قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرخ منظور

لائبریرین
سیفی صاحب میرے بھی دو سوالات کے جوابات دیجئے گا اگر انکا جواب واضح ہوگیا تو شائد آپ کو واضح ہوجائے کہ روایات کو کیوں نہیں مانا جاسکتا - میں زیادہ لمبی بحثیں نہیں کرتا اس لئے براہِ مہربانی میرے سوال کا جواب مختصر اور جامع دیجئے گا ورنہ میرے لئے پڑھنا مشکل ہوجائے گا - بہت شکریہ!
سوال1: قرآن نے آکر کیوں اپنے سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابوں کو منسوخ کیا؟
سوال2: رسولِ اکرم کو نبی آخرالزمان کیوں‌ کہا گیا اور ان کے بعد کوئی نبی کیوں‌نہیں‌آئے گا؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
ایک اقتباس جوکہ زیر ٹائپنگ ہے اردو محفل کے لیے " فتنہ انکار حدیث مفتی رشید احمد رحمہ اللہ "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ڈاک کے ہر کارے کی طرح محض بلاغ ہی نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اور حکمت کے معلم اور مسلمانوں کے لیے مزکی بھی تھے تعلیم الکتاب کا فرض جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ لگایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرض کو کس طرح ادا کرتے تھے ؟ کیا قرآن کے طلبہ ( صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ) آپ سے کسی آیت کے بارے میں کچھ دریافت ہی نہیں کرتے تھے ؟ اور اگر کچھ دریافت کرتے تھے تو کیا آپ ان کا جواب میں قرآن ہی کی کوئی آیت پیش کر دیتے تھے ؟ کیا یہ طریقہ تعلیم قرین قیاس ہو سکتا ہے کہ ایک معلم کسی کتاب کی تعلیم دے تو طلبہ تلاوت متن اور سماع کے سوا کوئی بات دریافت ہی نہ کریں ۔ اور اگر کچھ دریافت کریں تو استاد اس کے جواب میں کتاب ہی کا متن پڑھ دے ۔ اپنی زبان سے کچھ تشریح نہ کرے معلم کا فرض ہے کہ کتاب کے مجملات کے تفسیر اور تشریح کرے اور طلبہ کے اعتراضات و خدشات کو حل کرے ۔ کتاب کے مفہوم اور معنی کو واضح طور پر سمجھائے ۔ پرویز کہتا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت نہیں ہر شخص اپنے دماغ سے قرآن سمجھ سکتا ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن میں صلوۃ و صوم ، حج اور زکواۃ وغیرہ کی تفاصیل کا کہاں ذکر ہے اور اگر قرآن کی تفسیر کرنے کا کسی کو حق نہیں تو آپ نے" معارف القرآن " لکھ کر حماقت کا ثبوت کیوں دیا ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر تو قابل قبول نہیں اور اس گستاخ بد ہنش کی تفسیر قابل اعتبار ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً اپنے قول و فعل سے قرآن کی تشریح فرماتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کا تزکیہ کرتے تھے ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل قابل اعتبار نہیں تو معلم الکتاب اور مزکی کیسے ہوئے ؟ اور پھر ولحکمۃ کا عطف مغایرت کا مقتضی ہے ۔ اس لیے مفسرین نے حکمت کی تفسیر حدیث سے کی ہے۔ نیز و یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون میں تکریر عامل اس پر دال ہے کہ یہ علوم قرآن کے سوا کسی دوسری جنس کے ہیں یہی حدیث ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کی تشریح و تفسیر فرماتے تھے وہ اپنی ذات کی طرف سے نہ تھی بلکہ وہ بھی در پردہ وحی و الہام ہوا کرتی تھی
 

سیفی

محفلین
سیفی صاحب میرے بھی دو سوالات کے جوابات دیجئے گا اگر انکا جواب واضح ہوگیا تو شائد آپ کو واضح ہوجائے کہ روایات کو کیوں نہیں مانا جاسکتا - میں زیادہ لمبی بحثیں نہیں کرتا اس لئے براہِ مہربانی میرے سوال کا جواب مختصر اور جامع دیجئے گا ورنہ میرے لئے پڑھنا مشکل ہوجائے گا - بہت شکریہ!
سوال1: قرآن نے آکر کیوں اپنے سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابوں کو منسوخ کیا؟
سوال2: رسولِ اکرم کو نبی آخرالزمان کیوں‌ کہا گیا اور ان کے بعد کوئی نبی کیوں‌نہیں‌آئے گا؟

محترمی سخنور صاحب،
اس دھاگے پر میں فاروق سرور خان صاحب سے صرف ایک سوال پوچھے بیٹھا ہوں کہ قرآن کی جو آیات وہ توہینِ رسالت کے واقعات کے سلسلے میں‌پیش کررہے ہیں ان میں انھی کے اپنے بیان کردہ تینوں واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ قوسین/بریکٹس میں جو ترجمہ کا اضافہ ہے وہ تو مترجمین نے احادیث کی روشنی میں کیا ہے۔ فاروق سرور خان صاحب تو احادیث پر ایمان ہی نہیں رکھتے تو وہ اس ترجمے کو کیسے اپنے موقف کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔

اگر وہ پورے قرآن میں ایک بھی ایسی آیت دکھا دیں جس میں نبی علیہ السلام کی توہین اور اذیت دیئے جانے کے واقعات ہوں بغیر قوسین کے ترجمے کے تو معاملہ ختم شد۔

میں فاروق صاحب پر قطعی زور نہیں دیتا کہ وہ کتبِ احادیث پر ایمان لائیں۔ انھیں انکا مذہب مبارک۔ لیکن بغیر احادیث کے وہ کوئی ایک آیت تو سامنے لائیں جس میں نبی علیہ السلام کو اذیت کے واقعات مذکور ہوں۔

آپ کو اگر کتبِ احادیث پر کوئی شبہ ہے تو علیحدہ دھاگہ کھول لیں۔ یہاں صرف توہینِ رسالت کے واقعات کے ماخذ اور اس کی سزا کے حوالے سے گفتگو ہوگی۔
 

رضا

معطل
کوئی میرے سوال کا جواب بھی تو دے۔
کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی وجہ کے کسی حربی کافر(1) کو قتل کردے۔تو عند الشرع اس پر کیا حکم لگے گا؟
میری پوسٹ اسی دھاگے میں صحفہ 4 پہ ہے وہاں سے دیکھی جاسکتی ہے۔فاروق بھائی یا جس کو بھی علم ہو وہ اس کا جواب ضرور دیں۔
 
سیفی۔ آپ پھر اس دھاگے کے اصل موضوع کو الجھا رہے ہیں۔ جس سوال کے پیچھے آپ پھنسے ہوئے ہیں وہ صرف اتنا ہے کہ میں اپنی بات کا حوالہ کتب روایات سے دوں ، اور اس حوالہ کی بناء‌پر یہ مان لوں کہ یہ تمام کی تمام کتب روایات مکمل طور پر بمثل قرآن درست ہیں۔

آپ اپنے سوال کے جواب میں یہاں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچانے والی آیات کے دو عدد سیٹ دیکھ چکے ہیں۔ حیران ہوں کے آپ کو وہ جواب نظر نہیں آتا

آپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ میں اقوال و اعمال ( احادیث رسول صلعم ) پرایمان نہیں ‌رکھتا۔ یہ آپ کے اپنے ذہن کی پپیداوار ہے۔ میں باقاعدگی سے اقوال و اعمال رسول پیش کرتا ہوں اور ان احادیث، حدث یا واقعات کو جو ان کتب میں درج ہیں ان کو ضرورتاً پیش کرتا ہوں۔ لیکن کسی کتب روایت پر من و عن ایمان مثل قرآن نہیں رکھتا، کیونکہ یہ کتب روایات امتداد زماناہ کا شکار ہیں اور اس ضمن میں سرکار دوعالم کا ارشاد ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع دیں۔


مجھے کم از کم دو افراد نے اس حدیث کے درست ہونے کے بارے میں بتایا کہ یہ ان کی اپنی تصدیق شدہ حدیث ہے۔ ایک مفتی سعودی عرب بن باز اور ایک شاہ فیصل کے ذاتی معالج بریگیڈئیر ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القران ۔ بن باز کا خط میں یہاں پیش کرچکا ہوں اور ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب سے اقتباس بھی۔ تیسرے یہاں کم از کم فرید احمد صاحب نے اس حدیث کو درست تسلیم کیا ہے۔

آپ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ یہ حدیث ان ہی کتب روایات سے ہے لہذا میں ان سب کتب روایات پر ایمان مثل القرآن لے آؤں؟ اس بنیادی اصول کی، جو قول رسول سے ثابت ہے ، سراسر خلاف ورزی ہے۔

ان گواہیوں کی موجودگی میں اس حدیث سے انکار صرف اور صرف ایک منکر الحدیث ہی کرسکتا ہے۔ لہذا اس اصول کو نہ مان کر، تمام کتب روایات کو درست قرار دے کر کیا آپ منکر الحدیث ثابت ہوتے ہیں؟ لہذا یہ کہنا کہ آپ ایک منکر الحددیث ہیں ، کیا درست ہوگا؟

آپ کے پاس تو ابھی تک ان کتب روایات کی لسٹ‌ بھی نہیں جن پر آپ مجھے ایمان لانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ نہ آپ کے پاس کسی روایت کے درست ہونے کا ثبوت ہے اور نہ آپ خود بھی ان روایات کے قائل ہیں۔ تو سنی سنائی باتوں پر آپ کیا اچھل کود فرما رہے ہیں؟

جس سوال کے پیچھے آپ پھنسے ہوئے ہیں وہ صرف اتنا ہے کہ میں اپنی بات کا حوالہ کتب روایات سے دوں ، اور اس ایک چشمی حوالہ کی بناء ‌پر یہ مان لوں کہ یہ تمام کی تمام کتب روایات بمثل قرآن درست ہیں۔ جس کے جواب میں میں نے عرض کیا کہ میں اس مندرجہ بالاء حدیث کی روشنی میں تمام روایات کو فرداً فرداً دیکھتا ہوں۔

میرا اور آپ کا نظریاتی فرق
میں کتب روایات کی ہر روایت کو فرداً فرداً‌ دیکھتا ہوں کہ وہ ضوع القرآن پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔ جب کہ آپ مکمل کتب روایت پر ایمان بالمثل قرآن رکھتے ہیں --- اب کونسا نظریہ درست ہے ؟ یہ ہے میرا اور آپ کا نظریاتی فرق۔ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ ان تمام کتب روایات میں ایسی روایات شامل ہیں جو خلاف قرآن ہیں اور اہانت رسول سے پر ہیں۔ مثلا، " لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے "

آپ کے سوال کا جواب ایک بار پھر:
1۔ بنیادی بحث اس دھاگہ کی یہ ہے کہ " اس 22 سالہ مزدور کا قتل قرآن کی رو سے جائز ہے یا ناجائز؟ " اس پر سیر حاصل بحث ہو چکی ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
2۔ جو تین باتیں میں نے پیش کیں، جن پر آپ اٹک گئے، وہ قرآن سے نہیں ہیں۔ اگر آپ کو یا کسی اور کو قابل قبول نہیں تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔
3۔ قران سے آیات کے دو عدد سیٹ آپ کو پیش کئے گئے ایک میں نے سورۃ لہب اور ایک باسم نے سورۃ‌ النور سے اقتباس پیش کیا ، کہ یہ اللہ اور رسول کو اذیت اور اہانت رسول کی مد میں نازل ہوئیں۔ یہ آیات اور ان کی شان نزول آپ کو قابل قبول نہیں آپ ان کے مروجہ معنوں سے انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسری کتب سے قرآن کو ثابت کیا جائے۔ جب کہ

1۔ اللہ کا غضب اور مناسب وجہ ان دونون آیات سے بہت واضح ہے۔
2۔ قرآن پر ایمان بالغیب ہے، کسی دوسری کتاب سے قرآن کو میں ثابت نہیں کروں گا۔
اگر آپ کا ایمان ان آیات پر نہیں اور ان کے معانی یا شان نزول میں آپ کو کوئی شبہ ہے تو
اس کے معانی دوست بخوبی جانتے ہیں آپ منکر الحدیث ہی نہیں مرتد بھی قرار پائیں گے
یہ معاملہ آپ کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ مجھے کسی قسم کے عدالتی اختیار نہیں کہ آپ کو منکرالحدیث یا مرتد قرار دوں۔
 

خرم

محفلین
بھائیو اس بحث کو کبھی کبھی پڑھتا رہا ہوں اور اس کا جو رُخ رہا ہے اس سے بھی واقفیت رکھتا ہوں کہ عموماً مذہبی موضوعات میں ہم اس بحث میں پڑ جاتے ہیں۔ میرے تئیں اصل بات یہ ہے کہ جانبین کو اپنی بات شائد سمجھانے میں دقت ہو رہی ہے۔ جو میں نے خلاصہ اخذ کیا ہے وہ بیان کئے دیتا ہوں کہ شائد اس بات سے معاملہ سلجھ جائے۔
فاروق بھائی کے متعلق عموماً خیال یہ ہے کہ وہ منکرِ حدیث ہیں۔ عمومی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے۔ ان سے ذاتی طور پر بات کرنے کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ وہ بات کو کسی اور زاویہ سے دیکھتے ہیں جو شائد ہم لوگ عمومی طور پر دیکھ نہیں پاتے۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ تمام احادیث کا انکار کیا جائے یا یہ کہ جو احادیث صحیح السند ہیں ان کا انکار کیا جائے۔ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کی اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی مقصد ہے اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے۔ ان کا اعتراض احادیث کی کتب پر ہے اور ایک علمی اعتراض ہے۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ مثالاً صحیح بخاری کا ہر نسخہ اس طرح جامع اور مکمل نہیں ہے جس طرح قرآن کا ہر نسخہ جامع اور مکمل ہے۔ وضاحت اس کی یہ کہ صحیح بخاری کے مختلف نسخوں میں روایات کی ترتیب و تعدادِ روایات میں فرق ہے اس لئے ان کے نزدیک اس بات کی جانچ کی ضرورت ہے کہ ہر حدیث صرف اس بنیاد پر صحیح نہ مان لی جائے کہ وہ بخاری میں منقول ہے بلکہ اس کی جانچ علم حدیث کی رو سے ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات وہ صحیح طریقہ سے بیان نہیں کر پاتے اور جانبین سے دن دنا دن گولہ باری شروع ہو جاتی ہے۔ وہ کتبِ روایات کی صحت پر بات کرتے ہیں اور ہم اسے انکارِ حدیث پر موقوف کرتے ہیں۔ اگر میری ذاتی رائے پوچھی جائے تو میرے خیال میں تو ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایک بات اور جو فاروق بھائی نے کہی تھی وہ یہ کہ وہ ایک انسائیکلو پیڈیا بنانا چاہتے ہیں صحیح احادیث کا اوپن برہان کی طرز پر (فاروق بھائی معذرت آپ کا راز افشاء کرنے کی لیکن میرے خیال میں یہ بات اب کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی توانائیاں درست سمت لگا سکیں) اور اس سلسلے میں انہوں نے کتبِ احادیث کے نئے اور پرانے نسخہ جات جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ اب ان نسخہ جات کے موازنہ سے انہیں اس مشکل کا سامنا ہے جو میں نے اوپر بیان کی۔ امید ہے کہ معاملہ کھل جانے پر ہم ان غلط فہمیوں سے چھٹکارا پا سکیں گے اور مستقبل کا ایک لائحہ عمل ترتیب دے سکیں گے۔
اللہ ہم سب کی مدد فرمائے۔ آمین۔
 
رضا نے کہا:
مجھے ایک سوال پوچھنا تھا۔کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی وجہ کے کسی حربی کافر(1) کو قتل کردے۔تو عند الشرع اس پر کیا حکم لگے گا؟
فاروق بھائی آپ صرف کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیکر بتائیے گا۔
(1): فی زمانہ تمام کافر حربی ہيں،ذمی نہیں۔
یعنی اگر کوئی مسلمان کسی کافر حربی کو بغیر وجہ کے جاکے قتل کردے تو کیا وہ شخص اللہ ‏عزوجل کی بارگاہ میں مجرم ٹھہرے گا؟ یا اسلامی حکومت ہو تو خلیفہء وقت یا قاضی القضاء اس کو کیا سزا دے گا؟
کیونکہ ظلم یا جرم کرنے والے کو سزا تو ملے گی نا! دنیا میں نا سہی تو آخرت میں سہی۔جیسے دنیا میں کوئی زنا کرے گا تو اس کی حد 100کوڑے ہے۔اب اسلامی حکومت تو ہے نہیں۔اگر یہ بغیر توبہ کئے مر گیا تو آخرت میں سزا کا مستحق ہے۔کسی ملک کی اسلامی حکومت ہو تو زنا کی حد لگانا قاضی القضاء(Chief Justice) کا کام ہے۔اور وہ بھی اگر جرم ثابت ہو۔جرم بھی اسطرح کہ چار چشم دید گواہ ہوں۔اور وہ بھی پوری گواہی دیں۔تین نے پوری گواہی دی اور چوتھے نے یہ کہا کہ میں نے ان دونوں کو ایک کمرے میں ایک بستر پہ برہنہ آپس میں بغلگیر دیکھا۔تو یہ گواہی پوری نہیں۔اب ان چاروں پہ مسلمان پر بہتان لگانے کی حد قاضی القضاء(Chief Justice)لگائے گا یعنی ان چاروں کو 80 کوڑے مروائے جائیں گے۔(پوری گواہی دیں مثلا ایسے کہیں جیسے سرمہ دانی میں سلائی۔ اور چار گواہ ہوں۔) اور گواہ بھی مردودالشہادت نہ ہوں۔گواہی دینے کے اہل ہوں۔آپ نے فقہ کی اکثر کتابوں میں ایسی عبارات پڑھی ہوں گی۔جیسے کہ جو بازار میں چلتے ہوئے کھانا کھائے وہ مردود الشہادت ہے۔جھوٹ نہ بولتا ہو۔اسی طرح اہل ہونے کی اور بھی بہت سی شرائط ہیں۔یعنی شہادت کے اہل ہوں اور چار مسلمان گواہی دیں۔یا وہ اپنے جرم کا خود اعتراف کرلے۔تب جاکے قاضی القضاء(Chief Justice)اس پہ حد لگائے گا۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالی کو مسلمان کی عزت کتنی عزیز ہے۔تو اس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہیے کسی پہ زنا کی تہمت لگاتے وقت کہ اگر ثابت نہ کرسکے تو بہتان(تہمت) کی حد لگے گی۔جیسے کسی نے کسی کو حرام زدہ کہہ دیا تو اس کی ماں پہ زنا کی تہمت لگی اب اسلامی حکومت ہو تو ثابت نہ کرنے کی صورت میں اس کو 80کوڑے لگائے جائیں گے۔دنیا میں حد نہ لگی تو بغیر توبہ مرنے کی صورت میں آخرت میں سزا کا استحقاق ہے۔
یہ ضمنا عرض کردیا۔کہ اگر کوئی کسی پہ ظلم کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔دنیا میں نہ ملی تو آخرت میں۔
میرے سوال کا جواب اگر کسی کے علم میں‌ہو تو پلیز‌ضرور بتائيے۔
کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی وجہ کے کسی حربی کافر(1) کو قتل کردے۔تو عند الشرع اس پر کیا حکم لگے گا؟

برادر محترم رضا آپ نے بہت سارے سوال ایک جگہ کر دیے۔
1۔ یہ فرض کرلینا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت نہیں ، یقیناً درست نہیں ۔ اس سلسلے میں میں نے کئی آرٹیکل لکھے ہیں۔ ان کے لنک آُ کو فراہم کردوں گا۔ پاکستان میں ایک مکمل اسلامی حکومت ہے ، جو قرآن سے ثابت ہے، جس آئین کے تحت یہ حکومت بنی ہے وہ مکمل طور پر قرآن و سنت کے مطابق اصولوں پر ہے۔ چونکہ اس آئین کا پہلا اصول یہ ہے کہ آئین و قوانین پاکستان قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے لہذا آپ کے نمائندے جب بھی کوئی بات خلاف قران پائیں گے اس کو تبدیل کریں گے۔ آپ کو کوئی اس آئین میں یا پاکستانی قوانیں میں خلاف قرآن و سنت نظر آئے تو اپنے نمائندے کو لکھئے، اخبارون کو لکھئے اور ورنہ یہاں لکھئے ، :)

2۔ ایک سوال پوچھنا تھا۔کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی وجہ کے کسی حربی کافر(1) کو قتل کردے۔تو عند الشرع اس پر کیا حکم لگے گا؟
فاروق بھائی آپ صرف کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیکر بتائیے گا۔
(1): فی زمانہ تمام کافر حربی ہيں،ذمی نہیں۔

آپ کے سوال کی وضاحت کردیتا ہوں، تاکہ سب کی سمجھ میں آئے کہ حربی کافر کون ہوتا ہے۔
تالی بان ( تالیاں بجانے والا مسخرہ )‌ اسامہ بن لادن نے اپنے نظریہ "‌ نظریاتی اختلاف کی سزا موت " کی بنیاد پر یہ دعوی کیا کہ " ہر وہ شخص جو مسلمان نہیں ، وہ کافر ہے اور چونکہ اسامہ بن لادن حالت جنگ میں ہے لہذا اس کے مخالفین حالت جنگ میں ہیں، جو لوگ ان ممالک میں کام کرتے ہیں وہ ٹیکس دے کر اپنی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں لہذا وہ سب حالت جنگ میں ہیں ، لہذا یہ سب حربی کافر ہیں اور ان کا قتل جائز ہے"

اس اصول کا اعادہ القاعدہ، طالبان اور مختلف دہشت گرد جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ مختلف بیانات میں ہوتا رہا۔ میں نے ایک سے زیادہ اخبار میں اس قسم کے بیانات کی مد یہاں‌ تک پڑھا کہ
1۔ پاکستانی فوج کافر ہے کہ وہ کافروں یعنی امریکہ کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔
2۔ چونکہ پاکستانی فوج پاکستانی ' ذمی " ٹیکس دینے والے عوام کے پیسے سے چلتی ہے لہذا ہر پاکستانی اس "کافر فوج " کو سپورٹ کررہا ہے۔
3۔ چونکہ ہر پاکستانی اس پاکستانی فوج کو سپورٹ کررہا ہے، لہذا ہر پاکستانی کافر ہے اور اس فوج کو سپورٹ کرنے کے باعث " کافر حربی "‌ ہے ۔
4۔ چونکہ ہر پاکستانی جو طالبان نہیں ، "کافر حربی" ہے ، اس لئے مسلمانوں پر یعنی " تالی بانوں " پر ان " حربی کافر پاکستانیوں " کا قتل جائز ہی نہیں واجب ہے۔
5۔ یہی نظریات ہیں ان دھماکوں کے پیچھے جو کراچی سے پشاور تک ہورہے ہیں۔ لہذا یہ کسی معمولی آدمی کا نظریہ نہیں بلکہ پاکستانیوں کے قاتلوں کا نظریہ ہے۔

بہت سے لوگ مسلم ، غیر مسلم اور کافروں میں بالکل تمیز نہیں کرتے۔ کافر وہ ہے جو اللہ اور اس کے پیغام کو رد کرتا ہو یعنی تکفیر کرتا ہو۔

اس سے پہلے کہ ہم قرآن سے کوئی آیت اس کی حمایت یا مخالفت میں دیکھیں، یہ بتائیے کہ کیا ہم کو اس مندرجہ بالا "‌ہر کافر ، آج کافر حربی ہے اور اس کا قتل جائز ہے " کی نرالی منظق قبول کرنی چاہئیے؟ خاص طور پر جب کی پاکستانیوں کے دھماکوں کی مدد سے قتل عام کے پیچھے یہی جواز کار فرما ہو؟
 

خرم

محفلین
اور رضا بھائی آپ نے یہ کب سے فرض کر لیا کہ تمام غیر مسلم جو ہیں وہ حربی ہیں اور ذمی نہیں؟ جو پاکستان میں غیر مسلم موجود ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور کیوں؟
 
سب سے پہلے بھائی خرم کا بہت شکریہ۔ اور اس کے بعد معذرت کہ یہ بات اس دھاگہ سے متعلق نہیں ہے۔
کتب روایات کی صحت کا فرق اور احادیث نبوی سے انکار دو الگ الگ ضمن ہیں۔ آپ نے کوئی راز افشاء نہیں کیا، احادیث کی ڈاٹا بیس پر کام جاری ہے۔ اس میں تمام کی تمام روایات، عربی، اردو اور انگریزی میں رکھی جائیں گی اور اوپن برہان کی طرز پر ایک ہی روایت کے تمام ورژن، ان کی سورس ، مع اس کی کتاب کے جاری کرنے کی تاریخ کے اس میں شامل کی جائیں گی۔ میں نے حال ہی میں 1400ع کی عربی میں لکھی گئی روایات کی کتاب ایک نیلام میں خریدی ہے۔ جو ایک نادر اضافہ ہے۔ اس ذخیرہ میں۔ وہ کتب جو الیکٹرانک فارم میں نہیں مل سکی ہیں، ان کی ٹائیپنگ میرے چھوٹے بھائی کی نگرانی میں کراچی میں جاری ہے۔

جیسا کہ آپ کو بتایا، سب سے بڑی مشکل ان روایات کو ایک ترتیب میں رکھنے میں آرہی ہے۔ کیوں کہ میں اس کا ایک ڈھونڈنے کے قابل ( سرچ ایبل )‌ انڈیکس ، عربی کے مصدر، جذر یا روٹ‌ لفظ سے چاہتا ہوں۔ اس کا علاج میں نے یہ نکالا ہے کہ ہم اپنی ترتیب استعمال کریں اور ہر روایت کے ساتھ ایک لنک دے دیں کہ اس حدیث کی جملہ تفصیل کہ وہ کس کتاب میں کب پائی گئی سامنے آجائے۔

جیسا کہ آپ سے بات ہوئی تھی ، ان روایات کی ترتیب، تدوین، متن اور تعداد کا فرق اور ایک واضح لسٹ جس میں تمام احادیث کی مکمل کلاسیفیکیشن ہو کہ
الاحاديث القدسيۃ ، الحاديث المتواترۃ ، الاحاديث المرفوعۃ ، الاحاديث المقطوعۃ ، الاحاديث الموقوفۃ کا واضح انتخاب کیا جاسکے۔ مجھے آپ کا آئیڈیا بہت پسند آیا کہ پہلے اس کو مکمل کرلیتے ہیں اور اس میں گنجائش رکھتے ہیں کہ ایک فارم ایسا مہیا کیا جائے جس میں دو مسلمان اپنی گواہی پر اور کسی مصدقہ عالم کی گواہی کے ساتھ، کسی حدیث کے بارے میں اپنا خیال درج کرسکیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ایک ہی روایت کس فرقہ کے لئے قابل قبول ہے، کس کے لئے ضعیف ہے اور کس کے لئے صحیح ہے۔ جملہ کتب کا ایک جگہ پر جمع ہونا، تراجم کا موجود ہونا اور ایک بہترین انڈیکس کا روٹ ورڈ کی مدد سے روایات کو دیکھنے سے امید ہے کہ برادران قریب آئیں گے۔

قرآن کی ایک اردو سرچ ایبل سپورٹ باسم نے جملہ میں تیار کی ہے۔ میں نے جتنا ممکن ہوسکا باسم کی مدد کی۔ اس سرچ ایبل سپورٹ کو جملہ کے آئندہ ورژن کے ساتھ باسم ریلیز کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ اس ضمن میں میرے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں وہ ڈایریکٹلی کرتے رہے ہیں۔ مشقت روزگار کی وجہ سے اس پراجیکٹ کی رفتار سست ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے رابظہ قائم کرتے ہیں او اس پراجیکٹ پر اور اوپن برہان پر کام بھی کرتے ہیں لیکن کچھ بھائی ایسے ہیں جو شرایط رکھتے ہیں کہ اگر آپ یہ ہٹا دیں تو ہم کام کریں گے۔ جب کہ میری واحد شرط یہ ہے کہ ہر ترجمے کو شامل کیا جائے بنا کسی عناد کے تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ان کی کتب و تراجم کس قدر آپس میں کس قدر آپس میں ملتے ہیں اور کیا دوریاں ہیں ۔ کہ دوری جانے بغیر قربت محال ہے۔ یکجائی محال ہے۔ دعا کیجئے کہ اس کام میں اللہ کی مدد شامل حال رہے۔ جونہی یہ کام کسی قابل ہوتا ہے میں اس کو پبلک ڈومین میں اوپن برہان کی طرح پوسٹ‌کردوں گا۔

جو لوگ مجھ سے لڑتے ہیں لڑنے دیجئے، اس سے نظریاتی فرق واضح ہوتے ہیں اور لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس کس قسم کے نظریات کا ہم شکار ہیں۔ ایک تنقید و تائید سے پر بحث ہی خیالات میں‌ ارتقاء‌ و روئیدگی کا باعث بنتی ہے۔ اگر ہم سب بات ہی نہ کریں تو نہ خیالات کا ارتقاء‌ ہوگا، نہ ترقی اور نہ ہی اتحاد ممکن ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے سے ہی اتحاد ممکن ہے ۔ جو کہ بنا تنقید و تائید ناممکن ہے۔

والسلام
 
فاروق بھائی کے متعلق عموماً خیال یہ ہے کہ وہ منکرِ حدیث ہیں۔ عمومی طور پر یہ بات کہی جاتی ہے۔ ان سے ذاتی طور پر بات کرنے کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ وہ بات کو کسی اور زاویہ سے دیکھتے ہیں جو شائد ہم لوگ عمومی طور پر دیکھ نہیں پاتے۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ تمام احادیث کا انکار کیا جائے یا یہ کہ جو احادیث صحیح السند ہیں ان کا انکار کیا جائے۔ ایسی کوئی بات انہوں نے نہیں کی اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی مقصد ہے اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے۔ ان کا اعتراض احادیث کی کتب پر ہے اور ایک علمی اعتراض ہے۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ مثالاً صحیح بخاری کا ہر نسخہ اس طرح جامع اور مکمل نہیں ہے جس طرح قرآن کا ہر نسخہ جامع اور مکمل ہے۔ وضاحت اس کی یہ کہ صحیح بخاری کے مختلف نسخوں میں روایات کی ترتیب و تعدادِ روایات میں فرق ہے اس لئے ان کے نزدیک اس بات کی جانچ کی ضرورت ہے کہ ہر حدیث صرف اس بنیاد پر صحیح نہ مان لی جائے کہ وہ بخاری میں منقول ہے بلکہ اس کی جانچ علم حدیث کی رو سے ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات وہ صحیح طریقہ سے بیان نہیں کر پاتے اور جانبین سے دن دنا دن گولہ باری شروع ہو جاتی ہے۔ وہ کتبِ روایات کی صحت پر بات کرتے ہیں اور ہم اسے انکارِ حدیث پر موقوف کرتے ہیں۔ اگر میری ذاتی رائے پوچھی جائے تو میرے خیال میں تو ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایک بات اور جو فاروق بھائی نے کہی تھی وہ یہ کہ وہ ایک انسائیکلو پیڈیا بنانا چاہتے ہیں صحیح احادیث کا اوپن برہان کی طرز پر
فاروق صاحب کیا خرم نے آپ کے خیالات کی درست ترجمانی کی ہے یعنی بالخصوص جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
اس لئے ان کے نزدیک اس بات کی جانچ کی ضرورت ہے کہ ہر حدیث صرف اس بنیاد پر صحیح نہ مان لی جائے کہ وہ بخاری میں منقول ہے بلکہ اس کی جانچ علم حدیث کی رو سے ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات وہ صحیح طریقہ سے بیان نہیں کر پاتے
تو وہ درست طور پر آپ کے خیالات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں؟ (ویسے خرم کی اس پوسٹ پر آپ نے انکا شکریہ بھی ادا کیا ہے اور ان کی کسی بات کی بعد میں تردید بھی نہیں کی ہے)
 
ابن حسن صاحب، سلام علیکم۔

خرم نے جو لکھا درست لکھا۔ میں نے ان کو اسی مد میں جواب بھی دیا۔ وہ مجھ سے اور میں ان سے ذاتی طور پر واقف ہوں۔ اعمال و اقوال رسول کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ اس کے بناء کوئی دعوی مسلمانی قابل قبول نہیں۔ ایسا انکار آپ کو میری کسی بھی تحریر میں نظر نہیں آئے گا۔ کتب روایات کی صحت اور احادیث رسول کا انکار دو مختلف باتیں ہیں۔ آپ اگر ہمارے کام میں ہاتھ بٹائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ روایات سے کس طور لاپرواہی برتی گئی ہے۔ اور بہت سی روایات ایسی ہیں جن کو سن کر آپ کے بھی کان کھڑے ہوجائیں گے۔ جن کو کوئی بھی قاری قرآن شبہ کی نظروں سے دیکھے گا۔

ایک ایسی روایت کی مثال جس میں‌لڑکیوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت اور سورۃ نور نہ پڑھنے کی روایت رسول اکرم سے منسوب کی گئی ہے۔ ایک اور روایت میں سورۃ یوسف نہ پڑھنے کی روایت منسوب کی گئی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہوں لیکن اس قسم کی روایات پر یقین رکھنے میں میرا قرآن پر ایمان متاثر ہوتا ہے ، جو علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ : صفر کے درمیان میرے الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ کسی دوسرے دھاگے سے اقتباس ہے۔ روایت اگر قرآن کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی تو اس کو ضائع کردینے کا حکم منجانب رسول اللہ صلعم ایک دوسری روایت میں موجود ہے۔ یہ میرا انداز فکر ہے، جو میں کسی کو ماننے کو نہیں کہتا۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ000000000000000000
حدثنا محمد ابن ابراہیم ابو عبد اللہ الشامی حدثنا شعیب ابن اسحق الدمشقی عن ھشام ابن عروۃ عن ابیہ عن عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتسکنوا من الغرفۃ والا تعلموھن الکتابۃ و علموھن الغزل و سورۃ النور" ( رواۃ الحاکم فی المستدرک والسیوطی)
یہ ترجمہ نہیں اس روایت کا۔ بنیادی لب لباب یہ لکھا گیاہے۔
عورتون کو لکھنا نہ سکھایا جائے کہ ان لکھنا سکھانا مکروہ ہے، اس کی اصل امام بیقہی کی بیان کردہ وہ حدیث ہے ، جو انہوں نے شعدب الایمان میں حضرت عایشہ صدیقہ سے اس سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
0000000000000000000000000
آپ میرا یہ جوب پڑھ لیجئے ، جو اسی دھاگہ میں میں نے سیفی کو پہلے عرض کیا تھا۔
---------------------------
آپ کا یہ کہنا درست نہیں کہ میں اقوال و اعمال ( احادیث رسول صلعم ) پرایمان نہیں ‌رکھتا۔ یہ آپ کے اپنے ذہن کی پپیداوار ہے۔ میں باقاعدگی سے اقوال و اعمال رسول پیش کرتا ہوں اور ان احادیث، حدث یا واقعات کو جو ان کتب میں درج ہیں ان کو ضرورتاً پیش کرتا ہوں۔ لیکن کسی مکمل کتب روایت پر من و عن ایمان مثل قرآن نہیں رکھتا، کیونکہ یہ کتب روایات امتداد زماناہ کا شکار ہیں اور اس ضمن میں سرکار دوعالم کا ارشاد ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔

مجھے کم از کم دو افراد نے اس حدیث کے درست ہونے کے بارے میں بتایا کہ یہ ان کی اپنی تصدیق شدہ حدیث ہے۔ ایک مفتی سعودی عرب بن باز اور ایک شاہ فیصل کے ذاتی معالج بریگیڈئیر ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القران ۔ بن باز کا خط میں یہاں پیش کرچکا ہوں اور ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب سے اقتباس بھی۔ تیسرے یہاں کم از کم فرید احمد صاحب نے اس حدیث کو درست تسلیم کیا ہے۔
آپ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ یہ حدیث ان ہی کتب روایات سے ہے لہذا میں ان سب کتب روایات پر ایمان مثل القرآن لے آؤں؟ اس بنیادی اصول کی، جو قول رسول سے ثابت ہے ، سراسر خلاف ورزی ہے۔
-------------------------------------------
والسلام
 

رضا

معطل
آپ کے سوال کی وضاحت کردیتا ہوں، تاکہ سب کی سمجھ میں آئے کہ حربی کافر کون ہوتا ہے۔
تالی بان ( تالیاں بجانے والا مسخرہ )‌ اسامہ بن لادن نے اپنے نظریہ "‌ نظریاتی اختلاف کی سزا موت " کی بنیاد پر یہ دعوی کیا کہ " ہر وہ شخص جو مسلمان نہیں ، وہ کافر ہے اور چونکہ اسامہ بن لادن حالت جنگ میں ہے لہذا اس کے مخالفین حالت جنگ میں ہیں، جو لوگ ان ممالک میں کام کرتے ہیں وہ ٹیکس دے کر اپنی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں لہذا وہ سب حالت جنگ میں ہیں ، لہذا یہ سب حربی کافر ہیں اور ان کا قتل جائز ہے"
فاروق بھائی! یہ آپ نے حربی کافر کی تعریف ناجانے کہاں سے لے لی ہے۔
بھائی جان! ذمی کافر وہ ہوتا ہے جو کسی اسلامی ملک میں رہتا ہو۔اور ریاستی شہری کے مکمل حقوق لینے کیلئے یا تو وہ مسلمان ہوجائے یا اسلامی حکومت کو جزیہ دے۔جزیہ ادا کردینے پر اب اس کے حقوق حکومت کے ذمے ہیں۔
کافر حربی وہ ہوتا ہے جو جزیہ نہ دے۔
آج کے دور میں کونسا کافر ہے جو کسی اسلامی حکومت کو جزیہ دیتا ہو؟؟؟
اور پاکستان کی "اسلامی حکومت" کفار سے سالانہ کتنا جزیہ لیتی ہے؟؟؟
بھائی اسلامی ملک ہونا اور بات ہے اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت ہونا اور بات ہے۔
 
معذرت چاہتا ہوں ، جذیہ، فدیہ، زکوۃ، خیرات ، صدقات کو جدید زبان میں مجموعی طور پر ٹیکس کہتے ہیں۔
جو قوانیں اسلامی نہیں ہیں ان کو اسلامی کرنے پر لکھئے۔ یہی مہذب قوموں کا شعار ہے۔ کہ باہمی مشورہ اور باہم فیصلہ سے فیصلہ کیا جائے۔
 
دیکھ رہا ہوں کہ ان تفاصیل کے بعد وہ لوگ جو بحث برائے بحث کررہے تھے غائب ہوگئے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ منکر الحدیث کا نعرہ لگانے سے پہلے یہ نہیں سوچا جاتا کہ خود اپنا ایمان کیا ہے۔ بعد میں القاء ہوتا ہے کہ "‌یار میں کہہ کیا رہا ہوں، کیا شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا" لیکن اس وقت تک شیطان اتنا غلبہ پا چکا ہوتا ہے کہ اپنی انا، و غرور کو بچانے کے لئے کوئی راہ نہیں ہوتی۔ اس مقام پر میں سوچنے کے لئے چھوڑ دیتا ہوں۔

اگر یہ طے کرلیا جائے بہت آسان ہوگا کہ آیا کچھ کتب روایات پر ایمان مثل القرآن ضروری ہے یا ان کتب روایات میں دی ہوئی حدیث کو ضوع القرآن کی مدد سے جانچا جائے گا؟

اس مد میں بہت بحثیں ہوتی ہیں لیکن نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ یہ خواہ مخواۃ کا ڈسٹریکشن ہوتا ہے اور اصل بحث وہیں رہ جاتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے انتہا بسند نظریات ہمارے معاشرے میں گھل مل گئے ہیں ۔ قتل و غارتگری معمول بن گیا ہے۔ جب اس پر قران کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو لوگوں کے جذبات متاثر ہوتے ہیں۔ کیا ایسا اچھا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔
 

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب

خاطر جمع رکھیں۔ یہ میری کوئی انا کا مسئلہ قطعا نہیں ہے کہ مجھے بھاگنا پڑے۔ الحمدللہ اسلام چودہ سو سال سے ایسی سازشوں سے نبٹتا آیا ہے۔ آپ ہفتہ بھر شکل نہ دکھائیں تو آپ مصروف ہیں اور دوسرا فریق ایک دن نہ آئے تو جناب بغلیں بجانا شروع کردیں۔

آپ کی قلابازیوں پر میں قطعی حیران نہیں ہوتا ۔ اور آپ نے پچھلی پوسٹ میں جو مجھے مرتد قرار دینے کی نئی منطق جھاڑی ہے وہ بھی کوئی انوکھی نہیں۔ فتنہ انکارِ حدیث کی پوٹلی میں جتنے بھی تیر ہیں میں سب سے واقف ہوں۔

پہلے توآپ ڈھنڈورہ پیٹتے پھرتے تھے کہ جی تمام کتبِ احادیث جھوٹی ہیں۔ پھر شوشہ چھوڑا کہ معدودے چند احادیث پر آپ یقین لاتے ہیں۔ جب میں نے ان پر یقین کرنے کی وجہ اور ثبوت مانگا تو آپ نے ایک اور پلٹنی کھائی کہ میں ہر اس حدیث پر ایمان رکھتا ہوں جو میری قرآن فہمی سے متصادم نہ ہو۔ ایں بوالعجبی چہ است۔-------------آپ سے چند دہائیاں پیشتر بھی ایک ایسا ہی مجہول پلٹنیاں کھاتا ہم دیکھ چکے ہیں۔

خیر آپ نے ایک بات اور لکھی کہ آپ مفتی بن باز اور دوسرے شاہ فیصل کے ذاتی معالج بریگیڈئیر ڈاکٹر شبیر احمد مترجم القران کی گواہی پر ایک حدیث پر ایمان لے آئے۔ اب موٹی عقل والا بھی یہ جانتا ہے کہ ان دونوں حضرات نے یہ حدیث نبی علیہ السلام سے خود نہیں سنی۔ بلکہ انکے اساتذہ نے جن سے روایت کی اور انھوں نے جن سے سنی ان سب کی کڑیاں انھی ائمہ حدیث تک جا پہنچتی ہیں جن کو آپ جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اب ائمہ حدیث جن سے روایت چلی آرہی ہے وہ تو جھوٹے نعوذباللہ اور جناب یہ دو حضرات سچے کہ ان سے فاروق خان‌ صاحب نے حدیث سن لی۔

خان صاحب۔ آپ کو کتنی گواہیاں چاہئیں۔ آپ ذرا تشریف لائیں ۔ یہاں حفاظِ حدیث کو صرف متنِ حدیث ہی یاد نہیں بلکہ ان تمام راویوں کے نام تک یاد ہیں جن سے انھوں نے حدیث روایت کی۔ میں نے خود ایک حدیث ایسے سنی کہ پہلے اپنے موجودہ استاد سے لے کر نبی علیہ السلام تک تمام راویوں کے نام بتائے پھر متنِ حدیث سنایا۔ اب آپ کے پاس تو صرف دو گواہیاں ہیں۔ یہاں تو بیسیوں گواہیاں آپ کو مل جائیں گی۔

آپ نے لکھا : ان گواہیوں کی موجودگی میں اس حدیث سے انکار صرف اور صرف ایک منکر الحدیث ہی کرسکتا ہے -------------------

آئیں جناب میں آپ کو گواہیاں لا کے دکھاتا ہوں-اور ہاں لگے ہاتھوں گواہوں کا معیار بھی بتا دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ گواہی کی شرطِ اول شاہ فیصل کا معالج ہونا ٹھہرے تو پھر مشکل ہو جائے۔

شاید آپ پوسٹ میں سے سوال کو سنسر کے پڑھتے ہیں اس لئے اس سے اگلی پوسٹ میں دوبارہ موضوع کی طرف آتا ہوں اور آپ سے توہینِ رسالت کی سزا کے حوالے سے سوال کروں گا۔
 

سیفی

محفلین
آپ نے اپنی پوسٹ میں سورہ لھب لکھ کر بتایا کہ چونکہ یہ سورت نبی علیہ السلام کو اذیت دینے کے ابولھب اور اسکی بیوی کے طرزِ عمل کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس میں اللہ نے ان کو عذاب دینے کا ذمہ آخرت میں لیا ہے اس لئے مسلمانوں کو توہینِ رسالت کے مجرم سے اغماض برتنا چاہئے۔

ذیل میں سورہ لھب کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوا
اس کا مال اور اسکی کمائی اس کے کام نہ آئے
وہ شعلے مارتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا
اور اس کی بیوی بھی ۔ ایندھن اٹھانے والی
اس کی گردن میں مونج کی بٹی ہوئی رسی ہوگی


<a href="http://www.quranweb.org/urdu/">حوالہ</a>

جنابِ محترم فاروق سرور خان صاحب۔

آپ مجھے اس ترجمہ میں کہیں اس کا تذکرہ دکھا دیں۔ کہ اس نے نبی علیہ السلام کو پتھر مارا ہو۔ رستے میں کانٹے پھینکے ہوں یا اوجھڑی ڈالی ہو۔ یا پھر کوئی اشارہ کہ اس نے نبی علیہ السلام کو اذیت دی ہو

اس سورت کو پیش کرکے آپ شور مچائے جا رہے تھے کہ بغیر حدیث سے ثبوت پیش کئے صرف قرآن سے ثابت ہورہا ہے کہ ابولھب نے نبی علیہ السلام کو اذیت دی اور اللہ نے اسکو عذاب دینے کا وعدہ کرلیا اور اے مسلمانو،،،،،،،،،،، مولویوں کی باتوں میں مت آنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمام نسخہ ہائے حدیث سارے جھوٹے ان کے راوی جھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں قرآن کافی ہوگیا۔

بتائیں نا مجھے کہ قوسین کا ترجمہ آپ کہاں سے لاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو کیسے الہام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ سورت کس موقع پر اتری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا شانِ نزول کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنابِ والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبی علیہ السلام کی زندگی کے واقعات آپ تک کیسے پہنچے کہ آپ کہتے ہیں کہ اس سورت کے نفسِ مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شانِ رسالت میں گستاخی کی وجہ سے ابولہب کے لئے نازل ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واقعاتِ زیستِ رسول تک رسائی اگر روایات حدیث سے ممکن نہیں کہ وہ جھوٹی ہیں تو کیا تاریخِ ابنِ خلدون فرشتے کسی نے لکھی یا ہیرلڈ لیمب سے رابطہ کی ضرورت ہوگی۔

مجھے آپ کس منہ سے مرتد قرار دیں گے کہ میں اس سورت کے شانِ نزول سے انکاری ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت آنکھیں اور کان کھول کر سن لیں کہ الحمدللہ احادیث۔ رسول پر ایمان ِ کامل ہے اس لئے ہمیں‌تو اس سورت کی تفسیر کے لئے غیروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنا سوچیں کہ آپ بغیر احادیث کے کیسے نبی علیہ السلام کی زندگی کے شب وروز سے آگاہی حاصل کریں گے اور کیسے سورتوں کا شانِ نزول جان پائیں گے اور ان کی تشریح کریں گے۔--------- اب ہر حدیث کی گواہی آپ مفتی بن باز اور ڈاکٹر صاحب سے ہی لیں گے یا ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں کوئی اور بھی آپ کی نظر میں گواہی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔-----


آپ ذرا قلابازیاں کھانے سے پہلے یہ تو بتائیں کہ پہلے آپ احادیث کو تسلیم کرنے سے صریح منکر تھے۔ پھر آپ نے کہا کہ میں کتبِ احادیث کو نہیں مانتا ۔ اب کتبِ احادیث سے ہٹ کر آپ کو احادیث کیا ریکارڈنگ سنائی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ہمارے پاس تو احادیثِ رسول کتابوں کے توسط سے پہنچی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی جن کو آپ مانتے ہیں اپنے مطلب کے لئے اور وہ بھی جو آپ نہیں مانتے--------- پھر آپ نے فرمایا کہ جو احادیث قرآن سے میل کھاتی ہوں وہ مانتا ہوں جب میں نے پوچھا کہ کس اصول کے تحت آپ بتائیں گے کہ یہ یہ احادیث قرآن کے مطابق ہیں (آپ تو سورہ لھب کا بغیر قوسین کے شانِ نزول ہی نہیں بتا سکتے اس کے لئے بھی کسی حدیث پراعتماد کرنا پڑے گا ) تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دو سعودیوں نے اس حدیث کی گواہی دی تو میں نے مان لی۔ جو آپ کو اپنے مطلب کی حدیث لگی اس کے لئے آپ نے تو گواہ تسلیم کر لئے اب مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے دو گواہوں کا اصول ایک حدیث کے قبول کے بعد باقی رکھا ہے یا بدل دیا ہے تاکہ میں باقی احدیث کے لئے آپ کو گواہ لا دوں۔

آخری اور غور طلب سوال:
آپ نے جن دو سعودی حضرات سے حدیث کی گواہی سن کر یقین کیا ان سے کیا آپ نے پوچھا کہ اس کے راوی کون کون ہیں۔ اگر یہ دو حضرات سچے ہیں تو لازما اس لڑی کے تمام راوی سچے۔ تو کیا ان ہی راویوں کی گواہی دینے والے باقی گواہوں کو آپ تسلیم کر لیں گے۔ غور سے پڑھ کر جواب ضرور دیجئے گا اور ہوسکے تو اپنے اکابرین سے بھی استفادہ فرمالیں
 

رضا

معطل
اگر صرف قرآن ہی سے دیکھا جائے۔۔پھر تو بہت سے معاملات میں‌ ہم پھنس کر رہ جائیں گے۔
میاں فاروق صاحب پہلے آپ یہ بتائیں کہ جو ‍قرآن پاک کا نسخہ آپ پڑھتے ہیں۔اعراب والا۔یہ اعراب قرآن سے کہاں‌ ثابت ہیں۔
صحابہ کے دور میں تو اعراب نہیں‌تھے۔آپ کو حیرانی ہوگی نقطے بھی نہیں‌تھے۔
قرآن سے تو دور کی بات یہ تو آپ حدیث سے بھی ثابت نہیں کرسکتے۔کیونکہ اعراب تو بہت بعد میں حجاج بن یوسف نے لگوائے ہيں۔
نماز کی رکعتیں کا قرآن کی کس آیت سے ثابت ہیں کہ فجر کی اتنی اور دیگر نمازوں کی اتنی۔اور پڑھنے کا طریقہ بھی ‍قران میں جو بیان ہوا ہے وہ آیات بیان فرمائیں۔
براہ کرم! "چوکے چھکے" نہ لگائیے گا۔بلکہ مدلل جواب دیں۔
 
اگر صرف قرآن ہی سے دیکھا جائے۔۔پھر تو بہت سے معاملات میں‌ ہم پھنس کر رہ جائیں گے۔
میاں فاروق صاحب پہلے آپ یہ بتائیں کہ جو ‍قرآن پاک کا نسخہ آپ پڑھتے ہیں۔اعراب والا۔یہ اعراب قرآن سے کہاں‌ ثابت ہیں۔
صحابہ کے دور میں تو اعراب نہیں‌تھے۔آپ کو حیرانی ہوگی نقطے بھی نہیں‌تھے۔
قرآن سے تو دور کی بات یہ تو آپ حدیث سے بھی ثابت نہیں کرسکتے۔کیونکہ اعراب تو بہت بعد میں حجاج بن یوسف نے لگوائے ہيں۔
نماز کی رکعتیں کا قرآن کی کس آیت سے ثابت ہیں کہ فجر کی اتنی اور دیگر نمازوں کی اتنی۔اور پڑھنے کا طریقہ بھی ‍قران میں جو بیان ہوا ہے وہ آیات بیان فرمائیں۔
براہ کرم! "چوکے چھکے" نہ لگائیے گا۔بلکہ مدلل جواب دیں۔

رضا بہت شکریہ، گو کہ قرآن مکمل ہے اور کافی ہے، آپکی بات سے اتفاق کروں گا کہ اقوال رسول اکرم قرآن کے مروجہ اصولوں کی تفاصیل فراہم کرتے ہیں۔ اور قرآن حکیم کے کسی اصول سے اختلاف نہیں کرتے، میرے حساب سے قرآن حکیم کا کوئی حکم ایسا نہیں جہاں آپ کو کسی ایسی کتاب یا تشریح کی لازماً‌ ضرورت ہو کہ اس کتاب کے بناء‌ قرآن حکیم مکمل نہیں۔ تو جہاں یہ تشریحات قرآن کو سمجھنے میں ممدد و معاون ہیں وہاں قرآن بذات خود ان سے آزاد ہے کہ تمام اقوال رسول اس پیغام حق کی تشریح ‌ہیں ۔ قرآن ہی وہ پیغام حق ہی ہے جس کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اور یہ قرآن ہی ہے جس کے اصولوں کو رسول اکرم نے اپنے اعمال و اقوال سے واضح کیا۔

تماز کا سلسلہ:
عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ طریقہ نماز ہم کس طرح معلوم کریں گے کہ جب کتب روایات نہ ہوں۔ تو اس مد میں میرا یہ سوال ایک اور بھائی سے بھی تھا کہ لیجئے میں‌پیش کرتاہوں کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو طریقہ نماز قرآن سے کس طور تعلیم فرماتا ہے اور آپ جواب میں کتب روایت سے وہ روایات پیش کردیجئے جو طریقہ نماز، تعداد رکعت کی مکمل تعلیم دیتی ہوں۔ آج تک انتظار ہے۔

کیا ابراہیم علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟ اگر ہاں‌ تو یہ طریقہ ان کو کس نے سکھایا تھا؟ رسول اکرم کو اللہ تعالی نے نماز کیسے تعلیم کی، اس کے بارے میں یہ آرٹیکل دیکھ لیں ۔

اور اب آپ سے سوال ہے نماز کے بارے میں کہ کتب حدیث سے نماز پڑھنے کا طریقہ اگر آپ کو معلوم ہے تو ہم سب کو فراہم کیجئے تاکہ سب مسلمان ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھ سکیں۔ کہ نماز پڑھنے کے طریقہ میں تو کم از کم اختلاف نہ ہو۔

یہ نہ بھولئے کہ نماز سنت جاریہ ہے۔ کسی بھی وقت مسجد الحرام میں دیکھی جاسکتی ہے، یہ ہمارے رسول کا اعجاز ہے کہ ان کی سنتیں سنت جاریہ ہیں بغور دیکھئے تو ان سنتوں کو مسلمانوں نے دل سے لگا رکھا ہے۔ اور کعبے کو جبینوں سے بسا رکھا ہے۔

اعراب:
قرآن کا اعراب والا نسخہ عموماً قران میں تحریف کے ضمن میں پیش کیا جاتا ہے کہ اصل لکھے ہوئے قرآن میں اور اعراب والے نسخے میں کم از کم اعراب کا فرق ہے۔ یہ سطحی فرق آیات کے متن، آیات کی ترتیب اور آیات کی تعداد کا فرق نہیں۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لغۃ القریش کے مطابق الفاظ کی درست ادائیگی کے لئے اعراب کا استعمال کیا گیا۔ اعراب کا استعمال کب کیا گیا۔ اس کا باقاعدہ ریکارڈ‌موجود ہے۔لغۃ القریش کے ماہرین قرآن کے اعراب شدہ نسخہ اور مصحف عثمانی میں لسانی فرق نہیں پاتے۔ لغۃ القریش کے ایک ماہر اور عبدالمطلب کے زمانے کے شریف مکہ کے خاندان سے ، قبیلہ قریش کے اہل زبان جناب محمد الشریف جو کہ قرآن کمپلکس مدینہ میں طباعت قران کی خدمت پر مامور ہے۔ اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ مصحف عثمانی کی قاہرہ میں پائی جانے والی والے مصحف عثمانی کی لغۃ القریش میں اور قران کمپلکس مدینہ کے قرآن کے اعراب کی مدد سے ادا کی جانے والی زبان سے بننے والے متن ایک ہیں۔ لہذا یہ نکتہ کہ قران میں نقطوں اور اعراب کی وجہ سے تحریف ہوئی ایک نامناسب نکتہ ہے۔ اور اس کو کتب روایات میں پائی جانے والی خلاف قران روایات کے مقابلہ میں نہیں رکھا جاسکتا۔

روایات کی کتب کا بنیادی مسئلہ:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان عام طور پر رسول اکرم کے اقوال و اعمال سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں۔ جہاں زیادہ تر اقوال و اعمال قرآن کی روشنی میں درست ثابت ہوتے ہیں وہاں یہ بھی ایک مصدقہ امر ہے کہ دشمنان اسلام ان کتب میں ایسا مواد شامل کرتے رہے جس سے مسلمانوں کے عقیدہ کا تمسخر اڑایا جاسکے۔ اور ایسی ایس نرالی منظقیں نکالی گئیں ان کتب ایمان رکھا جاسکے۔ جب کہ ان کتب کا وجود بھی رسول اکرم کی وفات کے 250 سال بعد تک نہیں تھا۔ اور نہ تو اللہ تعالی اور نہ ہی رسول صلعم نے ان میں سے کسی کتاب کو ماننے کے لئے کہا تھا۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے اور کہاں ہے۔
سیاق و سباق کا معمولی فرق:
امتداد زمانہ اور ان کتب کی صرف عالمانہ حیثیت کی وجہ سے سیاق و سباق کا معمولی فرق ان روایات پر جن کی اسناد مستند ہیں زیادہ اثر انداز نہیں ہوا۔ لہذا سیاق و سباق کے معمول فرق پر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

قران مخالف روایات:
اصل مسئلہ ان روایات کا ہے جو کہ قران کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ ان کی بڑی کیٹیگری اس طرح ہیں۔
1۔ اہانت رسول، خانوادہء رسول اوراہانت قرآن سے پر روایات۔ مضحکہ خیز روایات کا اکابرین اسلام سے منسوب کیا جانا یا خود رسول سے منسوب کیا جانا۔
2۔ قران کے مخالف روایات۔ جیسے کہ لڑکیوں کو لکھانا اور کچھ روایات سے پڑھانا حرام ہے۔ قران کی آیات کا موقوف و متروک ہونا ثابت کیا جاتا ہے۔ نعوذ‌ باللہ، عورتوں اور غلاموں کی تجارت کو جائز قرار دیا جانا۔ عورتوں کو حقیر جاننا۔ ہر انسان کو برابر نہ سمجھنا۔ عام تعلیم یافتہ مسلمان کو جاہل اور صرف ان کتب کی تعلیم کو علم سے تعبیر کرنا۔ حقوق العباد سے گریز اور خود غرضی کےنظریہ کا فروغ۔ مالی معاملات میں غیر قران نظریات اور حکومت سے عام آدمی کو دور رکھنے کی روایات اس زمرہ میں شامل ہیں۔ یہ وہ روایات ہیں جن کا دفاع ایک خاص فرقہ بہت شد و مد سے کرتا ہے اور اپنے عقائد سے اختلاف کی سزا بات بات پر گردن زدنی یعنی موت قرار دیتا ہے۔ یہ فرقہ آج کل دہشت گرد فرقہ کے نام سے گردانا جاتا ہے۔

گو کہ ہر روایت کو قران کی روشنی میں پرکھا جانا بحکم رسول اللہ صلعم ضروری ہے ، ان روایات کا ایک گروپ ایسا ہے جو کہ ظاہری طور پر کچھ لوگوں کے دل کو بھا جاتا ہے لیکن ان کی اپنی قدروں سے ملتا جلتا ہے لیکن قرآن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ لہذا وہ ان سب کو خلط ملط کرکے قابل اعتراض مواد کو بھی اقوال واعمال رسول کے ساتھ ملا کر ان دہشت گرد فرقہ کے نظریات کے فروغ دینے والی روایات کا دفاع کرتے ہیں۔

امید ہے کہ آپ کو تشفی بخش جواب مل گیا ہوگا کہ روایات کا کونسا گروپ ہے جو کہ قابل اعتراض‌ہے۔ دوبارہ عرض‌ہے کہ رویات کا وہ گروپ جو۔
1۔ جو خلاف قرآن ہو۔
2۔ جس سے اہانت رسول ، اہانت خانوادہ رسول، اہانت قرآن ، یا اہانت اللہ تعالی کا کوئی عیاری و چالاکی سے بھرپور پہلو نکلتا ہو
3۔ جو عام تعلیم یافتہ مسلمانوں سے حکومت میں شامل ہونے کا حق کسی بھی عیاری یا مکاری سے چھینتا ہو۔
4۔ جو عام تعلیم یافتہ مسلمانوں‌کو جاہل قرار دیتا ہو اور صرف علم روایات کے تعلیم یافتہ افراد کو 'عالم " قرار دیتا ہو اور حق حکومت و قانون سازی صرف ان افراد کو دیتا ہو۔
5۔ جو عورتوں کو حقیر گردانتا ہو، قران کی دی ہوئی مساوات کا قائل نہ ہو۔ عورتوں کو حق سے محروم کرتا ہو، ان کو تعلیم دینے، لکھنا پڑھنا سکھانے کی ممانعت کرتا ہو۔ اور عورتوں کی عام جانورں سے مماثل تجارت پر قائل کرتا ہو۔
6۔ غلامی کو فروغ دیتا ہو، ہر انسان کا حق مساوی تسلیم نہ کرتاہو۔
7۔ نظریاتی اختلاف کی سزا گردن زدنی قرار دیتا ہو۔ (دہشت گردی ہے)
8۔ اسلامی نظریات کو عیاری سے تبدیل کرکے دہشت گردی کے نظریات کو فروغ دیتا ہو۔
9۔ جہاد یعنی نظریاتی فلاحی ریاست کے دفاع کے نظریہ سے " نظریاتی اختلاف کی سزا موت" کے نظریہ سے تبدیل کرتا ہو۔
10۔فرد واحد کی حکومت کے نظریہ کو فروغ دیتا ہو، اور حق حکومت صرف راویات کی کتب کے جاننے والوں کو دیتا ہوِ

آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں سے کوئی کیٹیگری نامز روزہ زکواۃ یا عبادات کی نہیں ہے۔
کم از کم یہ دس بڑی کیٹٰیگری ہیں جن میں موجود روایات ، قرآن کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں اور ایسی روایات آپ کو عموماً‌ آپ کو ضعیف روایات کے زمرہ میں ملیں گی۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ایسی روایات ایک تو کم ہیں، عام طور پر قابل قبول نہیں ہیں اور انہی کے لئے ایک مخصوص‌گروپ کی طرف سے زبردست دفاع کیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروپ نظریاتی اختلاف کی سزا موت قرار دیتا ہے اور کسی بحث و مباحثہ کا قائل نہیں۔

آپ اس طرح سمجھ لیں کہ ان روایات میں سے عبادات کے بارے میں‌ عموماً کوئی روایات شامل نہیں۔ بلکہ ان کی نوعیت سیاسی و سماجی ہے۔ ان رویات سے جب بھی ایسا کوئی سیاسی مسئلہ سامنے آتا ہے آپ قران سے دیکھئے ، اپنے دل سے پوچھئے۔ آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ سیاسی روایات کی بحث ہے۔ ان دہشت گردوں کی سیاسی روایات یا مذہبی سیاست، آپ جو نام دیں۔ میں اس کو ‌ملاؤں سیاست یا "‌مولویت " کا نام دیتا ہوں۔

استدعا یہ ہے کے عباداتی روایات اور سیاسی روایات جوکہ اوپر دئے ہوئے زمرہ میں آتی ہیں ان کو الگ الگ رکھئے۔

مثال کے لئے دیکھئے:
1۔ لڑکیوں کو لکھنا پڑھنا نہ سکھانا ، کسی نماز روزہ یا عبادت کے زمرہ میں نہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچا جاسکے۔
2۔ اس طرح اس ہندو مزدور کو ہلاک کرنے والوں کو ہیرو قرار دینا کسی نماز یا روزہ یا عبادت کی روایت کے زمرہ میں نہیں بلکہ ایک خالصتا سیاسی نظریہ ہے کہ " نظریاتی اختلاف کی سزا موت" ۔ تاکہ عوام الناس کی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے کہ جس شخص کو بھی مارنا ہو۔ شاتم رسول قرار دے کر بناء مقدمہ چلائے قتل کردیا جائے۔ مزا یہ ہے کہ شاتم رسول قرار دینے کا صرف ملا کو ہے۔ اگر بھٹو صاحب کو بھی یہ حق ہوتا تو اپنے سیاسی مخالفین کو فتوی لگاتے اور مجمع خود ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا۔

فرد واحد کو فتوی دینے کا یا مفتی ہونے کا حق صرف اور صرف اسرائیلیات میں جاری ہے۔ قرآن یہ حق صرف اور صرف منتخب حکومت کو عطا کرتا ہے۔ منتخب حکومت کے بارے میں آپ میرے دستخط میں دئے گئے آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں ، جو آپ کی بھرپور تنقید و تائید کے منتظر ہیں۔
والسلام
 
سیفی، رضا صاحب کو ایک جواب میں نے ایک اور دھاگے میں دیا آپ نے اس دھاگہ میں سوال کیا لہذا یہاں بھی پیش خدمت ہے۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ------------------------------------------------
رضا بھائی، بہت ہی شکریہ ، احمد رضا خان صاحب کی اس معلومات کا، میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ میرے پاس موجود اس کتاب میں یہ جواب موجود ہے۔

1۔ سرسید کی تحاریر کا ربط یہ ہے۔ http://www.openburhan.net/SIRSYED/
سرسید کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا اور ہمیں اپنے۔ میں کسی قسم کے عدالتی حقوق نہیں رکھتا لہذا کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔
میرا خیال ہے کہ احمد رضا خان بریلوی کے جواب نمبر 12 سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کتب روایات کی کیا دینی یا شرعی حیثیت ہے۔ یہ متن دوبارہ لکھ رہا ہوں:

سوال نمبر12: مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب: (‌احمد رضا خاں)‌ :بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔

مکمل کتب روایات پر ایمان مثل قرآن ایک خاص فرقہ کا نعرہ ہے۔ جو لوگوں کو منطقی دلائل سے مجبور کرتے ہیں کہ تمام کتب موجودہ روایات کو جو کہ پچاس سے زائد بنتی ہیں ان کو من و عن قبول کیا جائے اور ان پر ایمان مثل قرآن رکھا جائے۔ باوجود کافی ریسرچ کے مجھے کوئی عالم ایسا نہیں ملا جو یہ دعوی کرتا ہو۔ لیکن یہ لوگ یہی دعوی کرتے ہیں کہ " کسی بھی روایت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا " جب ان سے ریفرنس مانگا جاتا ہے کہ جناب کس عالم، پیشوا، امام یا پیغمبر نے حکم دیا تھا کہ " ان کتب روایات پر ایمان مثل القرآن "‌ رکھئے تو یہ اس ریفرنس کے فراہم کرنے کا وعدہ کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔

بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔

ہم تمام روایات کو چاہے وہ کسی بھی کتاب میں ہوں، اسی نکتہ سے دیکھیں گے۔ مکمل من و عن کتب پر ایمان اس ایک مخصوص فرقہ کو مبارک ہو ۔ انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top