قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیفی

محفلین
فاروق سرور صاحب !

مجھے سچ سچ بتائیں کہ کیا آپ میرے پیغامات پڑھتے ہیں یا کوئی آپ کو زبانی سناتا ہے اور میرے سوال گول کر جاتا ہے۔ مجھے کچھ کچھ شک ہوتا ہے۔

آپ براہِ کرم میری پوسٹ کو پڑھیں اور اس کے مطابق جواب دیں۔ میں آپ سے کب کہہ رہا ہوں کہ آپ بخاری و مسلم پر ایمان لائیں یا دوسری کتبِ حدیث پر۔ آپ کو اور آپ کے اکابرین کو آپکا مذہب مبارک

آپ صرف میرے سوال کا جواب دے دیں۔ اگر نہیں دے سکتے تو صاف کہہ دیں ۔۔ کیوں لوگوں کو الجھائے بیٹھے ہیں۔
 
جناب فاروق سرور صاحب یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ منکر حدیث نہیں بلکہ منکر روایات ہیں تاہم آپ کے اس موقف کے بعد چند مزید اشکالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں امید ہے کہ آپ ان کے بھی جوابات مرحمت فرمائیں گئے
1۔ درست احادیث جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں کہاں پائی جاتی ہیں کوئی ایک کتاب درست احادیث کی موجود ہے یا وہی مختلف کتب روایات ہی ان کا تنہا ماخذ ہیں۔کیوں کہ ظاہر ہے آپ ان درست احادیث کے عینی گواہ تو ہیں نہیں اب تک آپ نے صرف ایک ہی درست حدیث کا پتہ دیا ہے اور وہ یہ ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔
2۔درست حدیث کی کسوٹی آپ کے نزدیک محض مذکورہ بالا حدیث ہے جبکہ اوپر خرم نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا جس کے درست ہونے کی تصدیق آپ فرما چکے ہیں
صحیح بخاری کے مختلف نسخوں میں روایات کی ترتیب و تعدادِ روایات میں فرق ہے اس لئے ان کے نزدیک اس بات کی جانچ کی ضرورت ہے کہ ہر حدیث صرف اس بنیاد پر صحیح نہ مان لی جائے کہ وہ بخاری میں منقول ہے بلکہ اس کی جانچ علم حدیث کی رو سے ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات وہ صحیح طریقہ سے بیان نہیں کر پاتے
یہ کچھ متضاد بات لگتی ہے اس کی ذرا وضاحت فرمائیے اور یہ بھی فرمائیے کہ یہ خرم کا بیان کردہ علم حدیث وہی کتب روایات والا علم حدیث ہے یا کچھ اور۔
3۔اوپر سیفی صاحب نے ایک نکتہ اٹھایا تھا جس کی وضاحت آپ نے ابھی تک نہیں فرمائی یعنی
خیر آپ نے ایک بات اور لکھی کہ آپ مفتی بن باز اور دوسرے شاہ فیصل کے ذاتی معالج بریگیڈئیر ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القران کی گواہی پر ایک حدیث پر ایمان لے آئے۔ اب موٹی عقل والا بھی یہ جانتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے یہ حدیث نبی علیہ السلام سے خود نہیں سنی۔ بلکہ انکے اساتذہ نے جن سے روایت کی اور انھوں نے جن سے سنی ان سب کی کڑیاں انھی ائمہ حدیث تک جا پہنچتی ہیں جن کو آپ جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اب ائمہ حدیث جن سے روایت چلی آرہی ہے وہ تو جھوٹے نعوذباللہ اور جناب یہ دو حضرات سچے کہ ان سے فاروق خان‌ صاحب نے حدیث سن لی۔
بات کچھ یوں ہے کہ مروجہ(بقول آپ کے) کتب روایات ایک مخصوص وضع کردہ نظام کےتحت جمع کی گئیں ہیں جن میں روایات اور سلسلہ راویان کو بڑی اہمیت حاصل کی اور ان ہی کتب روایات میں بیان کردہ ہر حدیث ہم تک اس سے ملتے جلتے طریقہ کارسےپہنچی ہیں جن کہ تحت اب آپ احادیث یا روایات کا ڈیٹا بیچ بنا نے کا سوچ رہے ہیں یعنی
الاحاديث القدسيۃ ، الحاديث المتواترۃ ، الاحاديث المرفوعۃ ، الاحاديث المقطوعۃ ، الاحاديث الموقوفۃ کا واضح انتخاب کیا جاسکے۔ مجھے آپ کا آئیڈیا بہت پسند آیا کہ پہلے اس کو مکمل کرلیتے ہیں اور اس میں گنجائش رکھتے ہیں کہ ایک فارم ایسا مہیا کیا جائے جس میں دو مسلمان اپنی گواہی پر اور کسی مصدقہ عالم کی گواہی کے ساتھ، کسی حدیث کے بارے میں اپنا خیال درج کرسکیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ایک ہی روایت کس فرقہ کے لئے قابل قبول ہے، کس کے لئے ضعیف ہے اور کس کے لئے صحیح ہے۔
بلکہ وہ طریقہ جس کے تحت احدیث بخاری شریف یا مسلم شریف میں جمع ہیں وہ کہیں زیادہ ہمہ گیر اور بہتر ہےآج بھی کوئی شخص احادیث کی پرکھ کا کام اسما الرجال اور اسی مروجہ طریقہ کے زریعے کرسکتا ہے۔(ویسے یہ بات تو کچھ یونہی سی لگتی ہے یعنی صاحب اگر وہ مسلمان ہیں تو ضروری تو نہیں کہ وہ احادیث کے صحیح اور غلط ہونے سے بھی واقف ہوں یعنی یہ تو کچھ ایسی ہی بات ہو گئی کہ مجھے بخار ہے لیکن میں پیناڈول اس وقت تک نہ کھاوں گا جب دو مسلمان اور ایک ڈاکٹر پیناڈول کے پراثر اور دافع بحار ہونے کی گواہی نہ دیں۔ یعنی مسلمانیت الگ چیز اور اور علم حدیث اور علم طب حاصل ہونا الگ چیز )
4۔فرض کیجئے میرے پاس ایک نسخہ احادیث کا ہے جس میں ساری احادیث قرآن کی تائید کرتی ہیں اور مخالف قرآن نہیں‌ تاہم اس میں درج کردہ ساری احادیث اسناد کے بغیر ہیں یعنی اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ حدیث کن کن راویوں سے روایات ہو کر مجھ تک پہنچی ہے اب تک میں جناب فاروق سرور خان صاحب کے فارمولے کے تحت اس کتاب کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا کہ اچانک یہ پتہ چلا کہ یہ نسخہ تو جعلی ہے اور فلاں مفسد نے یہ جھوٹی احادیث ساری کی ساری کچھ خاص مقاصد کے تحت گھڑ لی تھیں اب آپ بتائیے کہ اس کا کیا حل کہ کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوجاتی کہ ضو القران کہ ساتھ احادیث کی تصدیق کا کچھ اور بھی طریقہ ہونا چاہیے اور یہ کہ نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کا مذکورہ بالا فرمان صحیح احادیث کی شناخت کے دیگر طریقوں کی طرح ایک اہم طریقہ ہے نہ کہ اصول واحد؟
4۔ صحیح احادیث کے لیے آپ امریکا میں اور آپ کے بھائی کراچی میں کچھ کوششیں فرما رہے ہیں کیا یہ بہتر نہ ہو کہ آپ اب تک کی جمع کردہ صحیص احادیث سے لوگوں کو بھی باخبر کردیں اور ساتھ ساتھ صحیح احادیث کی شناخت کے لیے جو طریقہ کار آپ نے وضع کیا ہے اس سے بھی آگاہ کردیں؟ یا آپ صرف اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ حدیث کی روشنی میں کتب روایت سے احادیث جمع کر رہے ہیں؟
 
فاروق سرور صاحب !

مجھے سچ سچ بتائیں کہ کیا آپ میرے پیغامات پڑھتے ہیں یا کوئی آپ کو زبانی سناتا ہے اور میرے سوال گول کر جاتا ہے۔ مجھے کچھ کچھ شک ہوتا ہے۔

آپ براہِ کرم میری پوسٹ کو پڑھیں اور اس کے مطابق جواب دیں۔ میں آپ سے کب کہہ رہا ہوں کہ آپ بخاری و مسلم پر ایمان لائیں یا دوسری کتبِ حدیث پر۔ آپ کو اور آپ کے اکابرین کو آپکا مذہب مبارک

آپ صرف میرے سوال کا جواب دے دیں۔ اگر نہیں دے سکتے تو صاف کہہ دیں ۔۔ کیوں لوگوں کو الجھائے بیٹھے ہیں۔

سرکار، پھر کن کتب پر ایمان کی بات ہوری ہے جن کا میں منکر ہوں؟ واضح کیجئے اور اپنا اختلاف واضح الفاظ میں بیان کیجئے، اور ان کتب کی لسٹ عنایت فرمادیجئے جن پر آپ کا ایمان ہے اور آپ مجھے منکر پاتے ہیں ۔

بات ساری یہ ہے کہ آپ کو خود بھی پتہ نہیں کہ آپ کیا کہہ رہےہیں۔ آپ کیا منوانا چاہتے ہیں اور کیا مانتے ہیں۔ میں تو کئی بار لکھ چکا کہ کیا یقین کرتا ہوں یا نہیں اب ذرا آپ کے بارے میں بھی پتہ چلے کہ آپ کا کیا ایمان ہے؟۔

میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ اور آپ کے ایک مزید ساتھی کسی روایت کو قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ روایت درست ہے، یہ اسناد ہیں، یہ اسم الرجال ہیں ، ضوع القرآن پر پوری اترتی ہے اور درست یا غلط ہونے کا گناہ آپ کے سر تو میں ماننے کو تیار ہوں‌، پھر آپ کا جھگڑا کیا ہے، آپ کیا منوانا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟ وہ سیاسی روایات جو انسانوں، عورتوں کمزوروں کو ان کے حقوق سے محروم کرتی ہیں؟ مجھے ماننا کیا ہے صاحب؟ ایک چھوٹی سی لسٹ تو فراہم کیجئے تاکہ بات میں آسانی رہے ۔۔۔۔

اوپر ایک پیغام رضا صاحب کو دیا ہے کرم کیجئے اور وہ بھی پڑھ لیجئے۔ رضا صاحب کے سوالات بہت ہی بہترین اور سنجیدہ ہیں۔
 
جناب ابن حسن صاحب۔ آپ کے سوالات اہم ہیں اور اچھے ہیں۔ میں ان کا ایک مثبت جواب آپ کو دے رہا ہوں۔ اس مد میں سوچئے جو سرخ‌رنگ سے لکھی گئی ہیں۔

سوال نمبر12:مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب: (‌احمد رضا خاں)‌ :بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔ انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔

قرآن حکیم کے علاوہ کس کتاب پر کامل ایمان کا حکم ہے؟ کیا ایسا ہے کہ کسی اور کتاب پر ایمان مثل قرآن رکھنا ہے؟ آپ کا جواب میرے لئے بہت آسانی پیدا کرے گا۔ آپ ایک کرم اور کیجئے اور اوپر میں رضا صاحب کو ایک جواب لکھا ہے جن میں ایسی روایات جو سیاسی نوعیت کی ہیں ، وضو ، نماز ، روزہ اور عبادات سے متعلق احکام الہی کےبارے میں نہیں میں نے عرض کیا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے۔

اسناد الرجال :
اگر اسناد الرجال سے کوئی رویات ایسی ہو جو قرآن کے وضع کردہ اصولوں کی مخالف ہو تو آپ کیا کیجئے گا؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے یہ حکیمانہ اصول آپ کو دیا کہ آپ ( صلعم) کی ہر بات کو ضوء القران کی رسونی میں جانچا جائے تاکہ من گھڑت روایات اسناد کے پردے میں کا امکان نہ رہے۔

سیاسی روایات یا عباداتی روایات؟؟؟؟
اہانت رسول پر قتل، ( عبادات پر احکام نہیں) ، عورتوں کی تعلیم سے دوری ( یہ بھی عبادات نہیں) ، عام مسلمانوں کو حکومت کرنے کا حق سے محروم کرنا ( یہ بھی ‌عبادات نہیں‌ہے ) ، نظریاتی اکتلاف کی سزا گردن زدنی ( عبادات؟؟؟) یہ وہ کیٹیگریز ہیں جن پر میں نے اوپر تفصیل سے لکھا ہے ، یہی وہ علاقہ ہے جہاں قرآن مخالف روایات کی بہتات ہے۔ آپ جب بھی ان سیاسی روایات پر قلم اتھائیں گے آپ تمام روایات کے درست ہونے کا دفاع کرنے والے لوگوں سے متعارف ہوجائیں گے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ یہ حضرات آُ سے سیاسی روایات پر نہیں بلکہ فوراً عباداتی روایات جیسے نماز ، روزہ، زکواۃ‌ پر مبنی رویات پر جھگڑا شروع کردیں گے۔ اور کہیں گے کہ ان سب روایات کو مانئے۔

آپ سوچئیے کہ منوا رہے ہیں عبادات کی روایات اور اس میں شامل کررہے ہیں کہ " نظریاتی اختلاف کی سزا موت" ۔ یہ لگے رہتے ہیں کہ بھائی پوری کتاب پر ایمان رکھو، اور پھر آپ ان سے کہیں کہ اچھا وہ کتاب تو لاؤ جس پر ایمان رکھنا ہے ۔ تو کبھی نہیں بتائیں گے کہ وہ کونسی کتاب ہے جس پر ایمان کے لئے کہا جارہا ہے ۔ بس ایک کھلا کھاتہ ہے کہ "‌سب کتب روایات " پر ایمان رکھنا ہے۔

رسول اکرم پر ایمان، ان کے ہر فرمان پر ایمان ہے۔ لیکن ان کا کوئی بھی فرمان، اللہ کے فرمان یعنی قرآن حکیم کے مخالف کیونکر ہوسکتا ہے؟

کتب روایات ‌کی ڈیٹا بیس:
اس میں‌ روایات کو کتب کے حوالے سے من و عن ڈالا جارہا ہے اور اسناد برقرار رکھی گئی ہیں۔ اردو، انگریزی اور عربی میں۔ کتاب کے شائع کرنے والے کا نام ، پتہ کتاب کی تاریخ اور کتاب کا عکسی صفحہ کا لنک بھی دیا جارہا ہے ۔ اس میں کسی فرقہ کی کتب کی قید نہیں۔ اوپن برہان کی طرز پر یہ ڈیٹا بیس ہوگی۔

آخر میں یہ کہوں‌گا کہ الفاظ سے نہ کھیلا جائے کہ بذلہ سنجی کے بجائے سنجیدہ موضوع پر سنجیدہ سوچ ہی بہتر معلوم ہوتی ہے۔ جیسی سنجیدہ اپروچ آپ کی ہے
 
بلکہ وہ طریقہ جس کے تحت احدیث بخاری شریف یا مسلم شریف میں جمع ہیں وہ کہیں زیادہ ہمہ گیر اور بہتر ہےآج بھی کوئی شخص احادیث کی پرکھ کا کام اسما الرجال اور اسی مروجہ طریقہ کے زریعے کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔
جو طریقہ آپ کو بہتر لگتا ہے آپ استعمال کرتے رہئیے، اسناد الرجال یا اسماء‌الرجال کو اس نئی ڈیتا بیس سے ختم نہیں کیا۔ بلکہ اس میں اس انفارمیشن کا اضافہ کیا ہے کہ کس روایت پر اعتراض نہیں کیا گیا ہے اور کس پر اعتراض کیا گیا ہے اور کسی طرف سے اور کیوں۔

4۔فرض کیجئے میرے پاس ایک نسخہ احادیث کا ہے جس میں ساری احادیث قرآن کی تائید کرتی ہیں اور مخالف قرآن نہیں‌ تاہم اس میں درج کردہ ساری احادیث اسناد کے بغیر ہیں یعنی اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ حدیث کن کن راویوں سے روایات ہو کر مجھ تک پہنچی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوجاتی کہ ضو القران کہ ساتھ احادیث کی تصدیق کا کچھ اور بھی طریقہ ہونا چاہیے اور یہ کہ نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کا مذکورہ بالا فرمان صحیح احادیث کی شناخت کے دیگر طریقوں کی طرح ایک اہم طریقہ ہے نہ کہ اصول واحد؟
درست فرمایا آپ نے۔ اس کو اس طرح دیکھئے، اسم الرجال کے بعد ضوع القرآن کے اصول کا استعمال کیجئے یا پہلے۔ نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ البتہ اسم الرجال ایک مستند اور مددگار طریقہ ہے۔ جہاں کوئی شبہ نہ ہو اور جہاں اللہ کے وضع کردہ اصول کی عیاری سے خلاف ورزی ہورہی ہو تو وہاں ضوع القران بہت مددگار ہے۔ رسول اکرم کا یہ بیان ایک بہترین اصول ہے۔

مختلف کتب میں اسم الرجال بھی مختلف ہیں اور ایسی بھی ہیں جن میں اسم الرجال موجود نہیں۔ یہ نئی ڈیٹا بیس، ایک کتاب نہیں‌ بلکہ ایک رویاتمختلف کتب میں کس طرح درج ہے، یہ تمام کی تمام روایات ایک جگہ پیش کی گئی ہیں۔ حوالوں کے ساتھ۔ کام جاری ہے اور مکمل ہونے پر آپ سب کے سامنے ہوگا۔

5۔ صحیح احادیث کے لیے آپ امریکا میں اور آپ کے بھائی کراچی میں کچھ کوششیں فرما رہے ہیں کیا یہ بہتر نہ ہو کہ آپ اب تک کی جمع کردہ صحیص احادیث سے لوگوں کو بھی باخبر کردیں اور ساتھ ساتھ صحیح احادیث کی شناخت کے لیے جو طریقہ کار آپ نے وضع کیا ہے اس سے بھی آگاہ کردیں؟ یا آپ صرف اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ حدیث کی روشنی میں کتب روایت سے احادیث جمع کر رہے ہیں؟

میرے برادر محترم (‌جو مجھ سے چھوٹے ہیں) صرف اتنا کرتے ہیں کہ جن کتب کو میں حاصل کرپاتا ہوں وہ اپنے خرچہ پر ٹائپ کروادیتے ہیں اور اپنے خرچہ پر ہی اس کی پروف ریڈنگ کروادیتےہیں ۔ یہ تمام کتب کسی نہ کسی نے جاری کی ہیں۔ اس ڈیٹا بیس میں کسی بھی روایت کو ہٹایا نہیں گیا ہے، بلکہ کتب سے من و عن شامل کیا گیا ہے۔ ان کتب میں کہیں کہیں اسماء الرجال دوسری کتب کے اسماء الرجال سے مختلف ہیں۔ ترتیب، متن اور تعداد میں بھی معمولی سے کافی حد تک کا فرق ہے۔ لیکن اس کا علاج ہم نے یہ کیا ہے کہ اصل کتاب کے صفحے سے عبارت کو لنک کردیا ہے کہ دیکھا جاسکے کہ اصل کتاب میں کیا لکھا تھا۔ اور یہی روایت کس نمبر سے کس کتاب میں ہے۔ اور کس کتاب میں نہیں ہے۔ یہاں‌کتاب سے مراد بخاری و مسلم نہیں بلکہ ان کے کتب کے مشہور شایع شدہ مختلف ایڈیشن ہیں۔ کہ آخر میں تو آپ کو طبع شدہ کتاب ہی ملتی ہے۔

اس میں سب سے زیادہ امکان ٹائیپنگ کی غلطیوں کا ہے۔ اس مد میں ، میں قرآن آسان تحریک کے ترجمے کی مثال دوں گا۔ یہ ترجمہ میرے چھوٹے بھائی نے کراچی میں ٹائپ کروایا اور دو حضرات نے اس کو پروف ریڈ کیا۔ تقریبام 8 افراد نے یہ ترجمہ یہاں محفل پر دوبارہ پروف ریڈ کیا لیکن اس کے باوجود اس میں املا کی غلطیاں ہیں۔ تو ایسا ہی املا کی غلطیوں اور ٹائیپنگ کی غلطیوں کا امکان اس روایات کی ڈیٹا بیس میں بھی موجود ہے اور شائد کافی وقت تک رہے۔

قرآن آسان کا ترجمہ یہاں‌موجود ہے۔ کسی بھی آیت کے نمبر پر کلک کریں۔ تاکہ دوسرے ترجمے دیکھ سکیں۔
http://www.openburhan.net/
اگر آپ اس ترجمے کی تصحیح اور پروف ریڈنگ کرنا چاہیں تو آپ کو اس ترجمے کی فائیل کا پوائنٹر فراہم کرکے خوشی محسوس کروں گا۔ اس ڈیٹا بیس کے کام میں ، دو پروفیشنل اور فاضل پروف ریڈروں کی مدد لے رہا ہوں جن کے ساتھ یہ کنٹریکٹ ہے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی اور اقرارنامہ شامل کریں گے کہ انہوں نے اس کتاب کے اصل متن سے ٹائپ شدہ مواد کی تصدیق کی ہے۔ ایک بار پھر ذہن میں رکھیں کہ اس میں تمام روایات شامل ہیں جو آج مل سکتی ہیں ۔ من و عن مع اسم الرجال ، اور مع اعتراضات، وجوہات، و جوازات۔ اور کتاب کے تصویری صفحات کے ساتھ۔ تاکہ یہ معلومات لوگوں تک پہنچ سکے۔
ابہام سے بچنے کے لئے، جب تک کام مکمل نہیں ہوتا کچھ بھی منظر عام پر نہیں آئے گا۔ لہذا اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں جب تک کہ کام مکمل نہیں ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر آپ کے پاس کتب روایات کا کوئی نادر یا خاص نسخہ ہو تو اس کی سکین شدہ کاپی عنائت فرمائیں ، نوازش ہوگی۔ میں اس کو ٹائپ کروا کر اور شامل کرکے خوشی محسوس کروں‌گا۔
 
جو آپ کو اپنے مطلب کی حدیث لگی اس کے لئے آپ نے تو گواہ تسلیم کر لئے اب مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے دو گواہوں کا اصول ایک حدیث کے قبول کے بعد باقی رکھا ہے یا بدل دیا ہے تاکہ میں باقی احدیث کے لئے آپ کو گواہ لا دوں۔

خود گواہی کیوں نہیں دیتے صاحب؟ جس پر جھگڑ رہے ہیں وہ خود بھی مانتے ہیں یا نہیں؟‌ اب تک تو یہ ہی پتہ نہیں‌کہ آپ کا ایمان بالمثل قرآن مزید کن کتب پر ہے؟ یہ کتب کب طع ہوئی ہیں، کس پبلشر نے چھاپی ہیں اور ان کتب کے کن کن ایڈیشنز پر آپ کا ایمان بالمثل قرآن ہے؟ واضح فرمائیے تو بات آگے بڑھے ورنہ بات مبہم ہے ۔ کسی مجہول شخص سے اس کے علاوہ کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ کہ خود کورا ہو اور بناء کسی واضح وجہ فتنہ ڈالتا ہو۔ کہ فلاں کا ایمان اس پر نہیں تو فلاں کا ایمان اس پر نہیں۔

جب ذرا دریافت کیا تو مکر گئے کہ آپ سے 'اِن' کتب پر ایمان رکھنے کو کون کہہ رہا ہے۔ خود اپنے آپ کو بھی پتہ نہیں کہ کہہ کیا رہے ہیں ایمان کس بات پر رکھنا ہے اور کس پر نہیں، صرف "سارے ہتھکنڈوں "‌ سے واقف ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کو پڑھنے کے بجائے اگر قرآن کا مطالعہ کیا ہوتا تو آج یہ مشکل نہ ہوتی جس میں آپ پھنسے ہوئے ہیں۔ صاحب ۔ بس بذلہ سنجی اور بحث برائے بحث ہے۔ بے کار کی باتیں مجھ سے منسوب کرتے ہیں جن کا کوئی سر ہے نہ پیر وہ بھی اس لئے کہ قران کی آیات سے آپ کے "ایمان" کو زک پہنچتی ہے۔ آپ قرآن کی رو سے کسی کی بے عزتی، کسی کو غلام، کسی کو قتل، عورت فروشی نہیں کرپاتے۔ لہذا منکر الحدیث کا طعنہ دے کر مسلمانوں‌کو تنگ کرتے ہیں۔ اور اپنی ان کتابوں پر ایمان لانے پر زور دیتے ہیں جن کا نام بھی آپ اب تک نہیں بتا سکے ہیں۔

آپ جن کتب پر چاہیں ایمان بالمثل القرآن رکھیں، یہ آپ کا مذہب ہے۔ لیکن پتہ چلنا چاہئیے کہ آپ کا ایمان کن کتب کے مطابق ہے، جن پر ایمان لے آنے کی آپ ترغیب دے رہے ہیں؟ یا تو کھل کر کہہ دیجئے کہ آپ کے نبی رسول اللہ کے علاوہ کوئی اور ہیں اور ان سے منسوب کتب پر آپ کا ایمان کامل ہے یا آپ ان مطبوعات کو ضوء القرآن میں دیکھیں گے۔ مسلمانوں‌کو دہشت گردی کی تعلیم بند کیجئے۔

اللہ کی کتاب میں انسانوں کی لکھی ہوئی کوئی کتاب اس" الکتاب" میں شامل نہیں جس کا اس آیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

[AYAH]2:177[/AYAH] [ARABIC]لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ[/ARABIC]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
 
شمشاد بھائی آپ ان پیغامات کو اس دھاگے میں منتقل کردیجئے۔ صرف مزدور کی ہلاکت کے پیغامات رہنے دیجئے۔

قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8127

میں ذاتی طور پر معذرت خواہ ہوں کے باوجود کوشش کے اس مباحثہ کو دوسرے دھاگہ میں منتقل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔

جب بھی آپ کسی سیاسی قتل ، عورت فروشی، کسی کی بے عزتی، یا حکومتی معاملہ سے اتفاق نا کریں اور حوالہ قرآن سے دیں ، جس کے نتیجہ میں ایک خاص‌طبقہ کے نظریات کو زک پہنچے تو نتیجہ میں سب سے پہلے یہ مخالف کے بیانات کو منکر الحدیث بناتے ہیں اور اس کے بعد اسے مرتد۔ اور بحث کو اصل موضوع سے ہٹا کر قرآن اور حدیث کی روایتی بحث میں بدل دیا جاتا ہے۔ میں اپنے ایک پیغام میں اس طریقہ کار کے بارے میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں۔ یہ طریقہ باقاعدہ مدرسہ میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا " تو‌" سے ہوتی ہے۔ جی!

اس طرح نظریاتی مخالفت کو مرتد قرار دے کر اس سیاسی مخالف کی کردار کشی کی جاتی ہے یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے میں نے یہ بحث جاری رکھی کہ طریقہ کار نمایاں ہوجائے۔

یہاں بنیادی اختلاف یہ تھا کہ اس بندہ کو عدالتی کاروائی کے بغیر قتل کیا گیا۔ قرآن کن صورتوں میں قتل کا حکم دیتا ہے ، ان میں یہ زمرہ شامل ہی نہیں ہے۔ لہذا، کردار کشی کا وہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، جس کے بارے میں‌ پہلے عرض کرچکا ہوں۔ جس کا اعتراف ان صاحب نے خود کیا وہ ان ہتھکنڈوں سے واقف ہیں اور اپنے عمل سے واضح کردیا کہ کس طرح قتل کو مذہبی رنگ دے کر بچا جائے۔ اور مخالفین سے کیسے نمٹا جائے۔ سیاسی بحث‌کو نماز روزہ، سے ملا دیا جائے اور نبی اکرم کا مخالف قرار دے دیا جائے۔

والسلام
 

خاور بلال

محفلین
تو صاحبان گنگا الٹی بہنا شروع ہوگئ ہے، بہت جلد رخ تبدیل ہوگیا ہے، اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ تھالی کا موقف لڑھکتا پھرتا ہے اور کبھی تو احادیث کے کچھ حصے پر یقین کی بات کرتا ہے اور کبھی تو کلی طور پر احادیث کے ذخیرہ کا مذاق اڑاتا ہے، اور احادیث کو ایرانیوں سے منسوب کرکے نفی کردیتا ہے۔ یقینا تھالی کے موقف کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

میں نے اسی دھاگے پر فاروق صاحب کو ایک مشورہ دیا تھا جس کا جواب دوسرے دھاگے میں ملا۔ پہلے میں سمجھا کہ شاید مشورہ سمجھ آگیا ہے تبھی اس دھاگے کو قرآن بمقابلہ حدیث کی بحث سے نجات مل گئی ہے لیکن وہی ڈھاک کے تین پات، سلسلہ جنگ و جدل جاری رہا اور بالاآخر موقف کی تبدیلی پر منتج ہوا۔ کیا قرآن و حدیث کوئ مذاق ہے کہ جب چاہا ان کا مذاق اڑایا ان پر پھبتی کسی اور جب چاہا ان پر یقین کرلیا؟ جس طرح ٹافیوں اور چیونگموں کے ریپر ہر کچھ عرصے بعد مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور کمپٹیشن کے رجحان کے مطابق نئ شکل میں نمودار ہوتے ہیں بالکل یہی حال ان کے موقف کا ہے۔ آپ اس دھاگے کو شروع سے پڑھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ انہوں نے کس کس طرح احادیث پر کلی طور پر طنز کیا ہے اور اب احادیث کے کچھ حصے کو ماننے چلے۔

میں نے اپنے مشورے میں سیدھی طرح اپنا اور امت کی اکثریت کا عقیدہ احادیث کے ضمن میں تحریر کیا تھا اور فاروق صاحب کو سمجھایا تھا کہ آپ زبردستی اس غلط فہمی کا شکار نہ رہا کریں کہ ہم احادیث پر مثلِ قرآن یقین رکھتے ہیں بلکہ امت قرآن کو ضابطہ حیات بنانے کے لیے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائ اس لیے ضروری سمجھتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ اس وضاحت کے باوجود انہوں نے جواب میں مجھ ہی پر یہ الزام لگادیا کہ میں احادیث پر مثلِ قرآن یقین رکھتا ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھی باتیں انہیں سمجھ نہیں آتیں۔ اگر آپ کو اسی قسم کا تفصیلی نمونہ دیکھنا ہے تو اس دھاگے کو ملاحظہ کیجیے، یہاں قسیم بھائ احادیث پر متن کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کا جواب تحریر فرما رہے تھے اور جب فاروق صاحب کو اپنے اعتراضات کی عافیت خطرے میں نظر آئی تو انہوں نے قسیم بھائ کی تمام (سیدھی) باتوں کو سمجھنے سے معذوری ظاہر کردی اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ قرآن کی ترویج پر توجہ دیں، یوں قسیم بھائ نے تو یہ سلسلہ روک دیا لیکن فاروق صاحب نے ہر دھاگے میں اپنی دوکان سجالی۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ آنی بھی نہیں چاہیے، شرم ابھی اتنی رسوا نہیں ہوئ کہ ایسوں کو منہ لگائے۔

سنت کی دین میں آئینی حیثیت، روایات سے متعلق شبہات اور علم حدیث پر اعتراضات کے جوابات سنت کی آئینی حیثیت میں واضح طور پر درج ہیں اور سنت کی آئنی حیثیت اردو محفل کی لائبریری کا حصہ ہے اگر آپ اسے پڑھیں تو یہی کردار آپ کو اس میں عبدالودود کے نام سے نظر آئے گا۔

میری پوسٹ دھاگے کے عنوان کے مطابق نہیں جس کے لیے انتہائ معذرت۔ اللہ گواہ ہے کہ میں نے دھاگے میں غیر متعلقہ بحث کو روکنے کے لیے ہی مشورہ دیا تھا جس کے بعد بھی کچھ اثر نہ ہوا اور اب مجبورا دوبارہ یہ پوسٹ کررہا ہوں کہ قرآن و حدیث پر بحث کرنے کی بجائے پہلے لائبریری کا چکر لگالیں اور اگر “ممکن“ ہوتو سنت کی آئینی حیثیت پڑھ لیں تاکہ ہر دھاگہ اسپام ہونے سے بچ جائے۔ اور ایک دفعہ پھر عرض کردوں کہ مجھے کسی کی ذات سے کوئ اختلاف نہیں صرف موقف کی وجہ سے حاملِ موقف کا نام لینا پڑتا ہے ورنہ میں ذات پات کا قائل نہیں۔
 
جو لوگ خود کش حملوں‌کو فدائی حملہ کہتے ہیں۔
جو لوگ مذہب کے نظریاتی فرق کی سزا گردن زدنی قرار دیتے ہیں
جو لوگ انسانوں‌کی باہمی مساوات کے قائل نہیں ،
جو عورتوں کی تعلیم کو برا سمجھتے ہیں اور عورتوں کو تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے قائل نہیں۔
جو لوگ توہین رسول کا جرم قرآن سے نہیں ثابت کرپاتے
جو لوگ ایسی روایات میں اپنا دین تلاش کرتے ہیں جو قرآن کی روشنی میں سے ثابت نہیں ہوپاتی ہیں
جو لوگ قران سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیطان لاحول سے ۔
جو لوگ فرد واحد حکومت کے قائیل ہیں جس کو ملا سپورٹ کریں
جو لوگ اپنا موقف قرآن میں نہیں پاتے ۔
جو لوگ اپنے سیاسی خیالات کے پرچار کے لئے ، مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔
جو لوگ سیاسی مخالفت کو عباداتی رنگ دیتے ہیں۔
جو لوگ ‌قران کے اصول چھوڑ کر دوسروں کے موقف پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
ان سے عرض ہے کہ انسانوں میں اپنے بت و دیوتا تلاش کرنے کے بجائے قرآن کی تعلیم حاصل کریں۔ تاکہ قرآن کی روشنی میں ان روایات کو پرکھ سکیں۔
اب تک قرآن سے یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ کسی نظریاتی اختلاف کی یا مذہبی بحث و مباحثہ کی سزا، بناء مقدمہ چلائے موت کی صورت میں ہو۔ البتہ ان دہشت گرد فدائین کو جو نظریاتی اختلاف کی سزا موت کے قائل ہیں وہ تمام کتب نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے نبیوں نے لکھی ہیں لیکن ایک قرآن نظر نہیں آتا۔
جو صاحب مجھے سنت کی آئینی حیثیت پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں ، ان کی خدمت میں عرض‌ہے کہ وہ مجھے میری تحریر سے ریفرنس فراہم کریں کہ میں نے کس سنت کی خلاف ورزی کی ہے اور کس حدیث‌ کو ماننے سے انکار کیا ہے۔
بھائی یہ کوکی کٹر طریقہ اب بہت پرانا ہوچکا ہے۔ کہ اصل موضوع سے ہٹ‌کر ادھر ادھر کی باتوں میں ، الزامات میں وقت ضائع کیا جائے۔ باسم اور میں نے قرآن سے اذیت اور ہتک پر آیات پیش کیں۔آپ قرآن سے اصول لے آئیے کہ یہ درست نہیں‌ہے۔ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ لوگ تو قرآن سے ہی انکار کررہے ہیں۔
 

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب۔

آپ سے اب میں نکتہ وار سوالات پوچھتا ہوں تاکہ یہ گنجلک گفتگو کچھ واضح ہو----پہلے سوال کا جواب دیں گے تو بات آگے بڑھے گی۔


کیا پورے قرآن میں کوئی ایسی آیت ہے اور جسکی تشریح کی حدیث سے ضرورت نہ ہو --- جس میں کوئی ایسا واقعہ ذکر ہو کہ کافروں نے نبی علیہ السلام کو اس طریقے سے اذیت دی اور اللہ نے نبی علیہ السلام کو دنیا میں انھیں سزا دینے سے روکا ہو اور آخرت میں عذاب دینے کا وعدہ کیا ہو۔

اس سوال کے جواب کے بعد دیکھیں گے کہ آیاتِ قرآنی کی قوسین میں وضاحت کے لئے کونسی احادیث آپکی نظر میں صحیح ہیں اور کونسی نادرست۔ پہلے قرآن کی ایک آیت ایسی پیش کردیں کہ جو اپنے ترجمہ میں واقعہ کا احاطہ کرلے۔

؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ

مہربانی کرکے تھوڑی سی تکلیف کریں اور جواب یہیں پوسٹ کردیں۔ آپ جواب میں اپنی جن سابقہ پوسٹس کا لنک دے دیتے ہیں ان میں جواب سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ آپ کی آسانی کے لئے میں نے سوال کو سرخ رنگ دے دیا ہے۔
 
آپ کے دو سوال ہیں ۔

1۔ کیا پورے قرآن میں کوئی ایسی آیت ہے اور جسکی تشریح کی حدیث سے ضرورت نہ ہو ۔
آیات کو سمجھنے کے لئے اہک شکص کوئی سا ترجمہ مزید استعمال کرتا ہے، یا کتب روایات سے احادیث نبوی یا تاریخ سے واقعات پڑھتا ہے ، یہ اس پر منحصر ہے۔
میرے ناقص علم میں ایسی کوئی آیت نہیں جس کی تشریح کے لئے لازماً کسی رویات کی لازمی ضرورت ہو۔، بلکہ 114 میں سے بیشتر سورۃ ایسے ہیں جن کا کتب روایات میں کوئی تذکرہ ہی نہیں‌ہے۔ لسٹ فراہم کردوں گا۔
اللہ تعالی اس امر کی گواہی یوں دیتے ہیں، 4 بار سورۃ‌القمر میں ۔
[ayah]54:17[/ayah] وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

اگرکسی قول و فعل رسول ‌کی مدد سے قرآن کی کسی آیت کی بہتر تشریح ہوتی ہے تو اس طریقہ سے سمجھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کہ رسالت کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم کوقرآن سے بہرہ ور کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے تاریخ اور کتب روایات دونوں استعمال کی جاتی ہیں۔

جن مسائیل کی نشاندہی میں کرتا ہوں ----- وہ روایات کے اسناد سے گذرنے کے بعد اور قرطاس ابیض‌ (کورے کاٍغذ) پر آجانےسے لے کر موجودہ صدی کی کتب (چھپی ہوئی کتاب )‌ تک محدود ہیں ----- اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ آپ کی رائے، تنقید و تائید اہم ہے اس سے مطلع فرمائیں۔

دو واقعات یہاں پیش کئے گئے۔
1۔ سورۃ لہب
2۔ سورۃ النور سے باسم کا اقتباس۔
ان دونوں صورتوں میں رسول اکرم کو اذیت پہنچائی گئی۔ جس سے اللہ تعالی نے اپنی اذیت کا اظہار کیا۔ باسم نے اس سلسلے میں آیات پیش کیں۔ جس سے مجھے جو سمجھ میں‌ آتا ہے وہ یہ کہ رسول اکرم کو اذیت پہنچانے کے جرم میں اس گروہ کو آخرت میں سزا دی جائے گی۔ آپ کو کیا رائے ہے؟ اور کن آیات کو آپ اس سے مختلف اصول وضع کرنے میں پیش کرسکتے ہیں کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔

خلوص‌کے ساتھ اصولوں پر بات ہو، موجود و غیر موجود حضرات کی کردار کشی سے فائیدہ کچھ نہیں حاصل ہوتا۔

سورۃ الانعام کی یہ آیات دیکھئے ، رسول کو جھٹلانا ہی سب سے بڑا جرم ہے اہانت رسول ہے۔ کہ رسول کو رسول نہ مانا جائے، سورہ الانعام کی یہ آیات دیکھئے۔ اور دیکھئے کہ کس طرح اللہ تعالی رسول کی دل جوئی فرما رہے ہیں ، جبکہ رسول رنجیدہ ہیں اور ان کو اذیت کی گواہی خود اللہ تعالی دے رہے ہیں۔ یہ آیات اتباع رسول اور قران کو تعلیم کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

[ayah]6:21 [/ayah]اور اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھا یا اس نے اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
[ayah]6:22[/ayah] اور جس دن ہم سب کو جمع کریں گے پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جو شرک کرتے تھے: تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کرتے تھے
[ayah] 6:23[/ayah] پھر ان کی (کوئی) معذرت نہ رہے گی بجز اس کے کہ وہ کہیں (گے): ہمیں اپنے رب اﷲ کی قَسم ہے! ہم مشرک نہ تھے
[AYAH]6:24[/AYAH] دیکھئے انہوں نے خود اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور جو بہتان وہ (دنیا میں) تراشا کرتے تھے وہ ان سے غائب ہوگیا
[AYAH]6:25[/AYAH] اور ان میں کچھ وہ (بھی) ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر(ان کی اپنی بدنیتی کے باعث) پردے ڈال دیئے ہیں (سو اب ان کے لئے ممکن نہیں) کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ سکیں اور (ہم نے) ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دی ہے، اور اگر وہ تمام نشانیوں کو (کھلا بھی) دیکھ لیں تو (بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ حتیٰ کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں، آپ سے جھگڑا کرتے ہیں (اس وقت) کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیوں کے سوا (کچھ) نہیں
[AYAH]6:26[/AYAH] اور وہ (دوسروں کو) اس (نبی کی اتباع اور قرآن) سے روکتے ہیں اور (خود بھی) اس سے دور بھاگتے ہیں، اور وہ محض اپنی ہی جانوں کو ہلاک کررہے ہیں اور وہ (اس ہلاکت کا) شعور (بھی) نہیں رکھتے[AYAH]6:27[/AYAH] اگر آپ (انہیں اس وقت) دیکھیں جب وہ آگ (کے کنارے) پر کھڑے کئے جائیں گے تو کہیں گے: اے کاش! ہم (دنیا میں) پلٹا دیئے جائیں تو (اب) ہم اپنے رب کی آیتوں کو (کبھی) نہیں جھٹلائیں گے اور ایمان والوں میں سے ہو جائیں گے
[AYAH]6:28[/AYAH] (اس اقرار میں کوئی سچائی نہیں) بلکہ ان پر وہ (سب کچھ) ظاہر ہوگیا ہے جو وہ پہلے چھپایا کرتے تھے، اور اگر وہ (دنیا میں) لوٹا (بھی) دیئے جائیں تو (پھر) وہی دہرائیں گے جس سے وہ روکے گئے تھے اور بیشک وہ (پکے) جھوٹے ہیں

[AYAH]6:33[/AYAH] (اے حبیب!) بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات) یقیناً آپ کو رنجیدہ کررہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں، پس یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیں
[AYAH]6:34[/AYAH] اور بیشک آپ سے قبل (بھی بہت سے) رسول جھٹلائے گئے مگر انہوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہنچائے جانے پر صبر کیا حتٰی کہ انہیں ہماری مدد آپہنچی، اور اﷲ کی باتوں (یعنی وعدوں کو) کوئی بدلنے والا نہیں، اور بیشک آپ کے پاس (تسکینِ قلب کے لیے) رسولوں کی خبریں آچکی ہیں

[AYAH]6:35[/AYAH] اور اگر آپ پر ان کی رُوگردانی شاق گزر رہی ہے تو اگر آپ سے (یہ) ہو سکے کہ زمین میں (اترنے والی) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے والی) کوئی سیڑھی تلاش کرلیں پھر (انہیں دکھانے کے لیے) ان کے پاس کوئی (خاص) نشانی لے آئیں (وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے)، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان کو ہدایت پر ضرور جمع فرما دیتا پس آپ (اپنی رحمت و شفقت کے بے پایاں جوش کے باعث ان کی بدبختی سے) بے خبر نہ ہوجائیں


مزید دیکھئے دکھ و رنج کی صورت میں صبر کی تلقین:
[AYAH]3:120[/AYAH] اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور تمہیں کوئی رنج پہنچے تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقوٰی اختیار کئے رکھو تو ان کا فریب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، جو کچھ وہ کر رہے ہیں بیشک اللہ اس پر احاطہ فرمائے ہوئے ہے

[AYAH]16:126[/AYAH] اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے


آپ اگر سمجھتے ہیں کہ کچھ آیات ایسی ہیں جہاں یہ حکم واضح طور پر دیا گیا ہے کہ اس طرح رسول کو جھٹلانے یعنی اذیت دینے، رنجیدہ کرنے، یا اہانت کرنے کی سزا قرار واقعی موت ہے اور وہ بھی ایک فوری موت بناء‌کسی مقدمے یا ثبوت کے تو ان آیات کا ریفرنس فراہم کر دیجئے مجھے آُپ کے ساتھ ان آیات پر غور کرکے خوشی ہوگی۔

اب ان آیات کو سمجھنے کے لئے آپ کوئی سا ترجمہ مزید استعمال کیجئے یا کتب روایات سے احادیث نبوی یا تاریخ سے واقعات۔ آپ پر منحصر ہے۔ اس میں کیا قباحت ہے؟ آپ اتفاق کریں گے کہ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب خلاف قرآن کوئی عمل ، یا قول یا اصول ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور پھر اس کو رسول اللہ سے منسوب کردیا جائے

والسلام
 

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب

آپ میرا سوال سمجھ نہیں پائے۔ خیر کوئی بات نہیں‌ میں دہرائے دیتا ہوں اپنے سوال کو:

کیا قرآن مجید میں نبی علیہ السلام کی توہین کا کوئی واقعہ موجود ہے۔ نبی علیہ السلام کو اذیت دیئے جانے اور اس پر اللہ کی طرف سے عذاب کا اجمالی ذکر ہے۔ سورہ لھب کی آیات کا شانِ نزول اور ان آیات کا مفہوم (جو عموما مترجمین بریکٹس /قوسین میں کرتے ہیں ) تو احادیث سے ماخوذ ہوتا ہے۔ کیا قرآن مجید میں کوئی self explanatory آیات ایسی ہیں جن میں بغیر احادیث سے رجوع کئے ، اہانتِ رسول کا واقعہ معلوم ہوتا ہو۔



امید ہے اب سوال آنجناب کو سمجھ آ گیا ہوگا۔

اس سوال کا مختصر اور جامع جواب دے دیں اور آیات لکھ دیں ۔ پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں انشاء اللہ
 
میرے علم میں سورۃ الانعام کی ان آیات کے علاوہ، قرآن میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جس میں خصوصی طور پر " اہانت رسول " کا تذکرہ کیا گیا ہو۔ ان آیات کی شان نزول کے واقعات بہت سے اصحابہ کرام نے قلمبند کئے ہیں۔ ان کو ہم روایات کا نام دیتے ہیں۔ اور ان کو اصحابہ کرام کی احادیث کا نام دیتے ہیں۔ ان آیات سے آپ فرمائیے آپ کیا مجموعی تاثر لیتے ہیں؟ یعنی، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ رسول اکرم سے کچھ ایسا کہا گیا کہ وہ رنجیدہ ہوئے۔ کیا کہا گیا قرآن اس کی تفصیل نہیں‌بتاتا ۔ لیکن اس کے نتیجے میں کیا رد عمل ہو اس کی تفصیل بتاتا ہے۔

آپ اس مد میں ان روایات، تاریخ‌، اور عرف عام میں احادیث سے قرآن کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے میں مدد لیں‌گے۔ اس بات سے آپ اتفاق کریں گے؟
یہاں‌آپ ذہن میں‌رکھئے کہ تمام کی تمام آیات کی شان نزول احادیث میں موجود نہیں، لہذا ہم اسے ایک عمومی اصول نہیں بناسکتے‌۔ میری گنتی کے اور ناقص معلومات کے مطابق 80 سے زائید سورتوں کے بارے میں کوئی حدیث نہیں‌ ہے۔ جی؟ لیکن اس کو چھوڑئے۔ ان روایات کو دیکھئے جو کچھ آیات کی تفصیل بتاتی ہیں۔ اس میں ایک سے زیادہ بیانات ہیں جو ان آیات کی شان نزول کی تفصیل بتاتے ہیں ۔ اس تفصیل سے کچھ سیکھنے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔

تو پھر وہ کونسی روایات ہیں جن کے بارے میں میں لکھتا ہوں؟ وہ روایات زیادہ تر عورتوں کو ان کے معاشرے میں‌جائز مقام سے محروم کرنے کی حمایت ، غلامی کو فروغ دینے کی حمایت۔ مال کو ہڑپ کرنے کی حمایت اور حکومت کو فرد واحد کی حکومت بنانے کی حمایت کرتی ہیں۔ کچھ روایات عیاری سے اہانت قرآن و رسول کرتی ہیں۔ فی الحال اس بحث کو چھوڑئے۔ ان روایات کو ہم الگ دیکھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان روایات کی تعداد جو اس گروپ میں نہیں آتی ہیں وہ تعداد میں زیادہ ہیں اور مستند ہیں۔

اور اگر آپ کچھ سمجھانا چاہتے ہیں، تو برملا لکھئے، اگر کچھ قابل تنقید ہوا تو یا قابل تائید ہوا تو بھی ---- دونوں صورتوں میں آپ کا خیال واضح ہوجائے گا۔ یہ وعدہ رہا کہ اگر آپ سے اتفاق رائے نہ بھی ہوا تو بھی آپ کے عقیدہ، آپ کے ایمان اور آپ کے خیالات کا احترام رہے گا۔

آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔ تفصیل ہو تو سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہتی ہے۔
 

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب۔

کیا آپ اس بات سے انفاق کریں گے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیات نہیں ہیں جن میں توہینِ رسالت کا واقعہ مذکور ہو۔ بلکہ جن آیات میں اسکا اجمالی ذکر ہے اس کی تفصیل کے لئے ہمیں احادیثِ نبوی سے رجوع کرنا ہوگا۔ (احادیث کی صحت اور قبولیت پر بات بعد میں ہوگی۔)

آپ مختصر جواب عنائت فرما دیں۔ کہ آپ درجِ بالا بات سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف رکھتے ہیں۔
 
جی، درست فرمایا آپ نے۔ جو بھی حکایات لوگوں نے رسول اللہ کے بارے میں‌بیان کی ہیں ان سے رجوع کیا جاتا ہے اور ان رویات کو کو قرآن کے قائم کئے ہوئے اصولوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔


قرآن سے باہر کے واقعات اور اصولوں کو کسی قسم کی اجتماعی قانون سازی کے لئے بحیثیت بنیادی اصول استعمال کرنا، یقیناً قرآن سے باہر ہے ۔ آپ اس سے اتفاق فرمائیے۔
 

سیفی

محفلین
جی، درست فرمایا آپ نے۔



کیا آپ کے اس جملے سے میں یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ قرآن مجید کی آیات میں نبی علیہ السلام کی توہین کا کوئی واضح واقعہ مذکور نہیں۔ اور جن آیات میں اجمالی ذکر ہے اس کی وضاحت کے لئے ہمیں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی دوسرے ذریعہ (اگر کوئی ہو) کا سہارا لینا ہوگا-


آپ کے باقی جملے جواب کو کچھ مہمل بنا رہے تھے اس لئے میں نے پھر وضاحت مانگی ہے تاہم آپ نے مجھ سے جو اتفاق رائے طلب کیا ہے اس پر بات چیت پہلے نکتے پر اتفاق رائے ہونے کے بعد ہی ہو گی۔ کیونکہ اگر پہلے نکتہ پر ہی اتفاق نہ ہو تو لمبی چوڑی بحث کا فائدہ نہ ہوگا۔
 
آپ کے لال سوال کا جواب لال سے اور نیلے سوال کا جواب نیلے سے دیا ہے۔ خاور صاحب سے استدعا ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ کیا یہ سوال اور ان کے جوابات سے ، کیا میرے خیالات واضح ہیں؟

کیا آپ اس بات سے انفاق کریں گے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیات نہیں ہیں جن میں توہینِ رسالت کا واقعہ مذکور ہو۔

جی، درست فرمایا آپ نے کہ یہ الفاظ " اہانت رسول"‌ یا اس سے ملتا جلتا کوئی الفاظ کا سیٹ قرآن میں‌۔ میرے ناقص علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔ آپ کی معلومات میں‌ہے تو فرمائیے ۔ البتہ رسول اللہ صلعم اور اللہ تعالی کے رنجیدگی کے اظہار کی آیات موجود ہیں ۔ اس رنجیدگی کی وجہ رسالت کو جھٹلانا بھی واضح‌ ہے۔ رسول اللہ کو ایک جھوٹا رسول (نعوذ‌ باللہ)‌قرار دینا ایک سخت اہانت ہے جس پر اللہ تعالی نے اپنے برہم ہونے کو واضح‌کیا ہے۔ میں‌ذاتی طور پر رسول اللہ اور اللہ تعالی کو رنجیدہ یا برہم کرنے والی کسی بھی وجہ کو کو اہانت رسول سمجھتا ہوں۔ کہ ساری اہانت جھٹلانے سے ہی شروع ہوتی ہے۔

بلکہ جن آیات میں اسکا اجمالی ذکر ہے اس کی تفصیل کے لئے ہمیں احادیثِ نبوی سے رجوع کرنا ہوگا۔ (احادیث کی صحت اور قبولیت پر بات بعد میں ہوگی۔)

جو بھی حکایات لوگوں نے رسول اللہ کے بارے میں‌بیان کی ہیں ان سے رجوع کیا جاتا ہے اور ان روایات کو کو قرآن کے قائم کئے ہوئے اصولوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔


کیا آپ کے اس جملے سے میں یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ قرآن مجید کی آیات میں نبی علیہ السلام کی توہین کا کوئی واضح واقعہ مذکور نہیں۔

میرے نزدیک توہین رسالت مآب کسی بھی ایسی بات سے شروع ہوجاتی ہے جو رسول اللہ کے لئے یا للہ تعالی کے لئے وجہ رنجیدگی یاناراضی ہو۔ لہذا آپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ کو جھٹلانا (نعوذ‌باللہ) ۔ اہانت رسول ہے۔ اس سلسلے کی آیات کے تین سیٹ آپ کو پیش کئے جاچکے ہیں۔

آب آپ اس بارے میں اپنے خیال کا اظہار فرمائیے۔ کہ آپ ایسا کیوں‌سمجھتے ہیں کہ جہاں‌ قرآن نے مناسب الفاظ میں رسول اللہ کے رنجیدہ ہونے کے واقعے کو اجاگر کیا ہے۔ وہاں وجہ رنجیدگی کیا بیان کی ہے؟ میں‌ آپ کے مناسب خیال کی غیر موجودگی میں‌ صرف سوالات کے سلسلے کو غیر ضروری سمجھتا ہوں۔



اور جن آیات میں اجمالی ذکر ہے اس کی وضاحت کے لئے ہمیں احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی دوسرے ذریعہ (اگر کوئی ہو) کا سہارا لینا ہوگا-

درست فرمایا آپ نے۔ اگر مزید وجوہات درکار ہیں تو کسی بھی مستند کتاب سے ۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی دوسرے ذریعہ استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی کی یہ بزرگی اور حکمت ہے کہ جس "اصول یاحکم کی وجہ" کے تفصیلی تذکرے کو ضروری نہیں‌سمجھا اس کی ظاہری اشکال سے مناسب وضاحت فرمادیا اور اس کے لئے ایک اصول وضع‌ کردیا ۔ یہ اللہ تعالی کی حکمت ہے۔ اور کوئی بھی اس "الحکیم" پر فوقیت نہیں‌ رکھتا۔

اس کو اس طرح دیکھئے۔ اگر کوئی بھی تاریخی کتاب یا کتب روایات یا و روایات جو کہ صحابہ سے مذکور ہیں ، یا پھر وہ احادیث ، اقوال و افعال جو کہ رسول اللہ سے مذکور ہیں‌۔ اگر یہ سب کتب موجود نا ہوں تو بھی قرآن اس حکمت سے بھرپور ہے جو کہ برائی کی وجہ اور اس کے سدباب کے لئے اصول وضع کرنے کے لئے درکار ہے۔

میں‌سمجھتا ہوں‌کہ وہ وہ آیات جو کہ تین سورۃ‌ سے یہاں‌پیش کی گئیں۔ وہ بہت کافی ہے ہیں‌ اس بات کو قائم اور ثابت کرنے کے لئے کہ اللہ اور رسول ناخوش و ناراض ہیں ۔ اس کی وجہ رسول اللہ کو جھٹلانا بیان کی گئی ہے۔ جب یہ قائم ہوجاتا ہے تو پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لئے کیا اصول ہو؟

اب آپ سے سوال ہے کہ
1۔ آپ کے نزدیک اہانت رسول کیا ہے؟ بہت واضح الفاظ میں فرمائیے؟
2۔ جو آیات آپ کو پیش کی گئی ہیں ان سے آپ کے خیال میں رسول اللہ اور اللہ تعالی کیوں‌ناراض و رنجیدہ ہیں ؟
3۔ کیا آپ کو ان آیات میں‌کوئی ایسی نشانی ملتی ہے جس سے یہ واضح ہو کہ ان کی ناراضی کی کیا وجہ ہے؟
4۔ اور آپ کے خیال میں ان آیات میں اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا اصول وضع کیا گیا ہے ؟

جب ہم یہ بات کرلیں گے تو پھر ہم احادیث‌کی بات کریں گے۔

آپ کے خیالات کی غیر موجودگی میں یہ پتہ نہیں کہ آپ کا اپنا خیال کیا ہے اور ان سوالات سے آپ کا مطلب کوئی اصول وضع کرنا ہے یا پھر یہ سب کچھ صرف تنقید برائے تنقید ہے ۔

لہذا تکلیف فرمایئے اور اپنے خیالات کا اظہار فرمائیے۔ میں‌ اپنے سوالات کے مناسب جوابات کے بغیر اس قسم کے سلسلے صحتمندانہ نہیں‌پاتا۔ لہذا مزید جوابات پانے کے لئے اپنی رائے کا مکمل اظہار فرمائیے تاکہ اندازہ ہو کہ آپ کا نکتہ نظر کیا ہے۔
 

سیفی

محفلین
میں‌ اپنے سوالات کے مناسب جوابات کے بغیر اس قسم کے سلسلے صحتمندانہ نہیں‌پاتا۔ لہذا مزید جوابات پانے کے لئے اپنی رائے کا مکمل اظہار فرمائیے

جنابِ والا

آپ انٹرنیٹ پر ایک مخصوص طرزِ فکر کے نمائندے بلکہ پرچارک ہیں۔ اور آپ کو علم ہونا چاہئے کہ جب بھی کوئی شخص ایک نیا دعویٰ لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس سے سوالات تو پوچھے جاتے ہیں۔ اگر میرے سوالات آپ کو ہضم نہیں ہو پاتے تو فرما دیں کہ آپ کو مہلت دی جائے کہ آپ اپنا زہد اور علم پختہ کرلیں۔ ورنہ بیسیوں سطریں ہر پیغام میں لکھنے والے سے اگر دو سطروں میں جواب مانگا جائے تو اسے گراں کیوں گزرے۔ ہاں اگر کسی کا دیا ہوا مواد ہی کاپی پیسٹ کرنے کی عادت ، اجتہاد فی الدین ہے تو بصد شوق اس کام میں مگن رہیں۔ اپنی روزی روٹی کمائیں۔ مگر یہ نہ کہیں کہ آج چودہ سو سال بعد جو قرآن اور اسلام آپ نے سمجھ لیا وہ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ کی نابغہ روزگار ہستیوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔

آپ کی لمبی چوڑی پوسٹوں میں عنقا دلائل جن کا آپ ڈھنڈورہ پیٹتے رہتے تھے سے تنگ آکر میں نے نکتہ وار سوالات پوچھنے کا سلسلہ شروع کیا مگر پتا نہیں کیوں پہلا سوال ہی آپ کے حلق سے نہیں اتر رہا۔
 
سیفی ۔ آپ کے سوال کا جواب ایک سے زائید بار دے چکا ہوں ۔ رنگوں سے لکھ چکا ہوں اگر اب بھی سمجھ میں نہیں آتا تو میں کیا کرسکتا ہوں؟ آپ ہی درست جواب عطا فرمائیے، تاکہ بندہ کی سمجھ میں اضافہ ہو۔

اگر آپ خلوص سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں ، تو سو بار خوش آمدید۔ کچھ ہم سیکھیں گے اور کچھ آپ ۔ اگر آپ کو ان حوالوں میں‌کوئی خامی نظر آتی ہے تو فرمائیے۔ درستگی کرکے بہت خوشی محسوس ہوگی۔ تراجم کی غلطی یا روایات کی خامی ۔ کسی بھی طور کوئی استعمال غلط ہو تو فرمائیے۔

رہی بات نئے مذہب کی تو ، نہ قرآن نیا ہے اور نا ہی اس قرآن کو پیش کرنے والا نبی (‌محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نیا ہے۔ میں صرف اور صرف قرآن سے حوالے دیتا ہوں، آیات شئیر کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کی حکمت بہت کافی ہے ہر اعتراض‌کے جواب کے لئے۔ یہ کوئی نیا مذہب نہیں ، کوئی نئی کتاب نہیں، کوئی نیا رسول نہیں۔ 1400 سے زائید سال پہلے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا۔ اگر آپ قران کے تراجم ‌ کے بارے میں پڑھنا چاہیں تو http://www.openburhan.net/ پر اس کتاب کے 23 عدد ترجمے موجود ہیں۔ کیا آپ نے ایک بھی ترجمہ مکمل طور پر اپنی زبان میں پڑھا ہے؟ پرخلوص سوال ہے۔ جواب دیجئے۔ تاکہ اس سے آگے بات بڑھ سکے۔

پچھلے سوالات:
1۔ آپ کے نزدیک اہانت رسول کیا ہے؟ بہت واضح الفاظ میں فرمائیے؟
2۔ جو آیات آپ کو پیش کی گئی ہیں ان سے آپ کے خیال میں رسول اللہ اور اللہ تعالی کیوں‌ناراض و رنجیدہ ہیں ؟
3۔ کیا آپ کو ان آیات میں‌کوئی ایسی نشانی ملتی ہے جس سے یہ واضح ہو کہ ان کی ناراضی کی کیا وجہ ہے؟
4۔ اور آپ کے خیال میں ان آیات میں اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا اصول وضع کیا گیا ہے ؟

نیا سوال:‌
کیا آپ نے ایک بھی ترجمہ مکمل طور پر اپنی زبان میں پڑھا ہے؟ پرخلوص سوال ہے۔ جواب دیجئے۔ تاکہ اس سے آگے بات بڑھ سکے۔

اگر آپ اپنا مسلک ، یا مذہب میرے طریقہ سے الگ پاتے ہیں تو مجھ کو میر اور آپ کو آپ کا دین مبارک، میں فقط قرآن سے حوالے دیتا ہوں۔ اگر آپ کو یہ پسند نہیں آپ نہ پڑھئیے ۔ میں کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ قرآن کے حوالہ بالضرور پڑھے۔

میرا ایمان قرآن کی اس آیت کے مطابق ہے۔ نہ اس سے کچھ کم اور نہ اس سے کچھ زیادہ ۔ جس کتاب کا اس میں کہا گیا ہے بس اسی پر ایمان ہے۔

[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

اب آپ سے کئے ہوئے سوالوں کے جواب کا انتظار ہے۔ آپ کہ نکتہ نظر جانے بناء ، یہ بات چیت مزید آگے بڑھنا مشکل ہی لگتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top