ٹائپنگ مکمل لائبریری ٹیگ سلسلہ : آثار الصنادید

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم ، قدیم املاء ہی برقرار رکھنا ہے ۔ ہمیں ایک نسخہ لائبریری میں اصل املاء کے ساتھ ہی شامل کرنا ہے تاہم اگر کسی کتاب کے ایک سے زائد نسخے شامل کیے گئے تو پھر ان کتب کے دیگر نسخوں کو جدید املاء میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔
 
السلام علیکم ، قدیم املاء ہی برقرار رکھنا ہے ۔ ہمیں ایک نسخہ لائبریری میں اصل املاء کے ساتھ ہی شامل کرنا ہے تاہم اگر کسی کتاب کے ایک سے زائد نسخے شامل کیے گئے تو پھر ان کتب کے دیگر نسخوں کو جدید املاء میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔

ہمارا خیال ہے کہ جدید املا کے ساتھ ٹائپ کر کے پروف ریڈنگ کر لی جائے تو اس سے خود کار طریقے سے پرانی املا کی کتاب حاصل کی جا سکتی ہے جب کہ اس کا الٹا مشکل ہے۔ :) :) :)
 
اس بارے میں کچھ وضاحت سعود بھائی

پرانی املا میں بعض صوتی شکلوں کی تفریق کے لئے علیحدہ حروف نہیں ہیں۔ مثلاً ن اور ں کے بجائے دونوں جگہوں پر ن ہی مستعمل ہے۔ اب اگر کوئی کتاب پرانی املا کے تحت ٹائپ کر دی جائے تو جدید املا میں تبدیل کرنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کون سا ن در اصل ن ہے اور کون سا ن تبدیل کر کے ں کر دیا جانا چاہیے۔ جبکہ اس کے مخالف اگر جدید املا میں ٹائپ کیا جائے تو پرانی املا میں تبدیل کرنے کے لئے صرف تمام ں کو فائنڈ ریپلیس کی مدد سے ن میں بدلنا ہوگا۔ یعنی زیادہ سے زیادہ معلومات کو کتاب میں اینکوڈ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ قوت تفریق والی جدید املا کا استعمال کیا جائے اس سے ایک ہی محنت سے دو ورژن تیار ہو سکتے ہیں۔ جب کہ اس کی ضد بے حد مشکل عمل ہے۔ اور ہم حال ہی میں ایک کتاب کے پروف ریڈر سے اس بابت شکایت سن چکے ہیں۔ ن اور ں کی مثال پیش کی ہے، اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ہیں جن کو فائنڈ اینڈ ریپلیس کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں ماڈرن املا کی جانب اس لئے بھی آنا چاہئے تاکہ کتابوں میں سرچ کی سہولت بہتر ہو سکے۔ ہاں پرانی املا کی کتاب کو ثانوی حیثیت کے ساتھ ریفرینس وغیرہ کے لئے رکھا جا سکتا ہے۔ جدید قارئین کے لئے پرانی املا پڑھنا بھی کچھ کم صبر آزما نہیں ہے۔ :) :) :)

نئے ٹرینڈ اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مثال کے طور پر عموماً مذہبی کتابوں کے انگریزی ترجموں میں حاضر کے صیغہ کے لئے واحد اور جمع کا خیال رکھتے ہوئے thy اور you کا استعمال کیا جاتا تھا جبکہ اب عام بول چال میں اس کے لئے صرف you مستعمل ہے۔ اس تبدیلی کو بعض مترجمین قران نے بھی اپنایا ہے اور اب وہ محض you کا استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پرانی املا میں بعض صوتی شکلوں کی تفریق کے لئے علیحدہ حروف نہیں ہیں۔ مثلاً ن اور ں کے بجائے دونوں جگہوں پر ن ہی مستعمل ہے۔ اب اگر کوئی کتاب پرانی املا کے تحت ٹائپ کر دی جائے تو جدید املا میں تبدیل کرنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ کون سا ن در اصل ن ہے اور کون سا ن تبدیل کر کے ں کر دیا جانا چاہیے۔ جبکہ اس کے مخالف اگر جدید املا میں ٹائپ کیا جائے تو پرانی املا میں تبدیل کرنے کے لئے صرف تمام ں کو فائنڈ ریپلیس کی مدد سے ن میں بدلنا ہوگا۔ یعنی زیادہ سے زیادہ معلومات کو کتاب میں اینکوڈ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ قوت تفریق والی جدید املا کا استعمال کیا جائے اس سے ایک ہی محنت سے دو ورژن تیار ہو سکتے ہیں۔ جب کہ اس کی ضد بے حد مشکل عمل ہے۔ اور ہم حال ہی میں ایک کتاب کے پروف ریڈر سے اس بابت شکایت سن چکے ہیں۔ ن اور ں کی مثال پیش کی ہے، اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ہیں جن کو فائنڈ اینڈ ریپلیس کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں ماڈرن املا کی جانب اس لئے بھی آنا چاہئے تاکہ کتابوں میں سرچ کی سہولت بہتر ہو سکے۔ ہاں پرانی املا کی کتاب کو ثانوی حیثیت کے ساتھ ریفرینس وغیرہ کے لئے رکھا جا سکتا ہے۔ جدید قارئین کے لئے پرانی املا پڑھنا بھی کچھ کم صبر آزما نہیں ہے۔ :) :) :)

نئے ٹرینڈ اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مثال کے طور پر عموماً مذہبی کتابوں کے انگریزی ترجموں میں حاضر کے صیغہ کے لئے واحد اور جمع کا خیال رکھتے ہوئے thy اور you کا استعمال کیا جاتا تھا جبکہ اب عام بول چال میں اس کے لئے صرف you مستعمل ہے۔ اس تبدیلی کو بعض مترجمین قران نے بھی اپنایا ہے اور اب وہ محض you کا استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)

ٹھیک ہے اس متن کو اس تجویز کے مطابق تکمیل کر کے دیکھتے ہیں تاکہ اس تجویز کی عملی شکل واضح ہو جائے یوں اس عنوان کے دو نسخے ایک ساتھ تیار اور پیش کیے جائیں گے جن میں سے ایک اصل املاء کے ساتھ ہو گا ۔ جدید قارئین کے ساتھ ان طلبہ و طالبات اور محققین کو بھی سہولت حاصل ہوجائے گی جنہیں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر قدیم اردو پر تحقیق کرنا ہوتی ہے ۔
 
ٹھیک ہے اس متن کو اس تجویز کے مطابق تکمیل کر کے دیکھتے ہیں تاکہ اس تجویز کی عملی شکل واضح ہو جائے یوں اس عنوان کے دو نسخے ایک ساتھ تیار اور پیش کیے جائیں گے جن میں سے ایک اصل املاء کے ساتھ ہو گا ۔ جدید قارئین کے ساتھ ان طلبہ و طالبات اور محققین کو بھی سہولت حاصل ہوجائے گی جنہیں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر قدیم اردو پر تحقیق کرنا ہوتی ہے ۔

بٹیا رانی، کیا آپ اس اضافی گفتگو کو علیحدہ دھاگے اور متعلقہ زمرے میں منتقل کر سکتی ہیں؟ نیز یہ کہ یہ عمومی اعلان اپنے پہلے مراسلے میں بطور نوٹ شامل کر دیں۔ وہان وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ کتاب میں قدیم املا کا استعمال کیا گیا ہے جسے تائپ کرتے ہوئے جدید املا کے تحت درست کیا جانا ہے۔ اس بابت تفصیلات کے لے علیحدہ دھاگے کا ربط شامل کیا جا سکتا ہے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
جدید اور قدیم املا کے حوالے سے میرا ایک سوال ہے کہ اچھے بھلے تصویری شکل میں کتابوں کے بے شمار نسخے موجود ہیں تو ہم اس یونیکوڈ کی سر پھٹول میں کیوں پڑ رہے ہیں؟ کیا یہ مشق محفل کے ارکان کی ٹائپنگ سپیڈ بڑھانے کے لیے کروائی جاتی ہے؟ اس سوال کا سنجیدہ جواب چاہتا ہوں۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
ٹھیک ہے اس متن کو اس تجویز کے مطابق تکمیل کر کے دیکھتے ہیں تاکہ اس تجویز کی عملی شکل واضح ہو جائے یوں اس عنوان کے دو نسخے ایک ساتھ تیار اور پیش کیے جائیں گے جن میں سے ایک اصل املاء کے ساتھ ہو گا ۔ جدید قارئین کے ساتھ ان طلبہ و طالبات اور محققین کو بھی سہولت حاصل ہوجائے گی جنہیں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر قدیم اردو پر تحقیق کرنا ہوتی ہے ۔
السلام علیکم
سو اب ہر تصویر کے دو نسخے ٹائپ ہوں گے ۔ اک قدیم اصل املاء اور اک جدید درستگی املاء کا حامل ۔۔
 

نایاب

لائبریرین
جدید اور قدیم املا کے حوالے سے میرا ایک سوال ہے کہ اچھے بھلے تصویری شکل میں کتابوں کے بے شمار نسخے موجود ہیں تو ہم اس یونیکوڈ کی سر پھٹول میں کیوں پڑ رہے ہیں؟ کیا یہ مشق محفل کے ارکان کی ٹائپنگ سپیڈ بڑھانے کے لیے کروائی جاتی ہے؟ اس سوال کا سنجیدہ جواب چاہتا ہوں۔۔۔
السلام علیکم
محترم فاتح بھائی
میری ناقص سوچ کے مطابق یہ یونیکوڈ ٹائپنگ طلباء اور تحقیق کاروں کے لیئے کچھ آسانی فراہم کرنے کی غرض سے ہے ۔ تصویری شکل سے کسی خاقص تحریر کا حوالہ دینا اک مشکل امر ہوتا ہے ۔ باقی ٹائپنگ کی سپیڈ تو مفت کا منافع ہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم
محترم فاتح بھائی
میری ناقص سوچ کے مطابق یہ یونیکوڈ ٹائپنگ طلباء اور تحقیق کاروں کے لیئے کچھ آسانی فراہم کرنے کی غرض سے ہے ۔ تصویری شکل سے کسی خاقص تحریر کا حوالہ دینا اک مشکل امر ہوتا ہے ۔ باقی ٹائپنگ کی سپیڈ تو مفت کا منافع ہے ۔
حیرت ہے کہ تصویری شکل کا صفحہ نمبر اور اگر ساتھ ساتھ پیراگراف نمبر اور سطر نمبر کا حوالہ دے دیا جائے تو کیا تحقیق کار اور طلبا مذکورہ عبارت تک پہنچنے میں ناکام رہیں گے؟؟؟ :unsure: اور اگر یہی حال ہے محققین و طلبا کا تو فٹے منہ ہے بھئی۔۔۔ :laughing: ایسوں کو چاہیے کہ تحقیق شحقیق ترک کریں اور گدھا گاڑی چلانا شروع کر دیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گدھا گاڑی والے کو بھی مطلوبہ پتا سمجھا کر سامان مطلوبہ مقام تک بھجوایا جاتا ہے۔۔۔ یہ تو وہاں بھی ناکام و نامراد رہیں گے۔ :rollingonthefloor:
کیا واقعتاً یہی مقصد ہے اس تمامتر مشقت و ریاضت کا کہ یہ یونیکوڈ ٹائپنگ طلباء اور تحقیق کاروں کے لیئے کچھ آسانی فراہم کرنے کی غرض سے ہے؟؟؟
 

محمد امین

لائبریرین
یونیکوڈ کا بنیادی مقصد غالباً صرف قابلِ تلاش مواد مہیا کرنا ہے کہ گوگل سے اردو والے بھی مستفید ہو سکیں۔ اور ودسری بات یہ کہ تصویری متن والی کہانی تھوڑی لمبی چوڑی اور بھاری ہوجاتی ہے۔ کہ پہلے انپیج میں لکھو پھر اسکا امیج بناؤ پھر انٹرنیٹ پر امیجز اپ لوڈ کرو علی ہٰذا القیاس۔ وزنی بھی ہوتے ہیں امیجز۔ کتاب کی صورت میں ایک فائل کئی ایم بی کی ہوسکتی ہے جب کہ ٹیکسٹ والی فائل چند کے بی کی۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
یونیکوڈ کا بنیادی مقصد غالباً صرف قابلِ تلاش مواد مہیا کرنا ہے کہ گوگل سے اردو والے بھی مستفید ہو سکیں۔ اور ودسری بات یہ کہ تصویری متن والی کہانی تھوڑی لمبی چوڑی اور بھاری ہوجاتی ہے۔ کہ پہلے انپیج میں لکھو پھر اسکا امیج بناؤ پھر انٹرنیٹ پر امیجز اپ لوڈ کرو علی ہٰذا القیاس۔ وزنی بھی ہوتے ہیں امیجز۔ کتاب کی صورت میں ایک فائل کئی ایم بی کی ہوسکتی ہے جب کہ ٹیکسٹ والی فائل چند کے بی کی۔۔۔ ۔
کیا کوئی اور بندۂ خدا ان دو نکات کا حامی ہے؟؟؟؟
  1. یونیکوڈ کا بنیادی مقصد غالباً صرف قابلِ تلاش مواد مہیا کرنا ہے کہ گوگل سے اردو والے بھی مستفید ہو سکیں۔
  2. ودسری بات یہ کہ تصویری متن والی کہانی تھوڑی لمبی چوڑی اور بھاری ہوجاتی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
نئے ٹرینڈ اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مثال کے طور پر عموماً مذہبی کتابوں کے انگریزی ترجموں میں حاضر کے صیغہ کے لئے واحد اور جمع کا خیال رکھتے ہوئے thy اور you کا استعمال کیا جاتا تھا جبکہ اب عام بول چال میں اس کے لئے صرف you مستعمل ہے۔ اس تبدیلی کو بعض مترجمین قران نے بھی اپنایا ہے اور اب وہ محض you کا استعمال کرتے ہیں۔ :) :) :)
سعود بھائی! یہاں thy thine وغیرہ کی مثال درست نہیں کیوں کہ یہاں صرف املا کی بات ہو رہی ہے، الفاظ کی تبدیلی کی نہیں۔ اگر شاعر یا مصنف نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو متروک ہو چکے ہیں یا ان کی بجائے اب دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تب ہم متبادل الفاظ نہیں لکھیں گے بلکہ جو الفاظ شاعر یا مصنف نے استعمال کیا ہے وہی لکھا جائے گا لیکن اگر کاتب نے قدیم اور متروک طرزِ املا میں کتابت کی ہوئی ہے تو ہم اسے نئی کتابت یا املا کے مطابق لکھیں گے۔ مثلاً
پہلی صورت:
"مین نی کھا نپھونچنی کی وجھ کیا ھی، ھو نھو انھین راستی مین کھین مشکل نے آ گھیرا ھو گا"۔ اپنا لکھا ہوا خود پڑھ کر بے اختیار ہمارے منہ سے لاحول نکل گیا۔۔۔ اسے یقیناً نئی املا کے مطابق لکھا جائے گا یعنی "میں نے کہا نہ پہنچنے کی وجہ کیا ہے، ہو نہ ہو انھیں راستے میں کہیں مشکل نے آ گھیرا ہو گا
موجودہ دور میں غالب کے دیوان میں کہیں "پانو" کا لفظ تو دکھائیں۔ کسی عقلمند شخص نے یہ نہیں لکھا ہو گا کیونکہ یہ "پاؤں" کی متروک املا ہے۔

دوسری صورت:
کوئی تم سا ہو کج ادا نہ کبھو!
ایک وعدہ کیا وفا نہ کبھو!
کسی عاقل بالغ شخص نے میر کی اس غزل کی ردیف "نہ کبھو" سے بدل کر "نہ کبھی" نہیں کی یا "نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں" کو کسی نے "نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں" نہیں لکھا۔ کیونکہ یہ الفاظ فی زمانہ متروک ہیں مگر اس زمانے میں یہ رائج تھے۔ لہٰذا اس قسم کے متروک یا نا پید الفاظ کو جوں کا توں لکھا جانا چاہیے۔
 
کیا کوئی اور بندۂ خدا ان دو نکات کا حامی ہے؟؟؟؟
  1. یونیکوڈ کا بنیادی مقصد غالباً صرف قابلِ تلاش مواد مہیا کرنا ہے کہ گوگل سے اردو والے بھی مستفید ہو سکیں۔
  2. ودسری بات یہ کہ تصویری متن والی کہانی تھوڑی لمبی چوڑی اور بھاری ہوجاتی ہے۔

بلا شبہہ یہ دو فائدے یعنی قابل تلاش مواد اور حجم میں خاطر خواہ کمی تو یونیکوڈ سے حاصل ہوتے ہی ہیں اس کے علاوہ بھی کئی اہم فائدے ہیں۔ جن میں سے ایک ہے طرز نمائش سے معلومات کی آزادی۔ اس کے نتیجے میں وہ معلومات ایک مخصوص خط، رنگ، خط کا حجم، پس منظر اور صفحات کے طول و عرض وغیرہ کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے جسے بعد میں کسی بھی فارمیٹ اور اسٹائل میں پیش کرنا اور رواج کے مطابق جدید ترین آلات کے لئے فارمیٹ موزوں ترین فارمیٹ میں منتقل کرتے رہنا ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح معلومات کو زیادہ عرصہ تک حیات بخشا جا سکتا ہے۔ خیر جب بات یہاں تک پہونچتی ہے تو اس کے بعد ڈیجیٹل پریزرویشن کی ایک طویل تقریر شروع ہو جاتی ہے جس میں آئیڈیا، ایکسپریشن، مینیفسٹیشن اور ایمبوڈیمنٹ وغیرہ کی کہانی ہوتی ہے۔۔۔ :) :) :)
 
سعود بھائی! یہاں thy thine وغیرہ کی مثال درست نہیں کیوں کہ یہاں صرف املا کی بات ہو رہی ہے، الفاظ کی تبدیلی کی نہیں۔ اگر شاعر یا مصنف نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو متروک ہو چکے ہیں یا ان کی بجائے اب دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں تب ہم متبادل الفاظ نہیں لکھیں گے بلکہ جو الفاظ شاعر یا مصنف نے استعمال کیا ہے وہی لکھا جائے گا لیکن اگر کاتب نے قدیم اور متروک طرزِ املا میں کتابت کی ہوئی ہے تو ہم اسے نئی کتابت یا املا کے مطابق لکھیں گے۔
متفق! :)

بس ہمیں بر وقت مناسب مثال نہیں مل سکی تھی۔ :) :) :)
 

نایاب

لائبریرین
محترم ابن سعید بھائی
یہ املاء ایسے درست رہے گی ۔ ؟؟؟؟؟؟؟÷
31
اون مین سے ۔۔۔۔ ان میں سے
اوسپر مکانات۔۔۔ اس پر مکانات
پتھر کے دو ہاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتھر کے دو ہاتھی
اوتنے ہی بڑے ۔۔۔۔ اتنے ہی بڑے
دو سو گز کا لنبا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو سو گز کا لمبا
اوتر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اتر لیتے ہیں
 
محترم ابن سعید بھائی
یہ املاء ایسے درست رہے گی ۔ ؟؟؟؟؟؟؟÷
31
اون مین سے ۔۔۔ ۔ ان میں سے
اوسپر مکانات۔۔۔ اس پر مکانات
پتھر کے دو ہاتی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ پتھر کے دو ہاتھی
اوتنے ہی بڑے ۔۔۔ ۔ اتنے ہی بڑے
دو سو گز کا لنبا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ دو سو گز کا لمبا
اوتر لیتے ہیں ۔۔۔ ۔۔ اتر لیتے ہیں

جی! :) :) :)
 

نایاب

لائبریرین
31
اس قلعہ کے دو دروازے اور چھوٹی چھوٹی اور دو کھڑکیاں اور اکیس برج ہیں ۔ ان میں سے سات برج مدور اور چودہ مثمن ہیں ۔
نقار خانہ یا ہتیا پول
دیوان عام میں جانے کا جو دروازہ ہے وہ نقار خانہ کہلاتا ہے ۔ یہ دروازہ بھی نرا سنگ سرخ کا بہت خوبصورت بنا ہوا ہے ۔ اور اس پر مکانات اور ایک پچدرہ دالان دونوں طرف سے کھلا بنا ہوا ہے ۔ اسی دالان میں بادشاہی نوبت بجتی ہے ۔ اور اسی سبب سے نوبت خانہ مشہور ہے ۔ اس دروازے کے آگے پتھر کے دو ہاتھی اتنے ہی بڑے جتنا کہ سچ مچ کا ہاتھی ہوتا ہے بنائے گئے تھے ۔ اور اسی سبب سے اس کو ہتیا پول بھی کہتے ہیں ۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں وہ ہاتھی توڑے گئے۔ اس دروازے کے آگے دو سو گز کا لمبا اور ایک سو چالیس گز کا چوڑا چوک ہے اوربیچ میں بہت خوبصورت حوض ہے ۔ اور شمال اور جنوب کو بہت خوشنما بازار ہے اور اس کے بیچ میں نہر بھی جاری ہے ۔ اس دروازے کے اندر اب بھی سوائے شہزادوں کے اور کوئی سواری پر نہیں جا سکتا اسی مقام پر سے اتر لیتے ہیں ۔
دیوان عام
یہ مکان بھی بہت نامی ہے اور بہت خوشنما بنا ہوا ہے جب کبھی دربار عام ہوتا تھا تو اس میں بادشاہ جلوس کرتے تھے ۔ اس میں تین درجے کے مکان ہیں کہ اس کی تفصیل ہم بیان کرتے ہیں ۔
نشیمن ظل آلہی یا سنگین تخت

32
اس مکان کے بیچوں بیچ میں شرقی دیوار سے ملا ہوا سنگ مرمر کا تخت ہے چار گز کا مربع اور اس پر چار ستون لگا کر بنگلے کے طور پر اس کی چھت بنائی ہے ۔ اور آدمی کے قد سے زائد کرسی دی ہے ۔ اس کے پیچھے ایک طاق ہے سنگ مرمر کا بنا ہوا سات گز لمبا اور ڈھائی گز چوڑا۔ اس پر ہر ہر قسم کے چرند و پرند کی تصویریں عجب عجب رنگین پتھروں کی بنی ہوئی ہیں ۔ اور اس میں ایک آدمی کی تصویر ہے جو دو تارہ بجا کر گا رہا ہے ۔ ملک اٹلی میں جو فرنگستان میں واقع ہے " آرفیوس کلاونت" کی کہانی یوں مشہور ہے کہ وہ علم موسیقی میں اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا ۔ اور ایسا خوش آواز تھا کہ جب گانے بیٹھتا تو چرند اور پرند اس کی آواز سن کر مست ہوجاتے تھے ۔ اور اس کے گرد آ بیٹھتے تھے ۔ اسی ملک میں "رفیل " ایک مصور تھا کہ تصویر کھینچنے میں اپنا مثل نہیں رکھتا تھا ۔ اس مصور نے " آرفیوس " کے گانے کی جو کہانی مشہور تھی اس کے مطابق اپنے خیال سے ایک مرقع کھینچا تھا اور چرند اور پرند اس کے گرد گانا سننے کو بیٹھے ہوئے بنائے تھے ۔ یہ مصورسن 1530 عیسوی میں مرا ۔ مگر یہ مرقع اس کا بنایا ہوا ملک اٹلی اور ولایت فرنگستان میں بہت مروج اور نہایت مشہور ہے ۔ اور اب تک اس کی نقلیں موجود ہیں ۔ وہی مرقع اس طاق میں پتھر کی پچہ کاری میں کھودا ہے ۔ پس یہ تصویر اسی " آرفیوس " کی ہے اورجو کہ اس مرقع کا سوائے فرنگستان کے اور کہیں رواج نہیں تھا اس سبب سے یقین پڑتا ہے کہ اس قلعہ کے بنانے میں کوئی نہ کوئی انگریز اٹلی کے ملک کا شریک تھا ۔ اس محراب کی
 
Top