محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
چلو ٹھیک ہے ، میرا سر اب ہے خممجھے تو ہے اب کام محذوف سےاسی بحرِ مقبول و معروف سےہے بہتر کہ سالم کو اب چھوڑ دیںکہیں جو بھی، محذوف میں اب کہیں
رکھیں گے نہ سالم میں اب ہم قدم
چلو ٹھیک ہے ، میرا سر اب ہے خممجھے تو ہے اب کام محذوف سےاسی بحرِ مقبول و معروف سےہے بہتر کہ سالم کو اب چھوڑ دیںکہیں جو بھی، محذوف میں اب کہیں
بہت خوب کاشف! خدا خوش رکھے
یہ شعر آپ کے ہم نے گویا چکھے
جزاک الالٰہ الحلیم الکریم
جزاک الغفور الرحیم العظیم
بہت خوب ہیں آپ کافی ذہینواملی لھم ان کیدی متین۔
بڑی خوب بات آپ نے یہ کہی ہےیہاں مبتدی بھی ہیں، استادبھی ہیںنہیں ہیں جو شاعر تو وہ فلسفی ہیںجو یہ بھی نہیں وہ تماشائی تو ہیںنہیں صاحبِ فن، مگر بھائی تو ہیںنہیں غم اگر کوئی کچاّ ابھی ہےکہ کچیّ بھی ہو، شاعری، شاعری ہےتو خرم نہ ڈرنا، اناڑی اگر ہوبنو گے کھلاڑی، جو لکھتے رہے، تواسامہ سے سیکھو کہ کیا ہے ڈھٹائیکہ ڈھیٹوں کا سردار ہے میرا بھائیمگر پھر بھی لگتا ہے پیارا اسامہجگر کا ہے ٹکڑا، دلارا اسامہ
اگر اذن ہو تو میں بولوں حضور؟یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی
ہر اک مثنوی میں کہانی کہیں
کہانی ہر اک کی زبانی کہیں
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہاں سے ہی آگے بڑھاؤ کوئی
فعولن فعولن نبھاؤ کوئی
آگے بڑھنے سے قبل کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی --- اِلخ۔
بہت خوب ہے یہ نئی شاعریکہ محفل میں بننے لگی مثنویمگر پہلے حمد و ثنا ہم کریںکہ تعریفِ ربّ العُلیٰ ہم کریںپڑھیں حمد کے بعد نعتِ رسولﷺکریں ذکر یوں ہم صفاتِ رسولﷺجو لازم ہے اس طرح ملزوم ہونئی مثنوی یوں ہی منظوم ہوکسی ملک میں ایک تھا بادشاہہمارا تمہارا خدا بادشاہ
خدابادشاہ تو ہے حق کا خدامگر وہ زمانے کا تھا باد شاہوہ انساں کو انساں کہاں جانتا تھاوہ دنیا میں خود کو خدا مانتا تھازمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھابہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا
ارے باتوں باتوں میں یہ کیا کیا
تقارب مرا اب نہ سالم رہا
اسے سلطنت پر تھا بے حد غرورخدابادشاہ تو ہے حق کا خدامگر وہ زمانے کا تھا باد شاہوہ انساں کو انساں کہاں جانتاوہ دنیا میں خود کو خدا مانتازمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھابہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا
پھر بھلا ہو محمد اسامہ سَرسَری کا کہ انھوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی "بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق" والی عادت کو دہراتے ہوئے اس دھاگے کا آغاز کر ڈالا اور بشکلِ مثنوی درجن بھر سے زائد اساتذہ اور طلباء کو دعوت نامہ بھیج ڈالا (میرا نام پہلے ڈالا، پھر حرفِ غلط کی طرح مٹایا)۔
علم مجھ کو نہیں ہے، کیا ہے مثنوی؟
پھر اک دن یہ قصہ اچانک ہوااسے سلطنت پر تھا بے حد غرور
کہ پاس اس کے تھے خوب حور و قصور
فقیروں کی فریاد سنتا نہ تھا
غریبوں کی روداد سنتا نہ تھا
رعیت کا کرتا نہ بالکل خیال
نہ تھا اس روش پر اسے کچھ ملال