الف عین

لائبریرین
یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی
ہر اک مثنوی میں کہانی کہیں
کہانی ہر اک کی زبانی کہیں
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے ہی آگے بڑھاؤ کوئی
فعولن فعولن نبھاؤ کوئی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
چلو میں سناتا ہوں باتیں پُرانی​
ہے تھوڑا فسانہ ہے تھوڑی کہانی
جہاں تک مجھے یادہے میں سنا دوں
وہ بچپن کے دن اور پھر نوجوانی
غریبوں کی بستی میں فاقہ کشی تھی
تھے مفلس وہ سارے بہت بے بسی تھی
عجب زندگی تھی عجب تھی کہانی
نا کھانے کو کچھ تھا نا پینے کو پانی
مگر سب تھے مخلص بہت ہی تھے پیارے
بنے رہتے ہر وقت سب کے سہارے​
ہے جاری کہانی سُہانی ہماری​
چلا آؤں گا جب بھی آئے گی باری​
 
یہاں مبتدی بھی ہیں، استادبھی ہیں​
نہیں ہیں جو شاعر تو وہ فلسفی ہیں​
جو یہ بھی نہیں وہ تماشائی تو ہیں​
نہیں صاحبِ فن، مگر بھائی تو ہیں​
نہیں غم اگر کوئی کچاّ ابھی ہے​
کہ کچیّ بھی ہو، شاعری، شاعری ہے​
تو خرم نہ ڈرنا، اناڑی اگر ہو​
بنو گے کھلاڑی، جو لکھتے رہے، تو​
اسامہ سے سیکھو کہ کیا ہے ڈھٹائی​
کہ ڈھیٹوں کا سردار ہے میرا بھائی​
مگر پھر بھی لگتا ہے پیارا اسامہ​
جگر کا ہے ٹکڑا، دلارا اسامہ​
بڑی خوب بات آپ نے یہ کہی ہے
کہ کچی بھی ہو، شاعری شاعر ی ہے
دیے بن میں داد اس پہ رہ پاتا کیوں کر
یہ ہے سچ تو سچ سے میں کتراتا کیوں کر ;)
 
یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی
ہر اک مثنوی میں کہانی کہیں
کہانی ہر اک کی زبانی کہیں
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہاں سے ہی آگے بڑھاؤ کوئی
فعولن فعولن نبھاؤ کوئی
اگر اذن ہو تو میں بولوں حضور؟
کروں ہمت، اور لب میں کھولوں حضور؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
یہ تمہید تو اب بہت ہو چکی
کوئی ابتدا بھی تو کر دو بھئی --- اِلخ۔
آگے بڑھنے سے قبل کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔

علامہ اسامہ کے فعولن والے پچھلے دھاگے کا سب نے خوب حظّ اٹھایا تھا۔ جہاں سینئر شاعر حضرات نے تاک تاک کر نشانہ بازی کی، وہیں نئے شعرا میں بحر و وزن کا مذاق پیدا ہوا۔ مگر میرے خیال میں اس نئے دھاگے کو شروع کرنے کا مقصد پچھلے دھاگے سے بہت مختلف ہے۔ اب کی بار ارادہ محض تفنن طبع کا نہیں، بلکہ اردو ادب کو ایک "سچ مچ کی مثنوی" دینے کا ہے۔

بات کی ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ محمد یعقوب آسی بھائی نے مثنوی کے معدوم ہوتے فن کا نوحہ پڑھا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ صنف پھر سے زندہ ہو۔ میں ان سے متفق تھا۔ میں نے رائے پیش کی کیوں نہ مثنوی لکھنے کے ایک "مشترکہ" منصوبے پر کام کیا جائے۔ آسی بھائی سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ان کی نظر میں شاعر کی تخلیق کے عمل میں شراکت داری قابلِ عمل نہیں۔ ان کے دلائل اور ماضی کے کچھ تجربات کے بارے میں جان کر میں خود بھی آگے بڑھنے سے رک گیا۔ پھر بھلا ہو محمد اسامہ سَرسَری کا کہ انھوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی "بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق" والی عادت کو دہراتے ہوئے اس دھاگے کا آغاز کر ڈالا اور بشکلِ مثنوی درجن بھر سے زائد اساتذہ اور طلباء کو دعوت نامہ بھیج ڈالا (میرا نام پہلے ڈالا، پھر حرفِ غلط کی طرح مٹایا)۔

آج کی شام تو ہم دل لگی ہی میں لگے رہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اب اگر حقیقت میں کوئی کام کرنا ہے تو محض دل لگی سے کام نہ چلے گا۔ اور بنا تیاری کیے اور تفصیلات طے کیے آگے بڑھنے سے آخر میں کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ایک رونق کا باعث یہ دھاگا شاید پھر بھی بنا رہے!

تو پھر آپ لوگوں کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اگر آپ لوگوں نے اس کام کو قابلِ عمل سمجھا تو مزید آگے بڑھیں گے۔ ظاہر ہے پھر کہانی کا انتخاب، پلاٹ کی بنت، پھیلاؤ اور اس جیسے دیگر عوامل پر بحث کی جائے گی۔ اگر آپ اس کام کو قابلِ عمل نہیں سمجھتے تو چاند ماری تو ہو ہی رہی ہے!

الف عین، محمد خلیل الرحمٰن، مزمل شیخ بسمل
 
بہت خوب ہے یہ نئی شاعری​
کہ محفل میں بننے لگی مثنوی​
مگر پہلے حمد و ثنا ہم کریں​
کہ تعریفِ ربّ العُلیٰ ہم کریں​
پڑھیں حمد کے بعد نعتِ رسولﷺ​
کریں ذکر یوں ہم صفاتِ رسولﷺ​
جو لازم ہے اس طرح ملزوم ہو​
نئی مثنوی یوں ہی منظوم ہو​
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ​
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب ہے یہ نئی شاعری​
کہ محفل میں بننے لگی مثنوی​
مگر پہلے حمد و ثنا ہم کریں​
کہ تعریفِ ربّ العُلیٰ ہم کریں​
پڑھیں حمد کے بعد نعتِ رسولﷺ​
کریں ذکر یوں ہم صفاتِ رسولﷺ​
جو لازم ہے اس طرح ملزوم ہو​
نئی مثنوی یوں ہی منظوم ہو​
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ​
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ​

خدابادشاہ تو ہے حق کا خدا​
مگر وہ زمانے کا تھا باد شاہ​
وہ انساں کو انساں کہاں جانتا تھا​
وہ دنیا میں خود کو خدا مانتا تھا​
زمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھا​
بہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
خدابادشاہ تو ہے حق کا خدا​
مگر وہ زمانے کا تھا باد شاہ​
وہ انساں کو انساں کہاں جانتا تھا
وہ دنیا میں خود کو خدا مانتا تھا
زمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھا
بہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا
خطا اک اسامہ نےکل کی جو تھی​
وہی اک خطا آپ سے ہو گئی​
ارے باتوں باتوں میں یہ کیا کیا
تقارب مرا اب نہ سالم رہا
 
خدابادشاہ تو ہے حق کا خدا​
مگر وہ زمانے کا تھا باد شاہ​
وہ انساں کو انساں کہاں جانتا​
وہ دنیا میں خود کو خدا مانتا​
زمیں کے خزانے سنبھالے ہوے تھا​
بہت وحشی گنڈے وہ پالے ہوے تھا​
اسے سلطنت پر تھا بے حد غرور
کہ پاس اس کے تھے خوب حور و قصور
فقیروں کی فریاد سنتا نہ تھا
غریبوں کی روداد سنتا نہ تھا
رعیت کا کرتا نہ بالکل خیال
نہ تھا اس روش پر اسے کچھ ملال
 
پھر بھلا ہو محمد اسامہ سَرسَری کا کہ انھوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی "بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق" والی عادت کو دہراتے ہوئے اس دھاگے کا آغاز کر ڈالا اور بشکلِ مثنوی درجن بھر سے زائد اساتذہ اور طلباء کو دعوت نامہ بھیج ڈالا (میرا نام پہلے ڈالا، پھر حرفِ غلط کی طرح مٹایا

 
الف عین! آجاؤ ، آسی! بھی آؤ
مزمل! چلے آؤ کاشی! بھی آؤ
کہاں ہو منیب! اور کہاں ہو اے احمد!
کہاں ہو اے منصور آفاق! و امجد!
اے فاتح! چلے آؤ دیکھو یہ کیا ہے
اے یازر! اسامہ نظر مانگتا ہے
مغزل!! ، حفیظ! اور امجد! بھی آؤ
زبیر! اور محمود، اسد کو بلاؤ
کہاں ہو تم احسن! یہاں جلد آؤ
ظہیر ، ایس ، عاطف کو ہمراہ لاؤ
اے ابرار! آؤ سلیمان! آؤ
حمید! آؤ تم اور عمران! آؤ
کہاں ہو اے خرم!، کہاں ہو اے وارث!
ہے محفل میں دم تو تمھارے ہی باعث
جو باقی ہیں شاعر ، انھیں بھی ہے دعوت
چلے آئیں ، کرلیں یہاں سب شراکت
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
الف عین! آجاؤ ، آسی! بھی آؤ
مزمل! چلے آؤ کاشی! بھی آؤ --- اِلخ
مگر کیا ہوئیں وہ جوتھیں میری باتیں؟​
اگر ہم نہ تیاری پہلے کریں گے​
بتاؤ کہاں مثنوی کہہ سکیں گے​
اگر متفق میرے نکتوں سے سب ہیں​
تو پہلے ذرا چار باتیں تو کر لیں​
چلو اب لکھو اک پرائیویٹ دھاگا​
کہ نمٹائیں جس میں کہانی کا قصہ​
اسامہ تمھیں کو یہ کرنا پڑے گا​
توقع پہ پورا اترنا پڑے گا​
نیا ہوں مجھے لوگ کم جانتے ہیں​
نہیں مجھ کو سب لوگ پہچانتے ہیں​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
علم مجھ کو نہیں ہے، کیا ہے مثنوی؟
زمیں آسمانوں کا ہے بادشاہ​
وہ سارے زمانوں کا ہے بادشاہ​
ہمارا سہارا بڑی شان والا​
خدا ہے ہمارا بڑی شان والا​
محمد خدا کے ہیں پیارے رسول​
جو سیرت سے صورت سے دونوں سے پھول​
میں مسلم ہوں اس بات کو جانتا ہوں​
میں ان کوخدا کا نبی بانتا ہوں​
جولکھنے لگاہوں یہی مثنوی ہے​
جو کہنے لگا ہوں یہی مثنوی ہے​
ہو ناول ،کہانی ، ہو قصہ سخن ور​
ادب کا مگر ہو ،وہ حصہ سخن ور​
مزہ شاعری کی روانی میں آئے​
وہ انداز ہو جو کہانی میں آئے​
ارے شاعری میں روانی بنائیں​
نظم کے ہی اندر کہانی سنائیں​
 
اسے سلطنت پر تھا بے حد غرور
کہ پاس اس کے تھے خوب حور و قصور
فقیروں کی فریاد سنتا نہ تھا
غریبوں کی روداد سنتا نہ تھا
رعیت کا کرتا نہ بالکل خیال
نہ تھا اس روش پر اسے کچھ ملال
پھر اک دن یہ قصہ اچانک ہوا
عجب واقعہ اک بھیانک ہوا
 

الف عین

لائبریرین
سحر ایک دن جب وہ سو کر اٹھا
تو آئینہ دیکھا، جو معمول تھا
(کسی اور کو دیکھ لیتا اگر
برا دن ہی جاتا جو اس کا گزر
تو اس کو ہی الزام دیتا تھا وہ
اسی کو برے نام دیتا تھا وہ
تو ترکیب اس کی نکالی یہ ایک
کہ خود کو ہی دیکھے، رہے ِ ٰ َفالِ نیک)
تو حیرت کا اس کی ٹھکانہ نہ تھا
جو شیشے میں دیکھا تو چہرہ نہ تھا!!!
 
Top