ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
fahim

Aasar1_page_0094.jpg
 

فہیم

لائبریرین
اس قلعہ میں جا چھپتا تھا تو وہاں سے نہ پکڑے تھے لیکن اس کا سبب معلوم نہیں ہوا کہ اس قلعہ کا یہ نام کیوں رکھا اس واسطے کہ مرغزن اور مرزغن کے معنی دوزخ کے ہیں مگر اس کا مقام کے مناسب نہیں کچھ عجب نہیں کہ بادشاہ نے یہ نام نہ رکھا ہو بلکہ ایک مدت بعد کسی سبب سے لوگوں نے اس نام سے مشہور کردیا ہو اور اصلی نام اس کا غیاث پور ہی ہو جیسے اب مشہور ہے۔

کیلو کھڑی یا قصر معزی

اس قلعہ کو سلطان معزالدین کیقباد نے 285 ہجری مطابق 1686 عیسوی میں بنایا تھا اور کیلو کھڑی گاؤں کا نام تھا چناچہ اب بھی ہمایوں کا مقبرہ اسی قلعہ کی زمین میں ہے الا قلعہ کا کچھ نشان نہیں رہا سلطان جلال الدین فیروز خلجی اسی قلعہ میں رہتا تھا اور بن بنی عمارتوں کو بتایا تھا تاریخ کی کتابوں میں اس قلعہ کا قصر معزی بھی نام لکھا ہے اور حضرت امیر خسرو نے اسی قلعہ کی تعریف قران السعدین میں لکھی ہے۔
شعر

قصر نگویم کہ بہشتی فراخ
روفتہ طوبٰی در اور ابشاخ

کوشک لال یا نیا شہر

یہ دوسرا کوشک لال ہے سلطان جلال الدین فیروز خلجی کا بنایا ہوا اور حال اس کا یوں ہے کہ جب سلطان جلال الدین فیروز خلجی بادشاہ ہوا اور 688 ہجری مطابق 1689 عیسوی میں تخت پر بیٹھا شہر کے رئیسوں کی طرف سے مطمئن نہ تھا اس واسطے کیلو کھڑی میں رہنا اختیار کیا اور جو اس کے نا تمام عمارتیں تھیں ان کو پورا کیا
 

فہیم

لائبریرین
اور خود دریا کے کنارے پر ایک باغ اور ایک حصار گچ اور پتھر سے اور ایک مسجد اور بازار بنا کر شہر آباد کیا اور نیا شہر اس کا نام رکھا اور جب دلی ویران ہونے لگی تو یہ شہر نئی دلی کے نام سے مشہور ہوگیا اور اسی شہر میں یہ کوشک لال بھی تھا چناچہ امیر خسرو نے اس کوش کی بھی تعریف کی ہے اور یہ بیت اسی میں کی ہے۔ شعر

شہا در شہر تو کردے حصارے
کہ رفت از کنگر ہہاتا قمر سنگ

کوشک سبز

اسی کوشک کے پاس اسی بادشان نے ایک اور محل بنایا تھا جس کو کوشک سبز کہتے تھے جب اس بادشا کو ملک علاؤالدین عرف سلطان علاؤالدین خلجی نے کڑہ پور کی طرف سے دغا سے بلا کر گنگا کے کنارے پر کشتی میں سے اترتے وقت مار ڈالا تو اس کا بیٹا شہزادہ قدر خان عرف رکن ابراہیم شاہ اسی کوشک میں تخت پر بیٹھا ان دونوں کوشکوں کا نشان اب نہیں پایا جاتا بالکل ٹوٹ کر برابر ہوگئے ہیں۔

دہلی علائی یا قلعہ علائی یا کوشک سیری

یہ قلعہ سلطان علاؤالدین خلجی کا بنایا ہوا ہے اسکا حال یوں ہے کہ 703 ہجری مطابق 1303 عیسوی میں اس بادشاہ نے قلعہ چتور پر چڑھائی کی اور بہت سی فوج جانب تلنگا قلعہ ور نکل پھر بھیجی طرعی نوبان یعنی مغلون نے دلی کو خالی سمجھ کر ایک لاکھ بیس ہزار سوار سے دلی کو آن گھیرا تھا آخر کو بہت لڑائیوں کے بعد
 

فہیم

لائبریرین
بادشاہ کی فتح ہوئی اس کے بعد بادشاہ نے اس قلعہ کو بنایا اور پہلے اس مقام پر سیری ایک گاؤں تھا اس سبب سے اس کو قلعہ سیری بھی کہتے تھے اور شیر شاہ کے وقت میں یہ قلعہ کوشک سیری کرکر مشہور تھا اس قلعہ کو بادشاہ نے مدور بنایا تھا اور اسکی دیواریں چونے اور پتھر اور اینٹ سے نہایت مضبوطی سے بنائی تھیں اس قلعہ کے سات دروازے نکالے تھے ہنوز یہ قلعہ بن نہ چکا تھا کہ دوبارہ مغلوں سے لڑائی ہوئی اور آٹھ ہزار مغلوں کا سر کاٹ کر اس قلعہ کی دیوار میں پتھروں کی جگہ چن دیا تھا اگرچہ یہ قلعہ بالکل منہدم ہوگیا ہے مگر قطب صاحب کو جاتے ہوئے بائیں ہاتھ کو کچھ کچھ نشان پایا جاتا ہے 948 ہجری مطابق 1541 عیسوی کے شیر شاہ نے اس شہر کو ویران کر کر نیا شہر قدیم کے پاس یعنی اندرپت کے پاس دریا کے کنارے آباد کیا اور اب اس جگہ گاؤں بنام شاہ آباد آباد ہے۔

قصر ہزار ستون

اسی سال میں اس قلعہ کے اندر بادشاہ نے ایک محل بنایا تھا اور اس میں ہزار ستون لگائے تھے اس سبب سے اسکو قصر ہزار ستون کہتے تھے جس زمانے میں کہ بادشاہ سے اور کنگ وغیرہ مغلوں سے لڑئی ہوئی ہے تو بہت سے مغل بندی وان ہوکر دلی میں آئے اور بادشاہ نے اسی قصر کے روبرو ہاتھیوں کے پاؤں تلے ان کو روند ڈالا اور انکے سر کاٹ کر قلعہ کے دروازے کے آگے بہت بڑا ڈھیر لگایا کہ صد ہا سال تک
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
11​
اوسکی تاریخ کہی تھی تفصیل اس قلعہ کی چونے اور پھتر سے نہایت مضبوط اور بہت عریض بنی ہوئی ہی لیکن اب بہت جگہ سے ٹوٹ گئی ہے اور اکثر برج بھی گرپڑے ہیں اس قلعہ کے اندر کے مکانات بھی بالکل منہدم ہوگئے ہیں اور اندرپت کے زمیندارون نے کچے پکے مکان بنا لیے ہیں پرانی عمارتوں میں سے ایک مسجد اور ایک شیر منڈل باقی رہگیاہی اس قلعہ کے تین دروازے بڑے اور چار کھڑکیاں ہیں ایک دروازہ اس قلعہ کا جو شمال غرب کی طرف ہے مدت سے بند ہے اور لوگ اسکو طلاقی دروازہ کہتے ہیں مشہور ہے کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ اس دروازے سے کسی مہم پر چڑھا تھا اور یہ دروازہ اسلیے بند کر دیا تھا کہ اگر بے فتح کے اس دروازے کو کھولیں تو اوں پر طلاق ہے مگر یہ افواہ ہے کچھ قابل اعتماد نہیں اس قلعہ سے ملاہوا جانب غروب دریا بہتا تھا اب بہت دور جا پڑا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاروں طرف قلعہ کے دریا کا پانی پھیر دیا تھا اور درازوں کے سامنے پل بنائے تھے چنانچہ ابتک غربی دروازے کے آگے ایک پل بنا ہوا موجود ہے شیر شاہ نے بھی اپنے زمانہ بادشاہت میں اس قلعہ کی ترمیم کی اور کچھ مکانات بنائے اور اسی سبب سے شیر شاہ کے وقت میں یہ قلعہ شیر گڈھ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا یہ عمارت جو اب ٹوٹی پھوٹی دکھائی دیتی ہے غالب ہے کہ ہمایوں بادشاہ اور شیر شاہ کی ہو کیونکہ انکپارئنور کے زمانے کی عمارت کا اس ہیات پر باقی رہنا بسبب امتدا و زمانہ کثیر کے خیال میں نہیں آتا۔​
 
Top