخی سے کہا کرتے تھے کہ "بیدل پیغمبر ہے، معجزے کو پیغمبر ہی کے تصرف میں رہنا چاہیے۔ آپ ولی بن کر کرامات دکھا دیں، تب بھی کام چل جائے گا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
محمدجان شکوری بخارایی کی کتاب 'خراسان است اینجا' (۱۹۹۶ء) پر تقریظ میں معروف تاجک شاعر لایق شیرعلی لکھتے ہیں:
"... یکی از دانش‌مندانِ معاصرش به علامهٔ اقبال می‌گوید: اشعارِ شما برای ما زندگی‌بخش و آزادی‌بخش است، شما رهنمای ما هستید، ما فارسی نمی‌دانیم، شما به اردو شعر بگویید. اقبال به زبانِ انگلیسی چنین پاسخ می‌دهد: 'این اشعار به من به زبانِ فارسی الهام می‌شود، زبانِ روحیهٔ من فارسی است.'"
"۔۔۔علامہ اقبال کے ایک ہم عصر دانش مند نے اُن سے کہا: آپ کے اشعار ہمارے لیے زندگی بخش و آزادی بخش ہیں، آپ ہمارے رہنما ہیں، ہم فارسی نہیں جانتے، آپ اردو میں شعر کہیے۔ اقبال نے انگریزی میں یوں جواب دیا: 'یہ اشعار مجھ پر فارسی زبان میں الہام ہوتے ہیں، میری روح کی زبان فارسی ہے۔'"
 

حسان خان

لائبریرین
"۔۔۔گنجینهٔ تأریخ‌نگاریِ جهانِ اسلام را، که بخشی از جوامعِ بشری‌ست، بدونِ زبانِ فارسی نمی‌توان تصور کرد. گذشته از این، باید در نظر داشته باشیم، که تمامِ متخصّصانِ مکتب‌های شرق‌شناسِ دنیا و مؤسّساتِ علمی و پژوهشیِ مربوط به شرق فارسی را می‌دانند و این زبان برای آنان اسلحهٔ اصلی و کاربُردش مهم‌تر از زبانِ روسی می‌باشد."
(لقمان بایمتوف، تاجیکستان)

ماخذ
"۔۔۔انسانی معاشرے کے ایک حصے یعنی جہانِ اسلام کی تاریخ نگاری کے گنجینے کو فارسی زبان کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے علاوہ، یہ چیز مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ دنیا کے شرق شناس مکاتب اور مشرق سے مربوط علمی و تحقیقاتی مؤسّسوں کے تمام متخصصین فارسی جانتے ہیں اور اُن کے لیے یہ زبان اصلی وسیلہ اور اِس کا استعمال روسی زبان سے زیادہ اہم ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"بزرگ‌ترین شاعر، متفکّر و نویسندهٔ زبردست میرزا عبدالقادرِ بیدل، یکی از آن ایجادکارانی‌ست، که نه تنها به ادبیاتِ دور بلکه به جَرَیانِ من‌بعدهٔ تأریخِ ادبیات نیز همه‌جانبه تأثیر رسانیده‌است."
[ادبیاتِ تاجیک: برای صنفِ دهم]

"بزرگ ترین شاعر، مفکّر اور مصنفِ توانا میرزا عبدالقادر بیدل، اُن تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں کہ جو نہ صرف اپنے زمانے کے ادبیات پر، بلکہ تاریخِ ادبیات کے بعد کے جَرَیان پر بھی ہمہ طرفہ اثر گذار ہوئے ہیں۔"
× جَرَیان = بہاؤ، دھارا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مأمورانِ پُلیسِ پاکستان ده‌ها نفر از طرف‌دارانِ عمران خان، یکی از پیشوایانِ مخالفانِ دولت را دست‌گیر کردند و ره‌پیمایی‌ها را ممنوع کردند."
ماخذ: تاجک اخبار 'ردیوی آزادی'
تاریخ: ۲۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء
"پاکستان کے پولیس اہلکاروں نے حزبِ اختلاف کے ایک پیشوا عمران خان کے دسیوں طرفداروں کو گرفتار کر لیا اور مظاہروں کو ممنوع قرار دے دیا۔"
 
اس عبارت کا ترجمہ برائے مہربا نی کردیں:

هنگامی که آدمی، ایمانش میخواند و دلش نمیخواهد مسئولیت او را به دل برکندن آنچه از دل، به آسانی کنده نمیشود،فرا میخواند، واو راه گریز می‌جوید و بدتر از توجیه‌های غلط، توجیه‌های درست! یعنی تکیه کردن بر یک حقیقت، برای پایمال کردن حقیقت دیگر و چه فاجعه‌ای است که باطل، به دستی عقل را شمشیر میگیرد و به دستی شرع را، سپر !در اینجا است که قرآن هم پرچم شرک میشود و علی هم خلع سلاح میگردد !و امت حسین،عاقبت یزید می‌یابد !

(ابراہیم در کشاکشِ یک انتخاب۔۔۔۔علی شریعتی)

مخصوصاََ جملہء سرخ واضح نہیں۔ کیا یہاں خواندن بلانے کے معنیٰ میں ہے؟ مسؤلیت سرپرستی کو کہتے ہیں؟خلع سے یہاں کیا مراد ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
اس عبارت کا ترجمہ برائے مہربا نی کردیں:

هنگامی که آدمی، ایمانش میخواند و دلش نمیخواهد مسئولیت او را به دل برکندن آنچه از دل، به آسانی کنده نمیشود،فرا میخواند، واو راه گریز می‌جوید و بدتر از توجیه‌های غلط، توجیه‌های درست! یعنی تکیه کردن بر یک حقیقت، برای پایمال کردن حقیقت دیگر و چه فاجعه‌ای است که باطل، به دستی عقل را شمشیر میگیرد و به دستی شرع را، سپر !در اینجا است که قرآن هم پرچم شرک میشود و علی هم خلع سلاح میگردد !و امت حسین،عاقبت یزید می‌یابد !

(ابراہیم در کشاکشِ یک انتخاب۔۔۔۔علی شریعتی)

مخصوصاََ جملہء سرخ واضح نہیں۔ کیا یہاں خواندن بلانے کے معنیٰ میں ہے؟ مسؤلیت سرپرستی کو کہتے ہیں؟خلع سے یہاں کیا مراد ہے؟
سرخ سطروں کا مفہوم کچھ یوں ہے:
جب انسان کو اُس کا ایمان پکارتا ہے لیکن اُس کا دل نہیں چاہتا۔۔۔ ذمہ داری اُسے اُس چیز سے دل ہٹانے کی جانب بلاتی ہے جس سے بہ آسانی دل نہیں ہٹایا جا سکتا اور وہ راہِ گریز تلاش کرتا ہے، اور غلط توجیہات سے بدتر، درست توجیہات!
جی، یہاں خواندن اور فراخواندن 'پکارنے' اور 'بلانے' کے معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔
'مسئولیت' ذمہ داری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
'خَلعِ سِلاح گردیدن' غیر مسلح ہو جانے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
ضمناً، علی شریعتی کے نثری اسلوب میں شعریت ہے اور مبتدیوں کے لیے وہ ذرا دشوار فہم ہے۔ لہٰذا میری پیشنِہاد (تجویز) ہے کہ آپ علی شریعتی کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے قبل دیگر معاصر ایرانی ادبی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ جب ایرانی نثری سَبک پر گرفت قوی ہو جائے گی، تب علی شریعتی کی تحریریں بھی دشوار معلوم نہ ہوں گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"تسلط فضولی به زبان‌های سه‌گانهٔ عالم اسلام و خلق آثاری به هر سه زبان او را به حلقهٔ واسط جهان اسلام تبدیل کرده‌است."
(هاشمی رفسنجانی)

"عالمِ اسلام کی تین زبانوں پر فضولی کے تسلط اور تینوں زبانوں میں تألیفات کی تخلیق نے اُنہیں جہانِ اسلام کے حلقۂ واسِط میں تبدیل کر دیا ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
"یکی از پژوهش‌هایِ جنابِ کرامت‌اللهِ احمد به موضوعِ درازعمرها اختصاص یافته‌است. وی ادعا می‌کند، که از رویِ تحقیقاتِ انجام‌داده‌اش حالا در تاجیکستان ۳۳۱ نفری زندگی می‌کنند، که سِنّشان از ۱۰۰ سال گذشته‌است."
تاریخ: ۱۸ نومبر ۲۰۱۶ء
ماخذ: تاجک اخبار 'رادیوی آزادی'
"جنابِ کرامت اللہ احمد کی ایک تحقیق دراز عمر افراد کے موضوع سے مخصوص ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کی انجام دادہ تحقیقات کے رُو سے حالا تاجکستان میں ایسے ۳۳۱ نفور موجود ہیں کہ جن کی عمریں ۱۰۰ سال سے تجاوز کر چکی ہیں۔"
× حالا = اِس وقت، فی الوقت، فی الحال
 
آخری تدوین:
لغت نامہء دہخدا میں واژہ "مشرقی ترکستان" کے زیرِ عنوان تفصیل خوانتے(پڑھتے) ہوئے مندرجہ ذیل عبارت نظر آئی۔​

محمود کاشغری اندیشمند قرن یازدهم اویغور در "دیوان لغات الترک" خود ضمن تشریح واژه ی "تات " می گوید :" به نظر ترکها منظور از تات انسانی است که به زبان فارسی حرف می زند." و در یک ضرب المثل ترکی آمده است که : " بدون تات ترکی وجود ندارد همچنانکه بدون سر کلاهی نخواهد بود." یعنی بدون زبان و ادبیات فارسی زبان و ادبیات ترکی هم وجود نخواهد داشت . از گفته ی محمود کاشغری و ضرب المثل فوق رابطه ی بین دو ملت فارس و ترک و ادبیات آنان را به خوبی می توان درک نمود.

ترجمہ:۔​
قرنِ یازدہم کے اویغور مفکر محمود کاشغری (اپنی کتاب) "دیوان لغات الترک" میں واژہ "تات" کے ضمن میں کہتے ہیں: "تُرکوں کی نظر میں 'تات' وہ انسان ہے جو فارسی میں بات کرے۔" اور ایک ضرب المثلِ ترکی ہے کہ ' تات' کے بغیر زبانِ ترکی وجود نہیں رکھتی جیسے کہ سر کے بغیر کُلاہ نہیں ہوتا۔' یعنے فارسی زبان و ادبیات کے بدون ترکی زبان و ادبیات بھی وجود نہیں رکھےگی۔از روئے قولِ محمود کاشغری و ضرب المثل، مللِ ترک و فارس اور ان کی ادبیات کے مابین بالاتر پیوستگی کا بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے۔​


٭واژہ =لفظ
٭کلاہ=پگڑی
 

حسان خان

لائبریرین
لغت نامہء دہخدا میں واژہ "مشرقی ترکستان" کے زیرِ عنوان تفصیل خوانتے(پڑھتے) ہوئے مندرجہ ذیل عبارت نظر آئی۔​

محمود کاشغری اندیشمند قرن یازدهم اویغور در "دیوان لغات الترک" خود ضمن تشریح واژه ی "تات " می گوید :" به نظر ترکها منظور از تات انسانی است که به زبان فارسی حرف می زند." و در یک ضرب المثل ترکی آمده است که : " بدون تات ترکی وجود ندارد همچنانکه بدون سر کلاهی نخواهد بود." یعنی بدون زبان و ادبیات فارسی زبان و ادبیات ترکی هم وجود نخواهد داشت . از گفته ی محمود کاشغری و ضرب المثل فوق رابطه ی بین دو ملت فارس و ترک و ادبیات آنان را به خوبی می توان درک نمود.

ترجمہ:۔
قرنِ یازدہم کے اویغور مفکر محمود کاشغری (اپنی کتاب) "دیوان لغات الترک" میں واژہ "تات" کے ضمن میں کہتے ہیں: "تُرکوں کی نظر میں 'تات' وہ انسان ہے جو فارسی میں بات کرے۔" اور ایک ضرب المثلِ ترکی ہے کہ ' تات' کے بغیر زبانِ ترکی وجود نہیں رکھتی جیسے کہ سر کے بغیر کُلاہ نہیں ہوتا۔' یعنے فارسی زبان و ادبیات کے بدون ترکی زبان و ادبیات بھی وجود نہیں رکھےگی۔از روئے قولِ محمود کاشغری و ضرب المثل، مللِ ترک و فارس اور ان کی ادبیات کے مابین بالاتر پیوستگی کا بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے۔​


٭واژہ =لفظ
٭کلاہ=پگڑی
اِس ترجمے میں تیں خامیاں ہیں:
بدون تات ترکی وجود ندارد
میرا گمان ہے کہ یہاں 'ترکی' میں یائے نکرہ ہے یعنی'تات (ایرانی) کے بغیر کوئی ترُک وجود نہیں رکھتا۔۔"
سر کے بغیر کُلاہ نہیں ہوتا
اردو میں 'کُلاہ' مؤنث ہے۔ لہٰذا 'کُلاہ نہیں ہوتی' ہونا چاہیے۔
از گفته ی محمود کاشغری و ضرب المثل فوق رابطه ی بین دو ملت فارس و ترک و ادبیات آنان را به خوبی می توان درک نمود.
از روئے قولِ محمود کاشغری و ضرب المثل، مللِ ترک و فارس اور ان کی ادبیات کے مابین بالاتر پیوستگی کا بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے۔
فارسی اقتباس میں 'فوق'، 'ضرب المثَل' کی صفت ہے، 'رابطه' کی نہیں۔
آپ کا ترجمہ اگر یوں ہو تو درست ہو جائے گا:
از روئے قولِ محمود کاشغری و ضرب المثلِ مندرجۂ بالا
ترجمے میں 'پیوستگی' سے قبل 'بالاتر' درست نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
کسی که کتاب می خواند هزاران زندگی را قبل از مرگش زندگی میکند. کسی که هرگز کتاب نمیخواند فقط یک بار زندگی میکند۔
(جورج آر. مارتین)

جوکوئی بھی کتاب پڑھتا ہے، وہ اپنی موت سے پہلے ہزاروں زندگیوں میں جیتا ہے۔جو کوئی کتاب نہیں پڑھتا، وہ فقط ایک بار جیتا ہے۔
(جارج آر مارٹن)
 
دزدی در خانه فقیری می جُست، فقیر از خواب پرید و گفت: ای مردک! آنچه تو در تاریکی می جویی، ما در روز روشن می جوییم و نمی یابیم
(عبید زاکانی)

ایک چور فقیر کے خانے میں (دزدیدنی چیز) تلاش کررہا تھا۔فقیر بیدار ہوا اور بولا: اے مردِ پست!جو کچھ تو تاریکی میں تلاشتے ہو، وہ ہم روزِ روشن میں تلاشتے ہیں اور نہیں ملتا۔۔
 
Top