قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرخ منظور

لائبریرین
ہوئے کس درجہ فقیہان ِ حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی

"علّامہ اقبال"
 
چہ دلاور است

میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تم جب تک ان کو پکڑے رہو گئے ہرگز گمراہ نہیں ہو گئےایک اللہ کی کتاب دوسری اس کے رسول کی سنت۔
وقت آئے گا کہ ایک آسودہ حال شخصاپنے تخت و مسند پر بیٹھا ہوایہ کہتا ہو گا کہ بس قرآن ہی کو پکڑو اسی کا حلال حلال اور حرام حرام ہے۔حالانکہ اللہ کے رسول نے جو کچھ حرام قرار دے دیا ہے۔وہ بھی اللہ کے حرام قرار کئے ہوئے کی مانند ہے۔

يقينا قريب ہے کہ ايک سير شخص جو اپنے تخت پر بيٹھا ہوگا اس کے پاس ميرے امر ميں سے کوئي معاملہ آئے گا تو وہ کہے گا ہمارے ليے قرآن ہي کافي ہے۔ جو ہميں قرآن ميں ملے گا اسے حلال کريں گے اور جو قرآن ميں حرام ملے گا اسے حرام کہيں گے۔جان لو کہ مجھے قرآن ديا گيا ہے اور اس کے ساتھ اس جيسا اور بھي ديا گيا ہے

مذکورہ بالا احادیث شریفہ موطا امام مالک،سنن ابی داود اور ابن ماجہ میں روایت کردہ ہیں۔
فاروق سرور خان صاحب کافی عرصہ سے آپ احادیث کے بارے میں خامہ فرسائی فرما رہے ہیں‌ لیکن معذرت کے ساتھ آپ کی تحریریں‌ ژولیدہ بیانی اور ژولیدہ ذہنی کا شکار ہیں۔ایک طرف تو آپ یہ حدیث پیش کرتے ہیں اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
معنی اس کے یہ ہیں کہ صحیح حدیث کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی قرآن سے متعارض نہیں ہوگی اس اصول پر تو کبھی کسی کو کلام رہا ہی نہیںیہ بڑی واضح بات ہے ہاں اگر کسی کو محض اپنی کم علمی کی ہی وجہ سے کسی حدیث سے تعرض ہو جائے تو یہ اس معترض کا اپنا نقص ہے۔ دوسری طرف آپ تمام ذخیرہ احادیث کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں اورطریقہ نماز وغیرہ محض قرآن سے ہی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟؟ پتا نہیں آپ کا مقصد کیا ہے؟خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ۔
بھائی کچھ خدا کا خوف کرو یہ معاملات بڑے نازک ہیں‌کیوں اس گروہ کا حصہ بن رہے ہو جس کی اپنی شناخت ہمیشہ بے شناخت رہی اور لوگ کے نزدیک وہ اپنے غیر ملکی و غیر مذہبی آقاوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
 

گل خان

محفلین
باذوق بھائی اور شاکر قادری بھائی صاحب۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کے علم میں مزید ترقی عطا فرمائے۔۔۔اور آپ کے قلم میں بھی قوت عطا فرمائے۔۔آمین ۔۔۔۔
والسلام مع الاکرام
 

گل خان

محفلین
اور تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ۔۔۔۔صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔۔لکھا کریں۔۔بخل سے صرف ۔۔ص۔۔۔نہ لکھا کریں۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
باذوق بھائی اور شاکر بھائی نے بہت عمدہ طریقے سے منکرین حدیث کا رد کیا ہے اور جو نقاط بازوق صاحب نے اٹھائے ہیں وہ بلاشبہ ناقابل تردی ہیں اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بھی آیت بصورت وحی اترتی تھی تو جب آپ اسے اپنے صحابہ پر تلاوت کرتے تھے اور ساتھ میں یہ بتا بھی دیتے تھے کہ یہ قرآن ہے اسے یاد کرلو یا ضبط تحریر میں لے آؤ اب میرا سوال یہاں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ یہ قرآن ہے اور اسکی فلاں آیت ہے ۔یہ مخصوص جملہ قرآن ہے یا غیر قرآن؟ بھئی ظاہر سی بات آپ کا یہ جملہ غیر قرآن ہے اور حدیث ہے اور صحابہ کرام کے ایمان کا مدار اسی جملہ کی حقانیت پر ہوتا تھا وہ اسی جملہ کو سن کر بلا چوں چرا کیئے اس مخصوص آیت کو قرآن سمجھ کر لکھ لیتے تھے تو اس بات سے صاف ظاہر ہوا کہ قرآن اپنے قرآن ہونے میں واسطہ حدیث کا محتاج ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی کے عقائد کو نہ چھیڑوں ۔ اور جو بات بھی دین کے تناظر میں پیش کروں اس میں کسی اختلافی نوعیت کا پہلواُجاگر نہ ہو ۔( اگر کبھی ایسا ہوگیا تو اس کے لیئے پیشگی معافی کا خواستگار ہوں ) اس لیئے اپنی تحقیق کے نتیجے میں ، جس بات کو میں علمی انداز میں لیتا ہوں ۔ اسے عام فہم زبان میں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کسی خاص مکتبِ فکر کو زیرِ بحث نہیں‌ لاتا ۔ بلکہ یہ کوشش کرتا ہوں کہ جو بات بھی کروں وہ سب مکتبِ فکر کے لیئے قابلِ قبول ہو ۔ یہ ٹاپک کچھ دن پہلے ہی میری نظر میں آیا ہے ۔ اس سلسلے میں میرا ناقص استدلال آپ کی نظر ہے ۔

ہم جب اس دنیا میں آتے ہیں تو خدا کی طرف سے دی ہوئي صرف فطری رہنمائی ہمارے پاس ہوتی ہے ۔ باقی ساراعلم ہم یہاں آکر حاصل کرتے ہیں ۔ یہ علم درست بھی ہوتاہے اور غلط بھی ۔ اس لیے جیسے جیسے ہمارے علم میں اضافہ ہوتاہے ، ہم اپنے علم کی اصلاح کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس دنیا میں ہماری آزمائش یہی ہے کہ جس علم کو ہم مان رہے ہیں کیااس کے مطابق ہم عمل بھی کررہے ہیں کہ نہیں اور کیا ہمارا یہ مانناحق کی سچی طلب کی وجہ سے ہے یا کسی اورعصبیت کی وجہ سے ۔ اور کیا جب ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ہم جو مان رہے ہیں وہ غلط ہے تو ہمارارویہ حق کے بارے میں ماننے والا ہوتاہے کہ انکار کا ۔ اللہ چاہتاہے کہ ہم جو حق بھی مانیں وہ جانتے بوجھتے ہوئے مانیں اور جب بھی ہمیں معلوم ہو کہ جسے ہم مان رہے تھے وہ حق نہیں تھا تو ہمیں اس کو چھوڑ دیناچاہیے اور کسی کی ملامت اور فتووں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ہمارے نزدیک دینِ اسلام کا محور و مرکز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے انہوں نے جس چیز کو دین قراردیا ہے وہی دین ہے ۔ یہ دین ہمیں دو ذرائع سے ملا ہے ایک قرآن مجید اور دوسراسنتِ رسول ۔ سنت سے ہماری مراد وہ عملی چیزیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں دین کی حیثیت سے رائج کیں ۔ مثلا نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ اور ان چیزوں میں امت مسلمہ کے ہاں کوئي بڑااختلاف بھی نہیں ہے ۔ جہاں کہیں اختلاف ہے وہ بھی اس وجہ سے ہے کہ وہاں ایک سے زیادہ طریقے رائج کیے گئے ۔ مثلا رفع یدین کرناوغیرہ ۔ دین صرف قرآن اور سنت میں ہے اور یہ دونوں چیزیں امت کے اجماع اور تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ یعنی دین ہم اپنے بزرگوں سے سیکھتے ہیں نہ کہ کتابوں سے اور جہاں کہیں کسی سنت میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کرتاہے تو وہ چیز ریکارڈ پر آجاتی ہے اور امت اس پر چیخ اٹھتی ہے اور سب کو علی الاعلان بتادیتی ہے کہ یہ غلط ہے ۔ حدیث ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگي کا تاریخی ریکارڈ ہے ان میں قرآن وسنت سے متعلق بھی باتیں آگئي ہیں ( ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیِ مبارک عین قرآن و سنت کے مطابق تھی ) او ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوسرے پہلووں سے متعلق بھی باتیں ان میں شامل ہیں ۔ان میں دین سے متعلق جو بھی چیزیں آئي ہیں وہ محض اصل دین کی شرح ووضاحت کی نوعیت کی ہیں ۔ اس لیے ہم ان چیزوں کو اہلِ علم کے بتائے ہوے طریقے پر قرآن وسنت پر پرکھیں گے اور جو چیزیں ان میں ہمیں قابل اعتماد نظر آئیں گي ان پر ہم عمل کریں گے۔ ہمارا اصل دین قرآن اور امت کے عمل میں سنت رسول کی صورت میں محفوظ ہے ۔ احادیث اس دین میں کوئی اضافہ نہیں کرتیں یہ اسی دین کے تحت ہیں اور اسی کی بنیاد پر قبول کی جائیں گي ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
باذوق بھائی اور شاکر بھائی نے بہت عمدہ طریقے سے منکرین حدیث کا رد کیا ہے اور جو نقاط بازوق صاحب نے اٹھائے ہیں وہ بلاشبہ ناقابل تردی ہیں اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بھی آیت بصورت وحی اترتی تھی تو جب آپ اسے اپنے صحابہ پر تلاوت کرتے تھے اور ساتھ میں یہ بتا بھی دیتے تھے کہ یہ قرآن ہے اسے یاد کرلو یا ضبط تحریر میں لے آؤ اب میرا سوال یہاں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ یہ قرآن ہے اور اسکی فلاں آیت ہے ۔یہ مخصوص جملہ قرآن ہے یا غیر قرآن؟ بھئی ظاہر سی بات آپ کا یہ جملہ غیر قرآن ہے اور حدیث ہے اور صحابہ کرام کے ایمان کا مدار اسی جملہ کی حقانیت پر ہوتا تھا وہ اسی جملہ کو سن کر بلا چوں چرا کیئے اس مخصوص آیت کو قرآن سمجھ کر لکھ لیتے تھے تو اس بات سے صاف ظاہر ہوا کہ قرآن اپنے قرآن ہونے میں واسطہ حدیث کا محتاج ہے۔

اللہ ہی ہماری حالت پر رحم کرے کہ اب حدیث قرآن پر مقدم ہوگئی اور قرآن روائت کا محتاج ہوگیا- واہ صاحب کیا بات کہی کہ "قرآن اپنے قرآن ہونے میں واسطہ حدیث کا محتاج ہے"
 
مجھے ایک مخطوطہ یاد آ گیا جو جناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان لکھا تھا۔ اس سے اقتباس۔

آپ خوب جانتے ہیں کہ میرے نزدیک نہ کوئی کتاب، خدا کی کتاب کے سوا، غلطی سے پاک ہے، گو وہ کیسی ہی اصح الکتب کیوں نہ سمجھی گئی ہو۔ اور نہ کوئی شخص سوائے رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے خطا اور غلطی سے محفوظ ہے۔ گو وہ صحابی اور امام ہی کیوں نہ ہو۔ بلا شبہ اسلام اس پرفخر کرسکتا ہے کہ اس میں بہت بڑے مفسر اور محدث اور مجتہد اور عالم اور فقیہ اور حکیم ہوئے۔ اور بہت مفید اور قابل قدر کتابیں لکھی گئیں۔ اور ہمارے بزرگوں نے بہت بڑا ذخیرہ علم کا ہمارے لئے چھوڑا اور ہم ان کے علم اور اجتہاد اور رائے اور تالیفات سے بہت بڑی مدد پاتے ہیں۔ مگر کوئی بھی ان میں‌ معصوم نہ تھا۔ نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے نہ کسی کی شان میں خدا نے [AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC] [AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]فرمایا تھا۔ اس پر بھی اگر کوئی "کسی"‌ کو ہر طرح سے ہر بات میں اور ہر حالت میں واجب التقلید سمجھے اور باوجود ظاہر ہوجانے غلطی کے خواہ وہ عقل و فطرت کی وجہ سے ہو یا کسی اور سبب سے" اسی" کی کہی ہوئی یا لکھی ہوئی بات کو سچ سمجھتا اور یقین کرتا رہے تو وہ میرے نزدیک مشرک فی صفۃ النبوۃ‌ ہے۔ اور عقل سے خارج اور راہ راست سے کوسوں دور۔۔۔

19 ستمبر 1892ع ، حیدرآباد، دکن،
مخطوطہ جناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان۔
صفحہ 9 تفسیر القرآن سرسید احمد خان۔
http://aboutquran.com/ba/bio/sirsyed_ahmed_khan/tqss_preface.djvu
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی رائے
اگر ہم غور سے دیکھیں تو رسول اکرم کی تمام سنتیں ، سنت جاریہ ہیں، آپ ان کا مشاہدہ دن رات کرسکتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی شخص ان سنتوں پر عمل کر رہا ہے۔ صاحب قرآن اور وجہ قرآن کاکسی طور بھی قرآن کے خلاف عمل یا بیان بعید از قیاس ہے۔
جہان یہ درست ہے کہ " نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے نہ کسی کی شان میں خدا نے [AYAH]53:3[/AYAH] [ARABIC]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى [/ARABIC] [AYAH]53:4[/AYAH] [ARABIC] إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [/ARABIC]فرمایا تھا۔ "

وہاں یہ بھی درست ہے کہ رسول اکرم نے جو واحد کتاب منجانب اللہ پیش کی، وہ قرآن مجید ہے۔اصل الہامی کتب کے علاوہ باقی تمام کتب انسانی ہاتھوں اور ذہن کا کارنامہ ہیں، منجانب اللہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ احادیث اتنی کثرت میں ہونے کے باوجود ، مکمل قرآن کا آحاطہ نہیں کرتی ہیں اور بیشتر آیات یا سوراۃ کا تذکرہ کتب روایات میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بے تحاشا روایات انسانوں کی گھڑی ہوئی ہیں، خارج از عقل اور خلاف قرآن ہیں ۔ یہ صاف لگتا ہے کہ یہ خلاف قرآن روایات ، لوگوں نے اپنی سماجی روایات، جیسے غلامی کا فروغ اور آزاد انسانوں کا استحصال ، عورتوں کا استحصال اور ان کے حقوق کو دبانا، لاتعداد شادیاں ، امیر کی دولت کی حفاظت اور اولاد و حقدار کو حقوق سے محرومی ، سلطنت و ریاست پر قبضے اور معصوموں اور غریبوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے گھڑی گئی تھیں۔

ان "بیش قیمت " روایات کو جاری رکھنے کے للئے ہر طرح کی ٹیکنالوجی بھی گھڑی گئی کی ثابت کیا جاسکے کہ یہ روایات "اصلی " ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان روایات کی اصل کتب 1700 سے پہلے کی بالکل دستیاب نہیں ہیں۔ پہلے کوئی صاحب ایک عدد کتاب روایت 1700 سے پہلے کی لکھی ہوئی ایسی لے آئیں جو آج کی کسی کتاب روایت سے 100 فی صد ملتی ہو تو پھر اس پر بات کی جائے۔ ان اہل روایات کی ان کتب روایات سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ کہ "اصل بخاری " ، "اصل مسلم "‌ وغیرہ جو کہ 250 صدی ہجری کے لگ بھگ لکھی گئی تھیں، ان کا کوئی سراغ‌ و وجود ہی نہیں ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ 1700 عیسوی سے پہلے کی روایات از بخاری 6 عدد معمولی رسالوں کی صورت میں ہے ، جس کی ترتیب اور تعداد آج کل پائی جانے والی کسی بھی کتاب سے نہیں ملتی۔ مجھے تو حیرانی ہوتی ہے جب سمرقند و بخارا کے اس شخص کے ماننے والے بنا کسی حقیقی ثبوت کے اور بنا کسی مکمل کتاب کے اس ناموجود کتاب کو ثابت کرنے کے لئے تمام حدوں سے گذر جاتے ہیں۔

بہت ہی ساد سوال ہے۔
جب خللفائے راشدین کے زمانے کا مکمل قرآن موجود ہے تو اس کے 250 سال بعد لکھی جانے والی "صحیح بخاری " یا ""صحیح مسلم " کا دیدار کہاں کیا جاسکتا ہے؟ جب اصل کتاب ہی موجود نہیں تو پھر اس کے درست یا نا درست ہونے پر بحث کیسی؟

والسلام۔
 

قیصرانی

لائبریرین
فاروق بھائی، سر سید کا حوالہ دینے کا شکریہ۔ بہت سارے اراکین کو آپ کے ایمان پر کفر کا ٹھپہ لگانے میں بہت آسانی ہو جائے گی
 

فرخ منظور

لائبریرین
لیکن قیصرانی صاحب یہ ایک مخطوطہ ہے جوجناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان لکھا تھا۔یہ سرسید کے خیالات نہیں ہیں - اور اگر کوئی نیچری کہلوانے سے کافر ہوتا ہے تو بقول حالی میں سب سے پہلا نیچری ہوں -
 
فاروق بھائی، سر سید کا حوالہ دینے کا شکریہ۔ بہت سارے اراکین کو آپ کے ایمان پر کفر کا ٹھپہ لگانے میں بہت آسانی ہو جائے گی

بہت شکریہ :)
بہت شکریہ :)
بہت شکریہ :)

قیصرانی بھائی، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ جو حضرات سرسید کے مخالف ہیں ، اس کی فراہم کی ہوئی تعلیم کے مخالف ہیں۔ بھائی۔ اگر وہ اپنے اعتراض میں سچے ہیں تو سرسید کے قائم کئے ہوئے نظام تعلیم سے ملی ہوئی میٹرک کے سرٹیفکیٹ اور یونیورسٹی کی ڈگریاں پھاڑ دیں اور دوبارہ سے مدرسے میں داخلہ لے لیں‌ :) پھر تو ان کا اعٹراض‌کوئی معنی بھی رکھے گا، ورنہ عمل سے عاری اعتراض‌ ، چہ معنی دارد ؟

والسلام۔
 

قیصرانی

لائبریرین
لیکن قیصرانی صاحب یہ ایک مخطوطہ ہے جوجناب محسن الملک مولوی سید مہدی علیخان بنام جناب سر سید احمد خان لکھا تھا۔یہ سرسید کے خیالات نہیں ہیں - اور اگر کوئی نیچری کہلوانے سے کافر ہوتا ہے تو بقول حالی میں سب سے پہلا نیچری ہوں -

یہاں کے کچھ اراکین کی طرف سے تو سر سید کی کسی کتاب کو لائبریری کے لئے ٹائپ کرنے پر ایمان کو جبری رخصت پر بھجوا دیا جاتا ہے جناب
 

خرم

محفلین
بھائیو اس معاملہ میں صرف ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ قرآن کا پڑھنا تمام مسلمانوں میں ایک لازم عبادت ہے۔ قریباَ ہر بچے کی تعلیم کا آغاز قرآن کی تعلیم سے ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے قرآن کی اشاعت ہمیشہ سے ہی کثیر تعداد میں کی جاتی ہے۔ کاتبین وحی اور اصحابِ‌ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں ذاتی نسخہ جات مرتب کرنے کی کافی شہادتیں ہیں۔ اس کے برعکس کاتبینِ حدیث کے یہاں اس طرح کا کوئی اہتمام نہیں ملتا۔ عمومی طور پر اصحاب نے انہیں اپنے حافظہ میں‌ محفوظ رکھا لیکن کچھ اصحاب نے انہیں قلمبند بھی کیا۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکال لینا چاہئے کہ احادیث کے حفظ‌کا اہتمام کم ہوتا تھا۔ صحابہ کرام سے یہ توقع بھی رکھنا غلط ہے کہ فرمانِ آقا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے دلوں‌سے محو ہو جائے۔ اور قرآن کے بعد اصحاب سب سے زیادہ احادیث کی ہی تعلیم دیا کرتے تھے اور انہوں‌نے ہمیشہ اسے حرزِ جاں بنائے رکھا۔ احادیث کی باضابطہ تدوین کا کام یقیناَ کافی عرصہ بعد شروع ہوا لیکن اس سے احادیث‌کی صحت پر کوئی شک نہیں کیا جانا چاہئے کہ اقوالِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حفظ کا اہتمام ہمیشہ سے امت کا شعار رہا ہے۔ ناسخ و منسوخ، صحت و نقص یہ تمام علوم باضابطہ تدوینِ حدیث‌سے پہلے کے ہیں‌اور امام بخاری و مسلم سے پہلے بھی علماء کے یہاں‌ان کے ذاتی مخطوطات میں موجود تھے۔ جیسا کہ فاروق بھائی نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی کتاب نہیں چھاپی تھی۔ انہوں نے اپنی تحقیق کو مختلف رسائل میں چھاپا تھا۔ لیکن ایک فرق ضرور ملحوظ رہنا چاہئے۔ امامین بخاری و مسلم و دیگر کی کتب احادیث‌کو ایک سائنسی جنرل کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے جسے پڑھنے والا صرف ایک خاص طبقہ ہوتا ہے اور عموماَ یہ صرف لائبریریوں‌میں ہی پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن پاک کی حیثیت ایک روزنامہ اخبار کی سی ہے جو ہر گھر میں موجود ہے۔ اب ظاہری سی بات ہے کہ امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں اس اخبار کی کسی کاپی کا محفوظ رہنا زیادہ ممکن ہے جو ہر گھر میں موجود ہے بہ نسبت اس کے جو صرف ایک یا چند جگہوں پر موجود ہے۔ مثال کے طور پر جب تاتاریوں‌نے بغداد کو تاراج کیا تو کہتے ہیں کہ اتنی کتابیں دریا برد کیں کہ دریا کا پانی کالا ہو کر بہتا رہا۔ ایسے ہی فتنوں کی وجہ سے احادیث کے پرانے نسخہ جات محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن ان سے یہ مطلب نہیں نکال لینا چاہئے کہ احادیث‌ہی محفوظ‌نہیں ہیں۔ احادیث کے حفاظ ہر دور میں مسلمانوں میں‌رہے ہیں اور حفظِ حدیث کا بھی اہتمام ایسے ہی کیا جاتا رہا جیسا کہ حفظِ قرآن کا۔ جیسا کہ قرآن کا غلط یا ترمیم شدہ نسخہ چھاپنے سے آپ کسی کو منع نہیں کر سکتے اسی طرح آپ کسی کو ایک بے بنیاد حدیث گھڑنے سے نہیں روک سکتے۔ لیکن جیسے قرآن کے صحیح ہونے کا معیار اس کا لوگوں‌کے سینوں میں محفوظ‌ہونا ہے اسی طرح حدیث‌کی صحت کا معیار بھی اس کا سینوں میں محفوظ ہونا ہے۔ قرآن اور حدیث میں تبدیلی کی کوشش ہمیشہ کی جاتی رہے گی لیکن اس امت پر اللہ کا فضل ہے کہ اس نے حفاظِ قرآن و احادیث‌کے ذریعے ان کوششوں کو ناکام بنانے کا انتظام فرما دیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کتبِ احادیث‌غلط ہیں میری ناقص رائے میں غلط بات ہے کیونکہ بغیر پڑتال کئے تو آپ کسی کتاب کو قرآن بھی نہیں‌مان سکتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تو کیا سریسد غلطیوں سے ماوراء تھے؟
ڈاکٹر اسرار کے بقول وہ مذہبی مصلح نہ بنتے اور تعلیم تک ہی محدود رہتے تو اچھا تھا۔
نہ جانے یہاں کچھ لوگ تعلیمات سرسید کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے سے کیوں بدکتے ہیں۔
کیا یہ فکری انتہاپسندی نہیں ہے؟
 
میں بھائی خرم کے پڑتال کے مطالبے کو سراہوں گا اور اس کی تائید کروں گا۔

دیکھیں تو درج ذیل دو ملتے جلتے لیکن الگ الگ معاملات ہیں ،

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے ارشادات اور
2۔ روایات کی آٹھ، دس یا اس سے زائد کتب۔

دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ نمبر 2 سے ہم کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان آج کی کتب میں جو کچھ درج ہے وہ یقیناً رسول اکرم کا فرمایا ہوا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کتب کے لکھنے کا سہرا جن حضرات کے سر باندھا جاتا ہے ، ان کی اصل کتب دستیاب ہی نہیں ہیں ۔۔

ان اصل کتب کا مطالبہ کرنا میرے خیال میں ایک جائز مطالبہ ہے۔ ہم کو کسی بحث کرنے سے پیشتر کم از کم اصل کتب کو تو دیکھ لینا چاہئیے۔ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اتنی اہم کتب اور کوئی بھی سنبھال کر نہ رکھے؟ اور اس طرح ضائع ہوجائیں؟ مشیت ایزدی اگر ان کتب کے شامل حال ہے تو کیا یہ مطالبہ کیا نامناسب ہے کہ 1700 ، 1600، 1500، 1400، 1300، 1200، 1100، 1000، 900، 800، 700، 600 میں سے کوئی بھی کتاب جو آج کی کتب سے تعداد اور ترتیب میں مساوی ہو دیکھی جائے؟ اگر ہمارے مسلمان پُرکھوں نے ان کتب کو کسی قابل سمجھا تھا تو یقیناً ان کی حفاظت بھی کی ہوگی؟

جب ان کتب کی اصل کتب دستیاب ہوں‌تب ہی ان پر بحث کی جاسکتی ہے، تب تک انتظار کرتے ہیں۔۔۔۔
والسلام
 
میں نظامی کی اس بات سے متفق ہوں کہ سرسید مرحوم کو عن الخطا بشر کے طور پر پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسا کسی مقلد کا اپنے امان کو بغیر خطا کے ماننا فرق یہ ہے کہ وہ تقلید کے زیر اثر مانتے ہیں ایسا اور دوسر ے لوگ فطرت کے تحت مانتے ہیں ایسا۔

سرسید مرحوم کا علمی کارنامہ تاابد رہے گا کیونکہ وہ کام ہی ایسا تھا اور اس کے لیے ان کی محنت اور اخلاص کی لاتعداد گواہیاں ہیں مگر اگر ان کی مذہبی سوچ درست نہیں تھی تو کیا لازم ہے کہ اس کا بھی ضرور دفاع کیا جائے؟‌ کوئی بھی شخص ہر شعبہ کا ماہر نہیں ہوتا سرسید ماہر تعلیم تھے یہ حیثیت ان کی مسلمہ ہے مگر وہ ماہر دینیات نہیں تھے اس چیز سے انکار ہی اصل میں تنازعہ کو جنم دیتا ہے۔

مولانا شبلی نعمانی ، مولانا حالی سرسید کے بہترین رفقا میں سے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی سرسید کے دینی فہم کا معترف نہیں تھا وہ ان کے ساتھ ان کے قومی جذبے اور تعلیم کی لگن کی وجہ سے ساتھ تھے۔
 
میں بھائی خرم کے پڑتال کے مطالبے کو سراہوں گا اور اس کی تائید کروں گا۔

دیکھیں تو درج ذیل دو ملتے جلتے لیکن الگ الگ معاملات ہیں ،

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے ارشادات اور
2۔ روایات کی آٹھ، دس یا اس سے زائد کتب۔

دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ نمبر 2 سے ہم کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ان آج کی کتب میں جو کچھ درج ہے وہ یقیناً رسول اکرم کا فرمایا ہوا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کتب کے لکھنے کا سہرا جن حضرات کے سر باندھا جاتا ہے ، ان کی اصل کتب دستیاب ہی نہیں ہیں ۔۔

ان اصل کتب کا مطالبہ کرنا میرے خیال میں ایک جائز مطالبہ ہے۔ ہم کو کسی بحث کرنے سے پیشتر کم از کم اصل کتب کو تو دیکھ لینا چاہئیے۔ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اتنی اہم کتب اور کوئی بھی سنبھال کر نہ رکھے؟ اور اس طرح ضائع ہوجائیں؟ مشیت ایزدی اگر ان کتب کے شامل حال ہے تو کیا یہ مطالبہ کیا نامناسب ہے کہ 1700 ، 1600، 1500، 1400، 1300، 1200، 1100، 1000، 900، 800، 700، 600 میں سے کوئی بھی کتاب جو آج کی کتب سے تعداد اور ترتیب میں مساوی ہو دیکھی جائے؟ اگر ہمارے مسلمان پُرکھوں نے ان کتب کو کسی قابل سمجھا تھا تو یقیناً ان کی حفاظت بھی کی ہوگی؟

جب ان کتب کی اصل کتب دستیاب ہوں‌تب ہی ان پر بحث کی جاسکتی ہے، تب تک انتظار کرتے ہیں۔۔۔۔
والسلام

یعنی روایات کی کتب میں اور تو سب کچھ ہے مگر ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ روایات کی کتب تو موجود ہیں مگر ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں یعنی مسلمانوں نے ارشادات کو اتنی بھی اہمیت نہیں دی کہ اس کی ایک کتاب ہی محفوظ کر لیتے جبکہ اماموں کے اقوال تک کی کئی کئی کتب موجود ہیں اور سیرت پر بے شمار کتب آج بھی موجود ہیں۔

ایک سوال کا جواب آپ بھی دیں ذرا فاروق صاحب کہ قرآن کے پہلی دوسری تیسری چوتھی پانچویں ، چھٹی صدی کے کتنے نسخہ جات محفوظ ہیں بعینہ ایک جیسی قرات اور اعراب کے۔ قرآن کے تو ان گنت نسخے محفوظ ہونے چاہیے کیونکہ یہ تو کتابی شکل میں شروع ہی سے تھی اور ہر گھر میں ہوتی تھی اور باہتمام اس کی چھپائی ہوتی تھی۔
 

خرم

محفلین
میرے خیال میں تو یہ بحث اب ذاتیات تک پہنچنے والی ہے لہٰذا اس سے پہلے ہی ایک بات عرض کردوں۔ اگر اللہ نے ہدایت صرف قرآن کے ذریعے ہی دینی ہوتی تو نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی۔ بس ایک فرشتہ کو بھیجتے کہ وہ خانہ کعبہ پر جاکر قرآن اتار آئے اور لوگ اسے ماننے لگ جاتے۔ وحی خفی کا ثبوت تو قرآن میں خود ملتا ہے۔ لیکن یہ خفی وحی آپ کو قرآن میں نہیں ملے گی۔ تو کیا خفی وحی اللہ کے احکام میں داخل نہ ہے؟ قرآن کے معارف کا جو خزانہ ہے وہ حروف سے بہت گہرا ہے۔ اس کا واسطہ بھی صرف اور صرف ذاتِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ قرآن میں‌تو کلمہ طیبہ تک نہیں ہے۔ پھر آخر یہ کیسے معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لئے کلمہ طیبہ پڑھا جانا چاہئے؟ نماز کا طریقہ قربانی کا طریقہ، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ، نماز کی رکعات، سحر و افطار کے اوقات الغرض ایک مسلمان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو سُنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احادیثِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محتاج نہ ہو۔ میرے خیال میں تو جیسے قرآن کے ایک نسخے کو ہم کسی حافظ کے کہنے پر درست مان لیتے ہیں اسی طرح احادیث کی صحت کو بھی علماء کی سند پر درست ماننا چاہئے۔ جب قرآن تک کی قرات پر اتفاق نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے عشرہ بعد ہوا تو کیا ضروری ہے کہ ہم اس بات پر اختلاف کریں کہ احادیث‌کی باقاعدہ کتب ایک خاص زمانہ سے پہلے مرتب نہ کی گئیں؟ میں‌تو یہ مانتا ہوں کہ اگر آپ احادیث‌کی صحت سے انکار کرتے ہیں تو آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ نہ تو آپ کو عبادت کے طریقہ پر اعتماد ہے اور نہ ہی قرآن پر۔ کیونکہ قرآن تو فرماتا ہے کہ "جو یہ رسول(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں دیں‌اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ"۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن مرتب کرنے کے معاملہ میں کافی مزاحمت کی تھی صرف اس لئے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا حکم نہیں‌دیا تھا۔ اور جب قرآن مرتب کیا گیا تو اس کی سند حفاظ کرام سے حاصل کی گئی۔ آج بھی قرآن کی سند حفاظ کرام سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہی معیار احادیثِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ امت کے لئے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے بڑھ کر مخلوق میں اور کچھ نہیں۔ اور جب اللہ تعالٰی نے فرما دیا کہ یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں فرماتے تو پھر فرمانِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ارشادِ الٰہی ہی ہے۔ اور جب اللہ تعالٰی کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جب تک انہیں‌تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگے، ایک قرآن اور دوسرا میری سنت" تو ثابت ہو گیا کہ قرآن پر عمل آدھا دین ہے۔ باقی کا آدھا دین سُنت مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اس کا علم بغیر احادیث کے ہو ہی نہیں سکتا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اللہ ہی ہماری حالت پر رحم کرے کہ اب حدیث قرآن پر مقدم ہوگئی اور قرآن روائت کا محتاج ہوگیا- واہ صاحب کیا بات کہی کہ "قرآن اپنے قرآن ہونے میں واسطہ حدیث کا محتاج ہے"
میر ے محترم عورتوں کی طرح خالی کوسنے دینے سے کام نہیں چلتا میں نے جو بات پیش کی تھی اس سے پہلے ایک سوال بھی قائم کیا تھا آپکو چاہیے تھا کہ اس سوال کا جواب دیتے ۔۔میں نے عرض کی تھی قرآن کا نزول تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ہوتا تھا نا جب بھی فرشتہ کوئی آیت لے کر آتا تھا سفر میں یاحضر میں تو اس کے بعد آپ جب قرآن کی اسی آیت کو صحابہ پر تلاوت فرماتے تھے تو ساتھ میں بتا بھی دیتے تھے کہ یہ قرآن ہے اسے فلاں جگہ یا فلاں سورہ کے آغاز میں یا فلان جگہ فلاں سورہ کے اختتام میں لکھ دو اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ ( کہ یہ قرآن ہے اسے فلاں جگہ یا فلاں سورہ کے آغاز میں یا فلاں جگہ فلاں سورہ کے اختتام میں لکھ دو) آیا یہ قرآن ہے یا غیر قرآن ؟
قرآن تو وہ ہوتا تھا جو فرشتہ لے کر آتا تھا کیا ہر مرتبہ صحابہ کے سامنے فرشتہ آتا تھا اورکیا وہ اسے دیکھتے بھی تھے اور سنتے بھی تھے؟ آپ یقینا فرمائیں گے کہ نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ قرآن کے قرآن ہونے کا پتا صحابہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے چلتا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مبارک جملے علاوہ قرآن نکلتے ہیں ان ہی کو حدیث کہا جاتا ہے ۔تو ثابت ہوا کہ صحابہ کے ایمان کا مدار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر ہی تھا جسے آپ نے قرآن فرمادیا صحابہ بلا چوں چراں کیے اسے ہی قرآن مان لیتے تھے معاذا للہ جرح نہیں کرتے تھے کہ ہم کیسے مان لیں کہ یہ قرآن ہے ۔ہم نے تو فرشتہ کو آتے نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کو یہ آیت آپ کو بتاتے سنا ہے۔
لہذا آپ سے استدعا ہے کہ اندر ہی اندر بیچ و تاب نہ کھائیں دلائل سے اس دلیل کا رد فرمائیں۔
 
میں نے دو پوائینٹ اوپر پیش کئے ہیں۔ خرم صاحب نے پوائینٹ نمبر ایک یعنی ارشادات نبوی کے بارے میں بہت ہی اچھا لکھا ہے ، یہ بہت اچھی وجوہات ہیں قرآن، اور صاحب قراں کے ارشادات کے بارے میں۔ کوئی غیر مسلم ہی ان سے انکار کرے گا۔

اب آتی ہے بات پوئینٹ‌نمبر 2 یعنی کتابوں کی صحت کی ، کتب روایات کا مقابلہ قرآن سے کرنا کہ دیکھو قرآن بھی غلط ہے، ایسا سب ہی جانتے ہیں کہ ہے نہیں۔ پرانے سا پرانا قرآن متن ، آیات کی تعداد اور ترتیب کے لحاظ سے ایک ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کتب روایات کے بارے میں‌کہا جاتا ہے کہ فلاں‌صاحب نے فلاں‌کتاب اتنے لوگوں سے مل کر جمع کی تھی۔ لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس تاریخ‌سے 1700 تک کی کتب یا تو موجود نہیں ہیں یا پھر جو موجود ہیں ان کے ترتیب، تعداد روایات، اور متن میں زمین آسمان کو فرق ہے۔ جو نکات یا زیر زبر جیسا فرق نہیں۔ کیا کوئی صاحب جرح کرنے کے ساتھ ساتھ 1700 سے قبل کی ایک بھی کتب روایات کے بارے میں‌بتاسکتے ہیں؟ میرے پاس ایک عربی نسخہ ہاتھ سے لکھا ہوا 1600-1700 کے درمیان کی تاریخ کا ہے۔ جو میں نے خریدا تھا۔ یہ اس دورانیہ کا ہے بھی یا نہیں ؟ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ لہذا اگر کسی بھائی کو علم ہو کہ فلاں جگہ 1500 کا نسخۃ محفوظ ہے یا 1400 کا نسخہ محفوظ ہے تو فرمائیں۔ کتب روایات جو نسخہ جات میرے پاس ہیں ، ان سب میں متن ، ترتیب اور تعداد کا فرق ہے۔
مزید یہ دیکھیئے کہ سعودی حکومت کی احادیث کی ویب سائیٹ ، باذوق کی حدیث کی ویب سائٹ اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کی حدیث کی ویب سائیٹ میں تعداد، ترتیب، اور متن کا کتنا بڑا فرق ہے؟

اگر یہ اتنی ہی اہم کتب ہیں تو ان میں‌ یہ فرق کیوں؟ اور اصل نسخہ جات موقوف کیوں؟ کیا یہ اوپن متن مضمون ہے؟ کے جو چاہے جتنا چاہے لکھے اور جتنا چاہے حذف کردے؟ کیا اس کے متن کا کوئی معیار ہے؟‌ پھر بے تحاشا روایات ، ہتک رسول سے پر ہیں، کہ جو بات آپ اپنی والدہ اور والد کے لئے نہیں کہہ سکتے وہ امہات المومنین اور رسول اکرم کے لئے کہی گئی ہیں۔ ایسا ایک سے زائد بار ہوچکا ہے کہ انہی کتب کے اجزاء کی طباعت کرنے والوں کو شاتم رسول جانا گیا ہے؟ تو اصل کتب کہاں‌ہیں اور اتنی اہم کتب جن پر ہمارے ایمان کا دارو مدار ہے۔ بناء اصل کتب دیکھے ہم بحث و جرح کئے جائیں؟

والسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top