قران کوئز 2017

ام اویس

محفلین
1- الحدید ۔ سبح لله
2- الحشر ۔ سبح لله
3- الصف ۔ سبح لله
4- الجمعہ ۔ یسبح لله
5 - اعلی ۔ سبح اسم ربک الاعلی
6 - سورہ اسرٰی ( بنی اسرائیل ) ۔ سبحان الذی
 

ام اویس

محفلین
آج دورانِ مطالعہ ایک اور آیت پڑھی جس میں وحی کا لفظ آیا ہے ۔
آفتاب وماہتاب اور دوسری آسمانی مخلوقات کی حرکات گو غیر طبعی ہیں تاہم ان کو حرکت دینے کے لیے عاقل و مدبّر کی ضرورت ہے ۔ اسی کے لیے قرآن مجید میں آسمان کے لیے بھی وحی کا لفظ استعمال ہوا ۔۔ کس آیت میں ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
جی سورۃ میں لفظ تو اسرٰی ہی استعمال ہوا ہوا ہے۔ میں سورۃ کے نام کے بارے میں عرض کر رہا تھا، جو کہ میری معلومات کے مطابق سورۃ اسراء ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آج دورانِ مطالعہ ایک اور آیت پڑھی جس میں وحی کا لفظ آیا ہے ۔
آفتاب وماہتاب اور دوسری آسمانی مخلوقات کی حرکات گو غیر طبعی ہیں تاہم ان کو حرکت دینے کے لیے عاقل و مدبّر کی ضرورت ہے ۔ اسی کے لیے قرآن مجید میں آسمان کے لیے بھی وحی کا لفظ استعمال ہوا ۔۔ کس آیت میں ؟


سورۃ فصلت 40، آیت 12

فَقَضَىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَ۔ٰوَاتٍ فِى يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِى كُلِّ سَمَآءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَ۔ٰبِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ


تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کر دیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے
 

ام اویس

محفلین
سورۃ فصلت 40، آیت 12

فَقَضَىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَ۔ٰوَاتٍ فِى يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِى كُلِّ سَمَآءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَ۔ٰبِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ


تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کر دیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے
ایک اور آیت بھی ہے ۔

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا
اس دن وہ (یعنی زمین ) اپنی خبریں بیان کردے گی
سورۃ الزلزلہ ۔ آیہ۔4
بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا
کیونکہ تمہارے پروردگار نے اسکو حکم بھیجا ہوگا۔
سورۃ الزلزلہ۔ آیہ۔ 5
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شہد کی مکھی بھی ہے۔
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ۔
 

ام اویس

محفلین
وحی کا نزول الله تعالی کی طرف سے تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی طرف سے نہیں بولتے تھے ۔
قرآن مجید میں کیسے واضح کیا گیا ہے ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورۃ نجم 53

آٰیت 3
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ

وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا


آیت 4
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے
 

ام اویس

محفلین
سورۃ نجم 53

آٰیت 3
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ

وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا


آیت 4
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے

اور

وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

اردو:

اور جب انکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ یا تو اسکے سوا کوئی اور قرآن بنا لاؤ یا اسکو بدل دو۔ کہدو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔ میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے سخت دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔
سورة یونس ۔ آیة ۔ 15

اور
وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

اردو:

اور جب تم انکے پاس کچھ دنوں تک کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے اپنی طرف سے کیوں نہیں بنا لی۔ کہدو کہ میں تو اسی حکم کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پروردگار کی طرف سے میرے پاس آتا ہے یہ قرآن تمہارے پروردگار کی جانب سے دانش و بصیرت اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔

سورۃ الاعراف ۔ آیۃ۔ 203
 

ام اویس

محفلین
جبرائیل علیہ السلام جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں۔
الله تعالٰی نے اس سے منع فرمایا ۔۔۔ کس آیت میں ؟
 

سروش

محفلین
فَتَعَالَى اللَّ۔هُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴿طحہ: ١١٤
پس اللہ عالی شان واﻻ سچا اور حقیقی بادشاه ہے۔ تو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کر اس سے پہلے کہ تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے وه پوری کی جائے، ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار! میرا علم بڑھا
تفسیر مکی:
١١٤۔ ٢ جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ ق میں آئے گا۔
١١٤۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتوٰی میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْمًا، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَال) (ابن ماجہ)
 

سروش

محفلین
لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (16)
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ

سورہ القیامہ
یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ ’ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ‘ ۔ پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے «لَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يٰقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُهٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا» ۱؎ (20-طه:114) یعنی ’ جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں [ یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو ] تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ‘ ۔ مسند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید رحمہ اللہ نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ ’ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ‘ } ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، ۱؎ (صحیح بخاری:50)
 

ام اویس

محفلین
جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر وحی لانے کا ذکر قرآن مجید کی
کن آیات میں ہے ؟
 
Top