میں 110 - 119 تک صفحات کا بیڑا اٹھاتا ہوں۔
ص 110 - 119
یہ سُن کر نعرہ مارا، بے چَین ہو کر پکارا کہ اے جوانِ رَعنا! تو نے یہ قِصّہ سُنا ہو گا: زینت تختِ سلطنت، رونقِ شہر، مؤجِدِ آبادی، صاحبِ جاہ و حشمت، مالکِ عِفّت و عصمت انجمن آرا یہاں کی شہزادی تھی۔ شہرۂ جمال بے مِثال اس حور طَلعَت، پری خِصال کا اَز شَرق تا عرب اور جَنوب سے شِمال تک زَبانِ زَد خلقِ خُدا تھا۔ اور ایک جہانِ حُسن کا بیان سُن کر، نادیدَہ اُس کا مُبتَلا تھا۔ آج تک چشم و گُوشِ چَرخِ کَج رفتار نے، بہ ایں گردشِ لَیل و نَہار، ایسی صورت دیکھی نہ سُنی تھی۔ مُرقّعِ دَہر سے وہ تصویر چُنی تھی۔ بہت سے شاہ اور شَہْریار، اُس کے وادِیِ طَلَب میں قدم رکھ کر تھوڑے عرصے میں آوارۂ دَشْتِ اِدْبار، پتھّروں پر مار مار، مصرع: رہ رَوِ اِقلیمِ عَدَم ہو گئے۔
اب پانچ چار روز سے ہمارے طالِعِ بیدار جاگتے جاگتے دَفْعتہً سُو گئے۔ ایک ساحِرِ مکّار، جفا کار، بہ زُورِ سِحْر اُسے محل سے اُٹھا لے گیا۔ داغِ غمِ فرقت دے گیا۔ ہنوز یہ جُملۂ غم نا تمام تھا کہ جانِ عالم کا کام تمام ہوا۔ آہِ سرد کھینچ کر بہ حالِ خستہ و پریشاں، مِثالِ قالِبِ بے جاں زمین پر گر کے یہ حسرت و یاس پُکارا، شعر:
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی (۱)
حَیف ہے، اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی
اے گردوُنِ جفا پَرداز و اے فَلَکِ عَزبَدہ جو! یہ کیا تیرہ خُو ہے! اِتنی دور لا کر ناکام رکھّا۔ مُؤلِّف:
عشرت کدے میں ہوئے، سیکڑوں، وَلے
اک دِل ہمارا تھا کہ وہ ماتم سَرا رہا
تاثیرِ آہ دیکھی، نہ گِریے میں کچھ اثر
ناحق مَیں اِس اُمّید پہ کرتا بُکا رہا
کیا دیکھتا ہے سینے کو میرے تو اے سُرور
جُز یادِ یار، اِس میں نہیں دوسرا رہا
شعر: یہ کہ کر وہ اس طرح غش کر گیا کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا (۱)
خواجہ سَرا سخت گھبرایا، سمجھا : یہ شخص بھی گرفتارِ مُحبّت، اَسیرِ دامِ اُلفت اُسی کا ہے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی، دَفْعتہً خَبَرِ بَد سُنائی نہ تھی، آفت اِس کی جان پر جان کر لانی نہ تھی۔ ہر چند گلاب، کیوڑا چھِڑکا، ہوش نہ آیا۔ بد حواس، بادشاہ کے حُضور میں حاضر ہوا، رُو کر عرض کی: آج ماتَمِ انجمن آرا تازہ ہوا۔ بادشاہ نے فرمایا : کیا ماجرا ہے؟ اُس نے عرض کی: کِسی مُلک کا شہزادہ اُس کی مُحبّت میں سلطنت سے ہاتھ اُٹھا، فقیرانہ سَج بنا یہاں تک پہنچا ہے۔ مجھ سے جادوگر کے اُٹھائے جانے کی خبر سُن کر، آہ کھینچ زمین پر گرا ہے۔ اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔ عجب صدمہ دِل پر دَھر گیا ہے! خدا جانے جیتا ہے یا مر گیا ہے! خلق کا اَنبُوہ اُس کے سر پر ہے، بازار لوگوں کی کثرت سے بھر گیا ہے۔ کیا عرض کروں! غلام کی نظر سے اِس سَج دَھج کا پری پَیکر آج تک اَز قِسْمِ بَشَر نہیں گُذرا۔
اگر اِن دونوں کی صورت آئینۂ چشم میں بَہَم نظر آتی، قِرانُ السَّعدَین کی کیفیت کھُل جاتی۔ حُضور ملاحظہ فرمائیں گے، شہ زادی کو بھول جائیں گے۔
بس کہ بادشاہ غمِ مُفارَقَت انجمن آرا سے بے قرار تھا، اَركانِ سلطنت سے کہا : جلد جاؤ، جس طرح ہو اُسے لاؤ۔ لوگ دَوڑے، مُردے کی صورت اُٹھا لے گئے۔ اِس عرصے میں شام ہوئی۔ بادشاہ نے ہاتھ مُنْہ دُھلوا، بِید مُشک چھِڑکا، کیوڑا مُنْہ میں چُوایا، لَخلَخہ سُنگھایا۔ جانَ عالم کو ہوش آیا، گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا : ایک شخص تاجِ خُسروانہ بَر سَر، چارقُبِ مُلؤکانہ دَر بَر، سِن رَسیدہ، لَیل و نَہار دیدَہ، بڑے کَرّوفر سے تخت پر جلوہ گر ہے۔ اور چار ہزار غلامِ زَرّیں کمر با شمشیر و خنجر، اُونچی بنا، دَست بَستَہ رو بہ رو کھڑا ہے۔ گِرد امیر، وزیر، سپہ سالار، پہلوان، گُردانِ گَردن کَش، ایک سے ایک بہتر جوان اپنے اپنے قَرینے سے زِیب دہِ کُرسی و دَنگل ہے۔ تَہمَتُوں کا جنگل ہے۔ جانِ عالم اُٹھا، بہ طَورِ شاہ و شَہْریار و شہ زادہ ہائے عالی تَبار رسمِ سلام بجا لایا۔ سب تعظیم کو اُٹھے۔ بادشاہ نے گلے لگا پاس بِٹھایا۔ جب سے بادشاہ کی نظر پڑی تھی، مَحْوِ حُسن دل فَریب، مَفتُونِ چہرۂ مِہر وَش و صورتِ پُر زِیب ہو گیا تھا۔ اور حُضّارِ مجلس بھی سب دنگ تھے، سَکتے کے ڈھنگ تھے۔ سب کو صدمۂ تازہ یہ ہوا کہ ایسا وارثِ تاج و تخت ہاتھ آئے اور محروم پھر جائے۔ اُس وقت کا رنج و قَلَق شہ زادے کا کوئی فراق کَشیدَہ سمجھے، بقول مرزا حسین بیگ صاحب، شعر:
حسرت پر اُس مسافرِ بے کس کی رُوئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے (۱)
مگر باعثِ شرم و حیا کہ لازِمۂ شُرفا و نُجَبا ہے، خاموش، سینے میں غم کا جُوش و خَروش۔ بادشاہ نے اِستفسارِ وطن اور نامِ جَدّ و آبا کیا۔ یہاں فرطِ اَلَم ، کثرتِ غم سے گلا گھُٹ رہا تھا، مگر ضَبط کو کام کر کے، حَسَب و نَسَب اور مُلک کا پتا بتایا۔ پھر سِر جھُکا شہ زادی کا حال پوچھا۔
بادشاہ نے فرمایا : اے گِرامی اخترِ سِپہرِ شَہریاری! مُدّت سے ایک جادوگر اِس فکر میں تھا۔ یہاں بہ مرتبہ نگہبانی ہوتی تھی، لیکن وہ دُھوکا دے کر لے گیا۔ آج تک محل میں نہیں گیا ہوں۔ وہ محل، جو عِشرت کَدَہ خاص تھا، ماتَم سَراے عام ہے۔ ہر سو، شُورِ رِقّت، ہر سِمت نالۂ پُر آفت بَلند ہے۔ کھانا پانی حرام، چھُوٹا بڑا مُبتَلاے آلام ہے۔ جانِ عالم نے کہا: کچھ یہ بھی ثابِت ہوا کہ کدھر لے گیا۔ بادشاہ نے فرمایا: پانچ کُوس تک پتا ملتا ہے۔ آگے قلعہ ہے سَر بہ فلک کَشیدہ، آگ سے بھری ہے، شُعلہ سَر گرم تا چَرخِ چَنبری ہے اور انگاروں کا اَنبار تا کُرۂ نار ہے۔ وہاں کا حال نہیں کھُلتا ہے، عقل بے کار ہے؛ مگر قَرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سِحر کا کارخانہ ہے۔ آگ کا بہانہ ہے، ہمیں سُلگا کے جلانا ہے۔ شہ زادے نے کہا: خَیر۔ اگر حَیاتِ مُستَعار باقی ہے، بہ مددَ اِیزَد کہاں جانے پاتا ہے؛ اُس ملعون کو جہنّم واصل کر کے، شہ زادی کو فدوی زندہ لاتا ہے۔
یہ کہہ کر اُٹھا کہ قبلہ، خُدا حافظ! بادشاہ لپٹ گیا، کہا : بابا! خُدا کے واسطے اِس خَیالِ مُحال سے در گُزر۔ طائرِ خَیال کے اُس دَشت میں پَر جَلتے ہیں۔ پیکِ صبا کے پاؤں میں چھالے نکلتے ہیں۔
دوسرے، مجھے مُفارَقَت تیری کب گوارا ہے۔ ایک کو دُھوکے میں کھُویا، تُجھے دیدہ و دانِستہ جانے دینے کا کہاں یارا ہے۔ ایسی آفت میں تجھ سے جوان کو جانے دوں! بُڑھاپے میں بدنامی لوں! سلطنت حاضر ہے، بِسْمِ اللہ حُکم رانی کر۔ میں ضعیف ہوں، گوشے میں بیٹھ اللہ اللہ کروں۔ شہزادے نے عرض کی: یہ تخت و سلطنت حُضور کو مُبارَک
رہے۔ بندہ آوارہ خانُماں، ننگِ خانداں، گھر کی حُکومت و ثَروَت چھُوڑ، عزیزوں سے مُنہ موڑ، خراب و خستہ، سَر گَرداں در در حیران و پریشان ہو یہاں تک پہنچا، اب یہ کلمہ ہَتک اور ذِلّت کا سُننے کو جیتا رہوں، مُلک بیگانے میں بادشاہت کروں۔ لوگ کہیں : جادوگر تو شہ زادی کو لے گیا؛ یہ شخص بے غَیرت تھا، جیتا رہا، سلطنت کرنے لگا۔ جواں مردی سے بعید ہے۔ عاشق و معشوق کی راہ میں جان دینا عید ہے۔ لا اَعْلَم :
تا سَر ندہم، پا نکشم از سَرِ کویش
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد
پَگ آگے، پَت رہے اور ایک پَگ پاچھے، پَت جائے ۔ قَدَمِ عشق بیشتر بہتر۔ جس مددگار نے ہزار بلا سے بچا کے یہاں تک زندہ و سالِم پہنچایا ہے وہی وہاں سے بھی مُظفّر و منصور آپ سے ملائے گا۔ نہیں تو یہ صورتِ نَجس لوگوں کو دکھانی کیا ضرور ہے۔ گو بَشَر مجبور ہے؛ لیکن اِس زیست سے آدمی مرنا گوارا کرے، بے مَوت مرے۔ پہلے جب عقل و عشق سے مُعرکہ اَٹکا تھا، میرا دل کھٹکا تھا۔ عَقْل کہتی تھی : ماں باپ کی مُفارَقَت اختبار نہ کرو، سلطنت سی شَے نہ چھوڑو۔ عشق کہتا تھا : ماں باپ کس کے! آزاد ہو، بادشاہت کیسی! سَر رِشتۂ اُلفتِ غیر توڑو۔ کوچۂ دل دار کی گدائی، سلطنتِ ہَفت اِقلیم ہے، اگر مُیسّر آئے۔ بے یار خدا کسی کی صورت نہ دِکھائے۔ عقل کہتی تھی : آبرو کا پاس کرو، ننگِ خانداں نہ ہو۔ غریبُ الوَطَنی سے عار کرو، صَحرا نَوَردی نہ اِختیار کرو۔ عشق کہتا تھا : یار کے ملنے میں عزّت ہے، بادِیَہ پَیمائی میں بہار ہے۔ تَشنۂ خونِ آبلا پا مُدّت سے صَحرا کا خار ہے۔ عقل کہتی تھی : یہ لباسِ شاہی، قَباے فرماں رَوائی چاک نہیں کرتے۔ دانِش مند جادَۂ راستی سے خلاف قدم نہیں دَھرتے۔ عشق کہتا تھا : لباس، عُریانی ہے۔ عقل دیوانی ہے۔ یہ وہ جامہ ہے جسے اِحتیاجِ شُست و شو نہیں۔ کیسی ہاتھا پائی ہو، چاک نہ ہو، کسی آلایِش سے نا پاک نہ ہو؛ اَصْلا کارِ سُوزَن و رَفو نہیں۔ نہ بار برداری اِس کو چاہیے، نہ چُور کا ڈر، نہ راہ زَن سے خَطَر ہے۔ پانی سے بھیگے نہ آگ
سے جلے، سڑے نہ گلے، گلے سے کبھی جدا نہ ہو۔ نہ بند بندھے، نہ واہو۔ نہ کوئی اِس کو لے سکے، نہ خود کسی کو دے سکے۔ نہ دستِ وحشت میں اِس کا تار آئے، نہ اِس کے دامن تک سِرِ خار آئے۔ نہ اِس کا جسم لاغَر پر بوجھ ہو، نہ کسی کے بدن پر بار ہے۔ مسافرِ صَحراے مُحبّت کو یہی درکار ہے۔ آتش :
تن کی عُریانی سے بہتر نہیں دُنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
آخرِ کار بہ صَد تکرار عقل کو شِکستِ فاش ہوئی، کوچۂ دِلبر کی تلاش ہوئی۔ نام سے نفرت، ننگ سے تنگ ہو، نشانِ ہوش و حواس مِٹایا۔ سلسلۂ دیوانگی ہاتھ آیا۔ طبیعت عشق کی محکوم ہوئی۔ وحشت کی ترقی میں سِر اور پتھّر کا مقابلہ ہوا، لڑکوں کی دھوم ہوئی۔ دامانِ غیرت، گِریبانِ حیا چاک ہوا۔ ننگ و ناموس کا قصّہ بکھیڑا پاک ہوا۔ ایک پرندہ، کہ تُوتا تھا، رَہ بَر و مددگار ہوا۔ دوسرا دَوِنْدہ، وہ وزیر زادہ تھا، تنہائی میں غم گُسار ہوا۔ پھر تو سلطنت اور وطن چھُوڑ، عزیز اور یگانوں سے رشتۂ مُحبّت تُوڑ، رہ نَوَردِ بادیَۂ حِرماں اور گام فرساے دشت اِدبار ہوا؛ لیکن اُن کا ساتھ بھی نہ سَزا وار ہوا، فلک دَر پَےِ آزار ہوا۔ پہلی بسم اللہ یہ غلط ہوئی کہ منزلِ اوّل میں تُوتا اُڑ گیا۔ وزیر زادہ ہِرَن کے ملنے سے چھُٹ گیا۔ وہ جو اَثاث ظاہِر کی دل لگی کا تھا، لُٹ گیا۔ تنہائی ہمراہ ہوئی۔ مُمِدّ دَم گرم سرد آہ ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد طِلِسم میں پھنسایا ۔ ہمیں رُلا کے دشمنوں کو ہنسایا۔ تھوڑی سی آفت اُٹھا کے رِہائی پائی۔ سِمتِ مطلوب کی راہ ہاتھ آئی؛ مگر نہ سنگِ نِشاں دیکھا، نہ میل نظر آیا۔ نہ گَردِ کارواں دیکھی، نہ صداے زَنگ و جَرَس سُنی۔ نہ راہ بَر ملا، نہ کفیل نظر آیا۔ سواری چھُٹی، پِیادہ پائی ملی، فکرِ غیر سے رِہائی ملی۔
جب اِس منزل میں حضرتِ عشق نے آزمایا، باوُجودِ آبلہ پائی اور خَلِشِ خارِ صَحرا ثابِت قدم پایا؛ دوسرے مَرحَلے میں امتحان مَدِّنظر ہوا، پریوں کے اَکھاڑے میں گُزر ہوا۔ ایک مَہ سیما کو اِس جانِب مَیلان ہوا، پھر وہی عیش و نِشاط کا سامان ہوا۔ بہت سے نَیرنگ دِکھائے، ہر شب عجب دن آگے آئے۔ لِلّٰلہِ الحَمْد کہ شیشۂ عِصمت سنگِ ہَوا و ہَوَس سے سالِم رہا۔ وحشتِ دل کا یہ دستور عالَم رہا۔ رخصت میں مَصلَحَت جانی، جوان و پیر کی بات نہ مانی۔ اب گھر پہنچ کر دُھوکا کھانا، جان بوجھ کر بھول جانا کِس مِلّت میں روا ہے؟ یہ ذرا وَسْوَسَہ ہے۔ مجھ سے وحشیِ بے خود سے ایسی ہوشیاری دور ہے۔ جیتے جی مرگ منظور ہے۔
اِس گُفتگو کی خبر محل میں پہنچی کہ آج اِس طرح کا مَہ جَبیں، حَسیں، انجمن آرا کا عاشق وارِد ہوا تھا، وہ بھی حَرارَتِ مُحبّت سے اُسی آگ میں جلنے جاتا ہے۔ جو دیکھتا ہے آنسو بہاتا ہے۔ انجمن آرا کی ماں دَرِ دَولت سَرا پر چلی آئی۔ خواجہ سَرا دوڑے، بادشاہ سے عرض کی : جلد شہ زادے کو لے کر محل میں رونق فرما ہو جیے۔ بادشاہ جانِ عالم کو ہمراہ لے آرام گاہ میں تشریف لایا۔ وہ بھی ہزار جان سے نِثار ہو، دیر تک پروانہ وار اُس شمْعِ انجمنِ سلطنت کے گِرد پھِری۔ رنڈیوں نے گھیر لیا، سب کو قَلَق ہوا۔
غرض کہ بہ ہزار سَعی بادشاہ نے بہ منّت صُبح کی رُخصت پر اُس شب رُوکا۔ پَہَر بجے خاصَہ طلب ہوا۔ شہ زادے نے اِنکار کیا۔ وہی نوّاب ناظِر حاضر تھا؛ پاؤں پر گِرا، گِرد پھِرا، سمجھایا : پیر و مُرشد! کئی دن سے محل میں کھانا پانی سب کو حرام ہے، جو آپ کچھ بھی نُوش فرمائیں گے، تو یہ سب کھائیں گے۔ ناچار با خاطِرِ فِگار دو چار نِوالے پانی کے گھونٹ سے حَلَق میں اُتارے۔ پھر ہاتھ مُنْہ دُھو، نینْد کا بہانہ کر پلنگ پر جا لیٹا؛ مگر نینْد کِس کی اور سُونا کیسا؟ مُؤلِّف :
وا دَرِ دیدہ سدا رہتا ہے تیری یاد میں
آنکھ جب سے لگ گئی، رُوتے ہیں سُو جانے کو ہم
پھر لیٹے لیٹے انجمن آرا کا تصّور کر، دمِ گرم و آہِ سرد سینے سے بھر کر، یہ پڑھنے لگا، اَبْیات :
تُجھ بِن ہے خراب زندگانی
ہے مجھ کو عذاب زندگانی (۱)
اِتنا تو نہ چھُپ، کہ لے کفن کا
گھبرا کے نقاب، زندگانی
جب کروٹیں بدلتے بدلتے پَسْلیاں دُکھ جاتیں اور بے قراریاں ستاتیں؛ تو دلِ بے تاب کو مُستعِدِ ضبط، آمادۂ جَبْر و صَبر کر یہ کہتا، نظم :
کمالِ ضبط کو عاشق کرے اگر پیدا
کہاں کی آہ، کرے بات بھی اثر پیدا (۲)
ہزار رنگ زمانے نے بدلے، پر افسوس
کہیں ہوئی نہ شبِ ہجر کی سحر پیدا
کرے گی ہمسری نالے کی میرے تو بُلبُل!
شعور اِتنا تو کر جا کے جانور پیدا
ہمیشہ ہاتھوں سے اِن کے رہا ہوں میں جلتا
یہ زُور گرم ہوئے تھے دل و جگر پیدا
یہ دل میں ذوقِ اسیری ہے جو قَفَس میں مُدام
میں نوچتا ہوں، جو ہوتے ہیں بال و پر پیدا
آخِرشِ بہ صد نالہ و آہ، کراہ کراہ صُبْح کی۔ بعدِ فَراغِ نمازِ پُر سُوز و گُداز مرنے پر کمر باندھی۔ شب کو یہ خبر عام ہوئی تھی کہ کل جادوگر کی لڑائی کو، شہ زادہ آمادہ ہو جائے گا۔ دیکھیے فلک کیا تماشا دکھائے گا! پہر رات رہے سے مجمعِ عام دَرِ دیوانِ خاص پر تھا۔ یکایک روشنی آئی، بادشاہ تخت پر سوار برابر شاہ زادۂ والا تَبار، برآمد ہوا۔ چشمِ مُشتاقاں میں نورِ طور نزدیک و دور تَجلّی کر گیا۔ ہر شخص رو بہ قِبلہ ہو، دُعائے فتح و ظَفَر اُس ماہ پَیکر کی مانگنے لگا۔ اَلقِصّہ جہاں تک لوگ آتے جاتے تھے، بادشاہ ساتھ آیا، آگے بڑھنے کی تاب نہ لایا۔ جانِ عالم نے قسمیں دے کر رُخصت کیا۔ ناچار، بادِلِ داغ دار و خاطِرِ فِگار قَلعے میں داخل ہوا؛ مگر وہاں سے ڈیوڑھی تک صَد ہا بَرکارۂ صبا دَم مُتَعَیّن کیا کہ ہر دم کی خبر حُضور میں پُہنْچے۔ جانِ عالم پھر اکیلا با حسرت و یاس رہا۔ غمِ دلبر رفیقِ قدیم پاس رہا۔ یہ شعر پڑھتا آگے چلا، مُصحفی :
اے غمِ یار! میں بندہ ہوں رفاقت کا تری
نہ کیا تو نے گوارا مری تنہائی کو
آگ کا قلعہ سامنے تھا۔ آسمان سے تاز میں بجر شعلۂ جَوّالہ یا بُرجِ آتَشیں اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شہ زادہ غور سے دیکھنے لگا۔ ایک ہِرن اُس آگ سے نکلا، اُچھل کود کر پھر اُس میں غائب ہوا۔ جب مُکرّر آمَد و رَفْت کی، جانِ عالم نے لَوح پیر مرد کی دیکھی۔ اُس میں معلوم ہوا : اگر یہ اِسم پڑھ کے کچھ بڑھ کے ہِرن کو تیر مارا اور خطا نہ کی، طِلِسم ٹوٹ جائے گا۔ اگر نشانہ چوکا، خود آماج گاہِ خَدَنگِ قضا ہوا؛ کوئی راکھ کے سِوا پتا نہ پائے گا۔ شہ زادے نے کہا: جو ہِرن مارا، تو میدان مارا، لطفِ زندگی ہے۔ نہیں، حیلۂ مرگ خوب ہے۔ بے یار جينا مَعیوب ہے۔
یہ سوچ، لَبِ سوفار چِلّے سے جُوڑ، شِست و مُشت برابر کر اِسم شُروع کیا۔ اُدھر ہِرن نکلا، اِدھر تیر کمان سے سَرگوشی کر کے چلا۔ بس کہ یہ قَدَر انداز تھا، اُس کی قضا دامن گیر؛ تیر دوسار ہوا۔ فِردوسی: