میری ایک پرانی بیاض میں بھی ایسے ہی لکھا ہے۔ یہاں تک میں آپ کی تائید کرتا ہوں۔ مگر میری ذاتی رائے میں فی زمانہ"فعولن فعولن فعولن فعولن"
میں مثنوی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی علم عروض اب اپنی افادیت تقریبا کھو چکا ہے۔ نہ استاد رہے۔ نہ لوگوں میں اس کا مذاق کہا۔ پھر نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ کچھ پتھر پر لکیر تو ہے نہیں، کہ مٹا ئی نہ جا سکے۔

اجی قبلہ جو اصل ہے اس سے ہم آگاہ کر چکے ہیں۔ اب پابندی کرنا نہ کرنا یہ تو ہر ایک کی صواب دید پر ہے۔ :) کیا فرق پرتا ہے؟ نثری نظمیں بھی تو موجود ہیں ہی۔ :) رباعی بھی ساری بحور میں یقیناً لکھی جاسکتی۔ یہ پابندیاں تو محض بکواسات ہیں :)

لیجئے میری ایک رباعی میرے والد محمد رضوان شیخ کے نام:

نہیں طالبِ حور و غلمان ہوں
میں بردارِ فرمانِ یزدان ہوں
یہاں بس میں انساں میں انسان ہوں
ہوں داروغہ جنت کا رضوان ہوں

بسمل برجستہ کلام۔

آداب۔
محمد وارث
الف عین
فاتح
 
نہ بادِ صبا اور نہ صرصر۔۔ نہ سَر سَر
بہت خوب کاوشاُسامہ تمھاری !

اگر مصرع ثانی کچھ ایسا ہو ، کیا ہو ؟
مغزل۔۔ مغزل ۔۔ مغزل۔۔ مغزل
:angel::):battingeyelashes:
زبردست اور بیحد معلوماتی مزمل شیخ بسمل بھائی اور محمد اسامہ سَرسَری بھائی
بہت شکریہ آپ کا آپ آئے
ہمارے لیے کچھ تبسم بھی لائے
نہ بادِ صبا اور نہ صرصر نہ سرسر
تخلص مرا سرسری ہے اے ہمسر!
بلال! آپ ارشاد فرمائیں آئیں
ارے یوں نہیں آپ شرمائیں آئیں
 
لیجئے میری ایک رباعی میرے والد محمد رضوان شیخ کے نام:
نہیں طالبِ حور و غلمان ہوں
میں بردارِ فرمانِ یزدان ہوں
یہاں بس میں انساں میں انسان ہوں
ہوں داروغہ جنت کا رضوان ہوں

بسمل برجستہ کلام۔
اگرچہ کہی آپ نے نیک بات
سمجھ میں نہ آئی مجھے ایک بات
میاں خود کو کہتے ہو انسان بھی
پھر اک داروغہ یعنی رضوان بھی
رباعی میں کیا خوب انداز ہے
مگر یہ بتاؤ کہ کیا راز ہے
 
اگرچہ کہی آپ نے نیک بات
سمجھ میں نہ آئی مجھے ایک بات
میاں خود کو کہتے ہو انسان بھی
پھر اک داروغہ یعنی رضوان بھی
رباعی میں کیا خوب انداز ہے
مگر یہ بتاؤ کہ کیا راز ہے

یہ اشعار گو کہ مرے ہیں مگر
صفت نے مری ہے نے کوئی ڈگر
صفات ایسی سب میرے والد میں ہیں
ولایت کے ڈھب میرے والد میں ہیں
 
یہ اشعار گو کہ مرے ہیں مگر
صفت نے مری ہے نے کوئی ڈگر
صفات ایسی سب میرے والد میں ہیں
ولایت کے ڈھب میرے والد میں ہیں
یہی تو سمجھنے لگا تھا یہاں
ولایت یہ کیسی ہے اے بھائی جاں
ولایت میں رکھا نہ انسان کیوں
بناہی دیا تم نے رضوان کیوں
یہ اک مبتدی کا بس اشکال ہے
اتاری نہیں بال کی کھال ہے
 

حسان خان

لائبریرین
ارے میرے بھائی اسامہ اسامہ!
میں ہوں شاعری میں نرا اک پجامہ

مگر آپ کا یہ نرالا ہے دھاگہ
کرے مولا زورِ قلم اور زیادہ :)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نئی بحر ہے ماجرا ہے یہ کیا؟​
پرانی جو تھی بحر اسے کیا ہوا؟​
"فعولن فعولن فعولن فعل"​
گئے دیکھ کر میرے کس بل نکل​
جو اُس بحر میں میں نے کی مشق تھی​
تو گویا وہ سب آج ضائع ہوئی​
مگر کیا مزمل ہیں راضی ہوئے؟​
کہ اس قضیے میں وہ ہی قاضی ہوئے​
کوئی جا کے آسی سے پوچھے بھلا​
گئی بحر میری، تمھیں کیا ملا؟​
مرا مشورہ مان لیتے اگر​
جہاں دوسرے میں وہ پاتے ثمر​
چلو خیر میں بھی کوئی کم نہیں​
قلم ساتھ دے تو ذرا غم نہیں​
ذرا دیکھیے اب روانی مری​
روانی مری، خوش بیانی مری​
نئی بحر کو بھی نبھاؤں گا خوب​
لہک کر نئے گیت گاؤں گا خوب​
مگر اب ذرا دیر کو دم تو لوں​
نئی بحر ہے تھک گیا جلد ہوں​
 
ارے بھائی کاشف! نہ غمگین ہو تم
مزمل تو کہہ کر ہوئے اب ہیں گم صم
چلو آؤ سالم پہ باتیں کریں ہم
کہ ہم ڈھیٹ پن میں کسی سے نہیں کم
جو دیگر ہیں اوزان انھیں بھی نہ چھوڑیں
مزمل کے جیسوں کا دل بھی نہ توڑیں
 
مکمل علم تو نہیں، مگر بحر متقارب مثمن کے علاوہ، رمل مسدس، ہزج مسدس، سریع مسدس، خفیف مسدس اور متدارک مثمن کی مختلف صورتیں مثنوی کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔

میرا نکتہء نظر تو یہ ہے کہ مثنوی کو چند ایک بحروں تک محدود نہ کیا جائے۔
ہر دو دو مصرعوں کا ہم قافیہ (اور ہو سکے تو: ہم ردیف) ہونا بہت کافی ہے۔ بحر جو بھی ہو، ظاہر ہے، پورے فن پارے میں وہی چلے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میرا نکتہء نظر تو یہ ہے کہ مثنوی کو چند ایک بحروں تک محدود نہ کیا جائے۔
ہر دو دو مصرعوں کا ہم قافیہ (اور ہو سکے تو: ہم ردیف) ہونا بہت کافی ہے۔ بحر جو بھی ہو، ظاہر ہے، پورے فن پارے میں وہی چلے گی۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بہت خوب ، عمدہ ، دلآرا ، دلاور
ہوئے اپنے استاد اب اپنے یاور
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ارے بھائی کاشف! نہ غمگین ہو تم
مزمل تو کہہ کر ہوئے اب ہیں گم صم
چلو آؤ سالم پہ باتیں کریں ہم
کہ ہم ڈھیٹ پن میں کسی سے نہیں کم
جو دیگر ہیں اوزان انھیں بھی نہ چھوڑیں
مزمل کے جیسوں کا دل بھی نہ توڑیں

خطا کچھ مزمل کی اس میں نہ تھی​
شروع آپ نے کی تھی یہ مثنوی​
کیا آپ نے خود ہی "سالم" کا خون​
دیا آپ نے خود "تقارب" کو بھون​
یہ احقر تو سمجھا اسی کو سند​
لگا اس کے پیچھے بنا ردّ و کدّ​
مگر بار بار اب نہ کر پاؤں گا​
کہاں سے دماغ ایسا لے آؤں گا​
کیا "ڈھیٹ پن" کا جو مذکور ہے​
تو اس سے یہ عاجز بہت دور ہے​
صفت آپ ہی کی ہے یہ "ڈھیٹ پن"​
مرا تو ہے نازک، ملائم سا من​
مجھے تو ہے اب کام محذوف سے​
اسی بحرِ مقبول و معروف سے​
ہے بہتر کہ سالم کو اب چھوڑ دیں​
کہیں جو بھی، محذوف میں اب کہیں​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب ، عمدہ ، دلآرا ، دلاور
ہوئے اپنے استاد اب اپنے یاور

نہ ہو ایک ہی بحر میں مثنوی​
تو کیا مثنوی اور کیا شاعری؟​
خطا ہو گئی تھی بڑی آپ سے​
کیا ترک سالم کو جب آپ نے​
یہ عاجز تو تھا مقتدی، اور کیا​
نئی بحر میں شعر کہنے لگا​
مناسب نہیں اب پرانی وہ بحر​
ہوئی ترک ہے جب پرانی وہ بحر​
رواں ہے قلم اب نئی بحر میں​
کریں مثنوی اب اسی بحر میں​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میں نے لکھا تھا، تب وہ پوسٹ نہ ہو پایا۔ یہاں آج انٹرنیٹ بہت سست ہے۔

یہ بحر مثنوی کے لئے نئی نہیں ہے۔ اقبال کی ’’ساقی نامہ‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔

درست فرمایا۔ یہ تو مثنوی کی معروف ترین بحروں میں سے ہے۔ نئی سے مراد یہ، کہ اسامہ نے غلطی سے "سالم" کو ترک کر کے "محذوف" میں کچھ شعر لکھ دیے۔ میں سمجھا کہ مزمل صاحب کی بات مان کر وہ دونوں "پرانی" بحر چھوڑ بیٹھے اور "نئی" روش پر چل نکلے۔میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی بحر کا "نیا" انتخاب۔ ورنہ کوئی بحر نئی نہیں۔

دوسرے، آپ کے پیغام سے پہلے میں نے خود بھی یہی بات کی تھی کہ مثنوی کے لیے فی زمانہ کسی خاص بحر کا مخصوص ہونا لا زم نہیں۔ ملاحظہ ہو:

میری ایک پرانی بیاض میں بھی ایسے ہی لکھا ہے۔ یہاں تک میں آپ کی تائید کرتا ہوں۔ مگر میری ذاتی رائے میں فی زمانہ"فعولن فعولن فعولن فعولن"
میں مثنوی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی علم عروض اب اپنی افادیت تقریبا کھو چکا ہے۔ نہ استاد رہے۔ نہ لوگوں میں اس کا مذاق کہا۔ پھر نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ کچھ پتھر پر لکیر تو ہے نہیں، کہ مٹا ئی نہ جا سکے۔
 
تھوڑا سا اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے گا۔

۱۔ علم عروض بھی ہے، اس کی افادیت بھی ہے! ہاں اس علم کو سیکھنے والے کم ہو رہے ہیں؛ اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ تفصیل پھر کبھی سہی۔ خود میرا شمار ’’عروض کے باغیوں‘‘ میں ہوتا ہے، ’’عروض سے باغیوں‘‘ میں نہ سمجھئے گا۔

۲۔ استاد اب بھی ہیں، مگر اُدھر ’’استادی‘‘ کچھ زیادہ ہو گئی ہے تو اِدھر شاگردی ’’شہ گَردی‘‘ بن رہی ہے۔

وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیا تو ہو گا! تاہم روایت سے مکمل انقطاع بہر حال مستحسن نہیں ہے۔ یہ بھی طویل بحث ہو سکتی ہے، کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں۔
 
بہت خوب کاشف! خدا خوش رکھے
یہ شعر آپ کے ہم نے گویا چکھے
نہ ہو ایک ہی بحر میں مثنوی​
تو کیا مثنوی اور کیا شاعری؟​
خطا ہو گئی تھی بڑی آپ سے​
کیا ترک سالم کو جب آپ نے​
یہ عاجز تو تھا مقتدی، اور کیا​
نئی بحر میں شعر کہنے لگا​
مناسب نہیں اب پرانی وہ بحر​
ہوئی ترک ہے جب پرانی وہ بحر​
رواں ہے قلم اب نئی بحر میں​
کریں مثنوی اب اسی بحر میں​
جزاک الالٰہ الحلیم الکریم
جزاک الغفور الرحیم العظیم
 
تھوڑا سا اختلاف کرنے کی اجازت دیجئے گا۔

۱۔ علم عروض بھی ہے، اس کی افادیت بھی ہے! ہاں اس علم کو سیکھنے والے کم ہو رہے ہیں؛ اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ تفصیل پھر کبھی سہی۔ خود میرا شمار ’’عروض کے باغیوں‘‘ میں ہوتا ہے، ’’عروض سے باغیوں‘‘ میں نہ سمجھئے گا۔

۲۔ استاد اب بھی ہیں، مگر اُدھر ’’استادی‘‘ کچھ زیادہ ہو گئی ہے تو اِدھر شاگردی ’’شہ گَردی‘‘ بن رہی ہے۔

وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیا تو ہو گا! تاہم روایت سے مکمل انقطاع بہر حال مستحسن نہیں ہے۔ یہ بھی طویل بحث ہو سکتی ہے، کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں۔
یہ باتیں ہیں یارو بہت فائدے مند
رکھے مبتدی دل میں ان سب کو بند
مگر کاش یہ باتیں کی جاتیں سب
تقارب کے اندر تو بڑھتا طرب
 
Top