سارہ خان
محفلین
وہ تو شہنشاہ کی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔شاہ کی دہشت اتنی ہوتی ہے کہ ان کے مصاحب بھی اتراتے پھرتے ہیں۔
وہ تو شہنشاہ کی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔شاہ کی دہشت اتنی ہوتی ہے کہ ان کے مصاحب بھی اتراتے پھرتے ہیں۔
ویری گڈ سعود بھیا بھینس کی پونجھ پکڑ کےہم بی ٹیک کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی گئے تو وہاں ریگنگ پر کافی سختی تھی، پھر بھی سینئر کسی نہ کسی طور تعارف کے نام پر ہلکا پھلکا مذاق کر ہی لیتے تھے۔ کالج کا پہلا یا دوسرا ہفتہ تھا۔ ایک روز سہ پہر کے وقت آخری کے دو پیرئیڈ خالی تھے۔ اس سے پہلے والے پیرئیڈ کے ٹیچر جیسے کلاس روم سے نکلے، سینئیرز کا ایک گروپ اندر آ گیا۔ کلاس میں چھ سات لڑکیاں تھیں جو بائیں جانب پہلی قطار میں بیٹھا کرتی تھیں۔ ہمیں کلاس روم میں پیچھے بیٹھنا پسند نہیں تو ہم دائیں جانب پہلی قطار میں بیٹھا کرتے تھے۔ بہر کیف لڑکیوں کی قطار سے شروعات ہوئی اور انھیں ایک ایک کر کے اسٹیج پر بلا کر خالص ہندی میں (بغیر انگریزی کا کوئی بھی لفظ استعمال کیے) تعارف کرانے کو کہا گیا، جس میں اکثر لوگوں کو مشکل ہوئی۔ اس کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کام دیا گیا مثلاً گانا، ڈانس، یا کوئی ڈائیلاگ۔ ان کے بعد ہمارے بغل میں بیٹھے ایک لڑکے کی باری آئی، ان کو تعارف کے بعد غیر مرئی شطرنج کھیلنے کو کہا گیا، وہ بھی غیر مرئی کرسی پر بیٹھ کر۔
ہماری باری آئی تو ہم سے گانا گانے کو کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ ہمیں گانا نہیں آتا۔ تو کہا گیا کہ کوئی فلمی ڈائیلاگ بول دیجیے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں فلمی ڈائیلاگ بھی نہیں آتے۔ پوچھا گیا کہ ایسا کیسے، تو ہم نے کہا کہ ہم فلمیں نہیں دیکھتے۔ پھر کہا گیا کہ کوئی بات نہیں، ٹی وی تو دیکھتے ہوں گے، کسی ٹی وی سیریل کا ہی کوئی ڈائیلاگ دہرا دیجیے۔ ہم نے کہا کہ ہم ٹی وی بھی نہیں دیکھتے۔ پوچھا گیا کیوں، تو ہم نے کہا کہ ہمارے گھر پر ٹی وی نہیں۔ لوگ حیران کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی گھر میں ٹی وی نہ ہو۔ ہم نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں بجلی ہی نہیں تو ٹی وی رکھنے کا کیا جواز۔ کسی نے مزید حیرانی کے ساتھ کہا کہ ہندوستان میں ایسے بھی گاؤں ہیں جہاں بجلی نہیں آتی؟ خیر، ہمیں کہا گیا کہ ٹھیک ہے آپ اپنا تعارف کرا دیں وہ بھی خالص ہندی میں اور ہر جملے کے بعد "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" کا لاحقہ لگا کر۔ ہم نے کہا کہ ہندی میں ہمارا ہاتھ قدرے تنگ ہے، اگر خالص اردو میں تعارف کرا دیں تو کوئی اعتراض؟ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، اردو بھی چلے گا، لیکن انگریزی کی ملاوٹ نہیں کرنی ہے۔ ہم نے ایک گہری سانس بھری اور ایک لمبے سے جملے میں اپنا نام، والد کا نام، گاؤں کا مکمل پتہ، پچھلے کالج کا حوالہ، اور تعلیمی استعداد سمیت سب کچھ سمیٹ دیا۔ سارے سینئیر ہکا بکا ہمارا منہ دیکھ رہے تھے، کیونکہ ہمارے تعارف میں اردو کے کچھ وزنی وزنی الفاظ شامل تھے جو اکثر کو سمجھ میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔ ہمارا تعارف تمام ہونے کو تھا کہ تبھی ایک سینئیر نے ٹوک دیا کہ وہ "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" کہاں گیا؟ ہم نے کہا کہ جناب وہ تو ہر جملے کے اخیر میں لگانا تھا اور ابھی تو ہمارا جملہ ہی مکمل نہیں ہوا۔ ایک سینئیر کہنے لگے کہ یہ جو بھی کچھ آپ نے کہا ہے وہ ٹھیک سے سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن اچھا بہت لگا، آپ ایک بار پھر سے دہرائیں۔ خیر ہم نے پھر سے دہرا دیا اور اخیر میں "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" بھی لگا دیا۔ پھر جا کر اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ تب تک لڑکیوں نے گھر جانے کی اجازت طلب کر کے جانا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کا تعارف ہو چکا تھا۔ لڑکیوں میں سب سے اخیر میں ہماری ایک کلاس فیلو اٹھیں جو قدرے فربہ اندام اور پختہ رنگت والی تھیں۔ ان کے جاتے ہی ہم نے کہا کہ "سر ہم بھی جائیں بھینس کی پونچھ پکڑ کے؟" اور پوری کلاس ہنسنے لگی۔
شاید آپ بھینس بٹیا کہنا چاہتے تھے؟لڑکیوں میں سب سے اخیر میں ہماری ایک کلاس فیلو اٹھیں جو قدرے فربہ اندام اور پختہ رنگت والی تھیں۔ ان کے جاتے ہی ہم نے کہا کہ "سر ہم بھی جائیں بھینس کی پونچھ پکڑ کے؟"
ویسے تو ہم اسے پرمزاح لے رہے ہیں البتہ ریگنگ یا ہیزنگ ایک سیریس ایشو ہے۔ اسکی وجہ سے بہت سے معصوم طلباء کی اموات ہو جاتی ہیں یا وہ ساری زندگی اسکے شاک سے باہر نہیں نکل پاتے۔اس سے اچھا میں کوئی بولی وڈ کی فلم کا سکرپٹ نہ لکھ دوں .... "وہ سہانے دنوں کا پہلا دن " کے نام سے ........پھر @
arifkarim
کا تھریڈ ائے گا وہ "وہ سہانے دنوں کا پہلا دن" کس کس نے دیکھی ہے ...
اللہ معاف فرمائے مجھےانسان ہونے کے ساتھ شاہ بھی تو ہیں ۔۔ شاہوں کی اتنی دہشت ہوتی ہے پتا نہیں تھا ۔۔
ہاہاہا۔۔۔ ویری فنی ۔۔۔ہم بی ٹیک کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی گئے تو وہاں ریگنگ پر کافی سختی تھی، پھر بھی سینئر کسی نہ کسی طور تعارف کے نام پر ہلکا پھلکا مذاق کر ہی لیتے تھے۔ کالج کا پہلا یا دوسرا ہفتہ تھا۔ ایک روز سہ پہر کے وقت آخری کے دو پیرئیڈ خالی تھے۔ اس سے پہلے والے پیرئیڈ کے ٹیچر جیسے کلاس روم سے نکلے، سینئیرز کا ایک گروپ اندر آ گیا۔ کلاس میں چھ سات لڑکیاں تھیں جو بائیں جانب پہلی قطار میں بیٹھا کرتی تھیں۔ ہمیں کلاس روم میں پیچھے بیٹھنا پسند نہیں تو ہم دائیں جانب پہلی قطار میں بیٹھا کرتے تھے۔ بہر کیف لڑکیوں کی قطار سے شروعات ہوئی اور انھیں ایک ایک کر کے اسٹیج پر بلا کر خالص ہندی میں (بغیر انگریزی کا کوئی بھی لفظ استعمال کیے) تعارف کرانے کو کہا گیا، جس میں اکثر لوگوں کو مشکل ہوئی۔ اس کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کام دیا گیا مثلاً گانا، ڈانس، یا کوئی ڈائیلاگ۔ ان کے بعد ہمارے بغل میں بیٹھے ایک لڑکے کی باری آئی، ان کو تعارف کے بعد غیر مرئی شطرنج کھیلنے کو کہا گیا، وہ بھی غیر مرئی کرسی پر بیٹھ کر۔
ہماری باری آئی تو ہم سے گانا گانے کو کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ ہمیں گانا نہیں آتا۔ تو کہا گیا کہ کوئی فلمی ڈائیلاگ بول دیجیے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں فلمی ڈائیلاگ بھی نہیں آتے۔ پوچھا گیا کہ ایسا کیسے، تو ہم نے کہا کہ ہم فلمیں نہیں دیکھتے۔ پھر کہا گیا کہ کوئی بات نہیں، ٹی وی تو دیکھتے ہوں گے، کسی ٹی وی سیریل کا ہی کوئی ڈائیلاگ دہرا دیجیے۔ ہم نے کہا کہ ہم ٹی وی بھی نہیں دیکھتے۔ پوچھا گیا کیوں، تو ہم نے کہا کہ ہمارے گھر پر ٹی وی نہیں۔ لوگ حیران کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی گھر میں ٹی وی نہ ہو۔ ہم نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں بجلی ہی نہیں تو ٹی وی رکھنے کا کیا جواز۔ کسی نے مزید حیرانی کے ساتھ کہا کہ ہندوستان میں ایسے بھی گاؤں ہیں جہاں بجلی نہیں آتی؟ خیر، ہمیں کہا گیا کہ ٹھیک ہے آپ اپنا تعارف کرا دیں وہ بھی خالص ہندی میں اور ہر جملے کے بعد "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" کا لاحقہ لگا کر۔ ہم نے کہا کہ ہندی میں ہمارا ہاتھ قدرے تنگ ہے، اگر خالص اردو میں تعارف کرا دیں تو کوئی اعتراض؟ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے، اردو بھی چلے گا، لیکن انگریزی کی ملاوٹ نہیں کرنی ہے۔ ہم نے ایک گہری سانس بھری اور ایک لمبے سے جملے میں اپنا نام، والد کا نام، گاؤں کا مکمل پتہ، پچھلے کالج کا حوالہ، اور تعلیمی استعداد سمیت سب کچھ سمیٹ دیا۔ سارے سینئیر ہکا بکا ہمارا منہ دیکھ رہے تھے، کیونکہ ہمارے تعارف میں اردو کے کچھ وزنی وزنی الفاظ شامل تھے جو اکثر کو سمجھ میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔ ہمارا تعارف تمام ہونے کو تھا کہ تبھی ایک سینئیر نے ٹوک دیا کہ وہ "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" کہاں گیا؟ ہم نے کہا کہ جناب وہ تو ہر جملے کے اخیر میں لگانا تھا اور ابھی تو ہمارا جملہ ہی مکمل نہیں ہوا۔ ایک سینئیر کہنے لگے کہ یہ جو بھی کچھ آپ نے کہا ہے وہ ٹھیک سے سمجھ میں تو نہیں آیا لیکن اچھا بہت لگا، آپ ایک بار پھر سے دہرائیں۔ خیر ہم نے پھر سے دہرا دیا اور اخیر میں "بھینس کی پونچھ پکڑ کے" بھی لگا دیا۔ پھر جا کر اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ تب تک لڑکیوں نے گھر جانے کی اجازت طلب کر کے جانا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کا تعارف ہو چکا تھا۔ لڑکیوں میں سب سے اخیر میں ہماری ایک کلاس فیلو اٹھیں جو قدرے فربہ اندام اور پختہ رنگت والی تھیں۔ ان کے جاتے ہی ہم نے کہا کہ "سر ہم بھی جائیں بھینس کی پونچھ پکڑ کے؟" اور پوری کلاس ہنسنے لگی۔
شاید آپ بھینس بٹیا کہنا چاہتے تھے؟
گاؤں سے نکل کر ہم نئے نئے دہلی گئے تھے اور وہاں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا اس لیے شروع کے کچھ روز تو خاموشی اور خود تک محدود رہنے میں نکل گئے۔ البتہ یہ جس روز کا واقعہ ہے اس سے کوئی دو روز قبل انھیں محترمہ کے ساتھ انداز تخاطب کو لے کر ہمارا ایک قصہ ہو گیا تھا۔شاید آپ بھینس بٹیا کہنا چاہتے تھے؟
ہم تو انھیں آج بھی بٹیا ہی کہتے ہیں۔
یا شاید وہ ان چند ایک میں سے ہونگیں جو بٹیا کے لاحقے سے محروم رہ گئیں ۔۔
گاؤں سے نکل کر ہم نئے نئے دہلی گئے تھے اور وہاں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا اس لیے شروع کے کچھ روز تو خاموشی اور خود تک محدود رہنے میں نکل گئے۔ البتہ یہ جس روز کا واقعہ ہے اس سے کوئی دو روز قبل انھیں محترمہ کے ساتھ انداز تخاطب کو لے کر ہمارا ایک قصہ ہو گیا تھا۔
اچھا مگر اس وقت تو نہیں مانا تھا نہ ۔۔۔ہم تو انھیں آج بھی بٹیا ہی کہتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں تھا کہ موصوفہ پہلے ہفتے کالج نہیں آئی تھیں اور اسی ہفتے میتھس کا ساڑھے چار گھنٹے کا لیکچر ہوا تھا۔ اگلے ہفتے ہم معمول کے مطابق دائیں جانب والی پہلی قطار میں بیٹھے تھے اور وہ بائیں جانب والی پہلی قطار میں۔ کلاس روم کی پچھلی قطاروں میں جانے کے لیے درمیان میں کوئی تین فٹ کا راستہ تھا۔ لنچ بریک سے کچھ پہلے وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہمارے پاس آئیں اور فرمانے لگیں، "وہ تیری میتھس کی نوٹس دینا"۔ ہم نے پہلے سنا ان سنا کر دیا تو پھر سے قدرے زیادہ زور سے پوچھنے لگیں، "تیرے پاس لاسٹ ویک میتھس کے نوٹس ہیں؟ وہ دینا ذرا"۔ اس پر ہم نے بغیر کچھ کہے گردن گھما لیا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ظاہر ہے ایسے میں انھیں بے حد عجیب لگا ہوگا۔ خیر وہ ہمارے پاس سے ہٹ کر کسی اور صاحب سے نوٹس مانگنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد لنچ بریک ہوا تو ہم کینٹین کی طرف جانے لگے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ کلاس روم سے نکلتے ہی ہم نے ان سے کہا کہ بھئی ہمیں تو یہاں لوگوں کی زبان اور ان کے انداز تخاطب سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ تو جناب فرماتے ہیں، "تجھے بہت خراب لگتا ہے؟" کوئی بتلائے کہ ہم اپنا سر نہ پیٹ لیں تو کیا کریں؟قصہ بھی بیان فرمائیے اب ۔۔۔۔؟
ہاہاہاہاہاہا...قصہ کچھ یوں تھا کہ موصوفہ پہلے ہفتے کالج نہیں آئی تھیں اور اسی ہفتے میتھس کا ساڑھے چار گھنٹے کا لیکچر ہوا تھا۔ اگلے ہفتے ہم معمول کے مطابق دائیں جانب والی پہلی قطار میں بیٹھے تھے اور وہ بائیں جانب والی پہلی قطار میں۔ کلاس روم کی پچھلی قطاروں میں جانے کے لیے درمیان میں کوئی تین فٹ کا راستہ تھا۔ لنچ بریک سے کچھ پہلے وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہمارے پاس آئیں اور فرمانے لگیں، "وہ تیری میتھس کی نوٹس دینا"۔ ہم نے پہلے سنا ان سنا کر دیا تو پھر سے قدرے زیادہ زور سے پوچھنے لگیں، "تیرے پاس لاسٹ ویک میتھس کے نوٹس ہیں؟ وہ دینا ذرا"۔ اس پر ہم نے بغیر کچھ کہے گردن گھما لیا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ظاہر ہے ایسے میں انھیں بے حد عجیب لگا ہوگا۔ خیر وہ ہمارے پاس سے ہٹ کر کسی اور صاحب سے نوٹس مانگنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد لنچ بریک ہوا تو ہم کینٹین کی طرف جانے لگے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ کلاس روم سے نکلتے ہی ہم نے ان سے کہا کہ بھئی ہمیں تو یہاں لوگوں کی زبان اور ان کے انداز تخاطب سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ تو جناب فرماتے ہیں، "تجھے بہت خراب لگتا ہے؟" کوئی بتلائے کہ ہم اپنا سر نہ پیٹ لیں تو کیا کریں؟
"وہ تیری میتھس کی نوٹس دینا"
"تیرے پاس لاسٹ ویک میتھس کے نوٹس ہیں؟ وہ دینا ذرا"
محفل پر اس انداز تخاطب کو فروغ دینے میں تم سب میں سے کون کون میرے ساتھ ہے؟"تجھے بہت خراب لگتا ہے؟"
مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی بھی نہیں ہو گا آپ کے ساتھمحفل پر اس انداز تخاطب کو فروغ دینے میں تم سب میں سے کون کون میرے ساتھ ہے؟
قصہ کچھ یوں تھا کہ موصوفہ پہلے ہفتے کالج نہیں آئی تھیں اور اسی ہفتے میتھس کا ساڑھے چار گھنٹے کا لیکچر ہوا تھا۔ اگلے ہفتے ہم معمول کے مطابق دائیں جانب والی پہلی قطار میں بیٹھے تھے اور وہ بائیں جانب والی پہلی قطار میں۔ کلاس روم کی پچھلی قطاروں میں جانے کے لیے درمیان میں کوئی تین فٹ کا راستہ تھا۔ لنچ بریک سے کچھ پہلے وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہمارے پاس آئیں اور فرمانے لگیں، "وہ تیری میتھس کی نوٹس دینا"۔ ہم نے پہلے سنا ان سنا کر دیا تو پھر سے قدرے زیادہ زور سے پوچھنے لگیں، "تیرے پاس لاسٹ ویک میتھس کے نوٹس ہیں؟ وہ دینا ذرا"۔ اس پر ہم نے بغیر کچھ کہے گردن گھما لیا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ظاہر ہے ایسے میں انھیں بے حد عجیب لگا ہوگا۔ خیر وہ ہمارے پاس سے ہٹ کر کسی اور صاحب سے نوٹس مانگنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد لنچ بریک ہوا تو ہم کینٹین کی طرف جانے لگے۔ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ کلاس روم سے نکلتے ہی ہم نے ان سے کہا کہ بھئی ہمیں تو یہاں لوگوں کی زبان اور ان کے انداز تخاطب سے بہت کوفت ہوتی ہے۔ تو جناب فرماتے ہیں، "تجھے بہت خراب لگتا ہے؟" کوئی بتلائے کہ ہم اپنا سر نہ پیٹ لیں تو کیا کریں؟
محفل مین ایک بے ادبی زمرہ اوپن کریں وہاں ٹرائے کرتے ہیں تفریح میں ۔۔۔محفل پر اس انداز تخاطب کو فروغ دینے میں تم سب میں سے کون کون میرے ساتھ ہے؟
سعود بھیا ابھی "ٹوپی" کرادیں گے آ کر ۔۔دیکھنا
ہہہہاہاہا بہت حیرت انگیز مراسلہ ہے۔ صرف بھائی کو ہٹا دیتی تو اور خطرناک لگتا۔زیک بھائی!! تو نے غمناک کی ریٹنگ دے دی۔. مجھے نہیں پتہ تھا کہ تجھے یہ طرزِ تخاطب اتنا پسند آیا ہے۔.
اب آپ خود ہی انصاف کریں کتنا عجیب لگتا ہے ایسے بولنا