قران کوئز 2017

عاطف ملک

محفلین
ایسے سوال جو براہ راست نہیں ہوتے ان کو بنا کسی حوالے یا پسِ منظر دیے بغیر پوچھنا غلط ہے
درست فرمایا۔۔۔۔۔جو واضح بات ہے وہ پوچھی جائے یا پھر پسِ منظر دے کے سوال کیا جائے تو میرے خیال سے بہت بہتر ہو گا کہ کم از کم میری قرآن پاک کے حوالے سے معلومات بہت سطحی نوعیت کی ہیں۔
اگر آسان سوال ہوں گے تو جواب دینے کا اور اس لڑی میں شرکت کا ذوق پیدا ہو گا۔
اس حوالے سے جنا نبیل کے سوال اچھے ہیں جبکہ ABDUL AR بھائی کے سوالات تھوڑے سے مشکل ہیں۔

ناپسندیدہ چیز "طلاق " بھی ہے
درست فرمایا :)
لیکن سوال کرنے والے نے غالباً پیداکرنے اور پھر ناپسند کرنے کے متعلق استفسار کیا اور قرآن سے جواب دینے کا کہا ہے :)
 
اس شجر کے بارے تفصیل بتایے
زقوم: ایک درخت کا نام ہے جسے اردو میں تھوہڑ کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
{أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ، إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ، إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ، طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ} [الصافات 62:65].

ترجمه: "بھلا یہ جنت کی مہمانی بہتر ہے یا زقوم (تھوہڑ) کا درخت، ہم نے اسے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے، یہ ایک درخت ہے جو جنت کی جڑ میں نکلتا ہے، اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔"
دوسری جگہ رب تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ * طَعَامُ الْأَثِيمِ * كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ * كَغَلْيِ الْحَمِيمِ * (الدخان آیت: 43،44،45)
ترجمہ:"بے شک تھوہڑ درخت گنہگار کا کھانا ہے، گلے ہوئے تانبے کی پیٹ میں جوش مارتا ہے، جیسے گرم پانی جوش مارے۔"

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگی تباہ ہوجائے تو اس کا حال کیا ہوگا جس کا یہ کھانا ہے۔ (سنن ترمذی حدیث 2585)
 

نور وجدان

لائبریرین
زقوم: ایک درخت کا نام ہے جسے اردو میں تھوہڑ کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
{أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ، إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ، إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ، طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ} [الصافات 62:65].

ترجمه: "بھلا یہ جنت کی مہمانی بہتر ہے یا زقوم (تھوہڑ) کا درخت، ہم نے اسے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے، یہ ایک درخت ہے جو جنت کی جڑ میں نکلتا ہے، اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔"
دوسری جگہ رب تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ * طَعَامُ الْأَثِيمِ * كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ * كَغَلْيِ الْحَمِيمِ * (الدخان آیت: 43،44،45)
ترجمہ:"بے شک تھوہڑ درخت گنہگار کا کھانا ہے، گلے ہوئے تانبے کی پیٹ میں جوش مارتا ہے، جیسے گرم پانی جوش مارے۔"

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگی تباہ ہوجائے تو اس کا حال کیا ہوگا جس کا یہ کھانا ہے۔ (سنن ترمذی حدیث 2585)
شکریہ...معلومات میں اضافہ کرنے کا.جزاک اللہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
اگلا سوال ہے کہ قران میں پل صراط کی جانب اشارہ کس جگہ پر موجود ہے؟
 
اگلا سوال ہے کہ قران میں پل صراط کی جانب اشارہ کس جگہ پر موجود ہے؟

وه آیت کریمہ یہ ہے:
وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا * ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا
ترجمہ: اور تم میں سے ہر ایک کا دوزخ پر گزر ہوگا، تمھارے رب کے ذمے پر یہ ٹھہری ہوئی بات ہے، پھر ہم ہم ڈرنے والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

(فائدہ)
اس آیت کی تفسیر میں کئی اقوال ملتے ہیں:
1. وردود سے دخول ہی مراد ہے، یہ دخول مومنین و کافرین سب کا ہوگا مگر مومنین کو اس سے نکال لیا جائے گا اور آگ ان پر اثر نہ کرے گی۔ اور کافروں کو اسی میں چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔

2.ورود سے جہنم کے اور پر بنے ہوئے پل 'صراط' گزرنا مراد ہے۔ هو المروي عن ابن عباس

3. ورود سے دخول مراد ہے لیکن دخول صرف کافروں گا ہوگا۔ (تفسیر طبری)

اس کے علاوہ چند ایک اقوال اور بھی ہیں
 
آپ ذرا توقف فرمائیں۔ لوگ جواب دینے میں وقت لیتے ہیں۔

جناب میں نے جنرل نالج کے سوال پوچھنے کے لیے کہا تھا، پہیلیاں بجھوانے کے لیے نہیں۔
اوروہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی پھر اسے ناپسند فرمایا ہو
اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ (اُونچی آواز گدھوں کی ہے اور کچھ شک نہیں کہ) سب آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی ہے ﴿۱۹﴾ (سورة لقمان)
اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اُسے بُرا کہا ہو
اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں ﴿۲۸﴾ (سورة یوسف)
اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر پوچھاہو کہ یہ کیا ہے
اور موسی یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔(سورة طٰہٰ آیت۱۶۔۱۷ )
 
اگلا سوال ۔اور نقیر کیا ہے
قطمیر کیا ہے
فتیل کیاہے
نوٹ تین سوال لیکن جواب ایک ہی چیز میں موجود ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
پہلے دو کا ذکر تو سورہ النساء میں موجود ہے جن کا مطلب دھاگے برابر اور تل برابر ہے
.فتیلا ..دھاگے برابر
نقیرا تل برابر
اگلا سوال ۔اور نقیر کیا ہے
قطمیر کیا ہے
فتیل کیاہے
نوٹ تین سوال لیکن جواب ایک ہی چیز میں موجود ہے

،
 

سید عمران

محفلین
اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اُسے بُرا کہا ہو
اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں ﴿۲۸﴾ (سورة یوسف)
اس میں برائی کہاں بیان ہورہی ہے۔۔۔
محض ایک صفت کا بیان ہورہا ہے۔۔۔
 
Top