فانیش مسیح کی ہلاکت!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

محترمہ جو یہ بات کہ رہی ہیں کہ شہید نے جرمنی قانون کا عہد کیا تھا تو میری اطلاع کے مطابق سٹوڈنٹ ویزہ جرمنی کا ہو یا پورے مغرب کا اس میں کہیں بھی یہ عہد نامہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ ان کے قانون کی پاسداری کرے گا ہاں یہ ضرور ھے کہ جب وہاں کی سیٹیزن شپ لی جاتی ھے تو اس وقت یہ حلف ضرور لیا جاتا ھے کونسل آفس میں میئر سے سامنے کہ وہ ان کے قانون کی پاسداری کرے گا۔ پھر اس کے بعد وہ سیٹیزن شپ دیتے ہیں اور اس میں بھی کوئی زبردستی نہیں اگر کوئی یہ کہے کہ میں حلف نہیں اٹھانا چاہتا تو بھی اس کو سیٹیزن شپ دے دیتے ہیں‌۔

اگر یہ کہا جائے کہ حلف اٹھا لیا تھا اور کیوں‌ ایسا کیا تو اس کا مطلب جو یہاں رہتے ہیں ان کے ساتھ کوئی بھی جرمن یا یوپین کچھ بھی غیر اخلاقی حرکت کرے تو وہ خاموشی سے آنکھیں بند کر لے کہ اس نے حلف لیا ہوا ھے۔

والسلام

آپ ایسا عذر لے کر آ گئے ہیں جس پر آپ کو اور مجھ کو اپنا اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ویزہ لیتے وقت آپ ایک درخواست فارم فل کرتے ہیں اور اسی میں حلف درج ہوتا ہے کہ آپ ملکی قانون کا احترام کریں گے اور اس ویزا فارم پر آپ سے دستخط لیے جاتے ہیں۔ اور خاص طور پر سٹوڈنٹز جو یہاں جرمنی میں ویزہ لینے جاتے ہیں، ان سے بھی انکے ویزا فارم درخواست پر ان سے دستخط لیے جاتے ہیں۔

آپ کے پاسپورٹ کے شروع میں صدر پاکستان کی طرف سے درخواست درج ہے کہ پاسپورٹ کے حامل ہذا کو آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور پاسپورٹ کے آخر میں درج ہے کہ ہر پاسپورٹ کے حامل ہذا کو دیگر ممالک کے امیگریشن قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تب بھی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت آپ پر واجب ہے آپ ہر ملک کے قوانین کا احترام کریں اور اس میں کوئی دو آراء نہیں۔

از ابن حسن:
اور اوپر میرا سوال نظر انداز کرنے سے بہتر ہے کہ اس کا جواب دیں ۔ بتائیے کہ اگر کسی قانون یا معاہدے کی زد توحید و رسالت جیسے بنیادی عقائد اور اسلامی معاملات پر پڑتی ہو تو کیا ایسا معاہدہ نافذ ہوتا ہے یا نہیں۔

آپ ایک ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جس کا علم آپ کو یقینا مذہبی انسان ہوتے ہوئے بہت اچھی طرح ہونا چاہیے۔ بس میں امید ہی کرتی ہوں کہ آپ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے یہ سوال نہ کر رہے ہوں اور نہ آپکی نیت بحث برائے بحث کی ہو۔

اللہ تعالی قرآن میں فرما رہا ہے:

(الانفال 8:72) وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ جب کفار کسی مسلمان پر ظلم و ستم کر رہے ہوں تو شریعت کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ مسلمانوں پر انتہائی ظلم و ستم توڑے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے اس جہاد کے حکم کے برعکس کفار سے صلح کر رہے ہیں اور اس میں ایسی شقوں کو مان رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین کے خلاف ہیں، مثلا یہ کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر آئے گا تو اُسے واپس کر دیا جائے گا، مگر اسکا الٹ صحیح نہ ہو گا۔
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عہد کا ایسا ایفاء کیا کہ جب ابو جندل کفار مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے تب بھی رسول ص نے معاہدے کے مطابق انہیں انہیں کفار کے ہاتھ واپس کیا جو اُن پر اذیتوں کے پہاڑ توڑا کرتے تھے۔

اور غیر مسلم ممالک اور اُن کے غیر اسلامی قانون کے تحت کیسا رہا جائے، اسکا نمونہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود ہمیں دے چکے ہیں جب ایک کافر بڑھیا آنحضرت ص پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور برا بھلا کہا کرتی تھی۔ اور جب ایک دن اس نے یہ حرکت نہ کی تو رسول ص خود اسکے گھر چلے گئے اور جب دیکھا کہ وہ بیمار ہے تو اس کی تیمارداری کی۔ ۔۔۔۔ اور آخر میں اس بڑھیا نے رسول کے اس اسوہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
خدا کا شکہ ہے کہ میرا رسول ص عامر چیمہ جیسا انتہا پسند نہیں اور موقع دیکھ کر چھری نکال کر بڑھیا کو ذبح کرنے کی بجائے اُس کی تیمارداری کرتا ہے حالانکہ اسکا تو اُس وقت کسی سے کوئی معاہدہ بھی نہیں۔ مگر یہ انسانی عقل رہنمائی کرتی ہے کہ کفار پر کافر معاشرے میں آپ اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اب تک کی اطلاعات جیل حکام نے فراہم کی ہیں یا لاش کا کوئی پوسٹ مارٹم بھی ہوا ہے؟ اور لکھ کر رکھو کہ یہ کبھی بھی نہیں ہوگا کہ کیونکہ یہ 'قومی مفاد' کے خلاف ہوگا۔
توہین رسالت کے نام نہاد قانون پر کسی اور تھریڈ‌ میں بات ہو رہی ہے۔ یہاں یہ موضوع نہیں ہے۔

منیر، اب توہین رسالت قانون ختم بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
میں کل سے یہ ساری بحث پڑھ رہا ہوں اور مجھے سخت افسوس ہوا کہ خود کو پڑھا لکھا طبقہ کہلانے والوں کے یہ تیور ہیں ۔ ۔ ۔ ایک انسان قتل ہوا اب اس نے خود کشی کی یا قتل کیا گیا اس بات کی تحقیق کی جانی چاہیے اور اگر اسے کسی بھی قانون کا غلط استعمال کرکے قتل کیا گیا ہے تو یہ بات سخت مزمت کے قابل ہے چاہے قانون کوئی بھی ہو مگر اس بات کو بنیاد بناکر کسی بھی قانون کو ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر جب کوئی قانون قرآن و سنت کی واضح نصوص سے منصوص ہو اور امت کا اس قانون پر اجماع ہو باقی رہ گئی قانون پر عمل در آمد کروانے کی بات یا پھر اس قانون کے صحیح استعمال کی بات تو یہ بات حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ ۔ مجھے نبیل بھائی کے توہین رسالت کے قانون کو نام نہاد کہنے پر سخت احتجاج ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نبیل بھائی اپنے یہ الفاظ واپس لیں کسی مومن مسلمان سے دانستا یہ متصور نہیں کہ وہ ایسی بات کہہ جائے سو میں امید کرتا ہوں کہ نبیل بھائی ضرور اپنے الفاظ واپس لیں گے ۔ ۔ ۔

آپ نے وہ تلخ حقیقت بیان کر دی ہے کہ جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر آج اگر اس قانون میں کوئی ترمیم بھی کی جاتی ہے تب بھی اس فتنے میں کچھ کمی آنے والی نہیں۔

اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔ اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
ڈئیر سسٹر مجھے آپکے اس رویہ پر بھی سخت افسوس اور اس سے بھی زیادہ حیرت ہوئی اول تو یہ کہ قرآن و سنت کی واضح نصوص سے منصوص کوئی ایسا قانون کہ جس کے قانون ہونے پر بھی اجماع امت ہو اس میں کیا تبدیلی کی جاسکتی ہے اور کس کو حق ہے کہ وہ اس قانون میں تبدیلی کرسکے جبکہ آگے چل کر خود آپ کو بھی یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ۔ ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا جب آپ کو یہ تسلیم ہے کہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا تو پھر توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا ذکر چہ معنی دارد؟؟؟؟؟ اور ہاں یہ آپ نے بالکل درست لکھا کہ (معاذ اللہ) اس توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو ختم کرنے کے باوجود بھی اس رویہ میں تبدیلی ہرگز نہیں آسکتی کہ جس رویہ کی وجہ سے ایک فاسق و فاجر قسم کا مسلمان بھی ایسے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنے پر جری ہوجاتا ہے کیونکہ اسکی اصل ہی یہ ہے کہ وہ قانون توہین رسالت کی وجہ سے ایسا ہرگز نہیں کرتا بلکہ وہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ اسکی گھٹی میں ملی ہوئی ہے اسی کا تقاضا نبھا رہا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں چاہے قانون توہین رسالت ہو یا نہ رہے (معاذاللہ) اور چاہے کسی کو ہیرو بناکر پیش کیا جائے یا زیرو بنا کر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا امر ہے کہ جس پر کوئی ذی ہوش تو کیا بڑے بڑے نشے میں ڈوبے ہوؤں کو بھی زندگی اور ہوش بخشی ہے ۔ ۔ ۔اور اگر پھر بھی آپ یہ سمجھتی ہیں کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی روا ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر اس امر کی کیا بنیاد ہے آپ کے پاس ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟' اگر اس طرح کی متفقہ قانون سازی کے بعد کسی قانون میں کیڑے نکالے جانے لگیں، تو بتلایا جائے کہ آخر دنیا کا وہ کونسا قانون ہے جو ”روشن دماغ“ لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہے گا؟ پھر اس بات کی بھی کیا ضمانت ہے کہ اس قماش کے لوگوں کو آئندہ قرآن و سنت کے منصوص احکام و مسائل اور اصول و قوانین میں نقائص و کمزوریاں نہ نظر آئیں گی؟ بلاشبہ فکر مغرب اور چشم الحاد سے سوچنے اور دیکھنے والوں کو پورا اسلام اور اسلامی قوانین ظالمانہ نظر آتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسے تمام احکام و قوانین کی کمزوریاں تلاش کرکے دور کی جائیں گی؟کیا نعوذباللہ! ان کی بھی تطہیر کی جائے گی؟ یا چشم بددور !ان کی جگہ بھی نیا قابلِ عمل اور استاذِ مغرب کی فکرو نظر کا آئینہ دار نظام متعارف کرایا جائے گا؟ اے کاش! کہ ان ”روشن دماغ“ لوگوں کو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور خصوصاً سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرہ بھر محبت و عقیدت ہوتی تو وہ ایسا لکھنا، کہنا اور سوچنا بھی گوارا نہ کرتے ۔ ۔ ۔ ۔


[/color]
ایک تو غلطی کرنا اور دوسرا اس پر اتنے ڈھیٹ طریقے سے جمے رہنا۔

حق و انصاف کی بات اتنی صاف ہے کہ یہ لاکھ سر پٹخ لیں مگر اسلام کی لاٹھی ہر بار خود ان پر برستی رہے گی۔

جتنے مسلمان اس وقت غیر مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں اُن پر معاہدے کے تحت لازم ہے کہ وہ ملکی قوانین کا مکمل احترام کریں گے۔ ۔۔۔۔ کیا اس کے بعد کسی اور بحث کی گنجائش رہ جاتی ہے؟

قرآن تو کہتا ہے کہ ایفائے عہد کرو۔ رسول اللہ نے اسی ایفائے عہد کے تحت ابو جندل صحابی کو کفار مکہ کے حوالے واپس کر دیا۔ ۔۔۔۔۔ مگر کیا ہے کہ یہ آج کے انتہا پسند اپنی جنونیت میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں اپنے بنائی ہوئی نئی نئی شریعتیں لے آئے ہیں کہ جس کے بعد انہیں قران کا پاس ہے اور نہ اسوہ رسول کا، اور انکا مقصد و منشاء فقط اپنی جنونی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔

یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
معاف کیجئے گا ڈئر سسٹر اول تو غیر ملک میں رہنے والے کسی مسلمان نے کسی بھی کافر کے ساتھ اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا ہوتا کہ اگر اسکی جان سے بھی پیاری ہستی پر کوئی سب کرئے تو وہ ملکی قانون کو ہاتھ میں نہ لے گا کیونکہ معاہدہ وہ قرارداد ہوتی ہے جو فریقین کے مابین ہو اور جس کی رو سے ہر فریق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اقرار کرے اور اگر آپ کے نزدیک کسی ملک کا عمومی قانون ہی اصل معاہدہ ہے تو پھر معاف کیجئے گا کہ کسی بھی ملک کے قانون میں یہ بات شامل نہیں کہ وہ اول تو لوگوں کے مذہبی جزبات کے ساتھ کھلواڑ کرئے اور نتیجتا فقط فریق مخالف پر ہی اس ملک کے کسی بھی ایسے نام نہاد قانون کی پاسداری لازم ہو ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں کل سے یہ ساری بحث پڑھ رہا ہوں اور مجھے سخت افسوس ہوا کہ خود کو پڑھا لکھا طبقہ کہلانے والوں کے یہ تیور ہیں ۔ ۔ ۔ ایک انسان قتل ہوا اب اس نے خود کشی کی یا قتل کیا گیا اس بات کی تحقیق کی جانی چاہیے اور اگر اسے کسی بھی قانون کا غلط استعمال کرکے قتل کیا گیا ہے تو یہ بات سخت مزمت کے قابل ہے چاہے قانون کوئی بھی ہو مگر اس بات کو بنیاد بناکر کسی بھی قانون کو ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر جب کوئی قانون قرآن و سنت کی واضح نصوص سے منصوص ہو اور امت کا اس قانون پر اجماع ہو باقی رہ گئی قانون پر عمل در آمد کروانے کی بات یا پھر اس قانون کے صحیح استعمال کی بات تو یہ بات حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے ۔ ۔ مجھے نبیل بھائی کے توہین رسالت کے قانون کو نام نہاد کہنے پر سخت احتجاج ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نبیل بھائی اپنے یہ الفاظ واپس لیں کسی مومن مسلمان سے دانستا یہ متصور نہیں کہ وہ ایسی بات کہہ جائے سو میں امید کرتا ہوں کہ نبیل بھائی ضرور اپنے الفاظ واپس لیں گے ۔ ۔ ۔

آبی، میں اس تھریڈ پر مزید گفتگو کا ارادہ نہیں رکھتا ہوں، اور اپنے خیالات کا بھی میں نے واضح اظہار کر دیا ہے۔ اور مومن مسلمانوں کو بھی ان کا ایمان مبارک ہو۔
 

گرائیں

محفلین
حضرت، آپ یہاں اپنے مدرسے میں بچوں کو برین واش نہیں کر رہے بلکہ پڑھے لکھے طبقے سے بات کر رہے ہیں جو دلیل سے آپ کی مذہبی جنونیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
اور مداری اور ڈگڈگی دیکھنی ہے تو اُس شخص کی دیکھیں جو علی ابن ابی طالب کو عامر چیمہ جیسے مجرم و عہد شکن کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔
یہ عامر چیمہ وہ ہے جس نے بہ راضی و رضا حلف لیا تھا کہ وہ اس ملک کے قوانین کا احترام کرے گا۔ کسی نے جا کر اسکے آگے ہاتھ نہیں جوڑے تھے کہ سرکار آپ یہاں تشریف لے آئیے۔
تو ایسے بدعہد شخص کو علی ابن ابی طالب سے جوڑنے کی بات کوئی بہت ہی شقی القلب شخص ہی کر سکتا ہے۔ دکھائیں کہاں علی ابن ابی طالب نے ایسے معاہدے کر کے اُن کی عہد شکنی کی ہو؟
جتنی آپ بحث کرتے جائیں اتنا ہی آپ کا چہرہ بے نقاب ہوتا جائے گا۔

کیا جرمنی کے قوانین میں، یا ویزے کے فارم پر یا شہریت کے لیتے وقت کسی فارم پر یہ عہد یا حلف دینا ہوتا ہے کہ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر تمام مسلمان جرمنی کے قوانین کی پابندی کریں گے؟
 

کعنان

محفلین
آپ ایسا عذر لے کر آ گئے ہیں جس پر آپ کو اور مجھ کو اپنا اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ویزہ لیتے وقت آپ ایک درخواست فارم فل کرتے ہیں اور اسی میں حلف درج ہوتا ہے کہ آپ ملکی قانون کا احترام کریں گے اور اس ویزا فارم پر آپ سے دستخط لیے جاتے ہیں۔ اور خاص طور پر سٹوڈنٹز جو یہاں جرمنی میں ویزہ لینے جاتے ہیں، ان سے بھی انکے ویزا فارم درخواست پر ان سے دستخط لیے جاتے ہیں۔
آپ کے پاسپورٹ کے شروع میں صدر پاکستان کی طرف سے درخواست درج ہے کہ پاسپورٹ کے حامل ہذا کو آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور پاسپورٹ کے آخر میں درج ہے کہ ہر پاسپورٹ کے حامل ہذا کو دیگر ممالک کے امیگریشن قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تب بھی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت آپ پر واجب ہے آپ ہر ملک کے قوانین کا احترام کریں اور اس میں کوئی دو آراء نہیں۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے میرے وقت کی آپ فکر نہ کریں اپنا نہیں کرنا تو پرہیز کریں جو باتوں کا سہارا لے کر آپ چل رہی ہیں ان کے لئے یہ ضروری ھے کہ آپ کو بتایا جا سکے کہ آپ کہاں پر غلطی کر رہی ہیں

پر پاسپورٹ پر جو لکھا ہوتا ھے وہ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا ہوتا ھے اس پر کوئی حلفیہ بیان پاسپورٹ لینے والے کا نہیں ہوتا۔

یہ جرمنی سٹوڈنٹ ویزا اپلیکیشن کا لنک ھے یہاں پر صرف یہ لکھا ہوا پڑھا جا رہا ھے کہ جو میں انفارمیشن دے رہا ہوں وہ بالکل ٹھیک ہیں اب آپ دیکھیں شائد آپ کو کہیں نظر آ جائے وہ حلفیہ بیان

آپ کو اگر نہیں پتہ تو احتیاط سے کام لیں میں بھی تھوڑا سا ان پڑھ ہوں
http://www.new-delhi.diplo.de/Vertr...idence__Permit__Visa__form,property=Daten.pdf

والسلام
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

وارننگ یا بین سے اچھا ایک اور کام ہوتا ھے کہ جب آپ کہیں دیکھیں گفتگو میں کوئی غلطی سے کوئی غلط مکالمے ادا کر رہا ھے تو اسے پیار سے سمجھا دیں تاکہ وہ دوبارہ محتاط رہے۔

شکریہ


والسلام
 
آپ ایسا عذر لے کر آ گئے ہیں جس پر آپ کو اور مجھ کو اپنا اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ویزہ لیتے وقت آپ ایک درخواست فارم فل کرتے ہیں اور اسی میں حلف درج ہوتا ہے کہ آپ ملکی قانون کا احترام کریں گے اور اس ویزا فارم پر آپ سے دستخط لیے جاتے ہیں۔ اور خاص طور پر سٹوڈنٹز جو یہاں جرمنی میں ویزہ لینے جاتے ہیں، ان سے بھی انکے ویزا فارم درخواست پر ان سے دستخط لیے جاتے ہیں۔

آپ کے پاسپورٹ کے شروع میں صدر پاکستان کی طرف سے درخواست درج ہے کہ پاسپورٹ کے حامل ہذا کو آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور پاسپورٹ کے آخر میں درج ہے کہ ہر پاسپورٹ کے حامل ہذا کو دیگر ممالک کے امیگریشن قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ نہ بھی ہو تب بھی بین الاقوامی معاہدوں کے تحت آپ پر واجب ہے آپ ہر ملک کے قوانین کا احترام کریں اور اس میں کوئی دو آراء نہیں۔



آپ ایک ایسا سوال پوچھ رہے ہیں جس کا علم آپ کو یقینا مذہبی انسان ہوتے ہوئے بہت اچھی طرح ہونا چاہیے۔ بس میں امید ہی کرتی ہوں کہ آپ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے یہ سوال نہ کر رہے ہوں اور نہ آپکی نیت بحث برائے بحث کی ہو۔

اللہ تعالی قرآن میں فرما رہا ہے:

(الانفال 8:72) وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے۔ جب کفار کسی مسلمان پر ظلم و ستم کر رہے ہوں تو شریعت کی رو سے واجب ہو جاتا ہے کہ جہاد کر کے ان مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے وقت کفار مکہ مسلمانوں پر انتہائی ظلم و ستم توڑے ہوئے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریعت کے اس جہاد کے حکم کے برعکس کفار سے صلح کر رہے ہیں اور اس میں ایسی شقوں کو مان رہے ہیں جو اسلامی شریعت کے بائی ڈیفالٹ قوانین کے خلاف ہیں، مثلا یہ کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر آئے گا تو اُسے واپس کر دیا جائے گا، مگر اسکا الٹ صحیح نہ ہو گا۔
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس عہد کا ایسا ایفاء کیا کہ جب ابو جندل کفار مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے تب بھی رسول ص نے معاہدے کے مطابق انہیں انہیں کفار کے ہاتھ واپس کیا جو اُن پر اذیتوں کے پہاڑ توڑا کرتے تھے۔

اور غیر مسلم ممالک اور اُن کے غیر اسلامی قانون کے تحت کیسا رہا جائے، اسکا نمونہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود ہمیں دے چکے ہیں جب ایک کافر بڑھیا آنحضرت ص پر کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور برا بھلا کہا کرتی تھی۔ اور جب ایک دن اس نے یہ حرکت نہ کی تو رسول ص خود اسکے گھر چلے گئے اور جب دیکھا کہ وہ بیمار ہے تو اس کی تیمارداری کی۔ ۔۔۔۔ اور آخر میں اس بڑھیا نے رسول کے اس اسوہ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
خدا کا شکہ ہے کہ میرا رسول ص عامر چیمہ جیسا انتہا پسند نہیں اور موقع دیکھ کر چھری نکال کر بڑھیا کو ذبح کرنے کی بجائے اُس کی تیمارداری کرتا ہے حالانکہ اسکا تو اُس وقت کسی سے کوئی معاہدہ بھی نہیں۔ مگر یہ انسانی عقل رہنمائی کرتی ہے کہ کفار پر کافر معاشرے میں آپ اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے۔


مجھے خوشی ہے کہ اس دفعہ آپ نے ایک مثبت طرز اپناتے ہوئے دلائل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔

دیکھیے آپ نے جو سورہ مبارکہ کی آیت بیان کی یا صلح حدیبیہ کا معروف واقعہ بطور دلیل کے یہاں بیان کیا ہے وہ اس بات کہ کوئی بھی مسلم کسی غیر اسلامی ملک میں رہائش اختیار کرے تو وہاں کہ سب ہی احکام کی پابندی کرے اور چاہے ان میں اسیے احکام بھی ہوں جن کی زد اس کے عقائد یعنی مثلا توحید و رسالت یا انتہائی بنیادی معاملات مثلا ادائیگی صوم و صلوۃ پر بھی پڑی ہو، سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان دونوں معاملات کا الگ الگ جائزہ لینا پڑے گا۔
سورہ انفال غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی سو اس سورہ میں اس غزوہ کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ہجرت سے متعلقہ بھی بعض مسائل اس سورہ شریفہ میں بیان ہوئے ہیں آپ نے جو آیت شریفہ نقل کی ہے وہ درحقیقت ہجرت سے متعلقہ بعض مسائل کے بارے میں ہے ۔وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی ہجرت نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی وجہ سے مشرکین کے درمیان رہ گئے اب گویا ان کے لیے کچھ خاص احکامات نازل ہوئے اور ان کا رتبہ ہجرت کرنے والوں سے گھٹا دیا گیا۔اولا مہاجر و غیر مہاجر کی باہمی وراثت کو قطع کردیا گیا۔ دوسرے یہ کہ مولانا مودودی کے مطابق ان سے سیاسی ولایت کا رشتہ بھی منقطع کردیا گیا گویا اب اسلامی حکومت میں رہنے والوں سے نہ صرف وراثت باوجود نسبی تعلق کے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ شادی بیاہ بھی نہیں کرسکتے اور اسلامی حکومت ان کوکوئی عہدہ بھی نہیں دے سکتی جب تک وہ وہاں کی شہریت ترک نہیں کرتے ہاں اخوتی رشتہ ایک حد تک برقرار رکھا گیا کہ اور وہ دینی اخوت کا رشتہ تھا اور یہ کہ اگر ان پر کہیں ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی حکومت سے مدد مانگیں تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان کی مدد کرے ۔ لیکن اس میں بھی اللہ رب العزت نے ایک استثنیٰ رکھ دیا کہ اگر ظلم کرنے والی حکومت سے عدم جنگ کا کوئی معاہدہ ہو گیا ہو تو پھر اس حکومت سے جنگ نہیں کی جائے گی۔اس چیز کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح فرمایا کہ میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔
کیا اس تفصیل سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ چیز بطور خاص ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جنھوں نے ہجرت جیسے اہم فریضہ سے منہ موڑے رکھا جس سے ان کی وراثت تک منقطع ہو گئی اور پھر غور کیجئے تو یہ استثنیٰ خود رب کی طرف سے ہے اور یہ معاملہ دو حکومتوں کے مابین ہے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اسلامی عقائد و نظریات سے باہم متصادم ہو ایک اسلامی حکومت صرف ان مسلمانوں کی حفاظت سے بری ذمہ قرار دی جارہی ہے جو خود وہاں رہنے پر مصر ہیں۔لیکن اس میں کہیں یہ بات ہم کو نظر نہیں آتی کہ اس سے یہ لازم آتا ہو کہ اسلامی حکومت یا مسلمانوں کو اللہ یہ چھوٹ دے رہا ہے کہ تم کوئی بھی معاہدہ کر ڈالو بھلے اس معاہدہ کے نتیجے میں تمہارا دین و ایمان برباد ہو جائے اس آیت سے کہیں دور دور تک یہ مطلب اخذ نہیں کیا جاسکتا
پھر مہوش ایک بڑی اہم بات یہ کہ سورہ انفال سے متصل سورہ توبہ ہے آپ اس سورہ مبارکہ کی ابتدائئ آیات پڑھیں تو اس معاملے میں مزید بصیرت ملتی ہے اس سورہ میں تمام مشرکین کے ساتھ سارے معاہدہ ختم کرنے کا واضح اعلان موجود ہے عام معاہد ہ جوکسی مدت کے بغیر کیے گئے ہیں ان کے لیے 4 ماہ کی مدت رکھی گئی ہے اور وہ معاہدے جن کی کچھ مدت ہے وہ اپنی مدت تک برقرار رکھے گئے ہیں مگر ایک شرط کے ساتھ بقول ابن کثیر وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمانوں کو خود کوئی ایذا پہچائیں اور نہ ان کے دشمنوں کی کوئی کمک اور امداد کریں ۔گویا بعد ازاں اللہ ان مشرکین سے کسی قسم کے معاہدے کرنے کا ہی روادار نہیں اور ان کے سامنے دو راستے رکھ رہا ہے یا تو مسلمان ہو جاو ورنہ مسلمانوں کا مرکز خالی کرود یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو اور ادھر آپ ہیں جو توہین رسالت پر بھی مسلمانوں کو ان کے قوانین کی پاسداری کرنے کادرس دے رہی ہیں یہاں میں اختصارا کچھ باتیں عرض کرہا ہوں سورہ توبہ کی تفاسیر اٹھا کر دیکھئے بہت کچھ اور بھی آپ کے علم میں آجائے گا۔
صلح حدیبیہ کا معاملہ بھی کچھ یہی تھا ان کافروں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خاص مدت کے لیے صلح کی تھی اور وقتی طور پر کچھ قربانی بھی دی تھی یہاں تک کہ محمد رسول اللہ کی بجائے اپنا نام محمد بن عبداللہ لکھنا بھی گوارا کر لیا تھا کیونکہ جو کچھ وحی کے ذریعے آپ کو پتہ تھا وہ کسی ا ور کو پتہ نہیں تھا اس سلسلے میں سب سے اہم معاملہ ان مسلمانوں کا تھا جو مسلمان ہو کر مکہ سے مدینہ آئے لیکن ان کو واپس کر دیا گیا جیسا کہ ابو جندل اور ابو بصیر لیکن اس موقع پر آپ گویا بشارت خداوندی کے تحت دیکھ رہے تھے کہ ان مظالم کی عمر زیادہ نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ پھر سورہ توبہ کا نزول ہوا جس نے ایسے معاہدات ختم ہی کردئیے
[arabic] بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَo[/arabic]
[arabic]فَسِيحُواْ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ وَأَنَّ اللّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَo[/arabic]
[arabic]وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍo[/arabic]
[arabic]إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّواْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَo[/arabic]
[arabic]فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْلَمُونَo
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُواْ لَكُمْ فَاسْتَقِيمُواْ لَهُمْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَo[/arabic]
صلح حدیبیہ دس سال کے لیے تھی جو پہلے ہی توڑ دی گئی تھی اور اس کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اب اگر مشرکین ایمان نہیں لاتے تو ایسا معاہدہ پھر ان کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا تھا یاد رہے یہ سورہ اواخر زمانے کی ہے چہ جائیکہ اب آپ صلح حدیبیہ کو مثال بنانے کی کوشش کریں؟؟؟


اب آئیے توہین رسالت کے مسئلے کی طرف
قرآن میں ارشاد ہے
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاO[/ARABIC]
ترجمہ: …”بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔
[ARABIC]. لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًاO [/ARABIC]
60. اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے، اور (اسی طرح) مدینہ میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والے لوگ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء رسانی سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر ضرور مسلّط کر دیں گے پھر وہ مدینہ میں آپ کے پڑوس میں نہ ٹھہر سکیں گے مگر تھوڑے (دن)o
[ARABIC]61. مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاO[/ARABIC]
61. (یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چُن چُن کر بری طرح قتل کر دیئے جائیںo
[ARABIC]62. سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO [/ARABIC]
62. اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گےo (سورہ احزاب)

اور پھر یہی نہیں بعض گستاخان اور نبی کے مخالفین کے بارے میں یہ تک ارشاد ہوا
اے نبی خواہ آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں گے تب بھی اللہ ہرگز ان کو معاف نہ فرمائے گا۔
یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے مٰن نازل ہوئی نبی کریم نے اپنی رحمت کی بنا پر اس بدترین گستاخ کی بھی ایک بار بخشش چاہی تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں

اور خود مدینہ کی ریاست میں رہتے ہوئے کئی بار مدینہ سے باہر گستاخان کو قتل کرنے کے لیے سرایا روانہ فرمائے یہ بات میں کئی بار لکھ چکا ہوں۔اس کی تفصیل بھی لکھی جاسکتی ہے اگر آپ کو نہ ملے۔
مزید پڑھئے

ذیل میں چند احادیث مبارکہ اور آثارِ صحابہ کرام سے بھی تحفظ ِ ناموس رسالت کی اہمیت واضح ہوتی ہے:
۱:… ”حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص کی ام ولد باندی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی‘ وہ اس کو روکتے تھے مگر وہ نہ رکتی تھی‘ وہ اسے ڈانٹتے تھے مگر وہ نہ مانتی تھی‘ راوی کہتے ہیں جب ایک رات پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنا اور گالیاں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ایک خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبا دیا‘ اور اس کو مار ڈالا‘ عورت کی ٹانگوں کے درمیان سے بچہ نکل پڑا اور جو کچھ وہاں تھا وہ خون آلود ہوگیا‘ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر کیا گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں اس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں‘ جس نے جو کچھ کیا میرا اس پر حق ہے وہ کھڑا ہوجائے تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا اور جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کا مالک اور اسے مارنے والا ہوں‘ یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی‘ میں اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح خوبصورت ہیں اور وہ مجھ پر بہت مہربان بھی تھی‘ لیکن آج رات جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا‘ اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگاکر اسے مار ڈالا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لوگو! گواہ رہو! اس کا خون ”ھدر“ یعنی بے سزا ہے۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور بُرا بھلا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا‘ یہاں تک کہ وہ مر گئی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا۔
(ابوداؤد ج۲:ص۲۵۲)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا‘ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچایا کرتا تھا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا

اور کیا نبی اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں ہے
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو چاہئے کہ اپنی طاقت سے اس کو روکے‘ اگر اس کی قوت نہ ہو تو زبان سے اس کو منع کرے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو بُرا سمجھے ‘یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“
اب بتائیے کہ توہین رسالت ایک بدترین برائی ہے کہ نہیں اور اس کا انسداد ضروری ہے کہ نہیں
اور پھر خسرو پرویز کا واقعہ یاد کیجئے کہ اس نے نبی پاک کا نامہ مبارک پھاڑ دیا تھا تو نبی اس پر غصہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا
جس طرح اس نے میرے خط کو پرزے پرزے کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے فرمادے گا۔
مزید پڑھئیے

بنی خطمہ میں ایک یہودیہ عصماء نامی عورت شاعرہ تھی‘ اس نے اپنی شاعری کا رخ مسلمانوں کی ہجو کی طرف موڑ دیا‘ خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی تھی اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر ابھارتی تھی‘ اپنے ایام ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی غزوئہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ اس نے اپنے اشعار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو اور گستاخی شروع کردی‘ ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے سنا تو دل میں عہد کرلیا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ بدر سے بسلامت واپس تشریف لائے تو میں اس شاعرہ کی زبان بند کروں گا۔ الحمدللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے فاتحانہ تشریف لائے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لئے تلوار لے کر نکلے‘ رات کے وقت اس کے گھر میں داخل ہوئے‘ راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اس کے قریب پہنچے‘ بچہ اس کی چھاتی سے لگا ہوا تھا‘ اسے ایک طرف کیا اور تلوار دل میں چبھودی‘ وہ آواز تک نہ نکال سکی اور مرگئی۔
صبح کی نماز مسجد نبوی میں ادا کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے عرض کیا‘ کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟ فرمایا: نہیں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے عمیر رضی اللہ عنہ لوٹ رہے تھے تو عصماء کے لڑکے نے کہا: یہ ہماری ماں کا قاتل ہے ‘ جواب میں کہا: بے شک! میں نے ہی اسے قتل کیا ہے اور اگر کسی نے پھر ایسی جرأت کی تو اسے بھی موت کا مزہ چکھاؤں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا:
”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو‘ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی کو دیکھے۔“
یہ بھی ارشاد ہوا کہ ان کو نابینا نہ کہو‘ یہ بینا اور بصیر ہیں‘ وہ بیمار ہوئے تو عیادت کے لئے جاتے ہوئے فرمایا کہ :مجھے بنی واقف کے بینا کی عیادت کے لئے لے چلو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
پر پاسپورٹ پر جو لکھا ہوتا ھے وہ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا ہوتا ھے اس پر کوئی حلفیہ بیان پاسپورٹ لینے والے کا نہیں ہوتا۔
بھائی صاحب، یقینی طور پر حکومتی سطح پر جو معاہدے ہوئے ہیں، وہ پوری عوام پر نافذ ہیں۔
مثال کے طور پر غلامی کے ختم کرنے کا معاہدہ عالمی سطح پر ہوا۔ اب اگر آپ نے انفرادی طور پر سائن نہیں بھی کیے ہیں تب بھی یہ معاہدہ آپ پر مکمل طور پر نافذ العمل ہے۔

اور یقینا آئیڈنٹٹی کارڈ اور پاسپورٹ لیتے وقت حکومت پاکستان آپ سے حلف لیتی ہو گی کہ آپ بطور شہری حکومت پاکستان کے قوانین پر عمل کرنے کے مکمل ذمہ دار ہیں، اور ان میں سے ایک قانون عالمی سطح پر کیے گئے معاہدوں کی پاسداری بھی ہے۔

افسوس کہ آپ مسلسل ایسی بات ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ پر لکھا ہے:

یہ پاسپورٹ حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔
2۔ بیرونی ممالک میں رائج امیگریشن ضوابط کی پابندی ہر حامل پاسپورٹ پر لازم ہو گی۔

چنانچہ، یہ پاسپورٹ ہی آپ کا نہیں ہے، اور آپ کو دیگر ممالک میں داخلہ ہی صرف حکومتی سطح پر ہونے والے اس معاہدے کے تحت ہو رہا ہے کہ آپ ان ممالک کے امیگریشن ضوابط کی مکمل پابندی کریں گے۔

تو اب بتلائیں کہ آپ اس عہد سے رو گردانی کیسے کر سکتے ہیں؟
 

کعنان

محفلین
چنانچہ، یہ پاسپورٹ ہی آپ کا نہیں ہے، اور آپ کو دیگر ممالک میں داخلہ ہی صرف حکومتی سطح پر ہونے والے اس معاہدے کے تحت ہو رہا ہے کہ آپ ان ممالک کے امیگریشن ضوابط کی مکمل پابندی کریں گے۔
تو اب بتلائیں کہ آپ اس عہد سے رو گردانی کیسے کر سکتے ہیں؟


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمہ آپ نے بجا فرمایا یہ ضرور لکھا ہوتا ھے کہ امگریشن ضوابط کی پابندی کریں گے تو وہ بھی آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں اس کو مطلب یہ ہوتا ھے کہ جو بھی ویزٹر یا سٹوڈنٹ یہاں آیا ھے وہ اپنی ویزہ کی معیاد پوری ہونے پر اگر مزید رہنا چاہتا ھے تو وہ اس قانون کے مطابق جتنی ایکسٹینشن ھے وہ کروا سکتا ھے یا ویزہ ختم ہونے سے پہلے اسے ہر صورت میں واپس جانا ہو گا۔ یہ امیگریشن قوائد ضوابط ہیں۔
ایک اور بات آپ جس قانون کو اجاگر کروانے کی کوشش کر رہی ھیں اس پر بھی آپ کو یاد دلا دیتا ہوں کیونکہ آپ بھی یورپ میں ہی ہیں۔
مہربانی فرما کے اس کو اپنی ذات پر اٹیک نہیں سمجھنا کیونکہ آپ نے ہی قانون کی بات کی ھے

مثلاً ایک لڑکی یورپ میں اپنے ڈیڈی کے ویزہ پر آتی ھے یا خاوند کے ویزہ پر آتی ھے تو کیا وہ یہ نہیں جانتی اس کے ڈیڈی نے یا خاوند نے یہاں پر کتنے جھوٹ بول کر کتنے قانون توڑ کر لیگلائزیشن حاصل کی ھے۔ کتنے امیگریشن کے قانون توڑے کتنی اپنے ملک کے قانون توڑے اگر آپ نہیں جانتیں تو پوچھ لینا ، اس پر میں کچھ پردہ رہنے دیتا ہوں۔ ایسی باتیں یہاں پر رہنے والوں کے منہ مبارک سے اچھی نہیں لگتیں۔

اور اس کے بعد میرے پاس برٹش سیٹیزنشپ ھے اور برٹش پاسپورٹ بھی ھے اور میں نے سوئر بھی کھائی ہوئی ھے کہ ان کے قانون کی پاسداری کروں گا اب اس کے باوجود مجھے اگر اللہ ایسا موقع دیتا ھے کہ کسی شاتم کو ان کے انجام تک پہنچاؤں تو میں ان کا پاسپورٹ ان کے ملک کی کھائی ہوئی قسمیں نہیں دیکھوں گا ایک منٹ نہیں لگاؤں گا اور شاتم کو اس کے انجام تک پہنچا دوں گا۔
آپ فکر نہیں کرو آپ کو ہر جواب لیگل ملے گا۔

والسلام
 

ساجد

محفلین
مہوش ، ذرا غور فرمائیے کہ آپ کی بے احتیاطی نے معاملے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
عزیزہ محترمہ ، جب کہ بحث آرام سے اور موضوع سے متعلق چل رہی تھی آپ نے اس میں جذباتیت کا رنگ کچھ ایسا بھرا کہ سب کو دست و گریباں کروا دیا۔
گزارش کرتا ہوں کہ دوسروں کے جذبات کو مدنظر رکھ کر لکھا کیجئیے۔ آپ قبل ازیں بھی کچھ دھاگوں کا یہی حشر کروا چکی ہیں کہ رنجشیں ہی پیدا ہوئیں اور ماحول مکدر ہو گیا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حسن:

ہمارا اصل موضوع ہے ایسے مسلمان جو کہ کافر ملک اور کافر معاشرے میں معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں۔
آپ نے جتنے دلائل دیے ہیں، وہ ان سے متعلق نہیں، سوائے مودودی صاحب کی اس تحریر کے کہ:
سورہ انفال غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی سو اس سورہ میں اس غزوہ کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ہجرت سے متعلقہ بھی بعض مسائل اس سورہ شریفہ میں بیان ہوئے ہیں آپ نے جو آیت شریفہ نقل کی ہے وہ درحقیقت ہجرت سے متعلقہ بعض مسائل کے بارے میں ہے ۔وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی ہجرت نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی وجہ سے مشرکین کے درمیان رہ گئے اب گویا ان کے لیے کچھ خاص احکامات نازل ہوئے اور ان کا رتبہ ہجرت کرنے والوں سے گھٹا دیا گیا۔اولا مہاجر و غیر مہاجر کی باہمی وراثت کو قطع کردیا گیا۔ دوسرے یہ کہ مولانا مودودی کے مطابق ان سے سیاسی ولایت کا رشتہ بھی منقطع کردیا گیا گویا اب اسلامی حکومت میں رہنے والوں سے نہ صرف وراثت باوجود نسبی تعلق کے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ شادی بیاہ بھی نہیں کرسکتے اور اسلامی حکومت ان کوکوئی عہدہ بھی نہیں دے سکتی جب تک وہ وہاں کی شہریت ترک نہیں کرتے ہاں اخوتی رشتہ ایک حد تک برقرار رکھا گیا کہ اور وہ دینی اخوت کا رشتہ تھا اور یہ کہ اگر ان پر کہیں ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی حکومت سے مدد مانگیں تو اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان کی مدد کرے ۔ لیکن اس میں بھی اللہ رب العزت نے ایک استثنیٰ رکھ دیا کہ اگر ظلم کرنے والی حکومت سے عدم جنگ کا کوئی معاہدہ ہو گیا ہو تو پھر اس حکومت سے جنگ نہیں کی جائے گی۔اس چیز کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح فرمایا کہ میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔

تو سیدھی سی بات ہے اگر کسی مسلمان کو کافر معاشرے اور ملک میں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے نماز رزرے وغیرہ کی پابندی نہیں کر پا رہا تو وہ وہاں سے ہجرت کر کے اسلامی حکومت میں چلا جائے۔
مگر اس سے اُسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو گیا کہ وہ "عہد" کر کے کافر ملک میں جائے کہ وہ اسکے قوانین کی پابندی کرے گا، اور پھر "بدعہدی" کرتے ہوئے لوگوں کو قتل کرتا پھرے؟

دیکھئیے، اتنی لمبی تحریر لکھنے کے باوجود اس اصل مسئلے کے متعلق آپ کی تحریر میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے۔

بقیہ یہ بحث لاتعلق ہے کہ آیا کفار سے معاہدہ کرنے والی یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے، یا یہ قیاس کرنا کہ رسول نے کفار سے معاہدہ کسی نبوی پیشنگوئی کی وجہ سے کیا ورنہ یہ حرام ہے،۔۔۔ یا پھر وقت کے معیاد کو بیچ میں لانا وغیرہ وغیرہ۔

آج کے حالات کے مطابق اسلامی حکومتوں نے عالمی معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اگر اسکے پاسپورٹ پر اسکے شہری دوسرے ممالک جاتے ہیں تو انکے امیگریشن قوانین کی پابندی ان پر لازم ہے۔ اور اگر انہیں یہ شرط منظور نہیں تو کوئی انکے ہاتھ جوڑ کر انہیں آنے کی دعوت نہیں دے رہا اور وہ اپنے ملک میں ہی رہیں۔

اور یہ معاہدے جاری و ساری ہیں اور کسی اسلامی ملک نے انہیں کالعدم کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

چنانچہ، اسکے بعد اگر کوئی شہری غیر ملک میں جا کر اسکے قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بدعہدی کرتا ہے، تو وہ مجرم ہے اور اسکے اس بے وقوفانہ فعل کی وجہ سے ان غیر ممالک میں موجود بقیہ مسلم اقلیت خطرے کا شکار ہو جائے گی۔ ذرا عقل استعمال کرتے ہوئے ٹھنڈے ذہن سے سوچئیے کہ نازی انتہا پسند اسکے اس فعل کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر ہزاروں مسلمانوں کا قتل کر دیں تو نقصان کس کا ہو گا؟ آپ لوگ جذباتی لوگ ہیں اور اس لیے آپکے تمام فیصلے جذباتیت پر مبنی ہیں۔ اس جذباتیت کا امت کو نقصان تو بہت ہو سکتا ہے، مگر بھلا نہیں۔

کافر معاشرے میں کافر بڑھیا عورت کی مثال سب سے اچھا نمونہ ہمارے سامنے تھی۔ مگر افسوس کہ یہ چونکہ ہماری جذباتیت کی تسکین نہیں کر سکتی اس لیے ہم اسے کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ کافر یورپی ممالک کے حساب سے یہی مثال عین اسوہ رسول ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ سب دوستوں کا شریک گفتگو ہونے کا شکریہ۔ کسی کو کچھ کہنا ہے تو ابھی کہہ لے۔ میں کچھ دیر بعد اس تھریڈ‌ کو مقفل کر دوں گا۔
 
شکریہ
میں‌نے بھی کچھ کہنا ہے

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین بشمول توہین رسالت کے قوانین کا اطلاق اسلامی حکومت یا مسلم حکومت ہی کرسکتی ہے جہاں‌وہ قانون رائج ہے۔
غیر مسلم معاشرے میں‌توہین‌رسالت ہو یا غیر مسلم حکومت اسلام کی ترویج میں‌ رکاوٹ بنے تو اس کے ساتھ جہاد ہونا چاہیے
مگر
کافر معاشرہ اگر امن چاہتا ہے تو اس سے جنگ بھی نہیں‌کرنی چاہیے۔

کوئی شخص اپنے طور پر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس ملک کی عدالت اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرسکتی ہے۔
مسلم حکومت اگر اس فیصلہ سے اختلاف کرے تو اس کافرملک کے خلاف جہاد کرسکتی ہے

یہ سب جب ہوسکتا ہے جب ایک اسلامی ریاست موجود ہو جو اپنے باشندوں کے مفاد میں‌کام کرسکتی ہے۔
مگر اس وقت کوئی اسلامی ریاست موجود نہیں‌ سوائے افغانستان کی برطرف حکومت ہے۔ وہ بھی اب حالت جہاد میں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمہ آپ نے بجا فرمایا یہ ضرور لکھا ہوتا ھے کہ امگریشن ضوابط کی پابندی کریں گے تو وہ بھی آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں اس کو مطلب یہ ہوتا ھے کہ جو بھی ویزٹر یا سٹوڈنٹ یہاں آیا ھے وہ اپنی ویزہ کی معیاد پوری ہونے پر اگر مزید رہنا چاہتا ھے تو وہ اس قانون کے مطابق جتنی ایکسٹینشن ھے وہ کروا سکتا ھے یا ویزہ ختم ہونے سے پہلے اسے ہر صورت میں واپس جانا ہو گا۔ یہ امیگریشن قوائد ضوابط ہیں۔


ڈکشنری ڈاٹ کام پر امیگریشن کی تعریف:
im·mi·grate
(ĭm'ĭ-grāt')
v. im·mi·grat·ed, im·mi·grat·ing, im·mi·grates

v. intr.

To enter and settle in a country or region to which one is not native.​

اور اس کے بعد میرے پاس برٹش سیٹیزنشپ ھے اور برٹش پاسپورٹ بھی ھے اور میں نے سوئر بھی کھائی ہوئی ھے کہ ان کے قانون کی پاسداری کروں گا اب اس کے باوجود مجھے اگر اللہ ایسا موقع دیتا ھے کہ کسی شاتم کو ان کے انجام تک پہنچاؤں تو میں ان کا پاسپورٹ ان کے ملک کی کھائی ہوئی قسمیں نہیں دیکھوں گا ایک منٹ نہیں لگاؤں گا اور شاتم کو اس کے انجام تک پہنچا دوں گا۔
والسلام

بھائی صاحب،
آپ نے خامخواہ معاہدوں اور پاسپورٹ کی بحث کا تکلف ہی کیا۔
اگر آپ پہلے ہی بتا دیتے کہ آپ ان معاہدے ان قسموں ان عہدوں کو، ان سب کو اپنی پاؤں کی دھول سمجھتے ہیں تو بات اتنا بڑھتی ہی نہیں :)
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محترمہ آپ کھبی بھی اپنے دلائل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں

مغرب کافر ملک نہیں ہیں آپ ایک مرتبہ قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں آپ کو مزید بہت مفید معلومات حاصل ہونگی۔
نہیں تو بار بار اپنا موقت بدلی رہیں یہیں سب معلومات مل جائیں گی۔

اھل کتاب کافر نہیں ہیں۔ آپ ان کو کافر کہہ رہی ہیں تو قرآن سے کوئی آیت دکھا دیں جس میں اللہ سبحان تعالی نے اھل کتاب کو کافر کہا ہو۔


اور جو دوسری بات آپ نے کی ھے تو اس کے لئے بھی سن لیں یہاں ہر شہر میں مختلف ممالک کی کمیونٹی کے اشتراق سے مسجدیں بنی ہوئی ہیں جہاں پوری دنیا کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔

اور یہاں پر مسجدوں میں عورتیں بھی جمعہ پڑھنے جاتی ھے اس کے لئے بھی انتظام کیا ہوتا ھے۔

والسلام
 
ویسے انگلینڈ اگر کافر ملک نہیں‌تو وہاں کیا شریعت اسلامی رائج ہے۔
بھائی اپ کاتعلق کیا مہاجرون سے ہے؟
 
[color="blue"
اور یہاں پر مسجدوں میں عورتیں بھی جمعہ پڑھنے جاتی ھے اس کے لئے بھی انتظام کیا ہوتا ھے۔

والسلام[/color]

اگر عورتیں‌جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھ لیں‌تو ملک اسلامی ہوجائے گا؟
فقہ حنفی کے نزدیک تو یہ کچھ زیادہ پسندیدہ عمل نہیں‌ہے ویسے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top