فرخ منظور
لائبریرین
فرخ بھائی!
بہت عمدہ۔
آپ کے اشعار تو نگینے ہیں ماشاءاللہ ۔
بہت عنایت۔ سلامت رہیے!
فرخ بھائی!
بہت عمدہ۔
آپ کے اشعار تو نگینے ہیں ماشاءاللہ ۔
اچھا ہے فرخ بھائی !رہ جائے گا انبوہِ جنوں خاک اڑاتا
مجھ ایسا جب اس خاک پہ مجنوں نہ رہے گا
(فرخ منظور)
شکریہ ظہیر بھائی۔ انبوہ، ہنگامہ اور فراوانی کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔اچھا ہے فرخ بھائی !
اک ذرا انبوہِ جنوں کو دیکھ لیجئے گا ۔ انبوہ عددی صفت ہے ۔
فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔شکریہ ظہیر بھائی۔ انبوہ، ہنگامہ اور فراوانی کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔
زہرا نگاہ کی ایک نظم کا عنوان ہے ’تن نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا‘ کیا یہ ترکیب صحیح ہے؟فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔
جی ہاں ۔ انبوہِ جبر ، انبوہِ غم وغیرہ درست تراکیب ہیں ۔ جبر اور غم دونوں قابلِ شمار ہیں ۔ دونوں کی واحد اور جمع مستعمل ہے ۔زہرا نگاہ کے ایک نظم کا عنوان ہے ’تن نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا‘ کیا یہ ترکیب صحیح ہے؟
فرخ بھائی ، انبوہ کے معنی ہنگامہ تو قطعی نہیں ۔ فراوانی ، ہجوم ، بھیڑ ، کثرت وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ لیکن ترکیبِ اضافی مین صرف انہی اشیا کے ساتھ استعمال ہوتا ہے کہ جو قابلِ شمار ہوں ۔ یعنی انبوہِ عاشقاں تو درست لیکن انبوہِ عشق خلافِ محاورہ ہوگا ۔ خیر ، یہ موشگافی والی بات ہے ۔ شعر آپ کا اچھا ہے ۔ کبھی پوری غزل کی کوشش بھی کیجئے ۔ بہت اشتیاق ہے ہمیں ۔
فرخ بھائی ، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور مجھے ان موضوعات پر بات کرنا پسند بھی ہے ۔ جی تو چاہتا ہے کہ تفصیلا لکھوں لیکن وہی پرانا مسئلہ وقت کی قلت کا درپیش ہے ۔ مختصرا عرض کروں گا کہ لغت ایک طرح سے بولی اور لکھی جانے والی زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ کسی بھی لفظ کے ذیل میں وہ تمام معانی درج کردیئے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی دور ، کسی بھی علاقے اور کسی بھی موقع پر اہلِ زبان میں مستعمل رہے ہوں ۔ چونکہ زبان جیتی جاگتی زندہ شے ہے اس لئے اس میں تغیرات کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ الفاظ کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ متروک بھی ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الفاظ کے معنی بھی متروک ہوسکتے ہیں ، بدل سکتے ہیں اور ان کے نئے معنی بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلا ایک لفظ مذاق کو لے لیجئے ۔ یہ لفظ جس معنی میں آج کل عام استعمال ہوتا ہے آج سے اسی نوے سال پہلے تک نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے کچھ اور ہی معنی ہوتے تھے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں کسی بھی لفظ کے ذیل میں دیئے گئے تمام کے تمام معانی مستعمل نہیں ہوتے ۔ لفظوں کے استعمال کی سند عموما اساتذہ زبان (شعراء و ادباء) سے لی جاتی ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ انبوہ کو کبھی کسی نے کسی دور میں بمعنی ہنگامہ استعمال کیا ہو ۔ اسی لئے سید دہلوی نے اسے فرہنگ میں لکھ دیا ۔ فرہنگ اردو کی قدیم ترین لغات میں سے ہے ۔ جبکہ مولوی صاحب نورالحسن نے اپنی لغت میں اس کے یہ معنی نہیں دیئے ہیں ۔ دیگر لغات میں بھی بمعنی ہنگامہ درج نہیں ۔ میں نے جہاں تک پڑھا ہے انبوہ اسی معنی میں مستعمل ہے کہ جو اوپر کے مراسلوں میں ذکر کیا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔شکریہ ظہیر بھائی۔ غزل مکمل کہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر بہت مشکل کام ہے۔ بہرحال آپ دو حوالے دیکھیے۔
ایک آن لائن لغت کا
دوسرا فرہنگ آصفیہ کا
فرخ بھائی ، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور مجھے ان موضوعات پر بات کرنا پسند بھی ہے ۔ جی تو چاہتا ہے کہ تفصیلا لکھوں لیکن وہی پرانا مسئلہ وقت کی قلت کا درپیش ہے ۔ مختصرا عرض کروں گا کہ لغت ایک طرح سے بولی اور لکھی جانے والی زبان کا تحریری ریکارڈ ہوتا ہے ۔ کسی بھی لفظ کے ذیل میں وہ تمام معانی درج کردیئے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی دور ، کسی بھی علاقے اور کسی بھی موقع پر اہلِ زبان میں مستعمل رہے ہوں ۔ چونکہ زبان جیتی جاگتی زندہ شے ہے اس لئے اس میں تغیرات کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ الفاظ کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ متروک بھی ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الفاظ کے معنی بھی متروک ہوسکتے ہیں ، بدل سکتے ہیں اور ان کے نئے معنی بھی پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مثلا ایک لفظ مذاق کو لے لیجئے ۔ یہ لفظ جس معنی میں آج کل عام استعمال ہوتا ہے آج سے اسی نوے سال پہلے تک نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے کچھ اور ہی معنی ہوتے تھے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں کسی بھی لفظ کے ذیل میں دیئے گئے تمام کے تمام معانی مستعمل نہیں ہوتے ۔ لفظوں کے استعمال کی سند عموما اساتذہ زبان (شعراء و ادباء) سے لی جاتی ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ انبوہ کو کبھی کسی نے کسی دور میں بمعنی ہنگامہ استعمال کیا ہو ۔ اسی لئے سید دہلوی نے اسے فرہنگ میں لکھ دیا ۔ فرہنگ اردو کی قدیم ترین لغات میں سے ہے ۔ جبکہ مولوی صاحب نورالحسن نے اپنی لغت میں اس کے یہ معنی نہیں دیئے ہیں ۔ دیگر لغات میں بھی بمعنی ہنگامہ درج نہیں ۔ میں نے جہاں تک پڑھا ہے انبوہ اسی معنی میں مستعمل ہے کہ جو اوپر کے مراسلوں میں ذکر کیا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
دوسری بات یہ کہ آپ کے شعر میں محل بھیڑ اور مجمع ہی کا ہے ، ہنگامے کا نہیں ۔
ویسے آپ کی غزل کا انتظار ہے ۔ فرخ بھائی ، اگر آپ کہیں تو ہم مصرع طرح دیئے دیتے ہیں شاید اسی طرح طبیعت رواں ہوجائے ۔
رہ گئی غزل کی بات تو یہ کارِ گراں بھی کسی دن کر گزروں گا۔ آپ اگر کوئی مصرع طرح دینا چاہتے ہیں تو ضرور دیں۔ کوشش کرتا ہوں۔