قیمتی زندگی کے معمولات کے لیے عام سی باتیں

یاسر شاہ

محفلین
ایک منافق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنھ کی تعریفوں میں آسمان و زمین کے قلابے ملا رہا تھا حضرت نے فرمایا (مفہوم )میں اس سےتو کمتر ہوں جو تمھارے منھ پر ہوں البتہ جو تمھارے دل میں ہوں اس سے بہتر ہوں -

ہمیں بھی چاہیے لوگوں کے سامنے شائستگی اور ادب کے ساتھ اپنے دل کی بات رکھنے کا حوصلہ رکھیں اگر خوش گمانیاں ہیں تو اظہار سے محبّت میں اضافہ ہوگا اور اگر بدگمانیاں ہیں تو ان شاء اللہ دور ہوجائینگی -لیکن اگر اظہار میں شائستگی نہیں
(میری طرح :p) تو خاموشی بہتر ہے -
 
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِى ٱلسَّرَّآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَٱلْكَٰظِمِينَ ٱلْغَيْظَ وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے، ۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِى ٱلسَّرَّآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَٱلْكَٰظِمِينَ ٱلْغَيْظَ وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے، ۔۔

بس یہی تو وہ کلام ہے جس کے آگے ہم ڈھیر ہو جاتے ہیں -میں نے ایک اوٹ پٹانگ حرکت کی ہے ابھی غائب کر کے آتا ہوں -ہمارے پی آئی انجینیرنگ میں ایک جملہ بہت مقبول ہے :senior is always senior
 
یا رب العرش العظیم
آپ کی بھیجی ہوئی تیز ہواؤں اور بارشوں میں جو خیر ہے ہم اس کے سوالی ہیں اور اُن میں جو شر اور نقصان ہے ہم اس سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کی فصلوں کی حفاظت فرمائیں۔ہمارے ہم وطنوں کی املاک، جان و مال کی خیر فرمائیں۔
آمین ثم آمین۔
 
یا رب العرش العظیم
آپ کی بھیجی ہوئی تیز ہواؤں اور بارشوں میں جو خیر ہے ہم اس کے سوالی ہیں اور اُن میں جو شر اور نقصان ہے ہم اس سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کی فصلوں کی حفاظت فرمائیں۔ہمارے ہم وطنوں کی املاک، جان و مال کی خیر فرمائیں۔
آمین ثم آمین۔
آمین ثم آمین ۔
 

سید عمران

محفلین
یا رب العرش العظیم
آپ کی بھیجی ہوئی تیز ہواؤں اور بارشوں میں جو خیر ہے ہم اس کے سوالی ہیں اور اُن میں جو شر اور نقصان ہے ہم اس سے آپ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ہمارے کسان بھائی بہنوں کی فصلوں کی حفاظت فرمائیں۔ہمارے ہم وطنوں کی املاک، جان و مال کی خیر فرمائیں۔
آمین ثم آمین۔
لیکن اندیشہ ہے کہ بے وقت کی یہ راگنی قدرت کی طرف سے نہیں ہے۔۔۔
بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشی یہودیوں کی پوری سازش کارفرما ہے!!!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
Safeer E IshQ
“مطلب پرست”
ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو
یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا۔
میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت ہیں‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے ہیں تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انھیں دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے
.
ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی ا?واز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے واتعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے
‘میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں.
میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے
میرے والد نے فرمایا ’’بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے....!!!!
 
Safeer E IshQ
“مطلب پرست”
ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو
یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا۔
میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت ہیں‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے ہیں تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے‘ میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انھیں دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے
.
ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی ا?واز میں چوہدری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے واتعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘ منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انھیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے
‘میں اس وقت پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورتحال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری آنکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘ یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آ جائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آ جائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘ یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں.
میرے والد نے اس کے بعد شاندار نصیحت کی‘ انھوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے
میرے والد نے فرمایا ’’بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں روؤ گے....!!!!
از جاوید چوہدری۔
 

جاسمن

لائبریرین
کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا ..
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،
یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے!
 

رباب واسطی

محفلین
کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا ..
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،
یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے!

:great::best::rose::flower: زبردست
 
Top