فسانہ عجائب کی پروف خوانی

شمشاد

لائبریرین
محب یہ کتاب کے صفحے ہیں یا ریختہ کے؟ مجھےتو کتاب کے صفحہ نمبر کے حساب سے لگے ہیں۔
 
میں ویک اینڈ ( جمعہ ، ہفتہ ) پر کچھ کام کروں گا ۔
جب تک کچھ مفید معلومات وغیرہ جمع ہو جائیں ۔

ایک طریقہ تو وہی جس کا ذکر صابرہ امین نے کتاب برقیانے میں بھی کیا تھا۔ سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تصویری مواد ایک طرف اور تحریری مواد دوسری طرف رکھنا۔
اسکرین کو آدھا آدھا تقسیم کر کے ۔ ۔ (
Windows logo key + Right Arrow ---- Maximize the window to the right side of the screen) اور
(Windows logo key + Left Arrow Maximize the window to the left side of the screen
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک طریقہ تو وہی جس کا ذکر صابرہ امین نے کتاب برقیانے میں بھی کیا تھا۔ سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے تصویری مواد ایک طرف اور تحریری مواد دوسری طرف رکھنا۔
معروف اور زیادہ رائج طریقہ بھی غالباً یہی ہوگا ، اکثریت کا ۔ لکھنے میں تو میں یونہی کیا کرتاہوں ۔
کسی ونڈو کی ٹائٹل بار کو ماؤس سے پکڑ کر مکمل دائیں یا مکمل بائیں جانب لیجانے سے بھی یہی ہوتا ہے ونڈوز 10 میں ۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
مقدس محب علوی میں نے گوگل ڈاکس سے صفحہ 221 تا 259 لیے تھے۔ صفحہ 221 تا 229 تک پروف ریڈ کر لیا ہے۔ کتاب کا صفحہ 230-231 اور ریختہ کا صفحہ 345-346 مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کسی اور کتاب کے صفحے اس میں مل گئے ہیں۔ میں نے ساری کتاب (718 صفحے) تلاش کر لی ہے، گوگل ڈاکس پر صفحہ نمبر 230 جو "عش عش کرتا رہا" سے شروع ہوتا ہے، مجھے نہیں ملا۔

نو صفحے جو میں نے پروف ریڈ کئے ہیں، ان میں چند ایک معمولی غلطیاں تھیں، جو میں تصحیح کے بعد نیچے پوسٹ کر رہا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
221

ہمیں دو۔ جو اِحتِیاج ہو، اِس کے جِلدو میں لُو۔ نہیں تو بادشاہ سے اِطّلاع کروں گا، یہ بے چارہ مارا جائے گا، چھِپانے کی علّت میں تمھارا سِر اُتارا جائے گا، میرا کیا جائے گا۔ وہ دونوں رُونے پیٹنے لگے۔ بندر سمجھا : اب جان نہیں بچتی، اِتنی ہی زیست تھی؛ چِڑیمار سے کہا : اے شخص! فَلَکِ کَج رفتار، گَردونِ دَوّارنے اِتنی جفا پر صبر نہ کیا، یہاں بھی چَین نہ دیا ؛ مناسب یہی ہے رَضائے اِلٰہی پر راضی ہو، مجھے حوالے کر دو۔ قضا آئی، ٹلتی نہیں۔ تقدیر کے آگے کسی کی تدبیر چلتی نہیں۔ فَردِ بَشَر کو حُکمِ قضا و قَدَر سے چارہ نہیں، اِس کے ٹال دینے کا یارا نہیں۔ إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَ۔ْٔخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ۔

چِڑیمار نے کہا: دیکھو بندر کی ذات کیا بے وفا ہوتی ہے! ہماری محنت و مَشَقَّت پر نظر نہ کی، تُوتے کی طرح آنکھ پھیر لی، سوداگر کے ساتھ جانے کو راضی ہو گیا۔ بڑا آدمی جو دیکھا، ہمارے پاس رہنے کا مطلق پاس نہ کیا۔ بندر نے کہا : اگر نہ جاؤں، اپنی جان کھوؤں، تم پر خرابی لاؤں۔ آخر کار بہ ہزار گِریہ و زاری سوداگر سے دونوں نے قسم لی کہ بادشاہ کو نہ دینا، اچھی طرح پَروَرِش کرنا۔ یہ کہہ کر بندر حوالے کیا۔ سوداگر نے اِس کے عوض بہت کچھ دیا۔ بندر کو سَرا میں لا پیار کیا، بہ دل داری و نرمی حال پوچھا۔ بندر نے یہ چند شعر حَسْبِ حال، سودا کے، سوداگر کے رو بہ رو پڑھے، مرزا رفیع:

222

نے بلبلِ چمن، نہ گُل نَو دَمیدہ ہوں
میں مَوسَمِ بہار میں شاخِ بُریدہ ہوں (۱)
گِریاں بہ شکل شیشہ و خَنداں بہ شکلِ جام
اِس مَے کدے کے بیچ عَبَث آفریدہ ہوں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا! بہ قولِ درد
جو کچھ کہ ہوں سُو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں

اے عزیز! آتَشِ کارواں، نقشِ پاے یارانِ رَفتَگاں ظاہر ہوں؛ مگر پنہاں ہوں بلبلِ دور اَز گُلزار، گُم کردہ آشِیاں؛ صیّاد آمادۂ بیداد، گھات میں باغباں؛ کیوں کر نہ سرگرمِ فغاں ہوں۔ حضرتِ عشق کی عِنایت ہے، احبابِ زمانہ کی شکایت ہے، طُرفَہ حکایت ہے کہ حاجت رَوائے عالَم، محتاج ہے۔ تخت ہے نہ اَفسر ہے، نہ وہ سِر ہے نہ تاج ہے۔ غریب دِیار، چرخ مؤجِدِ آزار۔ شفیق و مہرباں نہیں، حالِ زار کا کوئی پُرساں نہیں۔ حیرت کا کیوں نہ مُبتَلا ہوں، اپنے ہاتھ سے اَسیرِ دامِ بَلا ہوں۔ خُود گرفتارِ پنجۂ ستم ہوا؛ کبھی مجھے جِن کا اَلَم تھا، اب اُنہیں میرا غم ہوا۔ مرنے سے اِس لیے ہم جی چھِپاتے ہیں کہ ہمدم میرے فراق میں موئے جاتے ہیں۔ مجھے دامِ مکر میں اُلجھایا، دوستوں کو میرے دشمن کے پھندے میں پھنْسایا، گردشِ چرخِ ستم گار سے عجیب سانِحۂ ہُوش رُبا سامنے آیا۔ میر تقی:

سخت مشکل ہے، سخت ہے بیداد
ایک مَیں خوں گِرِفتہ، سَو جلّاد (۲)
کوئی مشفق نہیں جو ہووے شفیق
بے کَسی چھُٹ، نہیں ہے کوئی رفیق
آہ، جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
اب ٹھہرتا نہیں ہے پائے ثَبات
ایک مَیں اور ہزار تَصْدیعات

223

مصر؏ : گویم، مشکل و گرنگویم، مشکل۔

مگر آج خوش قسمتی سے آپ سا قَدْر داں ہاتھ آیا ہے، اِنتِشارِ طبیعت بَر طَرف ہو تو بہ دِل جَمْعِیِ تمام، آغاز سے تا انجام اپنی داستانِ غم، سانھۂ ستم گُزارِش کروں گا۔ سوداگر کے، اِس مضمونِ درد ناک سے، آنْسو نکل پڑے، سمجھا: یہ بندر نہیں، کوئی فَصیح و بَلیغ، عالیٰ خاندان، والا دودمان سِحر میں پھنس گیا ہے، کہا : اطمینانِ خاطر رکھ، تیری جان کے ساتھ میری جان ہے، اب زیست کا یہی سامان ہے۔ بندر کو تسکینِ کامل حاصل ہوئی۔ غزلیں پڑھیں، نَقْل و حِکایات میں سَر گرم رہا، اپنا حال پھر کچھ نہ کہا۔ تمام شب سوداگر نہ سویا، اِس کے بیانِ جاں کاہ پر خوب رُویا۔

اب بہت تعظیم و تکریم سے بندر رہنے لگا۔ مگر اَمرِ شُدَنی بہ ہر کیف ہُوا چاہے۔ راز فاش ہو، اگر خُدا چاہے۔ سوداگر کا یہ انداز ہوا : جو شخص نیا اِس کی ملاقات کو آتا، اُسے بندر کی باتیں سُنواتا۔ اُس کو اِستِعجاب سے فِکر ہوتا، اِس کا ہر جگہ ذِکر ہوتا۔ آخِرَش، اِس کی گُویائی کا چرچا کوچہ و بازار میں مچا اور یہ خبر اُس کُور نمک، مُحسنِ کُش کے گُوش زَد ہوئی۔ سُنتے ہی سمجھا یہ وہی ہے، بعدِ مُدّت فلک نے پتا لگایا، اب ہاتھ آیا۔ فوراً چُوبدار بندر کے لینے کو، سوداگر کے پاس بھیجا۔ یہ بہت گھبرایا۔ اَور تو کچھ بَن نہ آیا، بہ صَد عَجزو نِیاز عرضْداشت کی کہ غلام صاحبِ اَولاد نہیں، اِس اَندوہ میں

224

دل مُضطر شاد نہیں۔ طبیعت بہلانے کو اِسے بچّہ سا لے کر فرزندوں کی طرح بڑی مَشقّت سے پالا ہے، رات دن دیکھا بھالا ہے۔ بندر ہے، مگر عَنْقا ہے۔ مُفارَقت اِس کی خانہ زاد کی جان لے گی، آیِندہ جو حضور کی مرضی۔

چُوبدار یہاں سے خالی پھِرا، وہ ظالِم اَظْلَم غَضَب میں بھَرا، وہاں کے بادشاہ کو لکھا کہ اگر سلطنت اور آبادیِ مَمْلکَت اپنی منظور ہو، سوداگر سے جلد بندر لے کر یہاں بھیج دو۔ نہیں تو اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، نام و نشاں مِٹا دوں گا۔ یہ خَبْرِ وحشت اَثَر سُن کے غَضنْفر شاہ مُتردِّد ہوا۔ مُشیرانِ خوش تدبیر، امیر وزیر سمجھانے لگے کہ خُداوندِ نعمت! ایک جانور کی خاطر آدمیوں کا کُشْت و خوں زَبوں ہے۔ حکم ہوا : کچھ لوگ سرکاری وہاں جائیں؛ جس طرح بنے، سوداگر سے بِگڑ کر، بندر اُس کی ڈیوڑھی پر پہنچائیں۔ جب بادشاہی خاص دستہ سَرا میں آیا؛ بندر دست بَسْتَہ یہ زبان پر لایا کہ اے مؤنسِ غم گُسار، وفا شِعار! اِس اَجَل رَسیدَہ کے باب میں کَدو کوشش بے کار ہے، سَراسَر بیجا ہے۔ قضا کا زمانہ قریب پہنچا، دَرِ ناکامی وا ہے۔ مَبادا، کسی طرح کا رنج میری دوستی میں تمھارے دشمنوں کو پہنچے؛ تو مجھے حَشْر تک حِجاب و نَدامت رہے، خلقِ خُدا یہ ماجرا سُن کے بُرا بھلا کہے۔ سوداگر نے کہا : اِسْتَغْفِرُاللّٰہ یہ کیا بات ہے! جو کہا، وہ سِر کے ساتھ ہے۔

225

جب بادشاہ کے لوگوں کا تقاضاے شَدید ہوا اور دن بہت کم رہا؛ بعدِ دَدّ و قدح، بہ مَعذِرَتِ بِسیار و مِنَّت بے شُمار، ہزار دینار دے کے اُس شب مُہلت لی اور صُبْح کے چلنے کی ٹھہری، بہ مؤجِبِ مَثَل، مصرع :

زر برسَرِ فولاد نہی، نرم شود

اِس عرصے میں یہ حال تباہ، ماجراے جان کاہ گلی کوچے میں زَبان زَدِ خاص و عام ہوا کہ ایک بندر کِسی سوداگر کے پاس باتیں کرتا تھا، وہ بھی کل مارا جائے گا۔بہ حَدِّے کہ اُس کُشتَۂ اِنتِظار، مایوسِ دل فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کو بھی معلوم ہوا۔ وہ شیداے جانِ عالم سمجھی کہ یہ بندر نہیں، شہ زادہ ہے۔ افسوس! صد ہزار افسوس! اب کون سی تدبیر کیجیے جو اِس بے کس کی جان بچے! دل کو مَسُوس، وزیر زادے کو کُوس، لوگوں سے پوچھا : دَمِ سَحَر کدھر سے وہ سوداگر جائے گا؟ یہ تماشا ہمارے دیکھنے میں کیوں کر آئے گا؟ لوگوں نے عرض کی : حضور کے جھَروکے تلے شاہراہ ہے، یہی ہر سِمت کی گُذَرگاہ ہے۔ یہ سُن کے تمام شب تڑپا کی، نیند نہ آئی۔ دو گھڑی رات سے برآمدے میں برآمد ہوئی اور ایک تُوتا پنْجرے میں پاس رکھ لیا۔ گَجَر سے پِیش تر بازار میں ہُلّڑ، تماشائیوں کا مِیلا سا ہو گیا۔ جس وقت تاجِرِ ماہ نے مَتاعِ انجم کو نِہاں خانۂ مغرب میں چھپایا اور خُسروِ رنگیں کُلاہ نے بندرِ مشرق سے نکل کر تخت، زَنگاری پر جُلوس فرمایا ؛ سوداگر نمازِ صُبْح پڑھ کر ہاتھی پر سوار

بندر کی تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔226

ہوا ۔ کمر میں پِیش قَبض رکھ، گُود میں بندر کو بِٹھا، مرنے پر کمر مضبوط باندھ کر مجبور چلا۔ بندر سے کہا : پریشان نہ ہو، جب تقریر سے اور اِصرافِ کثیر سے کام نہ نکلے گا؛ جُو کچھ بَن پڑے گا، وہ کروں گا۔ اپنے جیتے جی تجھے مرنے نہ دوں گا۔ قولِ مَرداں جان دارد۔ اور، مصرع :

بعد از سَرِ من کُن فَیَکوْں شُد، شُدہ باشد

سوداگر کا سَر اسے سَراسیمَہ آگے بڑھنا کہ خَلقت نے چار طرف سے گھیر لیا۔ بندر لوگوں سے مُخاطِب ہو کے یہ کہنے لگا، میر سوز :

برقِ تَپیدہ، یا شَرَرِ بَر جَہیدہ ہوں جس رنگ میں ہوں مَیں، غرض از خودر میدہ ہوں (۱)
اے اہلِ بزم! مَیں بھی مُرَقّع میں دَہْر کے تصویر ہوں، وَلے لَب حسرت گُزیدہ ہوں
صیاد! اپنا دام اُٹھا لے کہ جوں صبا ہوں تو چمن میں، پر گُلِ عشرت نچیدہ ہوں
اے آہ و نالہ! مجھ سے نہ آگے چلو کہ مَیں بِچھڑا ہوں کارواں سے، مسافر جَریدہ ہوں
غم ہوں، الم ہوں، درد ہوں، سوز و گداز ہوں سب اہلِ دل کے واسطے مَیں آفریدہ ہوں

صاحِبو! دُنیاے دؤں، نَیرنگیِ زمانۂ سِفْلَہ پَروَر، بو قَلَمؤں

227

عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آیِندہ رَوِندہ کا بازار ہے۔ کَس و ناکَس جِنْسِ نا پایدار، لَہْو و لَعْب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جُو شَے ہے، ایک روز فنا ہے۔ مُعاملاتِ قضا و قَدَر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مَسْئَلَۂجبر و اِختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بَکھیڑے میں مُبتَلا ہے۔ ایک کو اَتنا سوجھتا نہیں کیا لِین دین ہو رہا ہے۔ سُود کی اُمّید میں سَراسَر زِیاں ہے؛ سِڑی ہونے کا سودا ہے۔ اُس کی قُدرتِ ناطِقَہ دیکھو: مجھ سے نا چیز، بے زَباں کو یہ تکلُّفِ گویائی عنایت کیا؛ تم سب کا سامِعُوں میں چِہرہ لکھ دیا، باتیں سُننے کو ساتھ چلے آتے ہو ۔ جُدائی میری شاق ہے، جو ہے وہ مشتاق ہے، حالِ زار پر رحم کھا آنسو بہاتے ہو۔ یہ رَحیمی کی صفت ہے؛ شانِ قَہّاری دیکھو: اُسی تقریر کی دھوم سے، ایک ظالِم شوم سے مجھ مظلوم کا مُقابلہ ہوتا ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ وہ قتل کرے گا، بے گُناہ کے خون سے ہاتھ بھرے گا۔ سَوَادُ الْوَجہِ فَی الدَّارَين ہو گا، تب اُسے آرام اور چَین ہو گا۔ یہ گُویائی، گُویا پیامِ مرگ تھا۔

دُنيا جاے آزمایِش ہے۔ سَفیہ جانتے ہیں یہ مُقام قابلِ آرام و آسایِش ہے۔ دو رُوزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے

228

ہیں۔ جب سِر کو اُٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سِر کُچلتے ہیں۔ آخِر کار حسرت و ارماں فَقَط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جُستُجو میں کھُوتے ہیں جو شَے ہاتھ آئے ذِلّت سے، جمع ہو پریشانی مَشقّت سے، پاس رہے خِسَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سِر پر ہاتھ دھر کر رُوتے ہیں۔ صُبح کو کوئی نام نہیں لیتا ہے، جو کسی اور نے لیا تو گالیاں دیتا ہے۔ ناسخ :

دُنیا اک زا لِ بِیسوا ہے
بے مہر و وفا و بے حیا ہے(۱)
مَردوں کے لیے یہ زن ہے رہِ زن
دنیا کی عدو ہے، دیں کہ دشمن
رہتی نہیں ایک جا پہ جم کر
پھرتی ہے بہ رنگِ نَرْد گھر گھر

انجامِ شاہ و گدا دو گز کَفَن اور تختۂ تابوت سے سوا نہیں۔ کسی نے اَدَھر سا، یا محمودی کا دیا، یا تحریرِ کربلا؛ کسی کو گَزی گاڑھا مُیسّر ہوا بہ صد کرب و بَلا۔ اُس نے صندل کا تختہ لگایا، اِس نے بِیر کے چَیلُوں میں چھِپایا۔ کسی نے بعد سنگِ مَرمَر کا مَقبَرہ بنایا، کسی نے مَرمَر کے گُور گڑھا پایا۔ کسی کا مزار مُطَلّا، مُنَقّش، رنگا رنگ ہے۔ کسی کی، مانِندِ سینۂ جاہِل، گُور تنگ ہے۔ حسرتِ دنیا سے کَفَن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرشِ خاک ہوا۔ نہ امیر سَمْور و قاقُم کا فرش بِچھا سکا، نہ فقیر پھٹی شَطْرنْجی اور ٹوٹا بُوریا لا سکا۔ بعدِ چَنْدِے، جب گردشِ چرخ نے گُنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے نہ بتایا کہ دونوں میں یہ گُورِ شاہ ہے، یہ لَحَدِ فقیر ہے۔ اِس کو مَرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ اُسْتُخوانِ بُوسیدَۂ پیر ہے۔ سُو یہ بھی

229

خوش نصیب، نیک کمائی والے گُور گڑھا، کَفَن پاتے ہیں؛ نہیں تو سیکڑوں ہاتھ رکھ کر مر جاتے ہیں، لوگ "دَر گُور" کہ کر چلے آتے ہیں۔ کُتّے بِلّی، چیل کوّے بُوٹیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ دامنِ دَشتِ عُریاں کَفَن، گُور بے چراغ، صَحرا کا صَحْن ہوتا ہے۔ یاس و حسرت کے سوا کوئی نہ سِرھانے رُوتا ہے۔ تمنّا چھُٹ کوئی پائِنْتی نہ ہوتا ہے۔

سالہا مَقْبروں کی عِماراتِ عالی اور ساز و ساماں کی دیکھ بھالی میں سریع السَّیر رہے، ہزاروں رنج گُورِ بے چراغِ غَریباں کی دید میں بیٹھے بِٹھائے سہے؛ طُرفۂ نَقْل ہے کہ والی وارث اُن کے سَریرِ سلطنت، مسندِ حکومت پر شب و رُوز جلوہ اَفروز رہے، مگر تنبیِہہ غافِلوں کو، قُدرتِ حق سے، گُنبدوں میں آشِیانۂ زاغ و زَغَن، میناروں پر مَسکَنِ بومِ شُوم، قبروں پر کُتّے لُوٹتے دیکھے۔ میر:

مزارِ غریباں تَاَسّف کی جا ہے

وہ سُوتے ہیں، پھِرتے جو کل جا بہ جا تھے (۱)

رنگِ چمن صَرفِ خِزاں دیکھا۔ ڈَھلا ہوا حُسنِ گُل رُخاں دیکھا۔ اگر گُلِ خنداں پر جُو بن ہے، بہار ہے؛ غور کیا تو پہلوے نازنیں میں نَشتر سے زیادہ خَلِشِ خار ہے، گِریاں اُس کے حال پر بُلبلِ زار ہے۔ دُنیا میں دن رات زَق زَق بَق بَق ہے۔ کوئی چَہچہے کرتا ہے، کِسی کو قَلَق ہے۔ نُوش کے ساتھ گُزَندِ نیش ہے۔ ہر رہ رَو کو کڑی منزل در پیش ہے۔ ایک فقیر کے اِس نُکتے نے بہت جی کُڑھایا، مگر سب کو پسند آیا کہ بابا! دن تھوڑا، سَر پر بوجھ بھاری، منزل دور ہے؛ مسافر کے پاؤں میں حرص کے چھالے، ہوس کی بِیڑیاں، غفلت کا نشہ،
 

مقدس

لائبریرین
شمشاد بھیا یہ صفحات یہاں پوسٹ نہیں کرنے ہیں۔۔۔ ان کو وہی اسی فائل میں اپڈیٹ کر دیں
دوسرے دونوں صفحات کو چھوڑ دیں۔۔ وہ میں دیکھ لیتی گھر آ کے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کئی جگہ اعراب یعنی حرکات بلاوجہ لگے ہوئے ہیں حتی کہ غلط بھی ہیں ۔ جیسے رونا کو رُونا ہے اور کئی جگہ و پر بلاوجہ ایک الٹا پیش ہے ۔ میرے خیال میں برقیانے میں (اور ظاہر ہے کہ تصدیق خوانی میں بھی) اعراب کو بالکل نہ استعمال کیا جائے ۔یہ کام قاری اور لغت کے رشتے پر چھوڑ دیا جائے ۔
الف عین اعجاز بھائی اور دوسرے تجربے کار کاتبین حضرات کی کیا رائے ہے ؟
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھیا یہ صفحات یہاں پوسٹ نہیں کرنے ہیں۔۔۔ ان کو وہی اسی فائل میں اپڈیٹ کر دیں
دوسرے دونوں صفحات کو چھوڑ دیں۔۔ وہ میں دیکھ لیتی گھر آ کے
مقدس میں نے تو گوگل ڈاکس سے لیے تھے۔ تو کیا وہیں پوسٹ کرنے ہیں۔ وہ مجھے نہیں آتا کہ کیسے کرنے ہیں۔

نیز دوسرے دو صفحے نہیں ہیں، 230 سے آگے کے سارے صفحے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مقدس میں نے تو گوگل ڈاکس سے لیے تھے۔ تو کیا وہیں پوسٹ کرنے ہیں۔ وہ مجھے نہیں آتا کہ کیسے کرنے ہیں۔
نیز دوسرے دو صفحے نہیں ہیں، 230 سے آگے کے سارے صفحے ہیں۔
شمشاد بھائی میرے خیال میں پروف کے لیے گوگل ڈاکومنٹ کو ہی فائنل تصور کیا جارہا ہے کہ وہاں سب کی انسٹنٹ اپڈیٹس سینٹرلائزڈ ہیں ۔ یہاں بس متن کا ریکارڈ مجتمع ہوتا ہے وہ بھی اصل سکین والی لڑی میں ۔ پروف خوانی والی لڑی میں متن کو دوبارہ جمع کرنے کی کوئی ضرورت اور فائدہ نہیں ۔
محب علوی بھائی مقدس بٹیا
 
شمشاد بھائی میرے خیال میں پروف کے لیے گوگل ڈاکومنٹ کو ہی فائنل تصور کیا جارہا ہے کہ وہاں سب کی انسٹنٹ اپڈیٹس سینٹرلائزڈ ہیں ۔ یہاں بس متن کا ریکارڈ مجتمع ہوتا ہے وہ بھی اصل سکین والی لڑی میں ۔ پروف خوانی والی لڑی میں متن کو دوبارہ جمع کرنے کی کوئی ضرورت اور فائدہ نہیں ۔
محب علوی بھائی مقدس بٹیا
جی گوگل ڈاکس میں ہی براہ راست تدوین کی جا سکتی ہے۔ دوسرا آپ لنک پر جائیں اور پروف والے صفحات اصل صفحات سے بدل دیں۔ لیپ ٹاپ پر تو ویب پیج کھل جائے گا جس میں ورڈ کی طرح تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ فون سے گوگل ڈاکس ایپ میں ایڈٹ کے لیے ایک گول آئیکن پنسل والا ظاہر ہو گا صفحہ کے آخر میں دائیں طرف۔
 
کئی جگہ اعراب یعنی حرکات بلاوجہ لگے ہوئے ہیں حتی کہ غلط بھی ہیں ۔ جیسے رونا کو رُونا ہے اور کئی جگہ و پر بلاوجہ ایک الٹا پیش ہے ۔ میرے خیال میں برقیانے میں (اور ظاہر ہے کہ تصدیق خوانی میں بھی) اعراب کو بالکل نہ استعمال کیا جائے ۔یہ کام قاری اور لغت کے رشتے پر چھوڑ دیا جائے ۔
الف عین اعجاز بھائی اور دوسرے تجربے کار کاتبین حضرات کی کیا رائے ہے ؟
غلط اعراب کو تو درست کر دیا جائے۔ غیر ضروری اعراب کو پروف کے اگلے مراحل میں دیکھ لیں گے۔
 
مقدس محب علوی میں نے گوگل ڈاکس سے صفحہ 221 تا 259 لیے تھے۔ صفحہ 221 تا 229 تک پروف ریڈ کر لیا ہے۔ کتاب کا صفحہ 230-231 اور ریختہ کا صفحہ 345-346 مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کسی اور کتاب کے صفحے اس میں مل گئے ہیں۔ میں نے ساری کتاب (718 صفحے) تلاش کر لی ہے، گوگل ڈاکس پر صفحہ نمبر 230 جو "عش عش کرتا رہا" سے شروع ہوتا ہے، مجھے نہیں ملا۔

نو صفحے جو میں نے پروف ریڈ کئے ہیں، ان میں چند ایک معمولی غلطیاں تھیں، جو میں تصحیح کے بعد نیچے پوسٹ کر رہا ہوں۔
یہ دو صفحات پھر لکھنے ہوں گے شمشاد۔ کچھ صفحات نہیں مل رہے تو انہیں دوبارہ لکھا گیا ہے۔
 
تمام حضرات و خواتین پیشرفت کو روزانہ کی بنیاد پر اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔ اس میں چاہے چند صفحات ہی کیوں نہ ہوں۔
 

محمد عمر

لائبریرین
260 - 279 پروف ریڈمکمل ہو گیا ہے۔ 280- 299 بقیہ ہیں۔

چونکہ میں فارسی نہیں جانتا اس لئے فارسی اشعار کے الفاظ کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اعراب تو مکمل ہیں لیکن الفاظ جدا ہیں یا نہیں یہ سوال ابھی بھی باقی ہے۔
 
260 - 279 پروف ریڈمکمل ہو گیا ہے۔ 280- 299 بقیہ ہیں۔

چونکہ میں فارسی نہیں جانتا اس لئے فارسی اشعار کے الفاظ کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اعراب تو مکمل ہیں لیکن الفاظ جدا ہیں یا نہیں یہ سوال ابھی بھی باقی ہے۔
بہترین
فارسی کے اشعار جیسے لکھے ہیں بس ان کی شکل مل رہی تو فی الحال کافی ہے۔
پہلی پروف خوانی کے بعد ایک دو دفعہ اور نظرثانی کے مراحل بھی ہیں جس میں یہ چیزیں طے ہو جائیں گی۔

یہ کتاب مشکل اور دقیق ہے اس لیے اسے دو تین مراحل سے گزارا جائے گا۔
دوسری پروف ریڈنگ محمد شعیب کریں گے اور تیسری الف عین صاحب نے اپنے ذمے لی ہے۔
 
Top