فسانۂ عجائب ٹائپنگ کے بارے میں گفتگو

صفحہ حاضر ہے لیکن ایک تو شعراء کے تخلص کے لئے جو چیز ڈالی جاتی وہ موبائل کے کیبورڈ میں موجود نہیں تو پروف ریڈر کو وہ درست کرنا پڑے گی دوسرا گنتی بھی دستیاب نہیں اردو میں تو اسکو بھی اسی طرز پر لکھا ہے تو وہ بھی پروف ریڈر کے لئے زحمت بنیں گی۔ اور اس پر شاید موبائل سے لیپ ٹاپ میں جانے پر لائنوں اور پیراگراف کی ترتیب بھی غالباً درست کرنا پڑے۔
یوں مجموعی طور پر میں کام بنا نہیں بلکہ بڑھا ہی رہا ہوں وغیرہ وغیرہ



کتاب کی ترتیب سے اور کتاب کی عبارت کے مطابق اعراب لازماً رکھیں :)

نمبر شمار ڈالنا پڑے تھے؛ انتسابِ اشعار کے نمبر شمار کو اُن سے الگ رکھنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ بعد میں اختلافِ نسخ والے ہندسے تو ہر صفحے سے مٹا دیے گئے، یہ انگریزی ہندسے باقی رہ گئے۔ ان کو بدلنے میں مزید طویل عمل تھا، یو انھیں برقرار رکھا گیا۔
میر سوز کے اشعار کے لئے اُن کے دیوان کا کئی جگہ حوالہ دیا گیا ہے؛ اس سے مراد وہ دیوان ہے جو رسالہٰ اردوئے معلّیٰ (دہلی یونیورسٹی) کے "میر سوز نمبر" میں شائع ہوا تھا۔
میر تقی میر کے اشعار کے لئے کلّیاتِ میر مرتّبہٰ آسی کا حوالہ دیا گیا ہے؛ "کلّیات" سے یہی مراد ہے۔
نوازش کے اشعار کا مقابلہ اُن کے خطّی دیوان مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے کیا گیا ہے۔ میرے علم میں یہ اس دیوان کا واحد نسخہ ہے۔ (یہ دیوان اب تک غیر مطبوعہ ہے)۔
ناسخ کے اشعار کے لئے کلّیاتِ ناسخ طبعِ اوّل (1254ھ) اعر طبعِ ثانی (1262ھ) دونوں نسخے پیشِ نظر رہے۔

(4) دیباچہ کتاب میں (ص ا سے ص 31 تک) افراد، مقامات، عمارات (وغیرہ) کے جو نام آئے ہیں (اس میں شعراء کے تخلص بھی شامل ہیں) چوتھے ضمیمے میں انکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ چار نام ایسے ہیں جو دیباچہ کتاب میں شامل نہیں، اصل کتاب میں ہیں؛ یہ نام ہیں: مرزا حسین بیگ، درگا پرشاد مدہوش، للّو جی اور گھنٹا بیگ کی گڑھیّا۔
اوّل الذّکر سرور کے خاص دوست تھے اور باشندہ لکھنؤ۔ مدہوش نے اس کتاب کی تاریخ لکھی ہے جو شامل کتاب ہے اور یہ بھی سرور کے احباب میں سے تھے۔ لکھنؤ میں للّو جی اپنے زمانے کے کتھک کے باکمال فن کار تھے اور آخر الذّکر لکھنؤ کے ایک محلے کا نام ہے؛ اس بنا پر ان ناموں کی شمولیت ضروری سمجھی گئی؛ اسے استثنا سمجھا جائے۔
دیباچہ کتاب (اور کتاب) میں جمشید، رستم، اسفندریار، حاتم جیسے متعدّد نام آئے ہیں؛ لیکن یہ نام عموماً صفاتی حیثیت میں آئے ہیں (جیسے؛ جم شوکت) ایسے ناموں کو فرہنگ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کتاب میں معروف شعراء کے جو نام (یا تخلص) آئے ہیں؛ (جیسے انشا، مصحفی وغیرہ) ان سے لوگ عموماً واقف ہی ہیں، اس لئے اِن کو اس ضمیمے میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہی صورت معروف شہروں کے ناموں کی ہے (جیسے؛
 
ریختہ کا صفحہ نمبر 109 کتاب کا صفحہ نمبر 111 ہے۔ کتاب کی ترتیب سے کروں یا ریختہ سے؟


Screenshot-2020-08-09-23-04-08-333-com-android-chrome.jpg
کتاب کا صفحہ
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ حاضر ہے لیکن ایک تو شعراء کے تخلص کے لئے جو چیز ڈالی جاتی وہ موبائل کے کیبورڈ میں موجود نہیں تو پروف ریڈر کو وہ درست کرنا پڑے گی دوسرا گنتی بھی دستیاب نہیں اردو میں تو اسکو بھی اسی طرز پر لکھا ہے تو وہ بھی پروف ریڈر کے لئے زحمت بنیں گی۔ اور اس پر شاید موبائل سے لیپ ٹاپ میں جانے پر لائنوں اور پیراگراف کی ترتیب بھی غالباً درست کرنا پڑے۔
یوں مجموعی طور پر میں کام بنا نہیں بلکہ بڑھا ہی رہا ہوں وغیرہ وغیرہ






نمبر شمار ڈالنا پڑے تھے؛ انتسابِ اشعار کے نمبر شمار کو اُن سے الگ رکھنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ بعد میں اختلافِ نسخ والے ہندسے تو ہر صفحے سے مٹا دیے گئے، یہ انگریزی ہندسے باقی رہ گئے۔ ان کو بدلنے میں مزید طویل عمل تھا، یو انھیں برقرار رکھا گیا۔
میر سوز کے اشعار کے لئے اُن کے دیوان کا کئی جگہ حوالہ دیا گیا ہے؛ اس سے مراد وہ دیوان ہے جو رسالہٰ اردوئے معلّیٰ (دہلی یونیورسٹی) کے "میر سوز نمبر" میں شائع ہوا تھا۔
میر تقی میر کے اشعار کے لئے کلّیاتِ میر مرتّبہٰ آسی کا حوالہ دیا گیا ہے؛ "کلّیات" سے یہی مراد ہے۔
نوازش کے اشعار کا مقابلہ اُن کے خطّی دیوان مخزونہ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے کیا گیا ہے۔ میرے علم میں یہ اس دیوان کا واحد نسخہ ہے۔ (یہ دیوان اب تک غیر مطبوعہ ہے)۔
ناسخ کے اشعار کے لئے کلّیاتِ ناسخ طبعِ اوّل (1254ھ) اعر طبعِ ثانی (1262ھ) دونوں نسخے پیشِ نظر رہے۔

(4) دیباچہ کتاب میں (ص ا سے ص 31 تک) افراد، مقامات، عمارات (وغیرہ) کے جو نام آئے ہیں (اس میں شعراء کے تخلص بھی شامل ہیں) چوتھے ضمیمے میں انکو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ چار نام ایسے ہیں جو دیباچہ کتاب میں شامل نہیں، اصل کتاب میں ہیں؛ یہ نام ہیں: مرزا حسین بیگ، درگا پرشاد مدہوش، للّو جی اور گھنٹا بیگ کی گڑھیّا۔
اوّل الذّکر سرور کے خاص دوست تھے اور باشندہ لکھنؤ۔ مدہوش نے اس کتاب کی تاریخ لکھی ہے جو شامل کتاب ہے اور یہ بھی سرور کے احباب میں سے تھے۔ لکھنؤ میں للّو جی اپنے زمانے کے کتھک کے باکمال فن کار تھے اور آخر الذّکر لکھنؤ کے ایک محلے کا نام ہے؛ اس بنا پر ان ناموں کی شمولیت ضروری سمجھی گئی؛ اسے استثنا سمجھا جائے۔
دیباچہ کتاب (اور کتاب) میں جمشید، رستم، اسفندریار، حاتم جیسے متعدّد نام آئے ہیں؛ لیکن یہ نام عموماً صفاتی حیثیت میں آئے ہیں (جیسے؛ جم شوکت) ایسے ناموں کو فرہنگ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ کتاب میں معروف شعراء کے جو نام (یا تخلص) آئے ہیں؛ (جیسے انشا، مصحفی وغیرہ) ان سے لوگ عموماً واقف ہی ہیں، اس لئے اِن کو اس ضمیمے میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہی صورت معروف شہروں کے ناموں کی ہے (جیسے؛
کوئی بات نہیں ، جو میسر ہے وہ غنیمت ہے۔

کتاب کے صفحے کو علیحدہ پوسٹ میں صفحہ نمبر کے ساتھ پوسٹ کر دیں تاکہ واضح رہے۔

ایک کام اور بھی کرنا ہو گا تاکہ ایک ہی صفحہ دوبارہ نہ تقسیم ہو جائے۔ صفحات کی تقسیم دہراتے رہنا ہو گا تاکہ صفحات کی تقسیم واضح اور سامنے رہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صفحات کی تقسیم

جاسمن 101-105
نور وجدان 106
سیما علی 107
صابرہ امین 108
عبداللہ محمد 109

سر صفحہ مکمل ہوگیا کیسے ارسال کرنا ہے ؟راہنمائی :) ایک مرتبہ ٹھیک سے پڑھ لونگی پھر کیسے بھیجنا ہے راہنمائی کیجیے گا ۔گو کہ بہت تیز ٹائپ نہیں کر پاتی پھر بھی جوش میں جلدی ہو گیا
صفحہ 107
 
120 صفحات تک ہم محفل پر تقسیم کر سکتے ہیں اس کے بعد 201 صفحات سے لے کر 250 تک ٹائپ کرنے ہوں گے۔
اگلے دس صفحات میں سے ایک دو صفحات کوئی بھی لے سکتا ہے مگر ساتھ تمام صفحات کی تقسیم درج کرتا رہے تاکہ صفحات کی تقسیم واضح ہو۔
 
سر صفحہ مکمل ہوگیا کیسے ارسال کرنا ہے ؟راہنمائی :) ایک مرتبہ ٹھیک سے پڑھ لونگی پھر کیسے بھیجنا ہے راہنمائی کیجیے گا ۔گو کہ بہت تیز ٹائپ نہیں کر پاتی پھر بھی جوش میں جلدی ہو گیا
صفحہ 107
سیما جی، صفحہ ایک پوسٹ میں نمبر کے ساتھ اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں۔
براہ کرم مجھے سر نہ کہیں ، میں عام ممبر ہوں اور فقط نام کافی ہو گا۔ آپ بڑی ہیں اس لیے "جی" کی اضافت استعمال کی ورنہ سادہ نام ہی لکھتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیما جی، صفحہ ایک پوسٹ میں نمبر کے ساتھ اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں۔
براہ کرم مجھے سر نہ کہیں ، میں عام ممبر ہوں اور فقط نام کافی ہو گا۔ آپ بڑی ہیں اس لیے "جی" کی اضافت استعمال کی ورنہ سادہ نام ہی لکھتا۔

درمیان ذرا سا فصل پیدا ہو جائے,جو پڑھنے والے کی نظر میں بہ آسانی اور فوری طور پر آ جائے اور وہ سجھ لے کہ یہاں خواندگی میں ان لفظوں کو الگ الگ آنا چاہیے -اسکی وضاحت کے لیے شروع متن ہی سے ایک مثال پیش کروں گا۔"سزاوار حمد و ثنا خالق ارض و سما ،,جل و علیٰ ۔صانع بے چون و چرا ہے“(صٰ) اس جملے میں چار ٹکڑے ہیں۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے ٹکڑے بعد کاما آیا ہے۔مگر پہلے ٹکڑے کے بعد کاما آیا ہے ۔مگر پہلے ٹکڑے {سزاوارِ حمد و ثنا} کے بعد کاما نہیں آسکتا، کیونکہ یہ ٹکڑا اس طرح الگ اور معنوی طور پر خود مکتفی نہیں،جسطرح وہ ٹکڑے ہیں،مگر یہ بھی الگ سا!اس لیے اسے اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ذرا سا فصل پیدا ہو گیا ہے۔ اس اندازِ کتابت کو {اور اس کی افادیت کو} ہر جگہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس التزام کو نبھانے میں مشکل تو بہت پیش آئی! مگر بہ حال اسمیں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ التزام آخر تک بر قراررہا۔
مشؔدد حرفوں پر تشدید ضرور لگائی گئی ہے۔اسی طرح اضافت کے زیر بھی پابندی سے لگائے گئے ہیں۔اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔اضافت کا مسلئہ بعض مقامات پر خاصہ پریشان کن ہوتا ہے، ویسے بھی یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے،ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کد لیا گیا تھا اور پیشِ نظر رکھا گیا۔اس سلسلے میں
————————————————-
؀۱
قاضی عبد الودود صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو لوگ کسی متن کو مرتب کرتے ہیں اور اسکا مسودہ کسی دوسرے شخص سے لکھواتے یا ٹائپ کراتے ہیں،تو وہ تدوین کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ لازم ہے کہ مرتب اپنے سے پورے متن کو نقل کرے،تاکہ مشخصات متن {بشمول املائے الفاظ} برقرار رہ سکیں۔میں نے اس قول کو گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اپنے قلم سے لکھا اور ایسے مقامات پر ،جہاں کاما کے بجائے دو لفظوں کے درمیان فصل رکھنا تھا،ایسے دو لفظوں کے درمیا ترچھا خط سرخ روشنائی سے کھینچا گیا ۔اس طرح التزام رہ پایا{اس کے باوجود تحسین کے اصل مستحق زیدی صاحب ہیں ،جنہوں نے اس متن کی کتابت کی ہے}۔
107
 

محمد عمر

لائبریرین
ص 110


کلکتہ، ملتان، کان پور، دہلی وغیرہ) سرور کے رکھّے ہوئے 'نام' جیسے: انجمن آرا، زر نگار، فسحت آباد بھی اسی ذیل میں آتے ہیں، کیوں کہ یہ نام محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔

(۵) پانچواں ضمیمہ تلفّظ اور املا سے متعلّق ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاص خاص الفاظ پر جو اعراب لگائے گئے ہیں یا جو املا اختیار کیا گیا ہے، اُس کی وجہ اور بُنیاد کیا ہے۔

(۶) چھٹا ضمیمہ "الفاظ اور طریقِ استعمال" پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے لفظوں اور عبارت کے ٹکڑوں کو یک جا کر دیا گیا ہے جو اُس عہد کی زبان پر کام کرنے والوں کے مفید مطلب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمیمے کے اندراجات سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سُرور کی زبان کا احوال کیا ہے، اس میں کس قدر پُرانا پن ہے اور کچھ لفظوں کو اُنہوں نے کیسے عجب ڈھنگ سے استعمال کیا ہے، جمع الجمع، عدد معدود میں واحد اور جمع کی نسبت کا احوال کیا ہے اور مبیّنہ متروک لفظوں کا کس قدر ذخیرہ اُن کی اِس کتاب میں محفوظ ہے (یعنی ایسے لفظ اور ایسا طریقِ استعمال، جسے بعد والوں نے متروک اور غیر مستحسن قرار دیا)۔

(۷) ساتواں ضمیمہ اختلافِ نسخ کا ہے۔ اس ضمیمے کے سلسلے میں دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ ضمیمه صرف دیباچۂ 'فسانۂ عجائب' پر مشتمل ہے (یعنی ص ۱ سے ص ۳۱ تک) دوسری بات یہ ہے کہ ابتدا میں جب اس کام کا خاکہ بنایا گیا تھا تو یہ طے کر دیا گیا تھا کہ مکمل متن پر مشتمل ضمیمۂ اختلافِ نسخ تیّار کیا جائے گا۔ خاص کر اِسی کام کے لیے وہ سارے نسخے ڈھونڈے گئے جن کی شمولیت ضروری تھی۔ بہت کچھ دیدہ ریزی کے بعد مکمّل اختلافِ نسخ کا ضمیمہ تیّار کر لیا گیا۔ اس کے لیے ہر صفحے پر متن میں نمبر شمار بھی ڈالے گئے۔ یہ ضمیمہ پچاسی (۵۵) صفحات میں سما پایا تھا۔ (اُس وقت تک نسخۂ د کی اطّلاع نہیں تھی اور ن کی پہلی اشاعت [۱۲۸۳ھ] نہیں ملی تھی، دوسری اشاعت سے کام لیا گیا تھا۔ باقی سب نسخے یعنی ح، م، ض، ک، ف، ل موجود تھے۔ اِن سات (۷) نسخوں کی مدد سے اختلافِ نسخ تیّار کیا گیا تھا)۔ جب سب کام مکمّل ہو گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ ضخامت کی وجہ سے یہ کتاب نہیں چھپ سکتی [وہی پرانی بات، دفتری خامہ فرسائی)۔ مشورہ کیا گیا، طے یہ ہوا کہ اختلافِ نسخ کے اس حصّے کو شامل نہ کیا جائے، اِس طرح کچھ تو ضخامت
 
درمیان ذرا سا فصل پیدا ہو جائے,جو پڑھنے والے کی نظر میں بہ آسانی اور فوری طور پر آ جائے اور وہ سجھ لے کہ یہاں خواندگی میں ان لفظوں کو الگ الگ آنا چاہیے -اسکی وضاحت کے لیے شروع متن ہی سے ایک مثال پیش کروں گا۔"سزاوار حمد و ثنا خالق ارض و سما ،,جل و علیٰ ۔صانع بے چون و چرا ہے“(صٰ) اس جملے میں چار ٹکڑے ہیں۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے ٹکڑے بعد کاما آیا ہے۔مگر پہلے ٹکڑے کے بعد کاما آیا ہے ۔مگر پہلے ٹکڑے {سزاوارِ حمد و ثنا} کے بعد کاما نہیں آسکتا، کیونکہ یہ ٹکڑا اس طرح الگ اور معنوی طور پر خود مکتفی نہیں،جسطرح وہ ٹکڑے ہیں،مگر یہ بھی الگ سا!اس لیے اسے اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ذرا سا فصل پیدا ہو گیا ہے۔ اس اندازِ کتابت کو {اور اس کی افادیت کو} ہر جگہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس التزام کو نبھانے میں مشکل تو بہت پیش آئی! مگر بہ حال اسمیں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ التزام آخر تک بر قراررہا۔
مشؔدد حرفوں پر تشدید ضرور لگائی گئی ہے۔اسی طرح اضافت کے زیر بھی پابندی سے لگائے گئے ہیں۔اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔اضافت کا مسلئہ بعض مقامات پر خاصہ پریشان کن ہوتا ہے، ویسے بھی یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے،ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کد لیا گیا تھا اور پیشِ نظر رکھا گیا۔اس سلسلے میں
————————————————-
؀۱
قاضی عبد الودود صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو لوگ کسی متن کو مرتب کرتے ہیں اور اسکا مسودہ کسی دوسرے شخص سے لکھواتے یا ٹائپ کراتے ہیں،تو وہ تدوین کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ لازم ہے کہ مرتب اپنے سے پورے متن کو نقل کرے،تاکہ مشخصات متن {بشمول املائے الفاظ} برقرار رہ سکیں۔میں نے اس قول کو گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اپنے قلم سے لکھا اور ایسے مقامات پر ،جہاں کاما کے بجائے دو لفظوں کے درمیان فصل رکھنا تھا،ایسے دو لفظوں کے درمیا ترچھا خط سرخ روشنائی سے کھینچا گیا ۔اس طرح التزام رہ پایا{اس کے باوجود تحسین کے اصل مستحق زیدی صاحب ہیں ،جنہوں نے اس متن کی کتابت کی ہے}۔
107

شاید صرف نظر ہو گئی ایک اہم شے (شروع میں ریختہ کے صفحہ نمبر جہاں سے داستان کا آغاز ہوتا ہے درج کیا تھا مگر وہ پیغام بہت سارے پیغامات میں دب گیا)۔ ریختہ کے اپنے صفحات کی ترتیب کے حساب سے صفحہ 116 سے داستان شروع ہو رہی ہے اور وہاں سے اصل کتاب کے صفحات کی ترتیب 1 سے شروع ہوتی ہے۔ اب میں زیادہ وضاحت سے لکھ دیتا ہوں تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔

ریختہ صفحہ 216 داستان صفحہ 101
ریختہ صفحہ 217-218 داستان صفحہ 102-103
ریختہ صفحہ 220-219 داستان صفحہ 105-104
ریختہ صفحہ 222-221 داستان صفحہ 107-106

اس صفحے کو میں مقدمے کے لیے علیحدہ دھاگہ کھول کر پوسٹ کر دیتا ہوں۔
 
ص 110


کلکتہ، ملتان، کان پور، دہلی وغیرہ) سرور کے رکھّے ہوئے 'نام' جیسے: انجمن آرا، زر نگار، فسحت آباد بھی اسی ذیل میں آتے ہیں، کیوں کہ یہ نام محض علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔

(۵) پانچواں ضمیمہ تلفّظ اور املا سے متعلّق ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خاص خاص الفاظ پر جو اعراب لگائے گئے ہیں یا جو املا اختیار کیا گیا ہے، اُس کی وجہ اور بُنیاد کیا ہے۔

(۶) چھٹا ضمیمہ "الفاظ اور طریقِ استعمال" پر مشتمل ہے۔ اس میں ایسے لفظوں اور عبارت کے ٹکڑوں کو یک جا کر دیا گیا ہے جو اُس عہد کی زبان پر کام کرنے والوں کے مفید مطلب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمیمے کے اندراجات سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سُرور کی زبان کا احوال کیا ہے، اس میں کس قدر پُرانا پن ہے اور کچھ لفظوں کو اُنہوں نے کیسے عجب ڈھنگ سے استعمال کیا ہے، جمع الجمع، عدد معدود میں واحد اور جمع کی نسبت کا احوال کیا ہے اور مبیّنہ متروک لفظوں کا کس قدر ذخیرہ اُن کی اِس کتاب میں محفوظ ہے (یعنی ایسے لفظ اور ایسا طریقِ استعمال، جسے بعد والوں نے متروک اور غیر مستحسن قرار دیا)۔

(۷) ساتواں ضمیمہ اختلافِ نسخ کا ہے۔ اس ضمیمے کے سلسلے میں دو وضاحتیں ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ ضمیمه صرف دیباچۂ 'فسانۂ عجائب' پر مشتمل ہے (یعنی ص ۱ سے ص ۳۱ تک) دوسری بات یہ ہے کہ ابتدا میں جب اس کام کا خاکہ بنایا گیا تھا تو یہ طے کر دیا گیا تھا کہ مکمل متن پر مشتمل ضمیمۂ اختلافِ نسخ تیّار کیا جائے گا۔ خاص کر اِسی کام کے لیے وہ سارے نسخے ڈھونڈے گئے جن کی شمولیت ضروری تھی۔ بہت کچھ دیدہ ریزی کے بعد مکمّل اختلافِ نسخ کا ضمیمہ تیّار کر لیا گیا۔ اس کے لیے ہر صفحے پر متن میں نمبر شمار بھی ڈالے گئے۔ یہ ضمیمہ پچاسی (۵۵) صفحات میں سما پایا تھا۔ (اُس وقت تک نسخۂ د کی اطّلاع نہیں تھی اور ن کی پہلی اشاعت [۱۲۸۳ھ] نہیں ملی تھی، دوسری اشاعت سے کام لیا گیا تھا۔ باقی سب نسخے یعنی ح، م، ض، ک، ف، ل موجود تھے۔ اِن سات (۷) نسخوں کی مدد سے اختلافِ نسخ تیّار کیا گیا تھا)۔ جب سب کام مکمّل ہو گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ ضخامت کی وجہ سے یہ کتاب نہیں چھپ سکتی [وہی پرانی بات، دفتری خامہ فرسائی)۔ مشورہ کیا گیا، طے یہ ہوا کہ اختلافِ نسخ کے اس حصّے کو شامل نہ کیا جائے، اِس طرح کچھ تو ضخامت

یہ مقدمے کا صفحہ ہے جس کی شاید وضاحت نہ ہو سکی۔
ریختہ کے اپنے صفحات کی ترتیب کے حساب سے صفحہ 116 سے داستان شروع ہو رہی ہے اور وہاں سے اصل کتاب کے صفحات شروع ہوتے ہے۔ اب میں زیادہ وضاحت سے لکھ دیتا ہوں تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔

ریختہ صفحہ 115 داستان صفحہ 1
ریختہ صفحہ 216 داستان صفحہ 101
ریختہ صفحہ 222-221 داستان صفحہ 107-106
ریختہ صفحہ 225 داستان صفحہ 110
 

محمد عمر

لائبریرین
یہ مقدمے کا صفحہ ہے جس کی شاید وضاحت نہ ہو سکی۔
ریختہ کے اپنے صفحات کی ترتیب کے حساب سے صفحہ 116 سے داستان شروع ہو رہی ہے اور وہاں سے اصل کتاب کے صفحات شروع ہوتے ہے۔ اب میں زیادہ وضاحت سے لکھ دیتا ہوں تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے۔

ریختہ صفحہ 115 داستان صفحہ 1
ریختہ صفحہ 216 داستان صفحہ 101
ریختہ صفحہ 222-221 داستان صفحہ 107-106
ریختہ صفحہ 225 داستان صفحہ 110

صفحہ 110 یعنی 110+ 115 = ریختہ صفحہ 225؟
 
Top