اور خود دریا کے کنارے پر ایک باغ اور ایک حصار گچ اور پتھر سے اور ایک مسجد اور بازار بنا کر شہر آباد کیا اور نیا شہر اس کا نام رکھا اور جب دلی ویران ہونے لگی تو یہ شہر نئی دلی کے نام سے مشہور ہوگیا اور اسی شہر میں یہ کوشک لال بھی تھا چناچہ امیر خسرو نے اس کوش کی بھی تعریف کی ہے اور یہ بیت اسی میں کی ہے۔ شعر
شہا در شہر تو کردے حصارے
کہ رفت از کنگر ہہاتا قمر سنگ
کوشک سبز
اسی کوشک کے پاس اسی بادشان نے ایک اور محل بنایا تھا جس کو کوشک سبز کہتے تھے جب اس بادشا کو ملک علاؤالدین عرف سلطان علاؤالدین خلجی نے کڑہ پور کی طرف سے دغا سے بلا کر گنگا کے کنارے پر کشتی میں سے اترتے وقت مار ڈالا تو اس کا بیٹا شہزادہ قدر خان عرف رکن ابراہیم شاہ اسی کوشک میں تخت پر بیٹھا ان دونوں کوشکوں کا نشان اب نہیں پایا جاتا بالکل ٹوٹ کر برابر ہوگئے ہیں۔
دہلی علائی یا قلعہ علائی یا کوشک سیری
یہ قلعہ سلطان علاؤالدین خلجی کا بنایا ہوا ہے اسکا حال یوں ہے کہ 703 ہجری مطابق 1303 عیسوی میں اس بادشاہ نے قلعہ چتور پر چڑھائی کی اور بہت سی فوج جانب تلنگا قلعہ ور نکل پھر بھیجی طرعی نوبان یعنی مغلون نے دلی کو خالی سمجھ کر ایک لاکھ بیس ہزار سوار سے دلی کو آن گھیرا تھا آخر کو بہت لڑائیوں کے بعد