اگر صرف قرآن ہی سے دیکھا جائے۔۔پھر تو بہت سے معاملات میں ہم پھنس کر رہ جائیں گے۔
میاں فاروق صاحب پہلے آپ یہ بتائیں کہ جو قرآن پاک کا نسخہ آپ پڑھتے ہیں۔اعراب والا۔یہ اعراب قرآن سے کہاں ثابت ہیں۔
صحابہ کے دور میں تو اعراب نہیںتھے۔آپ کو حیرانی ہوگی نقطے بھی نہیںتھے۔
قرآن سے تو دور کی بات یہ تو آپ حدیث سے بھی ثابت نہیں کرسکتے۔کیونکہ اعراب تو بہت بعد میں حجاج بن یوسف نے لگوائے ہيں۔
نماز کی رکعتیں کا قرآن کی کس آیت سے ثابت ہیں کہ فجر کی اتنی اور دیگر نمازوں کی اتنی۔اور پڑھنے کا طریقہ بھی قران میں جو بیان ہوا ہے وہ آیات بیان فرمائیں۔
براہ کرم! "چوکے چھکے" نہ لگائیے گا۔بلکہ مدلل جواب دیں۔
رضا بہت شکریہ، گو کہ قرآن مکمل ہے اور کافی ہے، آپکی بات سے اتفاق کروں گا کہ اقوال رسول اکرم قرآن کے مروجہ اصولوں کی تفاصیل فراہم کرتے ہیں۔ اور قرآن حکیم کے کسی اصول سے اختلاف نہیں کرتے، میرے حساب سے قرآن حکیم کا کوئی حکم ایسا نہیں جہاں آپ کو کسی ایسی کتاب یا تشریح کی لازماً ضرورت ہو کہ اس کتاب کے بناء قرآن حکیم مکمل نہیں۔ تو جہاں یہ تشریحات قرآن کو سمجھنے میں ممدد و معاون ہیں وہاں قرآن بذات خود ان سے آزاد ہے کہ تمام اقوال رسول اس پیغام حق کی تشریح ہیں ۔ قرآن ہی وہ پیغام حق ہی ہے جس کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اور یہ قرآن ہی ہے جس کے اصولوں کو رسول اکرم نے اپنے اعمال و اقوال سے واضح کیا۔
تماز کا سلسلہ:
عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ طریقہ نماز ہم کس طرح معلوم کریں گے کہ جب کتب روایات نہ ہوں۔ تو اس مد میں میرا یہ سوال ایک اور بھائی سے بھی تھا کہ لیجئے میںپیش کرتاہوں کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو طریقہ نماز قرآن سے کس طور تعلیم فرماتا ہے اور آپ جواب میں کتب روایت سے وہ روایات پیش کردیجئے جو طریقہ نماز، تعداد رکعت کی مکمل تعلیم دیتی ہوں۔ آج تک انتظار ہے۔
کیا ابراہیم علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟ اگر ہاں تو یہ طریقہ ان کو کس نے سکھایا تھا؟ رسول اکرم کو اللہ تعالی نے نماز کیسے تعلیم کی، اس کے بارے میں یہ آرٹیکل دیکھ لیں ۔
اور اب آپ سے سوال ہے نماز کے بارے میں کہ کتب حدیث سے نماز پڑھنے کا طریقہ اگر آپ کو معلوم ہے تو ہم سب کو فراہم کیجئے تاکہ سب مسلمان ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھ سکیں۔ کہ نماز پڑھنے کے طریقہ میں تو کم از کم اختلاف نہ ہو۔
یہ نہ بھولئے کہ نماز سنت جاریہ ہے۔ کسی بھی وقت مسجد الحرام میں دیکھی جاسکتی ہے، یہ ہمارے رسول کا اعجاز ہے کہ ان کی سنتیں سنت جاریہ ہیں بغور دیکھئے تو ان سنتوں کو مسلمانوں نے دل سے لگا رکھا ہے۔ اور کعبے کو جبینوں سے بسا رکھا ہے۔
اعراب:
قرآن کا اعراب والا نسخہ عموماً قران میں تحریف کے ضمن میں پیش کیا جاتا ہے کہ اصل لکھے ہوئے قرآن میں اور اعراب والے نسخے میں کم از کم اعراب کا فرق ہے۔ یہ سطحی فرق آیات کے متن، آیات کی ترتیب اور آیات کی تعداد کا فرق نہیں۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ لغۃ القریش کے مطابق الفاظ کی درست ادائیگی کے لئے اعراب کا استعمال کیا گیا۔ اعراب کا استعمال کب کیا گیا۔ اس کا باقاعدہ ریکارڈموجود ہے۔لغۃ القریش کے ماہرین قرآن کے اعراب شدہ نسخہ اور مصحف عثمانی میں لسانی فرق نہیں پاتے۔ لغۃ القریش کے ایک ماہر اور عبدالمطلب کے زمانے کے شریف مکہ کے خاندان سے ، قبیلہ قریش کے اہل زبان جناب محمد الشریف جو کہ قرآن کمپلکس مدینہ میں طباعت قران کی خدمت پر مامور ہے۔ اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ مصحف عثمانی کی قاہرہ میں پائی جانے والی والے مصحف عثمانی کی لغۃ القریش میں اور قران کمپلکس مدینہ کے قرآن کے اعراب کی مدد سے ادا کی جانے والی زبان سے بننے والے متن ایک ہیں۔ لہذا یہ نکتہ کہ قران میں نقطوں اور اعراب کی وجہ سے تحریف ہوئی ایک نامناسب نکتہ ہے۔ اور اس کو کتب روایات میں پائی جانے والی خلاف قران روایات کے مقابلہ میں نہیں رکھا جاسکتا۔
روایات کی کتب کا بنیادی مسئلہ:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان عام طور پر رسول اکرم کے اقوال و اعمال سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں۔ جہاں زیادہ تر اقوال و اعمال قرآن کی روشنی میں درست ثابت ہوتے ہیں وہاں یہ بھی ایک مصدقہ امر ہے کہ دشمنان اسلام ان کتب میں ایسا مواد شامل کرتے رہے جس سے مسلمانوں کے عقیدہ کا تمسخر اڑایا جاسکے۔ اور ایسی ایس نرالی منظقیں نکالی گئیں ان کتب ایمان رکھا جاسکے۔ جب کہ ان کتب کا وجود بھی رسول اکرم کی وفات کے 250 سال بعد تک نہیں تھا۔ اور نہ تو اللہ تعالی اور نہ ہی رسول صلعم نے ان میں سے کسی کتاب کو ماننے کے لئے کہا تھا۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے اور کہاں ہے۔
سیاق و سباق کا معمولی فرق:
امتداد زمانہ اور ان کتب کی صرف عالمانہ حیثیت کی وجہ سے سیاق و سباق کا معمولی فرق ان روایات پر جن کی اسناد مستند ہیں زیادہ اثر انداز نہیں ہوا۔ لہذا سیاق و سباق کے معمول فرق پر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
قران مخالف روایات:
اصل مسئلہ ان روایات کا ہے جو کہ قران کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ ان کی بڑی کیٹیگری اس طرح ہیں۔
1۔ اہانت رسول، خانوادہء رسول اوراہانت قرآن سے پر روایات۔ مضحکہ خیز روایات کا اکابرین اسلام سے منسوب کیا جانا یا خود رسول سے منسوب کیا جانا۔
2۔ قران کے مخالف روایات۔ جیسے کہ لڑکیوں کو لکھانا اور کچھ روایات سے پڑھانا حرام ہے۔ قران کی آیات کا موقوف و متروک ہونا ثابت کیا جاتا ہے۔ نعوذ باللہ، عورتوں اور غلاموں کی تجارت کو جائز قرار دیا جانا۔ عورتوں کو حقیر جاننا۔ ہر انسان کو برابر نہ سمجھنا۔ عام تعلیم یافتہ مسلمان کو جاہل اور صرف ان کتب کی تعلیم کو علم سے تعبیر کرنا۔ حقوق العباد سے گریز اور خود غرضی کےنظریہ کا فروغ۔ مالی معاملات میں غیر قران نظریات اور حکومت سے عام آدمی کو دور رکھنے کی روایات اس زمرہ میں شامل ہیں۔ یہ وہ روایات ہیں جن کا دفاع ایک خاص فرقہ بہت شد و مد سے کرتا ہے اور اپنے عقائد سے اختلاف کی سزا بات بات پر گردن زدنی یعنی موت قرار دیتا ہے۔ یہ فرقہ آج کل دہشت گرد فرقہ کے نام سے گردانا جاتا ہے۔
گو کہ ہر روایت کو قران کی روشنی میں پرکھا جانا بحکم رسول اللہ صلعم ضروری ہے ، ان روایات کا ایک گروپ ایسا ہے جو کہ ظاہری طور پر کچھ لوگوں کے دل کو بھا جاتا ہے لیکن ان کی اپنی قدروں سے ملتا جلتا ہے لیکن قرآن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ لہذا وہ ان سب کو خلط ملط کرکے قابل اعتراض مواد کو بھی اقوال واعمال رسول کے ساتھ ملا کر ان دہشت گرد فرقہ کے نظریات کے فروغ دینے والی روایات کا دفاع کرتے ہیں۔
امید ہے کہ آپ کو تشفی بخش جواب مل گیا ہوگا کہ روایات کا کونسا گروپ ہے جو کہ قابل اعتراضہے۔ دوبارہ عرضہے کہ رویات کا وہ گروپ جو۔
1۔ جو خلاف قرآن ہو۔
2۔ جس سے اہانت رسول ، اہانت خانوادہ رسول، اہانت قرآن ، یا اہانت اللہ تعالی کا کوئی عیاری و چالاکی سے بھرپور پہلو نکلتا ہو
3۔ جو عام تعلیم یافتہ مسلمانوں سے حکومت میں شامل ہونے کا حق کسی بھی عیاری یا مکاری سے چھینتا ہو۔
4۔ جو عام تعلیم یافتہ مسلمانوںکو جاہل قرار دیتا ہو اور صرف علم روایات کے تعلیم یافتہ افراد کو 'عالم " قرار دیتا ہو اور حق حکومت و قانون سازی صرف ان افراد کو دیتا ہو۔
5۔ جو عورتوں کو حقیر گردانتا ہو، قران کی دی ہوئی مساوات کا قائل نہ ہو۔ عورتوں کو حق سے محروم کرتا ہو، ان کو تعلیم دینے، لکھنا پڑھنا سکھانے کی ممانعت کرتا ہو۔ اور عورتوں کی عام جانورں سے مماثل تجارت پر قائل کرتا ہو۔
6۔ غلامی کو فروغ دیتا ہو، ہر انسان کا حق مساوی تسلیم نہ کرتاہو۔
7۔ نظریاتی اختلاف کی سزا گردن زدنی قرار دیتا ہو۔ (دہشت گردی ہے)
8۔ اسلامی نظریات کو عیاری سے تبدیل کرکے دہشت گردی کے نظریات کو فروغ دیتا ہو۔
9۔ جہاد یعنی نظریاتی فلاحی ریاست کے دفاع کے نظریہ سے " نظریاتی اختلاف کی سزا موت" کے نظریہ سے تبدیل کرتا ہو۔
10۔فرد واحد کی حکومت کے نظریہ کو فروغ دیتا ہو، اور حق حکومت صرف راویات کی کتب کے جاننے والوں کو دیتا ہوِ
آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں سے کوئی کیٹیگری نامز روزہ زکواۃ یا عبادات کی نہیں ہے۔
کم از کم یہ دس بڑی کیٹٰیگری ہیں جن میں موجود روایات ، قرآن کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں اور ایسی روایات آپ کو عموماً آپ کو ضعیف روایات کے زمرہ میں ملیں گی۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ایسی روایات ایک تو کم ہیں، عام طور پر قابل قبول نہیں ہیں اور انہی کے لئے ایک مخصوصگروپ کی طرف سے زبردست دفاع کیا جاتا ہے۔ یہ دہشت گرد گروپ نظریاتی اختلاف کی سزا موت قرار دیتا ہے اور کسی بحث و مباحثہ کا قائل نہیں۔
آپ اس طرح سمجھ لیں کہ ان روایات میں سے عبادات کے بارے میں عموماً کوئی روایات شامل نہیں۔ بلکہ ان کی نوعیت سیاسی و سماجی ہے۔ ان رویات سے جب بھی ایسا کوئی سیاسی مسئلہ سامنے آتا ہے آپ قران سے دیکھئے ، اپنے دل سے پوچھئے۔ آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ سیاسی روایات کی بحث ہے۔ ان دہشت گردوں کی سیاسی روایات یا مذہبی سیاست، آپ جو نام دیں۔ میں اس کو ملاؤں سیاست یا "مولویت " کا نام دیتا ہوں۔
استدعا یہ ہے کے عباداتی روایات اور سیاسی روایات جوکہ اوپر دئے ہوئے زمرہ میں آتی ہیں ان کو الگ الگ رکھئے۔
مثال کے لئے دیکھئے:
1۔ لڑکیوں کو لکھنا پڑھنا نہ سکھانا ، کسی نماز روزہ یا عبادت کے زمرہ میں نہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچا جاسکے۔
2۔ اس طرح اس ہندو مزدور کو ہلاک کرنے والوں کو ہیرو قرار دینا کسی نماز یا روزہ یا عبادت کی روایت کے زمرہ میں نہیں بلکہ ایک خالصتا سیاسی نظریہ ہے کہ " نظریاتی اختلاف کی سزا موت" ۔ تاکہ عوام الناس کی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے کہ جس شخص کو بھی مارنا ہو۔ شاتم رسول قرار دے کر بناء مقدمہ چلائے قتل کردیا جائے۔ مزا یہ ہے کہ شاتم رسول قرار دینے کا صرف ملا کو ہے۔ اگر بھٹو صاحب کو بھی یہ حق ہوتا تو اپنے سیاسی مخالفین کو فتوی لگاتے اور مجمع خود ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا۔
فرد واحد کو فتوی دینے کا یا مفتی ہونے کا حق صرف اور صرف اسرائیلیات میں جاری ہے۔ قرآن یہ حق صرف اور صرف منتخب حکومت کو عطا کرتا ہے۔ منتخب حکومت کے بارے میں آپ میرے دستخط میں دئے گئے آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں ، جو آپ کی بھرپور تنقید و تائید کے منتظر ہیں۔
والسلام