محمد وارث
لائبریرین
1998 کے ورلڈکپ میں فٹبال کھیلنے کا شوق ہوا۔ قریبی گراؤنڈ میں ایک بھائی جان سکھاتے تھے، وہاں چلا گیا۔ میری قسمت کہ اس دن ہیڈر مارنا سکھا رہے تھے۔ میری جانب بال کک کرتے ہوئے زیادہ اٹھا دی۔ بڑی مشکل سے بال کے نیچے ایڈجسٹ ہوا، اور بال سیدھی آ کر ناک کی ہڈی پر لگی۔ وہ دن اور آج کا دن، دوبارہ فٹبال سیکھنے کا شوق نہیں ہوا۔ کھیلی ضرور کچھ دفعہ۔
یوں تو پاکستانی بچوں اورنوجوانوں کی اوور ویلمنگ اکثریت کے مطابق میں بھی کرکٹ ہی کھیلتا رہا لیکن "سیزن" کے ساتھ ہاکی اور فٹبال بھی کھیلتا تھا۔میں نے فٹبال بچپن میں کافی کھیلا بلکہ کرکٹ کا بعد میں پتا چلا
اَسی کی دہائی میں پاکستانی ہاکی ٹیم عروج پر تھی سو ہمارا کرکٹ کھیلنے والا ٹولہ اولمپکس یا ہاکی ورلڈ کپ کے دوران ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ دونوں ٹیموں میں کُل ہاکیوں کی تعداد دو یا تین ہوتی تھی اور باقی کھلاڑی درختوں سے توڑی یا دوسری لکڑیوں سے کھیلتے تھے، لیکن دو تین دن میں ہی سارے چاؤ اتر جاتے تھے کہ اکثر "ہاکیوں" کی زور دار ہٹیں ٹخنوں یا پنڈلیوں پر پڑتی تھیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی تھیں۔
1986ء کے فٹبال کا فائنل پی ٹی وی پر براہِ راست دکھایا گیا تھا، پھر اس میں میرا ڈونا کا متنازع گول، کافی چرچا ہوا تو ہم نے فٹبال کھیلنی شروع کر دی۔ دوسرے لڑکے تو اچھا کھیلتے تھے لیکن میرے ساتھ یہ ہوتا تھا کہ "جوشِ ہِڈ" کےچکر میں پاؤں کا انگوٹھا تڑوا بیٹھتا تھا۔ ہِڈ، ہِٹ کا پنجابی اور مقامی تلفظ تھا جیسے "اوئے ہڈ مار" سو جب پانی سے لتھڑے (گراؤنڈ کے ساتھ جوہڑ تھا )بھاری بھر کم فٹبال کو ننگے پاؤں سیدھی انگوٹھے کی ہڈ مارتا تھا تو انگوٹھا بیچارہ جواب دے جاتا تھا۔ سوجھےہوئے انگوٹھے کے ساتھ دوڑا بھی نہیں جاتا تھا سو بادِلِ نخواستہ گول کیپنگ شروع کر دی۔