مجھے ایک مخطوطہ یاد آ گیا جو جناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان لکھا تھا۔ اس سے اقتباس۔
آپ خوب جانتے ہیں کہ میرے نزدیک نہ کوئی کتاب، خدا کی کتاب کے سوا، غلطی سے پاک ہے، گو وہ کیسی ہی اصح الکتب کیوں نہ سمجھی گئی ہو۔ اور نہ کوئی شخص سوائے رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے خطا اور غلطی سے محفوظ ہے۔ گو وہ صحابی اور امام ہی کیوں نہ ہو۔ بلا شبہ اسلام اس پرفخر کرسکتا ہے کہ اس میں بہت بڑے مفسر اور محدث اور مجتہد اور عالم اور فقیہ اور حکیم ہوئے۔ اور بہت مفید اور قابل قدر کتابیں لکھی گئیں۔ اور ہمارے بزرگوں نے بہت بڑا ذخیرہ علم کا ہمارے لئے چھوڑا اور ہم ان کے علم اور اجتہاد اور رائے اور تالیفات سے بہت بڑی مدد پاتے ہیں۔ مگر کوئی بھی ان میں معصوم نہ تھا۔ نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے نہ کسی کی شان میں خدا نے [AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC] [AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]فرمایا تھا۔ اس پر بھی اگر کوئی "کسی" کو ہر طرح سے ہر بات میں اور ہر حالت میں واجب التقلید سمجھے اور باوجود ظاہر ہوجانے غلطی کے خواہ وہ عقل و فطرت کی وجہ سے ہو یا کسی اور سبب سے" اسی" کی کہی ہوئی یا لکھی ہوئی بات کو سچ سمجھتا اور یقین کرتا رہے تو وہ میرے نزدیک مشرک فی صفۃ النبوۃ ہے۔ اور عقل سے خارج اور راہ راست سے کوسوں دور۔۔۔
19 ستمبر 1892ع ، حیدرآباد، دکن،
مخطوطہ جناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان۔
صفحہ 9 تفسیر القرآن سرسید احمد خان۔
http://aboutquran.com/ba/bio/sirsyed_ahmed_khan/tqss_preface.djvu
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی رائے
اگر ہم غور سے دیکھیں تو رسول اکرم کی تمام سنتیں ، سنت جاریہ ہیں، آپ ان کا مشاہدہ دن رات کرسکتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی شخص ان سنتوں پر عمل کر رہا ہے۔ صاحب قرآن اور وجہ قرآن کاکسی طور بھی قرآن کے خلاف عمل یا بیان بعید از قیاس ہے۔
جہان یہ درست ہے کہ " نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے نہ کسی کی شان میں خدا نے [AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC] [AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]فرمایا تھا۔ "
وہاں یہ بھی درست ہے کہ رسول اکرم نے جو واحد کتاب منجانب اللہ پیش کی، وہ قرآن مجید ہے۔اصل الہامی کتب کے علاوہ باقی تمام کتب انسانی ہاتھوں اور ذہن کا کارنامہ ہیں، منجانب اللہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ احادیث اتنی کثرت میں ہونے کے باوجود ، مکمل قرآن کا آحاطہ نہیں کرتی ہیں اور بیشتر آیات یا سوراۃ کا تذکرہ کتب روایات میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بے تحاشا روایات انسانوں کی گھڑی ہوئی ہیں، خارج از عقل اور خلاف قرآن ہیں ۔ یہ صاف لگتا ہے کہ یہ خلاف قرآن روایات ، لوگوں نے اپنی سماجی روایات، جیسے غلامی کا فروغ اور آزاد انسانوں کا استحصال ، عورتوں کا استحصال اور ان کے حقوق کو دبانا، لاتعداد شادیاں ، امیر کی دولت کی حفاظت اور اولاد و حقدار کو حقوق سے محرومی ، سلطنت و ریاست پر قبضے اور معصوموں اور غریبوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے گھڑی گئی تھیں۔
ان "بیش قیمت " روایات کو جاری رکھنے کے للئے ہر طرح کی ٹیکنالوجی بھی گھڑی گئی کی ثابت کیا جاسکے کہ یہ روایات "اصلی " ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان روایات کی اصل کتب 1700 سے پہلے کی بالکل دستیاب نہیں ہیں۔ پہلے کوئی صاحب ایک عدد کتاب روایت 1700 سے پہلے کی لکھی ہوئی ایسی لے آئیں جو آج کی کسی کتاب روایت سے 100 فی صد ملتی ہو تو پھر اس پر بات کی جائے۔ ان اہل روایات کی ان کتب روایات سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ کہ "اصل بخاری " ، "اصل مسلم " وغیرہ جو کہ 250 صدی ہجری کے لگ بھگ لکھی گئی تھیں، ان کا کوئی سراغ و وجود ہی نہیں ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ 1700 عیسوی سے پہلے کی روایات از بخاری 6 عدد معمولی رسالوں کی صورت میں ہے ، جس کی ترتیب اور تعداد آج کل پائی جانے والی کسی بھی کتاب سے نہیں ملتی۔ مجھے تو حیرانی ہوتی ہے جب سمرقند و بخارا کے اس شخص کے ماننے والے بنا کسی حقیقی ثبوت کے اور بنا کسی مکمل کتاب کے اس ناموجود کتاب کو ثابت کرنے کے لئے تمام حدوں سے گذر جاتے ہیں۔
بہت ہی ساد سوال ہے۔
جب خللفائے راشدین کے زمانے کا مکمل قرآن موجود ہے تو اس کے 250 سال بعد لکھی جانے والی "صحیح بخاری " یا ""صحیح مسلم " کا دیدار کہاں کیا جاسکتا ہے؟ جب اصل کتاب ہی موجود نہیں تو پھر اس کے درست یا نا درست ہونے پر بحث کیسی؟
والسلام۔