جب قرعہ فال میرے نام دال دیا گیا ہے کہ تقسیم کروں تو محض ایک مشورہ، تقسیم کار کی نوعیت کا
[quote="امجد علی راجا
1۔ بادشاہ وزیر کی باتیں سن کر آگ بگولہ ہو گیا، داروغہ زندان کو حکم دیا گیا کہ اس گستاخ کو قید خانے کے اندھیروں کی نظر کر دیا جائے، اسے موت سے بھی اذیت ناک زندگی دی جائے۔ ایسا ہی ہوا۔
2۔بادشاہ کے مظالم بڑھتے گئے، لوگوں کی بددعائوں میں اضافہ ہوتا گیا، اور ایک دن ۔ ۔ ۔ ایک دن سب کی دعائیں قبول ہوئیں اور دوسری سلطنت کے راجہ نے حملہ کردیا۔ فوجی مرنے لگے، نئی بھرتیوں کے لئے کوئی تیار نہ ہوا کہ اس ظالم بادشاہ کا تخت و تاج بچانے کے لئے ہم اپنی جان قربان نہیں کر سکتے (اس بات کا ذکر لازمی ہے)۔
3۔راجہ نے بادشاہ کو شکست دی، اور اسے جیل میں قید کردیا۔ بادشاہ نے وہاں بھوک دیکھی، پیاس دیکھی، تکلیف دیکھی، بے بسی اور لاچاری نے اس کا سارا غرور خاک میں ملا دیا۔ سارا تکبر اور غرور زمین پر آ گرا۔ اس کے اندر کا انسان جاگا، دوسروں کا دکھ درد محسوس کرنے لگا، ان کی مدد کرنے لگا، اسے بادشاہت کی لالچ نہ رہی بلکہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا رہا۔
4۔لوگوں نے بادشاہ میں اتنی تبدیلی دیکھی تو وہ بادشاہ کی قدر کرنے لگے، دل سے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس سے نفرت کرنے والے اس کی وفادار اور جاں نثار بن گئے۔ سب نے مل کر بغاوت کا فیصلہ کیا، اور بادشاہ کو اس کا کھویا ہوا منصب واپس دلانے کی قسم کھائی۔
5۔بغاوت کا علم بلند ہوا، اور بادشاہ کے وفادار جیل توڑ کو بادشاہ سمیت فرار ہو گئے۔ ایک جنگل ان کا ٹھکانا بنا، کچھ ساتھی بادشاہ کے ساتھ رہ گئے اور باقی اپنے اپنے علاقوں کی طرف لوٹ گئے تا کہ بادشاہ کے لئے رعایا کی ہمدردی حاصل کرسکیں، اور انہیں اپنے مقصد سے شامل کر سکیں۔
مختلف علاقوں سے لوگ چھپ چھپ کر ملنے آنے لگے اور یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ بادشاہ پہلے جیسے نہ تھا، وہ ایک اچھا انسان تھا، جسے اپنے بادشاہ ہونے کا گھمنڈ نہ تھا بلکہ اپنے سپاہی ہونے پر فخر تھا۔
6۔لوگ ساتھ ملتے گئے، اور کارواں بنتا گیا ۔ ۔ ۔ پھر آسمان نے عوام کی یکجہتی کی طاقت کا وہ نظارہ کیا جس نے راجہ کی حکومت کو تہس نہس کردیا۔ بہت سے جاں نثاروں نے اپنی جان قربان کی لیکن بادشاہ کو اس کا منصب واپس دلوا دیا۔
اس کے بعد بادشاہ نے اس ذمہ داری سے حکومت کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام کی ترقی کے لئے بہت اقدامات کئے گئے، تعلیم کے فروغ کے لئے مدارس بنوائے گئے، طب خانے بنوائے گئے، مفت تعلیم، مفت علاج، روزگار کے بھرپور مواقع۔ (یہاں ترقی کی جو جو بات دل میں آئے لکھیں، خوب لکھیں)
7۔اس مقام پر آکر آپ سب کو وزیر یاد آ رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟
بادشاہ کو جب جیل میں ڈالا گیا تو وزیر نے ہی اسے سہارا دیا، بادشاہ نے اس کی ہر بات کو تسلیم کیا اور اس کے رہنمائی میں خود کو سدھارا۔ تحریک میں وزیر پیش پیش رہا، جنگ میں اپنی آنکھوں سے بھی محرورم ہوگیا، اور پتہ ہے فتح کے بعد بادشاہ نے جب وزیر کو وزیر اعظم بنایا تو کیا کہا؟
تم نے اپنی آنکھیں کھو دیں لیکن میری آنکھیں کھول دیں
[/quote]
اس طرح سات حصے تو ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں سب سے فعال اور زود گو تو
امجد علی راجا ہیں اور @محمداسامہ سَرسَری۔ کوئی اور اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہے تو پہلے اطلاع دے دے۔ورنہ یہ دونوں ہی ایک کے بعد ایک حصہ لے لیں۔
محمد خلیل الرحمٰن کسی حصے پر کام کرنا چاہیں تو اطلاع دے دیں۔