ہماری ایک ٹیچر ہوا کرتی تھیں جن کا بہت رعب و دبدبہ تھا اور بچے ان سے واقعتاً تھر تھر کانپتے تھے۔ فزکس پڑھاتی تھیں اور بہترین انداز میں پڑھاتی تھیں۔ ڈسپلن کے معاملے میں انتہائی سخت تھیں جماعت میں بھی اور جماعت سے باہر بھی۔ ان کا پیریڈ شروع ہوتے ہی ساری کلاس باجماعت درود شریف اور جل تُو جلال تُو کا ورد کرنے لگتی تھی۔ کانونٹ میں پڑھنے اور پھر تمام زندگی وہیں پڑھانے کی وجہ سے انتہائی نستعلیق انگریزی میں پنجابی سٹائل (گرجدار انداز) میں جو ڈانٹتی تھیں تو کمزور دل طلبا تو بس سمجھیں بے ہوش ہوتے ہوتے رہ جاتے تھے۔ بے ہوش اس لئے نہیں ہوتے تھے کہ ہوش آنے کے بعد ڈانٹ کی ڈوز ڈبل ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔
لیکن ساتھ ہی بہت پیار کرنے والی بھی تھیں۔ سب کے بارے میں باخبر رہتی تھیں اور ہائی سکول میں آ کر بچوں کے لئے اپنی محبت کو ظاہر بھی کر دیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ نویں دسویں میں ہر پارٹی اور فنکشن میں بچے ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھان کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کہا کرتے تھے ۔
ایک پارٹی میں ٹائٹلز دیتے ہوئے ہم نے ان کو آئی جی جیلز بنا دیا جسے باقی سب کے ساتھ ساتھ انہوں نے خوب انجوائے کیا۔ پھر ہماری ہر پارٹی کا ایک جز "خبریں" ضرور ہوا کرتا تھا جس میں ہم ٹیچرز، بچوں اور سکول سے متعلق مزاحیہ خبریں پڑھا کرتے تھے۔ اس میں بھی ان کے بارے میں سب سے زیادہ خبریں ہوتی تھیں۔ بہرحال اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ میں نے اپنا بک ریک تبدیل کیا اور کتابوں کی نئی جگہ پر منتقلی کے دوران کچھ پرانے پیپرز ہاتھ لگے جس میں ایسے ہی کسی خبرنامے کی چند پرچیاں موجود ہیں۔ ان میں سے بھی دو تین میں انہی ٹیچر کا ذکر ہے۔ بہت سی خوشگوار یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں اور دل چاہا کچھ یہاں بھی شیئر کروں پھر
ابن سعید بھائی نے بھی کہا
۔ اور سب سے بڑی بات
عائشہ عزیز کو مثال دے کر قائل کرنا تھا کہ اگر مجھ جیسی مصروف ، سست اور غیر ادیب بندی کچھ ٹائپ کر سکتی ہے تو عائشہ تو ماشاءاللہ اتنی ذہین، قابل اور سند یافتہ لکھاری ہیں۔ اس لئے جلدی سے لکھیں جس کی فرمائش کی جا رہی ہے۔
اب خبر:
- ہمارے باخبر ذرائع نے خبر دی ہے کہ مسز شفیق کی آواز اب کانونٹ کی حدود سے نکل کر ملک بھر میں گونجے گی۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایک پنجابی ایکشن فلموں کے ایک مشہور ڈائریکٹر نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ اداکار سلطان راہی کی وفات کے بعد فلم انڈسٹری میں صحیح معنوں میں کوئی گرجدار آواز باقی نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے مسز شفیق سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی آنے والی فلم کے لئے 'پلے بیک بڑک' کی ریکارڈنگ کرائیں۔ تاحال درخواست زیرِ غور ہے لیکن امید ہے کہ یہ معاہدہ ہو جائے گا۔
- کمپیوٹر ٹیچر سر جمیل نے حسبِ معمول اس ٹرم میں بھی کمپیوٹر سائنس کے پرچے کافی تسلی سے چیک کرنے کے بعد کلاس ٹیچرز کو واپس کئے۔ اس تسلی میں رزلٹ سمبٹ کروانے کی آخری تاریخ سر پر آ پہنچی اور ٹیچرز نے سر جمیل کے آفس کے چکر لگا لگا کرآفس کا ڈور میٹ ہی گھِسا ڈالا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ انہوں نے دسویں جماعت کے پرچے سب سے پہلے چیک کئے اور ٹیچرز کے تقاضا کرنے سے پہلے ہی ان کو مع نمبروں کی فہرست کے لوٹا بھی دیئے۔ جس کی وجہ کافی تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوئی ہے کہ سر جمیل کے آفس تک بھی مسز شفیق کی جلالی بڑک کی گونج پہنچ چکی ہے۔
- ٹرم رزلٹ کے بعد ان دنوں سکول کے سٹوڈنٹس کے سینئر ایریا میں امن و سکون کا دور دورہ ہے۔ کل سے شروع ہونے والی چھٹیوں کی ٹھنڈی میٹھی ہوائیں موسم کو مزید خوشگوار بنا رہی ہیں۔ جبکہ ٹیچرز کالونی میں پرائمری اور کہیں کہیں ہائی سیکشن میں سٹاف میٹنگ کی لُو چلنے کے آثار ہیں۔ مزید برآں نویں اور دسویں جماعت کے علاقے میں سمر کیمپ کا طوفان آنے کی توقع ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مسز شفیق کی روزانہ دو گھنٹے کی کلاس میں گرج چمک کے ساتھ بجلی پڑنے کا بھی امکان ہے۔ طلبا متوقع طوفان کی تیاری نہایت خشوع و خضوع سے درود شریف اور چاروں قُل پڑھ کر کریں گے۔