آپ نے وہ تلخ حقیقت بیان کر دی ہے کہ جس سے آنکھیں چرانا ممکن نہیں، اور وہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر آج اگر اس قانون میں کوئی ترمیم بھی کی جاتی ہے تب بھی اس فتنے میں کچھ کمی آنے والی نہیں۔
اس تلخ حقیقت کا اگر کھلے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ فتنہ مکمل طور پر اُنتہا پسند مذہبی طبقات کا کھڑا کیا ہوا ہے جس نے اسلام کا صحیح ورژن پیش کرنے کی بجائے ہمیشہ اس mob justice کی ہمت افزائی کی۔ اور اگر آج ہمیں اس فتنے کو ختم کرنا ہے تو اسکا حل حکومتی سطح پر قانون میں تبدیلی کرنے سے زیادہ عوامی سطح پر ان فسادی طبقات کے چہرے بے نقاب کرنے پر ہے اور عوام کو یہ شعور دینے میں ہے کہ ہر جھگڑے کا فیصلے کا حق صرف اور صرف عدالت کو ہے۔
اس فتنے کا آغاز ہی وہ وقت ہے جب عامر چیمہ اور علم الدین کو مجرم اور قاتل کہنے کی بجائے انہی لوگوں نے اسے ہیرو اور اسلام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا۔
آج تک کس عالم نے عوام کو یہ عقل دی ہے کہ یہ دونوں حضرات دنیا کے کسی اور قانون سے پہلے اسلامی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں جسکا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ غیر مسلم اکثریت والے ملک میں رہتے ہیں تو اُس ملک کے قانون کا احترام کرنا اور اُس پر عمل کرنا آپ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے واجب و لازم ہے۔
اب لوگ اس بنیادی اسلامی قانون کو دیگر ممالک کی غلطیوں کے پردے میں چھپانا چاہیں تو یہ انکی قسمت کی بربادی، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قانون بدل نہیں سکتا اور نہ ہی عامر چیمہ اور علم دین کو مجرم و قاتل سے اسلام کا ہیرو اور نجات دہندہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ لوگ ان کے اس غیر قانونی اقدام قتل پر خوش ہو کر تالیاں تو پیٹ رہے ہیں، مگر انہیں احساس نہیں کہ ان کے اس رویے سے مذہب اسلام کے خلاف دنیا میں کتنی نفرت پھیل رہی ہے اور دین اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے، اور مسلمانوں کو اب ایسے جنونی خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو ملکی قوانین کو ٹھوکر مارتا ہوا کبھی بھی کہیں بھی اقدام قتل جیسے افعال کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
لیکن ، یہاں تو فانیش کی موت دورانِ حراست ہوئی ہے۔ اس میں نہ تو کسی عامر چیمہ کا دخل ہے اور نہ غازی علم دین کا۔
دورانِ حراست قیدیوں کی اموات پاکستان ہی نہیں دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی کافی زیادہ ہوتی ہیں اور ہندوستان کا ریکارڈ اس معاملہ میں پاکستان سے بھی برا ہے لیکن وہاں ان معاملات کو اس انداز سے نہیں دیکھا جاتا کہ جس زاویہ نظر سے آپ نے اس کا جائزہ لیا ہے۔
ایسی اموات کا وقوعہ کبھی بھی اور کہیں بھی ہو جاتا ہے ، میں اس ضمن میں کسی خاص ملک کا نام نہیں لے رہا کیوں کہ یہاں ہمیں افہام و تفہیم سے بات کرنے اور معاملہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک پیغام دینا ہے کہ ہم کسی بھی انسان کی پراسرار موت کے خلاف ہیں خواہ اس کا کوئی بھی دین ہو یا کوئی بھی ملک۔
طعن و تشنیع اور جذباتی تحاریر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیا ہم میں سے کسی کے پاس ہمت ہے کہ فانیش مسیح کی موت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے ؟ اگر نہیں تو پھر گڑھے مردے اکھیڑ کر معاملہ کو پیچیدہ نہ بنائیں اور جس قدر ہم میں ہمت ہے وہیں تک محدود رہیں تو یہ حقیقت کے زیادہ قریب ہو گا۔
اسلام اور توہین رسالت سے اس کی موت کا تعلق ثابت کرنے کی ہمارے پاس اس وقت تک کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے کہ جب تک اس کے ثبوت نہیں مل جاتے۔ اور آپ تو جانتی ہیں کہ ثبوت ڈھونڈنے پڑتے ہیں بیٹھے بٹھائے نہیں ملا کرتے تو کیا خیال ہے پھر آپ کب ثبوتوں کی تلاش میں نکل رہی ہیں؟
جی نہیں ، فانیش کی موت پہ کوئی تالیاں نہیں پیٹ رہا اور نہ ہی یہاں عامر چیمہ یا غازی علم دین جیسے کسی آددمی نے اسے قتل کیا ہے۔ یہ باتیں بعید از قیاس اور جذبات انگیختتگی سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔
فانیش کو اگر قتل کیا گیا ہے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور اس دھاگے پہ لکھنے والے ہر رکن نے اس کی مذمت کی ہے۔