قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیفی

محفلین
فاروق سرور خان صاحب

آپ نے بے شک ایک سے زیادہ بار سوالات کے جوابات دیئے ہوں گے مگر ان میں مجھے پوچھی گئی باتوں کا کوئی اشارہ تک نہیں ملا۔ آپ کی لمبی چوڑی پوسٹوں کو بارہا پڑھنے کے باوجود میں نے خود کو قاصر پایا کہ آپ کا واضح جواب معلوم کرسکوں۔ اسی لئے میں نے نکتہ وار سوالات کا آغاز کیا کہ ہر پوسٹ میں صرف ایک سوال پوچھوں اور آپ سے استدعا کی کہ ممکن حد تک مختصر جواب عنائت فرمائیں۔ مگر آپ ایک جملہ کے جواب کے ساتھ اگر مگر اور مشروط جملوں کی بھرمار نہ جانے کیوں کر دیتے ہیں۔

آپ نے جو مجھ سے میرے مسلک بارے جو سوالات پوچھے اور میری علمی قابلیت اور انھی پوچھے گئے سوالات پر میری رائے پوچھی۔ ان کے جوابات بھی میں‌ نے اس لئے نہیں دیئے کہ پھر ان پر آپ نے بحث شروع کر دینی تھی اور یہ دھاگہ ایک بے مقصد ٹائپنگ مشق بن جانا تھا۔

ہر فورم اور عملی زندگی میں ہر مجلس کا اصول ہے کہ جو شخص دعویٰ لے کر آتا ہے اسی کے ذمہ دلائل بھی ہوتے ہیں اور اسی سے اس کے موقف بارے تمام لوگ مختلف جہتوں سے سوالات بھی کرتے ہیں۔ اب وہ ان سوالات کے جواب دینے کی بجائے پوچھنے والے سے یہ کہنے لگے کہ بھئی بتاؤ تمہارا کیا نظریہ ہے، تم کن کتابوں پر یقین رکھتے ہو اور پھر اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کی بجائے ان کتابوں کی صحت پر بحث شروع کردے تو آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ قرینِ انصاف ہے۔

یا تو دعویٰ ہی نہ کریں۔ جو لوگوں کا مستعمل طریق ہے۔ وہ اس پر چل رہے ہیں انھیں چلنے دیں۔ جب دعویٰ‌ نیا پیش کرتے ہیں کہ آپ کا طریق درست نہ ہے تو پھر واضح طور پر اپنے دلائل دیں۔ سوالات کے جواب دیں۔ پوچھنے والے کو الٹا سوالات میں الجھانا کیا معنی رکھتا ہے۔

اب اگر میں آپ کے سوالات کا جواب دوں کہ جناب یہ مسلک ہے میرا۔ ان کتب پر میں ایمان رکھتا ہوں۔ آپ نے فٹ سے ان کتابوں پر بحث شروع کردینی ہے۔ یہ لو جی ان کتابوں میں یہ ہے وہ ہے۔ فلاں مسلک کو تم نہیں‌مانتے اور فلاں تم کو نہیں مانتے۔ اور اصل مقصود بیچ میں رہ جانا ہے۔ اور میرے پاس خواہ مخواہ کی سرپھٹول کا کوئی وقت اور ارادہ نہیں۔

آپ اگر ایک نئے دعویٰ سے آئے ہیں کہ جی اہانتِ رسول پر مسلمانوں‌ کا طرزِ عمل، ان کے مسالک کی تعلیمات درست نہیں اور اسلام کی اصل تعلیمات کے موافق نہیں تو پھر ہمیں بھی پوچھنے دیں سوالات۔ اور دیکھنے دیں کہ جناب کی پوٹلی میں کیا دلائل ہیں۔ آپ ذرا واضح جوابات دیں تاکہ ہمیں بھی صاف پتہ چل سکے۔ یہ جمہوریت کی پیداوار سیاستدانوں جیسے جوابات کہ ایک بات سے کئی مفہوم نکلیں اور جب چاہا اس جواب سے پھر گئے ، کوئی مثبت علمی انداز نہیں ہے۔ اور میں ایسی کج بحث میں وقت بھی ضائع نہیں کرتا ہوتا۔

آپ اگر میرے مختصر نکتہ وار سوالات کے نکتہ وار جامع اور مختصر جوابات دینے پر رضامند ہیں تو اس بحث کو آگے چلاتے ہیں۔ ورنہ اعلان کردیں کہ آپ سوالات کے جوابات دینے کی بجائے پہلے سے تیار شدہ تھیسس ہی پوسٹ کرنے کے عادی ہیں۔ اس لئے آپ سے سوالات نہ پوچھے جائیں۔
 
دخل اندازی کی معذرت۔
سیفی بھائی میرا اپنا خیال ہے کہ اس کے پاس کوئی جواب ہی نہیں۔
یہ امریکی ملا تو ڈیٹابیس کی پیداوار ہے۔
 
سیفی : آپ کے سوالات کے جوابات پہلے بھی رنگوں کے ساتھ دے چکا ہوں۔ میرے کئے ہوئی سوالات کے جوابات کا انتظار ہے ، یہ خوف کہ آپ کے خیالات کی تنقید یا تائید ہوسکتی ہے۔ ایک اچھی وجہ نہیں جواب نہ لکھنے کی

اگر آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو آپ خوب سوچ کر اپنا سوال دوبارہ لکھئے۔ سوال مرکب نہ ہو بلکہ مفرد ہو۔ آپ کا سوال دوبارہ لکھ رہا ہوں اور اس سوال سے میں کیا سمجھتا ہوں‌ اس کو پہلے سوال کی شکل میں اور پھر اس کا جواب۔

1۔ کیا پورے قرآن میں کوئی ایسی آیت ہے اور جسکی تشریح کی حدیث سے ضرورت نہ ہو --- جس میں کوئی ایسا واقعہ ذکر ہو کہ کافروں نے نبی علیہ السلام کو اس طریقے سے اذیت دی اور اللہ نے نبی علیہ السلام کو دنیا میں انھیں سزا دینے سے روکا ہو اور آخرت میں عذاب دینے کا وعدہ کیا ہو۔


آپ کا سوال، (دوبارہ لکھ رہا ہوں): قران سے وہ آیت فراہم کیجئے۔ جو بنا کسی حدیث کی مدد کے یہ بتاتی ہو کہ کافروں نے نبی کریم صلعم کو کسی طریقے سے دلی یا ذہنی اذیت دی ہو اور اللہ تعالی نے اس پر کوئی حکم فوری بنا کسی مقدمہ یا پیشی کے قتل کردینے کا نہیں دیا بلکہ آخرت میں عذاب دینے کا وعدہ کیا۔

میں نے اس ضمن میں یہ جواب عرض کیا دوبارہ پیش خدمت ہے ۔ لگتا ہے اس جواب سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی۔ جی ایسی آیات ہیں جس سے رسول اکرم کا رنجیدہ ہونا ظاہر ہے اور اس کی وجہ کوئی نہ کوئی طریقہ ایسا ہے کہ یہ دلی ہا ذہنی اذیت دی گئی۔

سورہ الانعام کی یہ آیات دیکھئے۔ اور دیکھئے کہ کس طرح اللہ تعالی رسول کی دل جوئی فرما رہے ہیں ، جبکہ رسول رنجیدہ ہیں اور ان کو اذیت کی گواہی خود اللہ تعالی دے رہے ہیں۔ یہ آیات اتباع رسول اور قران کو تعلیم کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

[ayah]6:21 [/ayah]اور اس سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھا یا اس نے اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
[ayah]6:22[/ayah] اور جس دن ہم سب کو جمع کریں گے پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جو شرک کرتے تھے: تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کرتے تھے
[ayah] 6:23[/ayah] پھر ان کی (کوئی) معذرت نہ رہے گی بجز اس کے کہ وہ کہیں (گے): ہمیں اپنے رب اﷲ کی قَسم ہے! ہم مشرک نہ تھے
[AYAH]6:24[/AYAH] دیکھئے انہوں نے خود اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور جو بہتان وہ (دنیا میں) تراشا کرتے تھے وہ ان سے غائب ہوگیا
[AYAH]6:25[/AYAH] اور ان میں کچھ وہ (بھی) ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے رہتے ہیں اور ہم نے ان کے دلوں پر(ان کی اپنی بدنیتی کے باعث) پردے ڈال دیئے ہیں (سو اب ان کے لئے ممکن نہیں) کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ سکیں اور (ہم نے) ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دی ہے، اور اگر وہ تمام نشانیوں کو (کھلا بھی) دیکھ لیں تو (بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ حتیٰ کہ جب آپ کے پاس آتے ہیں، آپ سے جھگڑا کرتے ہیں (اس وقت) کافر لوگ کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پہلے لوگوں کی جھوٹی کہانیوں کے سوا (کچھ) نہیں
[AYAH]6:26[/AYAH] اور وہ (دوسروں کو) اس (نبی کی اتباع اور قرآن) سے روکتے ہیں اور (خود بھی) اس سے دور بھاگتے ہیں، اور وہ محض اپنی ہی جانوں کو ہلاک کررہے ہیں اور وہ (اس ہلاکت کا) شعور (بھی) نہیں رکھتے[AYAH]6:27[/AYAH] اگر آپ (انہیں اس وقت) دیکھیں جب وہ آگ (کے کنارے) پر کھڑے کئے جائیں گے تو کہیں گے: اے کاش! ہم (دنیا میں) پلٹا دیئے جائیں تو (اب) ہم اپنے رب کی آیتوں کو (کبھی) نہیں جھٹلائیں گے اور ایمان والوں میں سے ہو جائیں گے
[AYAH]6:28[/AYAH] (اس اقرار میں کوئی سچائی نہیں) بلکہ ان پر وہ (سب کچھ) ظاہر ہوگیا ہے جو وہ پہلے چھپایا کرتے تھے، اور اگر وہ (دنیا میں) لوٹا (بھی) دیئے جائیں تو (پھر) وہی دہرائیں گے جس سے وہ روکے گئے تھے اور بیشک وہ (پکے) جھوٹے ہیں

[AYAH]6:33[/AYAH] (اے حبیب!) بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات) یقیناً آپ کو رنجیدہ کررہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں، پس یہ آپ کو نہیں جھٹلا رہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیں
[AYAH]6:34[/AYAH] اور بیشک آپ سے قبل (بھی بہت سے) رسول جھٹلائے گئے مگر انہوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہنچائے جانے پر صبر کیا حتٰی کہ انہیں ہماری مدد آپہنچی، اور اﷲ کی باتوں (یعنی وعدوں کو) کوئی بدلنے والا نہیں، اور بیشک آپ کے پاس (تسکینِ قلب کے لیے) رسولوں کی خبریں آچکی ہیں


[AYAH]6:35[/AYAH] اور اگر آپ پر ان کی رُوگردانی شاق گزر رہی ہے تو اگر آپ سے (یہ) ہو سکے کہ زمین میں (اترنے والی) کوئی سرنگ یا آسمان میں (چڑھنے والی) کوئی سیڑھی تلاش کرلیں پھر (انہیں دکھانے کے لیے) ان کے پاس کوئی (خاص) نشانی لے آئیں (وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے)، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان کو ہدایت پر ضرور جمع فرما دیتا پس آپ (اپنی رحمت و شفقت کے بے پایاں جوش کے باعث ان کی بدبختی سے) بے خبر نہ ہوجائیں


مزید دیکھئے دکھ و رنج کی صورت میں صبر کی تلقین:
[AYAH]3:120[/AYAH] اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور تمہیں کوئی رنج پہنچے تو وہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقوٰی اختیار کئے رکھو تو ان کا فریب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، جو کچھ وہ کر رہے ہیں بیشک اللہ اس پر احاطہ فرمائے ہوئے ہے

[AYAH]16:126[/AYAH] اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے


آپ اگر سمجھتے ہیں کہ کچھ آیات ایسی ہیں جہاں یہ حکم واضح طور پر دیا گیا ہے کہ اس طرح رسول کو جھٹلانے یعنی اذیت دینے، رنجیدہ کرنے، یا اہانت کرنے کی سزا قرار واقعی موت ہے اور وہ بھی ایک فوری موت بناء‌کسی مقدمے یا ثبوت کے تو ان آیات کا ریفرنس فراہم کر دیجئے مجھے آُپ کے ساتھ ان آیات پر غور کرکے خوشی ہوگی۔

اب ان آیات کو سمجھنے کے لئے آپ کوئی سا ترجمہ مزید استعمال کیجئے یا کتب روایات سے احادیث نبوی یا تاریخ سے واقعات۔ آپ پر منحصر ہے۔ اس میں کیا قباحت ہے؟ آپ اتفاق کریں گے کہ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب خلاف قرآن کوئی عمل ، یا قول یا اصول ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور پھر اس کو رسول اللہ سے منسوب کردیا جائے
 

سیفی

محفلین
میں نے فاروق صاحب سے ایک سوال پوچھا تھا

کیا پورے قرآن میں کوئی ایسی آیت ہے اور جسکی تشریح کی حدیث سے ضرورت نہ ہو --- جس میں کوئی ایسا واقعہ ذکر ہو کہ کافروں نے نبی علیہ السلام کو اس طریقے سے اذیت دی اور اللہ نے نبی علیہ السلام کو دنیا میں انھیں سزا دینے سے روکا ہو اور آخرت میں عذاب دینے کا وعدہ کیا ہو۔

تسلی بخش جواب نہ ملنے پر میں نے یہ سوال دوبارہ وضاحت سے پوچھا


کیا قرآن مجید میں نبی علیہ السلام کی توہین کا کوئی واقعہ موجود ہے۔ نبی علیہ السلام کو اذیت دیئے جانے اور اس پر اللہ کی طرف سے عذاب کا اجمالی ذکر ہے۔ سورہ لھب کی آیات کا شانِ نزول اور ان آیات کا مفہوم (جو عموما مترجمین بریکٹس /قوسین میں کرتے ہیں ) تو احادیث سے ماخوذ ہوتا ہے۔ کیا قرآن مجید میں کوئی self explanatory آیات ایسی ہیں جن میں بغیر احادیث سے رجوع کئے ، اہانتِ رسول کا واقعہ معلوم ہوتا ہو۔

اب جناب فاروق سرور صاحب نے اپنے جواب میں‌ میرے سوال کو کچھ اسطرح دہرایا اور جواب دیا

آپ کا سوال، (دوبارہ لکھ رہا ہوں): قران سے وہ آیت فراہم کیجئے۔ جو بنا کسی حدیث کی مدد کے یہ بتاتی ہو کہ کافروں نے نبی کریم صلعم کو کسی طریقے سے دلی یا ذہنی اذیت دی ہو اور اللہ تعالی نے اس پر کوئی حکم فوری بنا کسی مقدمہ یا پیشی کے قتل کردینے کا نہیں دیا بلکہ آخرت میں عذاب دینے کا وعدہ کیا۔


اب ذرا سرخ رنگ کی عبارت کو دیکھئے کہ فاروق صاحب نے میرے سوال کی کسطرح "ترجمانی" کی ہے اور مجھے بتایئے کہ ایسے شخص سے کیا بات کی جائے۔
 
1۔ دونوں‌سوالوں میں آپ کو کیا فرق نظر آتا ہے اور دی ہوئی آیات سے آپ کی تشفی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ وضاحت فرمائیے۔
2۔ میرے سابقہ سوالات کے جواب آپ کب عطا فرمائیں‌ گے۔

آپ کو کوئی جھٹلائے تو کیا آ پ کو خوشی ہوگی یا رنج؟ یہ آپ کی توہین ہوگی یا عزت افزائی؟ رسول اللہ کی رنجیدگی سے کیا واضح ہے ؟ عزت افزائی یا ایانت؟

بھائی یا تو آپ بالکل کورے ہیں، یا الفاظ سے کھیل کر آپ بحث برائے بحث کررہے ہیں۔ مجھے اندازاہ ہوتا جارہا ہے کہ آپ قرآن کی تعلیم سے محروم ہیں۔ افسوس۔ اس کا یقین کرنے کے لئے درج ذیل سوال۔

جو کھیل آپ کھیل رہے ہیں ۔ اس میں ذرا آپ کا ساتھ دیتا ہوں۔

ہر مسلمان جس نے تھوڑا سے بھی قرآن پڑھا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ زکواۃ‌ کتنی دی جائے۔ اب آپ سے سوال کہ قرآن سے حوالہ دے کر بتائیے کہ جو زکواۃ جمع ہو جائے اس کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہے؟
مقصد آپ کی کردار کشی نہیں بلکہ یہ جاننا ہے کہ آیا آپ نے بحیثیت مسلمان اپنی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ممکنہ وجہ ہے آپ کے قران کے حوالوں پر چونک چونک جانے کی ۔ وجہ اس سوال کی یہ ہے کہ یہ جانا جائے کہ کیا آپ بنیادی فرائض‌کے بارے میں کچھ علم بھی رکھتے ہیں یا لاعلم ہیں؟‌ اگر آپ کا جواب مناسب وقت میں نہیں ملتا تو میں یہ سمجھوں گا کہ میرا اندازہ درست ہے ، اس صورت میں بھائی آپ کو مناسب آیات فراہم کردوں گا اور پھر میری یہ استدعا ہوگی کہ بندوں کی کتب تو پہت پڑھی ہیں ، اللہ کا کلام بھی پڑھ لیجئے۔ ہدایت صرف اللہ تعالی سے ہی مل سکتی ہے۔

والسلام
 

خاور بلال

محفلین
تو خواتین و حضرات
پہلے تو گنگا نے الٹا بہنا شروع کیا اور اب دوسرے مرحلے میں گنگا نے دوسروں کا منہ چڑانا شروع کردیا۔ یعنی سیفی کو بحث برائے بحث کا طعنہ وہ دے رہے ہیں جو خود اس ہنر میں یکتا ہیں۔ (ہنر اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو کام کسی زمانے میں عیب ہوتا تھا اور اس کے کرنے والے منہ چھپائے پھرتے تھے وہ اب ہمارے زمانے میں ہنر بن گیا ہے)۔ آپ کو مختلف دھاگوں میں بحث برائے بحث، بحث برائے جھوٹ اور بحث کی دیگر فضول اقسام نظر آئیں گی جن سے یہ صاحب عموما دھاگے کے عنوان کے برخلاف الفاظ کی نہریں بہارہے ہوتے ہیں۔ رسالت کے انکار کو یہ اہانت رسول قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر وہ شخص جو رسالت کا منکر ہے وہ توہینِ رسالت کا مرتکب ہے۔

1آپ کو کوئی جھٹلائے تو کیا آ پ کو خوشی ہوگی یا رنج؟ یہ آپ کی توہین ہوگی یا عزت افزائی؟ رسول اللہ کی رنجیدگی سے کیا واضح ہے ؟ عزت افزائی یا ایانت؟

اگر انکارِ رسالت توہین شمار کی جائے تو کیا رسول کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنا ان کی تضحیک کرنا اور ان کےخاکے بنانا توہین سے بھی بڑھ کر کچھ ہے؟ ان کی بحث برائے بحث کا تازہ نمونہ دیکھیے؛ انہوں نے کچھ آیات کا ترجمہ پیش کیا جو احادیث کی رہنمائ میں کیا گیا تھا۔ جبکہ احادیث کو یہ کلی طور پر ایرانیوں کی سازش قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں احادیث کا سلسلہ نبوت کے ڈھائ سو سال بعد اس لیے “گھڑا“ گیا تاکہ کتاب اللہ سے توجہ کم ہوجائے۔
 
خاور بلال صاحب آپ میرے بارے میں کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ آپ اپنی تحریر پڑھئے، یہ میرے بارے میں ہے۔ کسی موضوع کے بارے میں‌نہیں۔ میری استدعا ہے کہ آپ موضوع پر رہئے۔ گنگا الٹی اور سیدھی کا فیصلہ قرآن سے کیجئے۔ اپنے عقائد سے نہیں۔

آپ اپنے ذاتی عقائد کی بناء ‌پر مصر ہیں کہ اہانت رسول کی سزا، چاہے وہ رسالت سے انکار ہو یا رسول کو جھوٹا کہا جائے ---- بناء مقدمہ چلائے کسی کے بھی ہاتھوں فوری موت ہے ----- یعنی -- مذہبی اختلاف کی سزا موت ---- یہ کن آیات سے ثابت ہے؟ پیش کیجئے۔

قرآن کی مدد سے ان مکمل کتب روایات میں موجود ہر روایت کو درست ثابت کرنے کی کوشش فضول ہے۔ دیکھئے اس ضمن میں پچھلی سے پچھلے صدی سے، کم از کم ایک شخص احمد رضا خان صاحب کا بیان۔ اور اس کے بعد رسول اکرم صلعم کا قول
رضا نے کہا:
ایک انٹرویو میں‌ مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوالات کئے گئے ۔کتاب کا نام اظہار الحق الجلی
سوال نمبر12:مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب: (‌احمد رضا خاں)‌ :بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔
مکمل کتب روایات پر ایمان مثل قرآن ایک خاص فرقہ کا نعرہ ہے۔ جو لوگوں کو منطقی دلائل سے مجبور کرتے ہیں کہ تمام کی تمام کتب روایات کو جو کہ پچاس سے زائد بنتی ہیں ان پر من و عن ایمان مثل قرآن رکھا جائے۔ کیا آپ کتب روایات پر ایمان مثل قرآن رکھتے ہیں؟

بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


ہم تمام روایات کو چاہے وہ کسی بھی کتاب میں ہوں، اسی نکتہ سے دیکھیں گے۔ مکمل من و عن کتب پر ایمان اِس ایک مخصوص فرقہ کو مبارک ہو ۔ انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
خاور بلال صاحب آپ میرے بارے میں کسی بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ آپ اپنی تحریر پڑھئے، یہ میرے بارے میں ہے۔ کسی موضوع کے بارے میں‌نہیں۔ میری استدعا ہے کہ آپ موضوع پر رہئے۔
میری تحریر آپ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ آپ کے موقف کے بارے میں ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ بار بار موقف تبدیل کریں اور قرآن و احادیث سے متعلق غیر محتاط گفتگو کرتے پھریں لیکن کوئ آپ کا نام لیکر اس تضاد کی نشاندہی نہ کرے۔ میں نے احادیث کے بارے میں آپ کا “سابقہ“ موقف پیش کیا ہے اس میں غلط فہمی کی کیا بات ہے۔ غلط فہمی تو تب ہوتی جب میں اپنے اندازوں پر بات کررہا ہوتا میں نے جو بات بیان کی ہے وہ آپ کے ہی الفاظ ہیں۔ یعنی کبھی تو احادیث کے سلسلے کو کلی طور پر ایرانیوں سے منسوب کر کے سازش قرار دیتے ہیں اور طنز کرتے ہیں کہ “آیا اللہ کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ لاکھوں کی تعداد میں وحی ہے جو لکھنے سے رہ گئ اور نعوذ باللہ آپ کے نبیوں پر ڈھائ سو سال بعد یہ وحی نازل ہوئ“۔ اور اب انہی احادیث کی رہنمائ میں کیا گیا قرآن کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تو کیا جن احادیث کی رہنمائ میں قرآن کا ترجمہ و تفسیر کیا جاتا ہے وہ انہی ایرانیوں کی جمع کردہ نہیں جنہیں آپ سازشی قرار دیتے ہیں؟ کیا یہ احادیث بقول آپ کے ڈھائ سو سال بعد کی جمع کردہ نہیں؟ اگر آپ احادیث کے کچھ حصے کو مانتے ہیں تو کلی طور پر احادیث کے بارے میں ایسا غیر محتاط رویہ؟ یا اللہ پناہ۔

ذاتی نوٹ؛ میں کئ بار عرض کرچکا ہوں کہ میں ذات پات کا قائل نہیں اب اگر ایک ہی شخص بحث میں اپنے موقف میں بار بار تبدیلیاں لائے تو اس کی نشاندہی اس کا نام لیے بغیر کیسے کی جائے؟ اس کا کوئ اور طریقہ ہے تو بتادیں میں اس پر عمل کرلوں گا تاکہ آپ کو اپنی ہتک محسوس نہ ہو۔ البتہ آپ بے شک تاریخ اسلامی اور اسکے عظیم محدثین کو (جنہوں نے اپنی انتھک محنت سے احادیث کو درست صحت کے ساتھ جمع کرنے کی خاطر اپنی زندگیاں کھپادیں) سازش کا حصہ قرار دیکر توہین کرتے پھریں مجھے کوئ اعتراض نہیں۔

آپ اپنے ذاتی عقائد کی بناء ‌پر مصر ہیں کہ اہانت رسول کی سزا، چاہے وہ رسالت سے انکار ہو یا رسول کو جھوٹا کہا جائے ---- بناء مقدمہ چلائے کسی کے بھی ہاتھوں فوری موت ہے ----- یعنی -- مذہبی اختلاف کی سزا موت ---- یہ کن آیات سے ثابت ہے؟ پیش کیجئے۔

آپ نے اتنی محنت سے جھوٹا الزام لگایا جسے رد کرتے ہوئے مجھے افسوس ہورہا ہے۔ میں نے ایسا دعوہ کب کیا؟ اب میں آپ کو تنبیہ کررہا ہوں کہ مزید میرے عقائد پر خود ساختہ سرخیاں لگانے سے پہلے جھوٹ سے متعلق اسلامی تعلیمات ملاحظہ کرلیجیے تاکہ آپ کو بار بار جھوٹ بولنے کی زحمت نہ کرنی پڑے اور میں بار بار اسے رد کرنے کی شرمندگی سے بچ جاؤں۔

مکمل کتب روایات پر ایمان مثل قرآن ایک خاص فرقہ کا نعرہ ہے۔ جو لوگوں کو منطقی دلائل سے مجبور کرتے ہیں کہ تمام کی تمام کتب روایات کو جو کہ پچاس سے زائد بنتی ہیں ان پر من و عن ایمان مثل قرآن رکھا جائے۔

یہ فرقہ بھی آپ کا خود ساختہ معلوم ہوتا ہے مجھے ابھی تک ایسے کسی فرقے سے واسطہ نہیں پڑا جو یہ کہتا ہو اور نہ ہی اس محفل پر کسی نے ایسی بات کی۔ البتہ جو بات سب کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن کے بعد سنت ہی اسلامی قانون کا ماخذ ہے یہی قرآن کی تعلیم ہے اور آج تک امت مسلمہ قرآن کے بعد سنت سے ہی رہنمائ حاصل کرتی آئ ہے۔ سنت کو آئین کا ماخذ ماننا ایک الگ بحث ہے اور بعض احادیث کا ناقابلِ اعتبار ہونا ایک الگ بحث، محض چند قابل اعتراض اور اختلافی احادیث پاکر قانونِ اسلامی کی جڑ پر تیشہ رکھ دینا کونسی عقلمندی ہے۔ قرآن کے بعد براہِ راست عقل لڑانے کا دروازہ کھول دیا جائے تو ہر شخص جزئیات طے کرنے میں بااختیار ہوجائے گا اور ہر تیسرے شخص کے ڈنڈے پر مختلف جھنڈا نظر آئے گا۔ قرآن بمقابلہ حدیث کی بحث کو سمیٹنے کی خاطر اس موضوع پر ایک کتاب “سنت کی آئینی حیثیت“ اراکین محفل نے برقیائ تھی آپ سے درخواست ہے کہ اس نازک موضوع کو سمیٹنے کی غرض سے اس کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد جو اختلافات باقی رہ جائیں انہیں ترتیب وار تحریر کریں تاکہ گفتگو کوئ مثبت رخ اختیار کرے۔ عموما اختلافات ایسے ہوتے ہیں جو محض کم فہمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک شخص کو حدیث کا درست مطلب سمجھنے میں دقت ہوسکتی ہے بلکہ ایسی احادیث بھی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کی پرائیویٹ زندگی کو بھی منظر عام پر لے آتی ہے جن سے کچھ افراد کو غلط فہمی لاحق ہوسکتی ہے لیکن غلط فہمی اور غلط نیت میں بہت فرق ہوتا ہے اگر نیت درست ہوتو پھر ان احادیث کا صحیح مطلب معلوم ہوجانے کے بعد انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔ ایسی کئ مثالیں مذکورہ بالا کتاب میں درج ہیں جس کا لنک یہ ہے۔
 
خاور صاحب آپ کو احتیاط کرنا برا لگتا ہے نہ کیجئے۔ آپ کو اپنے مطلب کی ہر روایت پر یقین ہے تو کرتے رہئیے۔ میرا موقف بہت سادہ اور واضح ہے۔ جس کی میں ہر بار وضاحت کرتا ہوں۔ وہ ہے کہ ہر روایت کو قرآنکی روشنی میں پرکھا جائے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان روایات کی کتب میں یکسانیت نہیں۔ اب اگر آپ کو یہ موقف تبدیل ہوتا ہوا لگتاہے تو اس کی وجہ آپ کی اپنی غلط فہمی ہے۔ میرا خیال اس بارے میں صرف یہ ہے کہ نہ اللہ اور نہ اس کے رسول نے قرآن کے علاوہ کسی کتاب پر ایمان رکھنےکو نہیں کہا -اس کا مطلب کیا ہے؟ اس میں‌سے وہ روایات جو قران کی روشنی میں درست ثابت ہوتی ہیں درست ہیں اور جو قران کی روشنی میں‌درست شامل نہیں ہوتی ہیں ان کو منوانے پر آپ مصر ہے۔ کیوں؟


اور اب انہی احادیث کی رہنمائی میں کیا گیا قرآن کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تو کیا جن احادیث کی رہنمائ میں قرآن کا ترجمہ و تفسیر کیا جاتا ہے وہ انہی ایرانیوں کی جمع کردہ نہیں جنہیں آپ سازشی قرار دیتے ہیں؟

یہ آپ ‌کی غلط فہمی ہے قرآن کا کوئی ترجمہ کسی حدیث کی رہنمائی سے نہیں‌ کیا جاتا ہے۔ قرآن کے ترجمے کے لئے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن اپنی جگہ ایک بہترین کلام ہے اور شاندار اصولوں‌پر مبنی ہے۔ آپ کو اس میں شبہ ہے، کرتے رہئیے۔ مترجمین نے وضاحت کرنے لے لئے ترجموں میں کچھ حوالہ جات ضرور ڈالے ہیں لیکن قرآن کا متن اور اس کا ترجمہ قطعاً ان اضافیات کا محتاج نہیں ہے۔


کیا یہ احادیث بقول آپ کے ڈھائ سو سال بعد کی جمع کردہ نہیں؟ اگر آپ احادیث کے کچھ حصے کو مانتے ہیں تو کلی طور پر احادیث کے بارے میں ایسا غیر محتاط رویہ؟ یا اللہ پناہ۔

ڈھائی سو سال بعد کا جمع شدہ بھی ایک دعوٰی ہے۔ صرف 400 سال پہلے کی کتب روایات دیکھ لیجئے۔ آپ کو بہت دبلی دبلی سی لگیں گی۔ متن، تعداد ، ترتیب اور اسناد کا فرق اس قدر زیادہ ہےکہ تعجب ہوتا ہے۔

ایک بات جو آنکھوں دیکھی ہے۔ کہ ان کتب میں‌متن، تعداد ، ترتیب اور اسناد کا بہت فرق ہے لہذا آپ ہر روایت کو قرآن کی روشنی میں دیکھیں‌ گے۔ یہ ایک محتاط رویہ ہے۔ غیر محتاط رویہ نہیں۔

اگر آپ کے پاس کوئی ایسی مثال ہے جہاں آپ کے خیال میں‌ کوئی روایت قران کے خلاف ہو اور پھر بھی اس کا مانا جانا ضروری ہو تو سامنے لے کر آئیے۔ اگر آپ کے پاس قران کی آیات سے ثابت کرنے کے لئے کچھ ہے تو بہت ہی اچھا ہے ورنہ پھر یہ حکائتیں ہیں آپ کی ہماری منظق ہے اور بے کار کی بحث ہے کہ یوں‌ہے اور یوں ہے اور یوں نہیں‌ہے۔ کوئی واضح اور مظبوط مثال دیجئے جسں‌ سے آپ کو دین خطرہ میں نطر آتا ہو؟ اگر آپ کا ایمان مثل قرآن ان روایات پر نہیں ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے ۔ پھر آپ کے نکتہ میں اور میرے پیش کردہ نکتہ میں فرق کیا ہے؟‌ آپ کیوں‌ضروری سمجھتے ہیں کہ کہ تمام روایات کو قرآن کی روشنی میں نہ پرکھا جائے؟
کیا اس لئے کے قانوں سازی میں اپنی من مانی ہوسکے؟‌
فررد واحد کی حکومت ہو سکے؟
عورتوں‌کو ان کے معاشرے میں مقام سے محروم کیا جاسکے؟
کمزوروں‌کو غلام بنایا جاسکے؟
قانون سازی، عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ، صرف اور صرف چند لوگوں کے ہاتھ میں ہو ؟
باہمی مشورہ کی فضا ختم کی جاسکے؟

کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان روایات کی مدد سے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر ہو جہاں‌ تعلیم حاصٌ کرنا صرف ایک مخصوص طبقہ تک مھدود ہو؟ اور مسلمان پھر اسی تاریکی کے غار میں‌جاگریں جس میں وہ 500 سال تک ہندوستان میں گڑے رہے؟

بھائی ، اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ مشیت ایزدی سے اس نظام کا خاتمہ ہوا جو ان روایات پر مبنی تھا۔اور جس میں نظریاتی اختلاف کی سزا موت سمجھی جاتی ہے۔
 
بھائیو، بہنو اور صاحبو، اب تک ہم لوگ جو بحث کرتے رہے ہیں وہ منطقی ہے۔ کسی حقیقی مثال کے بغیر ہے۔ آپ میں سے کچھ دوست یا تو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کس بات کا دفاع کررہے ہیں یا پھر انجانے میں سنی سنائی بات پر ایک نظریہ کا دفاع کررہے ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ حقیقی اور اصل مثالوں سے یہ دیکھا جائے کہ کیا کہا جارہا ہے اور کیا نہیں؟ ہمارے ایک بھائی رضا نے معاشرہ میں عزت کے مقام پر کچھ پوسٹ کیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ وہ آپ پڑھ لیجئے۔ وہ دھاگہ یہاں‌ہے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8520

ہم اس میں قران حکیم اور اصل روایات کی مدد سے یہ دیکھیں گے کہ روایات قرآن سے کہاں مخالف ہوجاتی ہیں اور کہاں موافق ہیں۔
 

دوست

محفلین
یار وہ سوال کہیں بیچ میں ہی رہ گئے۔ ظفری نے سوال پوچھنے کی کوشش کی تھی لیکن الٹا ان کے گلے میں ڈھول ڈال دیا گیا کہ میرے سوالات کے جواب نہیں دئیے گئے۔ ویسے اب تو عادت سی ہوگئی ہے دو لائنوں کے سوال کے جواب میں بیس پچیس قرآنی آیات کا ترجمہ دیکھنےکی جن میں مطلب کے الفاظ کو سرخ رنگ سے نشان زد کیا گیا ہوتا ہے۔ میں تو اب یہ دیکھتے ہی دھاگہ بند کردیتا ہوں کہ گھوم پھر کر بات وہیں آجانی ہے بحث برائے بحث، وہی کتب روایات، وہی ڈھائی سو سال، وہی روایات میں تضاد وہی دونی کا پہاڑ۔
 

خاور بلال

محفلین
قرآن سے کسی مسلمان کو آخر کیسے تکلیف ہوسکتی ہے؟ قرآن سے بڑھ کر تو مسلمان کے لیے کوئ راہِ ہدایت ہے ہی نہیں۔ البتہ جھوٹ، بحث برائے بحث، موقف کی بار بار تبدیلی، قرآن و حدیث سے متعلق غیر محتاط گفتگو، عظیم محدثین کی خدمات کو سازش قرار دینے اور بطور کلی احادیث کا مذاق اڑانے اور انہیں من گھڑت کہانیاں قرار دینے سے ضرور تکلیف ہوتی ہے۔
 
قرآن سے کسی مسلمان کو آخر کیسے تکلیف ہوسکتی ہے؟ قرآن سے بڑھ کر تو مسلمان کے لیے کوئ راہِ ہدایت ہے ہی نہیں۔ البتہ جھوٹ، بحث برائے بحث، موقف کی بار بار تبدیلی، قرآن و حدیث سے متعلق غیر محتاط گفتگو، عظیم محدثین کی خدمات کو سازش قرار دینے اور بطور کلی احادیث کا مذاق اڑانے اور انہیں من گھڑت کہانیاں قرار دینے سے ضرور تکلیف ہوتی ہے۔

آپ کا فرمانا اپنی جگہ درست ہے۔

عقائد پر ضرب کے ضمن میں ذرا یہ دھاگہ دیکھئے، کیا ملازمہ سے مباشرت جائز ہے؟
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8520&page=23

کیا لڑکیوں کو لکھنا سکھانا منع ہے؟
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=11674

میرا نکتہ نظر آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=12055
 

الطاف ذکی

محفلین
السلام و علیکم محترم اراکین و سرور صاحب،
گزشتہ روز اس موضوع اور دیگر منسلکہ موضوعات پر ارسال کردہ مراسلات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ واقعی، حجیت قرآن کے حوالے سے یہ ایک عظیم کاوش ہے، دعا ہے اللہ تعالی قبول فرمائے اور اپنی رحمت سے ہم سب کو ہدایت دین اور احیاء فکر قرآن کا ذریعہ بنا دے۔ آمین۔
دین اسلام کی تمام عمارت، ایمان کی بنیادوں پر، قائم ہوتی ہے۔ اور ایمان "حق" پر مبمنی تمام عقائد یا نظریات پر ایقان کا نام ہے۔جس طرح ایمان کے کسی بھی جزو کا ضعیف یا مشکوک ہونا، تمام عقائد مشکوک و کمزور ہوجانے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اسی طرح، ایمان کی کوئی بھی رمق، اللہ کی رحمت سے، باطل پر مبنی تمام عقائد یک لمحے میں منھدم کرسکتی ہے۔
ارتقاء سے ہی "حق" پر مبنی تمام عقائد اور نظریات ہمیشہ اللہ کی جانب سے براہ راست بطور ہدایت، بشکل صحوف اعلی اور کتب اللہ، بذریعہ انبیاء و رسول اللہ علیہم السلام، انسان تک اصل حالت میں پہنچائے گئے۔
یہ اجماع ِ امت اسلامیہ ہے اور انشاء اللہ تا قیامت رہے گا، کہ قرآن کریم بغیر کسی کمی و بیشی، نازل ہونے والی اولین سے آخری آیت تک تمام کا تمام برحق من جانب اللہ ہے۔ لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ حصول ہدایت اور اس پر تا حیات استقامت کیلئے قرآن کریم سے تا حیات حقیق تعلق استوار رکھا جائے۔ یہی حکم اللہ ہے اور تعلیم رسول بھی اور ہمارے لئے ذریعہ نجات اور تمام جہانوں کی کامیابی و کامرانی بھی۔
میری دعا ہے، اور ساتھیوں سے گزارش بھی، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اب اور آئیندہ اپنے تمام میسر وسائل، اوقات اور توانائیاں، قرآنِ کریم کی ایک ایک آیت سے متعارف ہوں اور اس پر غور فکر پر مشتمل خیالات ایک دوسرے سے شیئر کر کے سیکھنے اور سیکھانے پر صرف کریں۔ کیا معلوم ہم میں سے کس کی نیک نیتی اور عمل کو، رب العالمین اکرمین اپنی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ عطا فرمائیں اور ہم سب کیلئے تمام جہانوں کی کامیابیاں لکھ دیں (آمین)
والسلام،
الطاف ذکی
 

asim10

محفلین
عام طور پر لوگوں‌کے عقائد کو قرآن سے ضرب لگتی ہے۔ لہذا قرآن کی آیات تکلیف دیتی ہیں۔
السلام علیکم
آس فورم کی پہلی پوسٹ کر رہا ہوں
فاروق صاحب کی یہ پوسٹ پڑھ کر سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس قسم کے لوگوں‌کی بات کر رہے ہیں۔قرآن کی آیات تو غیر مسلموں‌کو تکلیف دے سکتی ہیں‌مسلمانوں‌کو نہیں۔آپ کیا کہنا چاہتے ہیں‌کہ مسلمانوں‌کو بھی قرآن کی آیات تکلیف دیتی ہیں۔تو جس کو قرآن کی آیات تکلیف دیتی وہ مسلمان نہیں‌ہو سکتی۔میرے نزدیک تو اس میں‌دو قسم کے لوگ شامل ہیں‌۔ایک تو وہ جو واضح طور پر کافر ہیں‌۔اور دوسری قسم جو کہتی تو اپنے آپ کو مسلمان ہیں۔مگر در حقیقت ان کے عقائد غیر اسلامی ہیں۔(حذف کردہ) یہ سب کہتے تو اپنے آپ کو اہل قرآن ہیں‌مگر جب ان پر قرآن پیش کیا جاتا ہے تو پھر انکی تاویلات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ آیات کی وہ وہ مطلب ،و تشریح پیش کریں‌گے۔کہ جو آپ نے نہ سنے ہوں گے۔اور نہ کسی نے کیے ہوں گے۔اور نہ اس آیت کو وہ مطلب یہ مفہوم ہی ہو گا۔
انکا سارہ انحصار صرف لغت کی کتب پر ہوتا ہے۔یا اگر کسی عالم نے اگر کوئی بات لکھ دی جو انکے حق میں‌جاتی ہو تو بار اسکا حوالہ دیں‌گے۔اب مجھ یہ تو نہیں‌پتا کہ فاروق صاحب کا ان میں‌سے کسی جماعت سے تعلق ہے یا نہیں‌مگر انکا یہ جملہ اس قسم کے لوگوں‌سے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ ہم سب کو سیدھی راہ دیکھائے۔آمیں۔
 

طالوت

محفلین
ماشاءاللہ !
پہلی پوسٹ پر ہی آپ خود احتساب کر لیں کہ آپ نے کیا کیا ؟
جہاں تک منکرین حدیث کا تعلق ہے تو ایسا کوئی اور گروہ نہیں جو مکمل طور پر روایات کا نکار کرتا ہو ۔۔ فرق اس قدر ہے کہ آپ لوگ انھیں آیات الہی کا درجہ دیتے ہیں اور "منکرین" اسے آیات نہیں مانتے ۔۔
اگرچہ اس پر کافی بحث ہو چکی اور "غیر منکرین" کا انداز گفتگو بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ۔۔ جہاں دلیل سے زور نہ چلتا ہو وہاں الزام تراشیوں اور تہمتوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے ۔۔
وسلام
 

asim10

محفلین
طالوت [quote نے کہا:
جہاں تک منکرین حدیث کا تعلق ہے تو ایسا کوئی اور گروہ نہیں جو مکمل طور پر روایات کا نکار کرتا ہو ۔۔ فرق اس قدر ہے کہ آپ لوگ انھیں آیات الہی کا درجہ دیتے ہیں اور "منکرین" اسے آیات نہیں مانتے ۔۔
ذرا اسکی کوئی مثال دے دیں‌،کہ کس مسلمان نے حدیث کو آیت کہا۔پر ایک بات تو ہے کہ اقوال رسول ص ہی تو آیات الہی ہی۔ کیونکہ اللہ نے خود کہا ہے کہ آپ ص اللہ کی مرضی یے بغیر کچھ نہیں‌کہتے ۔ہاں‌فرق یہ ہے کہ ان اقوال کو ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں۔اور ان اقوال کو ہم قرآن کی شرح کہتے ہیں۔
اگرچہ اس پر کافی بحث ہو چکی اور "غیر منکرین" کا انداز گفتگو بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ۔۔ جہاں دلیل سے زور نہ چلتا ہو وہاں الزام تراشیوں اور تہمتوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے ۔۔
آپ تو خود الزام تراشی کر رہے ہیں‌کوئی دلیل تو آپ بھی نہ لا سکے
 

طالوت

محفلین
ذرا اسکی کوئی مثال دے دیں‌،کہ کس مسلمان نے حدیث کو آیت کہا۔پر ایک بات تو ہے کہ اقوال رسول ص ہی تو آیات الہی ہی۔ کیونکہ اللہ نے خود کہا ہے کہ آپ ص اللہ کی مرضی یے بغیر کچھ نہیں‌کہتے ۔ہاں‌فرق یہ ہے کہ ان اقوال کو ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں۔اور ان اقوال کو ہم قرآن کی شرح کہتے ہیں۔
آپ تو خود الزام تراشی کر رہے ہیں‌کوئی دلیل تو آپ بھی نہ لا سکے
سوال کے بعد جواب بھی آپ نے خود دے دیا ہے ۔۔ وحی متلو غیر متلو یا جلی و مخفی ۔۔۔۔۔۔
میں نے تو الزام نہیں لگایا ۔۔ آپ یہ دھاگہ پورا پڑھ لیں پتا چل جائے گا کہ کس کس نے کن کن پر الزام لگایا اور ہاں اس میں اپنی "پہلی پوسٹ" پر بھی غور کیجیے گا ۔۔۔۔۔۔
یاد آیا خوش آمدید ۔۔۔ ذرا تعارفی زمرے میں اپنا تعارف تو کروا دیں ۔۔:)
ٹاٹا ۔۔۔۔۔۔۔
وسلام
 

asim10

محفلین
السلام علیکم
طالوت صاحب آپ سے درخواست ہے کہ اگر بات کرنی ہے تو کچھ ہمت کریںاور کھل کر بات کریں۔اس طرح مبہم باتیں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کا مطالعہ یا تو بہت محدود ہے یا آپ صرف سنی سنائی باتیں‌کر رہے ہیںِ ۔آپ اپنے جملے سے پر ذرا غور کریں ،
سوال کے بعد جواب بھی آپ نے خود دے دیا ہے ۔۔ وحی متلو غیر متلو یا جلی و مخفی ۔۔۔۔۔۔
مثلا اس سے کسی بھی بات کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
تھوڑا وقت نکال کر اپنی بات کو وضاحت کریں۔
اور آپ کو انداز تخاطب تھوڑا تمسخرانہ بھی ہے۔
یاد آیا خوش آمدید ۔۔۔ ذرا تعارفی زمرے میں اپنا تعارف تو کروا دیں ۔۔
ٹاٹا ۔۔۔۔۔۔۔
اگر عزت و احترام کے دائرے میں‌بات ہو تو بھتر ہے۔اور یاد رہے کہ جہاں‌میرے غلطی ہو اسکی وضاحت کر دیں‌میں‌اس وقت معذرت کرلوں‌گا۔انشاءاللہ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top