فرخ منظور
لائبریرین
غزل
حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے!
بچھڑ کے ملنے کے وقفوں کو اس میں کیا کہیے؟
کسی کی زلف کی خوشبو کو کہیے مشکِ ختن
کسی کی مست خرامی کو پھر صبا کہیے
کسی کے ہجر میں دل تھام کر پڑے رہیے
پھر اس صنم کو بھی بے مہر و بے وفا کہیے
پھر اک شکست کو لکھیے کہ ہے یہ فتحِ مبیں
ہمیشہ شہ کے حلیفوں کو بے خطا کہیے
صداقتوں کی ہے ارزانی اب تو فرخؔ جی!
پھر ایک جھوٹ کو ہر بار برملا کہیے
(فرّخ منظور)
حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے!
بچھڑ کے ملنے کے وقفوں کو اس میں کیا کہیے؟
کسی کی زلف کی خوشبو کو کہیے مشکِ ختن
کسی کی مست خرامی کو پھر صبا کہیے
کسی کے ہجر میں دل تھام کر پڑے رہیے
پھر اس صنم کو بھی بے مہر و بے وفا کہیے
پھر اک شکست کو لکھیے کہ ہے یہ فتحِ مبیں
ہمیشہ شہ کے حلیفوں کو بے خطا کہیے
صداقتوں کی ہے ارزانی اب تو فرخؔ جی!
پھر ایک جھوٹ کو ہر بار برملا کہیے
(فرّخ منظور)
آخری تدوین: